قرآن کی معنوی تحریف
مولانا اللہ یار خاںقرآن کی معنوی تحریف
شیعہ کے عقیدہ تحریف قرآن کے دو پہلو ہیں اول تحریف لفظی جس کا تفصیلی ذکر ہو چکا کہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ قرآن میں کمی کی گئی، اضافہ کیا گیا، ترتیب سورتوں کی بدل گئی ترتیب الفاظ و کلمات بدلی گئی اور ترتیب آیات بدل دی گئی ہے ان تمام پہلوؤں پر اجمال بحث ہو چکی ہے اب ان کے عقیدہ تحریف کے دوسرے پہلو یعنی تحریف معنوی کا بیان کیا جاتا ہے۔
ہمارے کتب خانے میں شیعہ کی چودہ مستند تفاسیر موجود ہیں کہنے کو تو یہ تفسیر ہی ہیں مگر ان میں سے ایک کتاب بھی ایسی نہیں جسے تفسیر قرآن کہا جا سکے ، نہ الفاظ کا حل نہ آیات کی وضاحت نہ کلمات کے مدلول مطابق کی طرف توجہ نہ لغت عربی کا لحاظ نہ کلام و محاور، عرب کا پاس نہ سیاق و سباق کا خیال ، بس ساری توجہ اور سارا زورکلام قرآن مجید کو مکمل اور محرف ثابت کرنے پر صرف کیا گیا اور اس ساری کوشش میں مواد جو لیا گیا اور اس ساری کوشش میں مواد جو لیا گیا ہو زیادہ تیز زرارہ اور ابوالعبیر کی روایات سے اور یہ دونوں وہ بزرگ ہیں جن کو شیعہ کتب رجال میں بالاتفاق گمراہ کیا گیا ہے ۔ دیکھئے رجال کشی اور حق الیقین۔
معنوی تحریف کا سہرا شیعہ مفسرین کے سر ہے۔ اور یہ کام ہی اہل علم کا ہے کہ خواہ الفاظ میں سے معنی اخذ کریں خواہ الفاظ کو اپنی پسند کے معنی پہنائیں۔ لہذا اب شیعہ مفسرین کی نکتہ آفرینیوں کے چند نمونے ملاحظہ ہوں۔
1_تفسیر قمی علی بن ابراہیم کی تصنیف ہے جو شیعہ کے گیارہویں امام حسن عسکری کا شاگرد بیان کیا جاتا ہے۔ (طبع نجف اشرف)
اس کے مقدمہ کے ص21 پر قرآن فہمی کا ایک اصول لکھا ہے۔
ان كل ما ورد في القرآن من المدح كناية و صراحة فهو راجع إلى محمد واله الطاهرين وكل ما ورد في القرآن من القدر كذلك فهو لا عدائهم اجمعين السابقين والاحقين ويحمل عليه جميع الایات من هذا القبيل و ان كان خلافاً الظاھر۔
قرآن میں جو الفاظ مدح و ثنا کے بیان ہوئے کتابستہ رہوں یا صراحتہ ان سے مراد نبی کریمﷺ اور ان کی آل ہیں جو الفاظ ندمت یا برائی کے معنی میں ہیں وہ ان کے دشمنوں کے حق میں ہیں وہ دشمن خواہ سابقہ امنوں کے ہوں یا بعد کے اور تمام آیات قرآنی کو اسی پر محمول کیا جائے گا خواہ وہ مفہوم ظاہر قرآن کے خلاف ہو۔
اس اصول کی تفصیلات پر غور کیجئے۔
1_ قرآن مجید میں نبی کریمﷺ کے اوصاف، کمالات اور فضائل کا بیان ہونا تو قدرتی بات ہے۔ مگر حضورﷺ کے علاوہ تمام الفاظ مدح کو آل رسول میں محصور کر دینا اس امر کا اعلان کے نبی کریمﷺ نے 23برس میں کوئی قابل تعریف انسان اپنی تربیت سے تیار نہیں کیا۔ گویا یزکیھم ویعلمهم الكتاب والحكمة کے الفاظ محض برائے وزن بیت قرآن میں لائے گئے ہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ آل رسول سے مراد وہی ہے جسے شیعہ آل قرار دیں ورنہ نسلی اعتبار سے یا معنوی اعتبار سے حضور اکرمﷺ کے ساتھ جن کا تعلق ہے وہ آل شمار نہیں ہوں گے۔ اور شیعہ نے تو آل رسول کو خواہ خونی اور نسلی اعتبارسے دیکھا جائے ٹکڑے کر کے ان کا ایک حصہ مقبول تسلیم کیا اور دوسرے حصے کو خوض قرار دے دیا۔
تیسری بات یہ ہے کہ مفسر صاحب نے اپنے سفر کی ابتداء اس نیت سے کی ہے کہ الفاظ سے مافی اخذ نہیں کرتے بلکہ الفاظ قرآن کو اپنی پسند کے معنی پہنانے ہیں اس لیے اعلان کر دیا کہ مطلب وہی ہوگا جو ہم کہیں گے۔ خواہ وہ ظاہر قرآن یعنی الفاظ کے خلاف ہی ہو۔
چوتھی بات یہ ہے مفسر صاحب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ شیعہ مذہب ظاہر قرآن کے خلاف ہے یعنی الفاظ قرآن سے شیعہ کی حقانیت تلاش کرنا تکلف محض اور بے سود ہے۔ گویا تحریف معنوں کے لیےاب کھلا میدان ہے۔
2_تفسیر عیاشی - ابو النصر محمد بن مسعود عیاشی سمرقندی 13:1طبع تہران۔
عن الى جعفر قال ابو جعفر یا محمد اذا سمعت الله ذکر احد امن هذه الامة بخير فنحن هم و اذا سته ذكر الله قد ما بسر و ممن معنى فهم عددنا.
محمد بن مسلم امام باقی سے بیان کرتا ہے کہ امام نے فرمایا اے محمد! جب تم سنو کہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن میں کسی شخص کی خوبی بیان کی ہے جو اس امت سے ہے تو اس سے مراد ہم ہیں اور جب تم سنو کہ اللّٰہ نے کسی قوم کو جو ہم سے پہلے گزر چکی قرآن میں برائی سے یاد کیا تو سمجھ لو وہ لوگ ہمارے دشمن مراد ہیں یعنی (صحابہ کرام)
امام باقر کا سن وفات 113ھ ہے۔ اس روایت کا مطلب یہ ہوا قرآن میں کسی کا ذکر خیر آیا ہے تو صرف ان لوگوں کا جو نزول قرآن سے سو سال بعد ہوئے اور جنہوں نے نبی کریمﷺ کو دیکھا تک نہیں اور برائی سے یاد کیا گیا ہے۔ تو ان لوگوں کو جنہوں نے 23 برس تک نبی کریمﷺ سے تربیت حاصل کی اور اسلام کی خاطر جان مال گھر بار سب کچھ قربان کر دیا۔
یہ اُصول اس لیے یاد رکھنا ضروری ہے کہ تاکہ آنے والی نسلوں کو معلوم ہو جائے نبی کریمﷺ نے تو اپنے عہد میں کوئی آدمی تیار ہی نہیں کیا ۔
اس مفسر کی تائید میں چھٹی صدی ہجری کا ایک مفکر شہر بن آشوب متوفی 588ھ اپنی مشہور تصنیف مناقب شہر بن آشوب 370:13پر کہتا ہے کہ قرآن میں ہر مدح کا صیغہ ائمہ کے حق میں ہے اور ہر قدح کا صیغہ اصحاب رسول کے حق ہیں۔
3_تفسیر مراۃ الانوار مشکواۃ الاسرار۔۔۔سید حسن شریف تبعی تہران ص7
ما من اية تسوق الى الجنة الاوفى النبى صلى اللہ علیہ وسلم والائمة واشيعا هم واتباعهم وما من ایت تسوق الى النار الا وهى فى اعدائھم المخالفين لهم وان كانت الايت فی ذكر اولین فما كان منهانی خیر فهو اهل خير من هذه الامة وما كان منها فی شرفهو جارنی اهل الشر
جو آیت جنت کی طرف بلاتی ہے وہ نبی کریمﷺ کے حق میں ائمہ، شیعہ اور ان کے متبعین کے حق میں ہے اور جو آیت جہنم کی طرف بلاتی ہے وہ ائمہ اور شیعہ کے دشمنوں اور مخالفوں کے حق میں ہے اگرچہ آیات قرآن سابقہ اُمتوں کے حق میں نازل ہوئی ہوں ایسی آیتوں میں اچھوں سے مراد اس اداُمت کے اچھے لوگ اور بروں سے مراد اس اُمت کے بُرے لوگ ہوں گے۔
شیعہ مفسرین کی اس تدریجی ترقی پر غور کیجئے۔ صاحب قمی نے کہا کہ اچھے لوگوں سے مراد نبی کریم اور ان کی آل ہے۔ تفسیر عیاشی میں بیان ہوا کہ اچھے لوگوں کے مراد "ہم"ہیں یعنی ائمہ اس تفسیر میں دو گروپ اور شامل کر لیے گئے یعنی اچھے لوگوں سے مراد نبی کریمﷺ ، ائمہ شیعہ اور شیعہ حضرات اور ان کے پیرو یہ بات پہلے مفسرین کو نہیں سوجھی یہاں تو منظر کچھ ایسا لگتا ہے جیسے "جمعہ جنج نال" بہر حال اہل جنت تو شیعہ ہی سمجھتے ہیں۔ کیونکہ فوج اپنی یونیفارم سے پہچانی جاتی ہے ۔کسی مذہبی تقریب پر شیعہ کی ہئیت کذائی دیکھ کر واقعی یہ احساس ہونے ہونے لگتا ہے کہ ؎
اگر فردوس بروئے زمین است
ہمین است وہیں است وہیں است
4_ایضاً 258:1 داؤدراوی کہتا ہے کہ امام باقر نے مجھے فرمایا:
یا داؤد عدونانی کتاب الله الفحشاء والمنكر والبقى والخمر والميسر و الانصاب والازلام والاوثان و الجبت والطاغوت والميتة والدم ولحم حنزیر
اے داؤد!ہمارے دشمن (صحابہ اور سنی) قرآن میں سے ان الفاظ سے بیان کئے گئے ہیں فحشاء منکر یعنی شراب ، جوّا انصاب، ازلام ، جبت اور طاغوت مردار اور خنزیر کا کوشت۔
یعنی یہ الفاظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوئے جن کے لیے اہل زبان نے وضع کئے ہیں بلکہ صحابہ اور اہل السنّت ان الفاظ کا مدلول مطابقی ہیں۔ یہ ہے شیعہ علم کی جولانی اور یہ ہے فن تفسیر قرآن -
5_ایضاً 258:1
لعن باقر فى الابية المذكورة قال الفحشاء الاول والمنكر الثانى والبغی الثالث۔
امام باقی سے روایت ہے کہ اس آیت میں فحشاء سے مراد ابوبکر اور منکر سے مراد فاروق اور بغی سے مراد عثمان غنی ہیں۔
اس تفسیر پر کوئی کیا اظہار خیال کرے یہی کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں مظلوم قرآن جیسا کوئی نہیں اور ظالم شیعہ مفسرین جیسا ڈھونڈے نہ ملے گا۔
6_ایضاً 258:2
عن الصادق فی قوله تعالی رينهى عن الفحشاء والمنكر والبغی قال فلان و فلان فلاں۔
امام جعفر فرماتے ہیں کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللّٰہ تعالیٰ تمہیں منع کرتا ہے فحشاء سے منکر سے اور بغی سے یعنی ابوبکر سے عمر سے اور عثمان سے۔
یہاں پہنچ کرمفسر صاحب گویا بے حیائی کی معراج پر پہنچ گئے۔ اس مفہوم کا تاریخی تجزیہ کیجئے۔مفسر صاحب فرماتے ہیں کہ قرآن روکتا ہے ابوبکر سے کہ وہ فخشاء مجسم ہے۔ (معاذ اللّٰہ) اور جس پر قرآن نازل ہوا اور جسے یہ ذمہ داری سونپی گئی کہ اُمت کو قرآن کا مفہوم علمی اور عملی دونوں صورتوں میں سکھائی وہ باصرار حکم دیتا ہے کہ میرے بعد میری اُمت کی امامت اسے کرنی ہے جسے میں امام مقرر کر رہا ہوں اور اُمت کو اس کی اقتداء کرنی ہوگی۔
اگر مفسر صاحب میں ایمان کی رمق بھی ہوتی تو کیا اللہ اور رسول كو دو مخالفوں مورچوں میں کھڑا کرنے کی حماقت کرتے۔
اللّٰہ کہتا ہے عمر سے بچو کہ یہ منکر ہے (معاذ اللّٰہ) اور اللّٰہ کا رسول کہتا ہے۔
اقتدوا بالذين من بعدى الى بكر و عمر کہ میرے بعد ابوبکر اور عمر کی پیروی کرنا شیعہ تفسیر کے مطالعہ سے تو یوں لگتا ہے جیسے اللّٰہ اور سول کی مستقل طور پر ٹھن گئی ہے۔
ایک میاں جی مدرسے میں بچوں کو پڑھا رہے تھے کہ ظلمت کے معنی مرغی، کسی بچے نے ہمت کر کے استاد کوٹوکا کہ ظلنت کے معنی تو اندھیرا ہوتا ہے کہنے لگے ارے جاہل! جب مرغی اپنے بچوں کو پروں کے نیچے دے لیتی ہے تو وہاں اندھیرا نہیں ہو جاتا۔ بس اسی وجہ سے تو ظلمت کے معنی مرغی ہے ۔
7_ایضاً ص487
و اماما ورد من الكفر بالنسبة الى الامم السالفته فهو ايضا لاجل انكار هو الاية الى ان قال وذكرنا ان جميع الامم كانوا مكلفين بالاقرار فتأمل كل من جحدهم ادانکر اما متهم اوشك فی ذالك فهو كافر و الكفر توله و اعتقادۃ۔
جو کفر گزشتہ امتوں کی طرف منسوب ہے وہ بھی شیعہ اماموں کے انکار کی وجہ سے ہے (یعنی اماموں کا انکار کیا تو عذاب آیا) میں نے ذکر کیا ہے کہ تمام سابقہ اُمتیں بارہ اماموں پر ایمان لانے کی مکلف تھیں۔ خوب سمجھ لو کہ جس شخص نے ائمہ شیعہ کا انکار کیا یا ان کی امامت میں شک کیا وہ کافر ہے اس کی بات بھی کفر اور اس کا عقیدہ بھی کفر۔
ایضاً ص3 مقدمہ کتاب
ان اكثر ايات الفضل والانعام والمدح والاكرام بل لها فيهم وفی اولیاء هم نزلت وان جل فقرات التوبيخ والتشنيع والتهديدايل جملتها فی مخالفيهم واعدائهم وردت بالتحقيق كما سيظهر عن قريب ان تمام القرآن انما انزل الارشاد اليهم والاعلام بهم وبيان العلوم والاحكام لهم و الامر باطاعتهم وترك مخالفتهم وان الله جعل جملة بطن القرآن فی دعوة الائغه والولايته .
قرآن کی اکثر آیات بلکہ تمام آیات جن میں مدح و ثنا فضیلت اور انعام و اکرام کا بیان ہے وہ ان اماموں اور ان کے شیعوں کے حق میں نازل ہوئی ہیں اور زجر و تو بیخ ، ڈراوے اور دھمکلی کی آیات اور الفاظ ائمہ اور شیعوں کے مخالفین کے حق میں نازل ہوئیں اس کی حقیقت عنقریب ظاہر ہو جائے کی حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن صرف اس لیے نازل ہوا کہ اماموں کی طرف اور شیعہ کی طرف رہنمائی کرے اور ان کا تعارف کرائے اور مخلوق پر ان کے جو حقوق ہیں ان کے احکام بیان کرے۔ ان کی اطاعت کا حکم دے اور ان کی مخالفت کرنے سے روکے اللّٰہ تعالیٰ نے اماموں کی طرف دعوت دینے ان کی ولایت کو بیان کرنے کو قرآن کی روح اور حقیقت بنایا ہے۔
مفسر صاحب نے مقدمے میں خبردار کردیا کہ جس طرح انسان کی تمام کوششیں محنت توجہ مقصد کے گرد گھومتی ہے اسی طرح قرآن کے معاملے میں بھی اس کو سامنے رکھنا سو قرآن کے نزول کا مقصد صرف یہ ہے کہ اللہ کی مخلوق کو ائمہ کا اور محبان اللّٰہ کا تعارف کرا دے اور احمد کی اطاعت کا حکم دے دے اس کے بعد قرآن کا مقصد نزول مکمل ہوگا اب بنی نوع انسان کی دنیا اور آخرت اماموں کے ساتھ وابستہ ہے اور ان کے شیعوں کی مرضی پر منحصر ہے۔ یعنی قرآن کو اس سے بحث نہیں کہ توحید کیا ہے اس کی اہمیت کیا ہے رسالت کیا ہے اس کی ضرورت کیا ہے ۔ رسول کا منصب کیا ہے فرائض کیا ہیں رسول اللّٰہﷺ اور امت کا تعلق کیا ہے۔ آخرت کا عقیدہ کیا ہے اور دنیا اور آخرت کا آپس میں تعلق کیا ہے یہ سب کچھ زوائد میں آتا ہے اصل اور مقصودی چیز یہ ہے کہ ائمہ کون ہیں اور شیعے کون ہیں۔
بات بڑی اونچی اور مختصر ہے کہ دین اور دنیا ائمہ سے سیکھو یا شیعوں سے سیکھو مگر مصیبت یہ ہے کہ ائمہ فرماتے ہیں ہم جو بات کرتے ہیں اس کے ستر70 پہلو ہوتے ہیں اب کوئی بتائے ائمہ سے ہدایت کس کو ملے گی اور کیسے ملے گی۔
اس ذرا سی بات سے خود قرآن، قرآن لانے والے اور قرآن نازل کرنے والے کی جس قدر توہین ہوتی ہے اس کا اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے جس کا اسلام کے ساتھ کچھ قلبی یا جذباتی تعلق ہی ہو یا کم از کم علمی لحاظ سے ہی اسلام سے واقفیت رکھتا ہو۔