حدیث فدک
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہحدیث فدک
باغ فدک کا نام سامنے اتے ہی شاہ دو جہان کے بارے میں صاحب جائیداد ہونے کا وسوسہ ذہن میں ابھرتا ہے اسے زائل کرنے کے لیے اور خناس کو اپنیناس کاروائی میں ناکام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اہم اسلام کے عوام و خواص میں پندرہ سو سال سے لگے اس نقش کو مٹنے نہ دیں کہ آنحضرت ﷺ مدینہ منورہ میں ائے ہوئے مہاجر تھے جنہوں نے مدینہ میں اپنی وفات کے وقت کوئی جائیداد چھوڑی اور ایک مہاجر کا کوئی مالی اثاثہ ہو ہی کیا جا سکتا جس کی اپنی ازواج بھی اس سے اپنا خرچہ مانگتے ڈرتی ہوں اور وہ اپنی رسالت کے حوالے سے انہیں نہ مانگنے کی تجویز دیتا ہو
سلام اس پر کہ جس کے پاس چاندی تھی نا سونا تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریہ جس بچھونا تھا
حضور ﷺ نے اپنی امت کے غریبوں کو تو زکوٰۃ و صدقات لینے کا حق دیا اور اپنے خاندان کے لیے صدقات لینا بھی حرام ٹھہرایا تاکہ کسی کی اپ کی مالی وراثت پر کوئی نظر نہ ہو اس صورت حال میں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے طلبہ اور نوجوانوں کو قضیہ فدک میں حدیث فدک کے کچھ روایتی پس منظر سے آشنا کریں قضیہ فدک کو وہ خود مختلف کتابوں سے معلوم کر سکیں گے یہاں ہمیں بطور طالب علم اس کا صرف روایتی پس منظر سامنے لانا ہے کہ انبیاء کی کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی اس کی تائید شیعہ لٹریچر میں بھی اس طرح ملتی ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے حضور ﷺ کے اخری لمحات حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کو اپ کو اپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ ﷺ کو کہا
ھذان ابناؤک فورثھما شیا فقال اما فقال اما حسن فان له ھیبتی وسؤدوی واما حسین فان له جراتی وجودی
(حدیدی شرح نہج البلاغہ جلد 2 ص 621 کشف الغمہ جلد 2 ص 84 طبع تہران)
ترجمہ: یہ دونوں اپ کے بیٹے ہیں انہیں اپنی وراثت میں کچھ دے جائیے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا حسن کے لیے میری ہیبت اور سرداری ہے اور حسین کے لیے میری جرأت اور سخاوت ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ واقعی انبیاء کی کوئی مالی وراثت نہیں ہوتی حضرت سیدہ کا سوال تو مالی وراثت کا ہی تھا یہاں ہم اس روایت فدک کو اہل سنت کی کتابوں میں صرف ابن شباب زہری کا حوالہ سے ان کے شاگردوں ۔۔۔۔۔۔۔۔
1_صالح بن ابی الاخضر
2_عقیل بن خالد
3_معمر بن راشد
4_ شعیب بن ابی حمزہ
5_امام مالک
6_اسامہ بن ذید بن حارثہ
سے زیر بحث لا رہے ہیں امام زہری کے شاگردوں سے آگے اسے روایت کرنے والے پھر آپس میں اس میں کئی باتوں میں مختلف ہیں
صحیح بخاری کی صالح بن ابی الاحضر کی روایت میں سنن ابی داؤد کی امام مالک کی روایت میں فرق ہے ایک میں طلب فدک میں حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی کا ذکر ہے اور ایک میں اس کا ذکر نہیں صحیح مسلم میں امام مالک عن ابن الشہاب کی روایت میں بھی ناراضگی کا کوئی ذکر نہیں اور عقیل بن خالد کی روایت میں اس ناراضگی کا ذکر ہے آپ تلاش کرتے کرتے تھک جائیں گے کہ اصل صورت واقعہ کیا ہے مگر ہاتھ کچھ نہ ائے گا۔
اس پس منظر میں یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کی ناراضگی بعض روایتوں میں ہے اور میں بعض میں نہیں سو اسے اس طرح عوام میں لانا گویا کہ یہ عام مسلمانوں میں اور شیعوں میں اختلاف کا ایک بنیادی رکن ہے ہرگز درست نہیں ہمیں بطور طالب علم کوشش کرنی چاہیے کہ اسے علم کی روشنی میں ناقابل اعتبار بنا دیں۔
ناراضگی کی روایت کو ناقابل اعتبار بنانے کے قطعی وجوہ
حضرت فاطمہؓ کا اپنی ذندگی میں فدک سے اپنے گھر کا خرچہ قبول کرنا تاریخ کا ایک ناقابل انکار واقعہ ہے معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کے تصور میں بھی شاید یہ بات کبھی نہ گزری ہو کہ آپ یہ بات اپنی بیٹی کو بتائیں کہ انبیاء کی مالی وراثت نہیں ہوتی ورنہ وہ حضرت ابوبکرؓ سے اس کا سوال نہ کرتیں۔
حضرت ابوبکرؓ نے حضرت فاطمہؓ کے طلب وراثت پر یہ فیصلہ دیا تھا۔
انما یاکل آل محمد من ھذا المال یعنی مال اللہ لیس لھم ان یزید واعلی الما کل (صحیح بخاری جلد 1 ص 526)
ترجمہ ..... حضور ﷺ کے گھر والے اللہ کے اس مال سے بقدر اپنے کھانے کے لیتے رہیں گے انہیں اس سے ذیادہ پر کوئی حق نہ ہو گا ۔
حضرت فاطمہؓ کا اسے قبول کرنا بتلانا ہے کہ وہ اس فیصلے سے کر گز ناراض نہ تھیں اگر وہ چھ ماہ حضرت ابوبکرؓ سے کوئی بات نہ کر پائیں تو کیا اس کی وجہ آپ کی بیماری نہیں ہو سکتی اسے خواہ مخواہ ناراضگی کا نام دینا کیا حضرت فاطمہؓ کا یہ مزکورہ عمل کہ آپ نے فدک کی آمدنی سے گھر کا خرچہ قبول کیا اس کی کھلی تردید نہیں کرتا
شارح نہج البلاغہ علی نقی کی اس مال کے قبول کرنے کی شہادت
حضرت ابوبکر غلہ وسود آں راگرفتہ بقدر کفایت بابل بیت مے داد (جلد 5 ص 960)
ترجمہ ۔۔۔۔۔ حاصل کلام یہ ہے کہ ابوبکر فدک کی پیداوار سے اہل بیت کو بقدر ضرورت دیتے رہے۔
حضرت فاطمہؓ کی وفات حضرت علیؓ کی حضرت ابوبکرؓ میں مصالحت
حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کی حضرت ابوبکرؓ سے رضا طلبی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ حضرت سیدہؓ، حضرت ابوبکرؓ سے ہرگز ناراض نہ تھیں ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حضرت علی مرتضیٰؓ حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد ان کے جزبات کا کچھ بھی احساس نہ کریں ہم اپنے طلب حدیث کے صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی روایت سے اسے اس طرح پیاش کرتے ہیں۔
کان لعلی من الناس جھۃ حیات فاطمہ فلما توفیت استنکر علی وجوہ الناس فالتمس مصالحۃ ابی بکر و مبایعته ۔۔۔ ثم قال انا قد عرفنا یا ابابکر فضیلتک وما أعطاک اللہ ولم ننفس علیک خیرا ساقه اللہ الیک ولکنک استبددت علینا بالامر وکنا نحن نری لنا حقا لقرا بتنا من رسول اللہ ﷺ فلم یزل یکلم ابابکر حتی فاضت عینا ابی بکر فلما تکلم ابوبکر قال والذی شجر بینی وبینکم من ھذہ الاموال فانی لم آل فیھا عن الحق ولم اترک امرا رایت رسول اللہ ﷺ یصنعه الا صنعته فقال علی لابی بکر موعدک العشیۃ للبیعۃ
(صحیح مسلم جلد 2 ص 91 صحیح بخاری جلد 1 ص 526 جلد 2 ص 609)
ترجمہ۔۔۔۔۔ لوگوں کی (حضور ﷺ کی وفات کے بعد) اس وقت تک حضرت علیؓ کی طرف کچھ توجہ رہی جب تک حضرت فاطمہؓ ذندہ رہیں لیکن ان کی وفات سے آپ نے دیکھا کہ عامتہ الناس ان سے بالکل بیگانہ کو رہے ہیں ان حالات میں آپ نے چاہا کہ حضرت ابوبکرؓ سے ان کی مصالحت ہو جائے ۔۔۔۔۔۔ (پھر حضرت ابوبکرؓ ان کے کہنے پر ام کے گھر آئے)اور حضرت علی مرتضیٰؓ مے انہیں اپنے احساس کی اس طرح خبر دی۔
اے ابوبکر ! ہم آپ کی فضیلت اور اللہ نے آپ کو جو مقام دیا ہے اسے پہلے سے پہچانتے ہیں اور ہم اس شان کو جو اللہ نے اپ کو دی ہرگز اسے اپنے لیے بوکج نکیں سمجھتے لیکن آپ نے انتخاب خلیفہ میں ہم اہل بیت پر ذیادتی کی (کہ سقیقہ بنی ساعدہ میں جہاں یہ انتخاب ہوا ہم کو نہ بلایا) ہم بنو ہاشم اسے حضور ﷺ کے اقارب ہونے کی وجہ سے اپنا حق سمجھتے رہے حضرت علیؓ اس لر حضرت ابوبکرؓ کی آنکھیں بہنے لگیں (انہیں آنسو آگئے) پھر حضرت ابوبکرؓ نے قسم کھا کر فرمایا خدا کی قسم مجھے حضور ﷺ کی قرابت سے ذیادہ عزیز رہی ہے اور اموال فدک وغیرہ کے بارے میں ہم میں جو اختلاف واقع ہوا تو اس میں میں نے اپنی طرف سے کوئی کوتاہی نہیں کی اور اس میں میں نے جو حضور ﷺ کو کرتے دیکھا میں نے اسے ایسا ہی کیا۔
صحیح بخاری کی اس روایت کے مطابق حضرت علیؓ نے انا قد عرف ا اور ولم ننفس میں یہ جمع کے الفاظ ذکر فرمائے ان میں آپ کی مراد کون لوگ تھے اسے آپ نے ان الفاظ میں پوری طرح کھول دیا۔
وکنا نحن نری لنا حقا لقرابتنا من رسول اللہ ﷺ
حضرت علیؓ محسوس کرتے تھے کہ ہم بنی ہاشم کو بھی ثقیفہ بنی ساعدہ میں بلانا چاہیے تھا یہ بات شاید حضرت علیؓ کے ذہن میں اس وقت نہ ہو کہ حضرت ابوبکرؓ بھی تو اس اجتماع سقیفہ میں اچانک آئے تھے یہ اجتماع ان کا اپنا بلایا ہوا نہ تھا۔
پھر ہہ بھی پیش نظر رہے کہ حضرت علیؓ اور حضرت ابوبکرؓ کے مابین یہ گفتگو اس وقت کی ہے جب حضرت فاطمہؓ کی وفات ہو چکی تھی اور اب یہاں حضرت سیدہؓ کی کوئی ناراضگی موضوع کلام نہ تھی۔
یہ ناراضگی کا وہم کس بات سے چلا
حضرت فاطمہؓ کے آپ سے کوئی بات نہ کرنے سے حالانکہ اس کی وجہ آپ کی بیماری تھی اور حضور ﷺ کی وفات پر ایک بڑے صدمے کا بار تگا حضرت ابوبکرؓ نے آپ کو جو فدک کی وراثت نہ دی تھی وہ صرف عمل رسالت کی وجہ سے تھی حضرت ابوبکرؓ نے صاف کہہ دیا تھا کہ میں حضور ﷺ کے کسی عمل میں کوئی تغیر کرنا پسند نہیں کرتا ظاہر ہے کہ اس سے حضرت فاطمہؓ کسی انداز فکر میں ناراض نہ ہو اکتی تھیں۔
پھر بھی جب حضرت ابوبکرؓ نے محسوس کیا کہ شاید آپ ناراض ہوں تو آپ اس وہم کو دور کرنے کے لیے خود حضرت فاطمہؓ کی ذندگی میں آپ کے گھر تشریف لائے حضرت علیؓ بھی حضرت سیدہؓ کی خوشی کے بغیر حضرت ابوبکرؓ کو اندر نہ بلا سکتے تھے اس صورت حال میں حضرت سیدہؓ کی ناراضگی اگر کچھ ہو بھی تو وہ باقی نہیں رہتی کیونکہ آپ نے بخوشی حضرت ابوبکرؓ کو اندر آنے کی اجازت دی اس وقت تک حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت نہ کی تھی اس لیے حضرت سیدہؓ نے پہلے حضرت علیؓ سے ان کی خوشی پوچھی آپ نے ہاں کی تو حضرت سیدہؓ نے بھی اس پر خوشی کا اظہار فرمایا ۔
یہ روایت قارئین کو اہل سنت کتاب الریاض النضرۃ میں کوفہ کے سب سے بڑے حافظ حدیث اور امام ابوحنیفہؒ کے استاد علامہ شعبیؒ سے ملے گی۔
عن عامر قال جاء ابوبکر الی فاطمہ وقد اشتد مرضھا فاستاذن علیھا فقال لھا علی ںذا ابوبکر علی الباب یستاذن فان شئت ان تاذنی له قالت او ذاک احب الیک قال نعم فذخل فاعتذر الیھا کلمھا فرضیت عنه
(جلد اول ص 156 طبع مصر)
اس حدیث میں یہ الفاظ کہ اس وقت حضرت سیدہؓ شدت مرض میں تھیں بتلاتے ہیں کہ حضرت ابوبکرؓ ان کی عیادت کرنے گئے تھے اس ضمن میں انہوں نے مناسب سمجھا کہ ان سے وہ اس بات کی بھی معذرت کر لیں جس کی وجہ سے آپ نے ان سے کلام کرنا چھوڑ رکھا ہے اب آپ نے ان سے بخوشی کلام فرمایا اور ان سے راضی ہو گئیں حافظ ابن حجر عسقلانیؒ لکھتے ہیں کہ اخلاق فاضلہ یہی ہیں کہ آپؓ راضی پو گئی ہوں آ کی دانشمندی اور دینداری پہلے سے اچھی خاصی معروف رہی ہے
واخلق بالا مران یکون کذلک لما علم من وفور عقلھا ودینھا
(فتح الباری جلد 6 ص 202)
حافظ ابن کثیرؒ (774 ھ) البدایہ والنہایہ میں لکھتے ہیں اس روایت کی سند جید اور قوی ہے (جلد 5 ص 289)
حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ (1052ھ) نے بھی مدارج النبوۃ جلد 2 ص 445 پر اسے تحقیقی روایت قرار دیا ہے یہ آٹھویں ،نویں ، اور گیارہویں صدیقں کی تین شہادتیں ہمارے طلبہ حدیث کے لیے حدیث فدک کے اس پہلو کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں صحیح مسلم اور صحیح بخاری کی اس روایت کے مطابق اس پر حضرت علیؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے عشاء کے وقت بیعت کے لیے آنے کا وعدہ کیا اس پر پھر حضرت علی مرتضیٰؓ نے کہا میرا آج عشاء کے وقت آپ سے بیعت کا وعدہ ہے۔
اس سے یہ تو ملتا ہے کہ حضرت علیؓ نے چھ ماہ تاخیر کی لیکن اہل سنت اور شیعہ کی کتابیں اس پر متفق ہیں کہ حضرت علیؓ نے ان دونوں حضرت ابوبکرؓ کی امامت سے کہیں انکار نہ کیا تھا وہ ساتھ ہی برابر ان کے پیچھے ہی نماز ادا کرتے رہے اور جب آپ نے کھلے طور پر بھی آپؓ کی بیعت کر لی تو پھر ان سے اسطرح وفا کی کہ اپنی خلافت میں بھی بقول ملا نور اللہ شوستری حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی بیعت سے نہ نکلے ان کے حالات بتاتے ہیں کہ اس وقت بھی حضرت ابوبکرؓ و عمرؓ کی لوگوں کے دلوں پر حکومت تھی
یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ حدیث فدک میں روایتہ اب تک اس پر اتفاق نہیں ہو سکا کہ فدک مانگنے حضرت سیدہؓ خود حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئی تھیں یا انہوں نےکسی دوسرے شخص کو بھیجا تھا حدیث میں دونوں پیرا یہ عمل ملتے ہیں اور یہ بات اب تک ثابت نہیں ہو سکی کہ امرا واقع کیا تھا۔حدیث کے طلبہ اس روایت کے اضطراب پر بھی ایک نظر کر لیں۔
جاءت کی روایت صحیح ہے یا ارسلت کی
اگر جاءت صحیح ہے تو سوال بھی ساتھ چلے گا کہ اس جانے میں آپکے ساتھ محرم کون تھاحضرت علیؓ تھے یا حضرت عباسؓ اور اگر حضرت عباسؓ تھے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ اس وقت اس مسئلہ میں حضرت فاطمہؓ کے ساتھ نہ تھے ہمیں اس وقت مسئلہ فدک سے بحث نہیں طلبہ حدیث کے سامنے صرف اس حدیث کو روایتہ لانا ہے اس کے بعد یہ فیصلہ طلبہ خود کریں کہ اس روایت میں کیا وزن رہ جاتا ہے۔
صحیح بخاری (جلد 1 ص 526)
عن عائشه ان فاطمه ارسلت الی ابی بکر تساله میرا ثھا من النبی ﷺ
سو اس سے پہلے ص 435 کینروایت میں سالت کو بھی ارسلت کے معنی میں ہی سمجھا جائے گا۔
حضرت عروہ بن زبیرؓ اپنی خالہ حضرت ام المؤمنینؓ سے روایت کرتے ہیں
أن عائشه ام المؤمنین اخبرته ان فاطمۃ بنت رسول سالت ابابکر الصدیق بعد وفاۃ رسول اللہ ﷺ
صحیح بخاری جلد 2 ص 609 میں بھی یہی ہے۔
عن عائشه ان فاطمۃ بنت النبی ﷺ ارسلت الی ابی بکر تساله میرا ثھا من رسول اللہ ﷺ المدینه وفدک وما بقی من خمس خیبر
لیکن صحیح بخاری جلد 2 ص 995 میں ہے کہ حضرت فاطمہؓ حضرت عباسؓ دونوں اپنی وراثت مانگنے حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے تھے اس سے ارسلت کی پہلی دونوں روایتوں کی ظاہر ترتید ہو جاتی ہے اور سألت اور ارسالت کے الفاظ بھی ایکدوسرے کے بہت قریب ہیں ان کی دو میں کوئی ایک صحیح ہو گا
عن عروۃ عن عائشه ان فاطمۃ والعباس اتیا ابابکر یلتمسان میرا ثھا من رسول اللہ ﷺ وھما یومئذ یطلبان ارضیھا من فدک وسھمه من خیبر
یہاں پر ایک سوال ابھرتا ہے کہ اگر یہ دونوں حضور ﷺ سے اپنی اپنی میراث لینے گئے تھے تو یہ باہمی تقسیم کس طرح واقع ہوئی کہ حضرت فاطمہؓ تو فدک میں اور حضرت عباسؓ خیبر سے اپنا حصہ لیں وہ فدک میں اپنی وراثت کس طرح چھوڑ رہے تھے
سنن ابی داؤد سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ﷺ کی دوسری ازواج بھی حضور ﷺ سے اپنی وراثت کی طلبگار تھیں صرف حضرت عائشہ صدیقہؓ ان کے ساتھ نہ تھیں دوسری ازواج حضرت ابوبکرؓ کے پاس اپنی طلب وراثت میں حضرت عثمانؓ بھیجنا چاہتی تھیں
سنن ابی داؤد میں ہے ۔۔۔۔
عن مالک عن ابن شھاب عن عروۃ عن عائشه انھا قالت ان۔ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین تو فی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اردن ان یبعثن عثمان بن عفان الی ابی بکر الصدیق فیسأ لنه ثمنھن بالمیراث من رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقالت لھن عائشه الیس قد قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا نورث ما تر کناہ فھو صدقۃ
(سنن ابی داؤد جلد 4 ص 60 صحیح مسلم جلد 2 ص 91)
ترجمہ: حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی ازواج نے ارادہ کیا کہ حضرت عثمانؓ کو حضرت ابوبکرؓ کے پاس بھیجیں اور اپنی میراث کا آٹھواں حصہ آپ سے مانگیں حضرت عائشہؓ نے ان سے کہا کہ کہا حضور ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ ہم (گروہ انبیاء) موروث نہیں ہوئے ہم جو چھوڑیں وہ بیت المال میں جائے گا۔
اور اسامہ بن زید کی روایت میں ہے کہ وہ ابن شہاب زہری سے روایت کرتے ہیں حضرت عائشہؓ مے ان دوسری اشواج کو کہا۔
الا تتقین اللہ الم تسمعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ وانما ھذا المال لال محمد لنا ئبتھم ولضیفھم فاذامت فھو الی من ولی الامر من بعدی(سنن ابوداؤد جلد 2 ص60)
ترجمہ: کیا خدا سے نہیں ڈرتی۔ کیا تم نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے نہیں سنا ہم انبیاء موروث نہیں ہوتے یہ مال حضور ﷺ کے خاندان کے لیے ہے کبھی ان پر کوئی تکلیف آئے یا کہیں ان کے ہاں مہمان آجائیں اور ان کو کھلانا پڑے۔سو جب میری وفات ہو جائے تو ہہ اموال اس کے ماتحت ہوں گے جو میرے بعد ولی الامر ہو۔
پھر یوم خیبر پر جب حضرت عثمانؓ بن عفان اور ان کے دوسرے ساتھیوں نے حضور ﷺ سے عرض کیا۔
فما بال اخواتنا بنی المطلب اعطیتھ۔ وترکتنا وقرابتنا واحدۃ
ترجمہ ۔۔۔۔۔ ہمارے نبی مطلب بھائیوں میں ہم سے کیا فاصلہ ہے ان کے عطیات اور ہمارے ترکے اور ہماری قرابت ایک سی ہے اس پر حضور ﷺ نے فرمایا
فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انا وبنی المطلب لا نفتری فی الجاھلیۃ والاسلام وانما نحن وھم شئی واحدہ وشیک بین أصبعه علیه السلام
ترجمہ: حضور ﷺ نے فرمایا بنو ہاشم اور بنی المطلب ہمیشہ اکھٹے۔ رہے ہیں جاہلیت کا دور ہو یا اسلام کا سوائے اس کے نہیں کہ ہم اور وہ ایک ہی ھئی ہیں (اور اس پر آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کو اس طرح ملایا)
ان روایات کی مزید تفصیل قارئین کو فتح الباری التعلیق المحمود علی سنن ابی داؤد اور ںذل المجہود وغیرہ میں ملے گی اصل بات صرف اتنی ہے کہ حضور ﷺ کی دوسری ازواج نے بھی خلیفہ اول حضرت ابوبکرؓ سے اپنی میراث لینے کا رادہ تھا اور حضرت عائشہؓ نے وہی بات کہی ان سے اتفاق نہ کیا ۔
معلوم ہوتا ہے کہ شاید ان ازواج نے واقعی یہ بات حضور ﷺ سے نہ سنی ہو اور ایسی ںات عام کہی بھی نہیں جاتی لیکن جب کوئی مسئلہ قواعد شرعیہ اور اسباب عقلیہ سے ثابت ہو جائے تو اب اس کا انکار بھی تو کسی صورت میں نکیں کیا جا سکتا ۔
یہاں پر سوال ابھرتا ہے کہ اگر ازواج مطہرات کو بھی فدک سے ان کی میراث ملتی ہے تو حضرت فاطمہؓ کا اسے خود اپنے لیے سمجھنا کسطرح درست ہو سکتا ہے اسے بھی یہاں حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پھر کسی روایت سے نہیں ملتا کہ ازواج مطہرات نے پھر حضرت عثمانؓ کو یا کسی اور کو حضرت ابوبکرؓ کے پاس اپنی وراثت کے لیے بھیجا ہو۔اگر وہ حضرت عائشہؓ کے بتلانے سے اپنے اس خیال سے رک گئیں تو حضرت فاطمہؓ بھی کہی فڈک سے حصہ لینے سے دستبردار ہوئیں وہ حضرت عباسؓ کو ساتھ لیکر حضرت ابوبکرؓ کے پاس چلی گئیں حضرت علیؓ بھی اس طلب فدک میں نا کے ساتھ کیوں نہ گئے حضرت ابوھریرہؓ کی روایت میں امام زہریؒ نہیں ہیں وہ روایت یہ ہے :
جاءت فاطمه رضی اللہ عنھا الی ابی بکر رضی اللہ عنہ فقالت من یرثک فقال اھلی وولدی فقالت مالی لاارث ابی فقال ابوبکر رضہ اللہ عنہ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول لانورث ولکنی اعول من کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یعولہ وانفق علی ماکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ینفق علیه
ترجمہ: حضرت فاطمہؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس ائیں اللہ تعالیٰ ان دونوں سے راضی کو کر حضرت فاطمہؓ نے حضرت ابوبکرؓ سے کہا کہ آپ کی وراثت کسکو ملے گی آپ نے کہا میرے گھر والوں کو اور میرے بیٹوں کو اس پر حضرت فاطمہؓ نے کہا میں اپنے والد سے وراثت کیوں نہیں پا سکتی اس پر حضرت ابوبکرؓ نے حدیث سنائی اور کہا ۔۔۔حضور ﷺ جن کا خرچہ اٹھاتے رہے میں ان کو خرچہ برابر دیتا رہوں گا اور حضور ﷺ جن پر خرچہ کرتے رہے میں ان پر خرچہ کرتا رہوں گا۔
اس روایت کے مطابق حضرت فاطمہؓ اکیلی حضرت ابوبکرؓ کے پاس طلب میراث کے لیے گئیں اس میں سوال و جواب کی صورت بھی نہ کی اس سے پتا چلتا ہے کہ اس سے پہلے حضرت فاطمہ کو حضور ﷺ سے میراث نہ ملنے کی خبر ہو چکی ہے۔
وہ خبر کب ہوئی ہو گی جب آپ اور حضرت عباسؓ حضرت ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے اور آپ نے ان دونوں کو یہ حدیث سنا دی تھی کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی مالی وراثت نہیں چلتی وہ جو چھوڑ جائیں وہ بیت المال میں جاتا ہے ۔
اس سے جاءت اور ارسلت دونوں روایتوں میں تطبیق ہو جاتی ہے اور امت میں انبیاء کرام علیہم السلام کی مالی وراثت نہ چلنے کا مسلہ پوری قوت سے قائم ہو جاتا ہے مسئلہ فدک پر حجت السلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ہدایتہ الشیعہ میں بڑی تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے۔
نیز اسکی پوری تحقیق اور شیعہ کتابوں سے اس کی پوری تنقیح آپ کو امام پاکستان حضرت مولانا سید احمد شاہ بخاریؒ کی کتاب تحقیق فدک میں ملے گی حضرت شاہ صاحب کتب الارشاد واشیخ التفسیر حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کے جلیل القدر خلیفہ تھے ۔
ہم نے یہاں صرف روایتی حیثیت سے اس روایت پر اٹھنے والے چند پہلو طلبہ حدیث کے سامنے رکھ دییے ہیں اس سے شیعہ مجتہد ڈھگو صاحب کے بھی فدک کے بارے میں اٹھائے گئے جملہ اعتراضات یکسر بھسم ہو جاتے ہیں ۔
وکفی به حمدا وشکرا وھو المستعان وعلیه التقلان۔