Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حدیث دار

  مولانا ثناء اللہ شجاع آبادی

حدیث دار

یہ وہ حدیث ہے جس سے اہل تشیع حضرت علیؓ کے حق میں خلافت کی نامزدگی کے سلسلے میں استدلال کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں جب آغاز بعثت میں آیت وانذر عشیر تک  الاقربین“ (الشعراء:214) نازل ہوئی تھی تبھی آپﷺ  نے حضرت علیؓ کو خلافت کے لیے نامزد کر دیا تھا، چنانچہ روایت میں علیؓ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اے علی ! الله تعالی نے مجھے حکم دیا ہے کہ تو اپنے قریبی رشتے داروں کو ڈرا، تو اس سے میں کچھ گھبرایا، کہ میں جب بھی  اپنے اہلِ خاندان میں اس کا آغاز کروں گا مجھے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا، علیؓ سن کر خاموش تھے کہ جبریل ؑ تشریف لائے اور فرمایا: اے محمدﷺ تمہارے رب نے تمہیں جس حکم پر مامور کیا ہے تم اسے بجا نہیں لاتے تو وہ تمہیں عذاب سے دو چار کرے گا ۔تب آپﷺ نے فرمایا: اے علی!ہمارے لیے کھانا تیار کرو اور اس پر بکری کا ایک پیر رکھ دو اور دودھ کا ایک پیالہ بھردو، پھر میرے سامنے بنو عبدالمطلب کو اکٹھا کرو تاکہ میں ان سے گفتگو کروں اورجس بات کو ان تک پہنچانے کا مجھے حکم دیا گیا ہے ان تک پہنچاؤں ۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے مجھے جو حکم دیا تھا میں نے اسے کیا، پھر بنو عبدالمطلب کو آپ کے سامنے بلایا، اس وقت ان کی تعداد ایک کم یا زیادہ تقریبا چالیس تھی۔ ان میں ابوطالب، حمزه، عباس اور ابولہب وغیرہ چچا حضرات بھی تھے۔ جب وہ لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے تو آپ نے مجھے وہ کھانا لانے کے لیے کہا جو مدعووین کے لیے میں نے تیار کیا تھا، چنانچہ میں نے کھانا پیش کیا، پھر آپﷺ نے گوشت کا ایک جھری دار ٹکڑا نکالا اور اسے اپنے دانتوں سے دوحصوں میں کاٹ کر پلیٹ کے ایک کنارے رکھ دیا، پھر فرمایا: اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو، چنانچہ لوگوں نے خوب شکم سیر ہوکر کھا تناول کیا قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے برتن میں لوگوں کے ہاتھوں کے رکھنے کی جگہ کے علاوہ کوئی چیز نظر نہیں آتی تھی ، میں نے جو کھانا سب کے لیے پیش کیا تھا ایک ہی آدمی کھا جاتا، پھر آپﷺ نے فرمایا: انہیں پانی پلاؤ، چنانچہ میں وہی مٹکا لے کر آیا، سب نے اس سے پانی پیا یہاں تک کہ سب کے سب سیراب ہو گئے، اللہ کی قسم ان میں کا ہر ایک آدمی دوسرے کی طرح سیراب ہو کر پیتا تھا۔ پھر کھانے سے فراغت کے بعد جب اللہ کے رسولﷺ نے ان سے گفتگو کرنا چاہی تو ابولہب پہلے ہی بول پڑا کہ تمہارے اس آدمی نے تم سب پر جادو کردیا،  یہ سننا تھا کہ تمام لوگ چلے گئے اور اللہ کے رسولﷺ ان سے گفتگو  نہ کر سکے۔

آپﷺ نے دوسرے دن فرمایا کہ اے علی! اس آدمی (ابولہب نے مجھے آگے بڑھ کر جو بات کہی ہے وہ تمہیں معلوم ہے اور یہ بھی جانتے ہو کہ میری ان سے گفتگو ہونے قبل وہ لوگ منتشر ہو گئے، اس لیے تم اسی طرح دوبارہ کھانا تیار کرو، پھر انہیں کھانے کی دعوت دو اور حضرت علی کا بیان ہے کہ میں نے ایسا ہی کیا، پھر میں نے ان کواکٹھابلایا اور آپ نے مجھے کھانا لانے کے لیے کہا۔ چنانچہ میں نے کھانا پیش کیا اور جس طرح آپﷺ نے ایک دن قبل کیا تھا آج بھی ویسے ہی کیا، انہوں نے کل کی طرح خوب شکم سیر ہو کر کھانا کھایا، پھر آپﷺ نے فرمایا انہیں پلاؤ، پھر میں وہی مٹکا لے کر آیا اور سب نے سیراب ہو کر اسے نوش کیا، پھر اللہ کے رسولﷺ ان سے ہم کلام ہوئے اور انہیں مخاطب کر کے فرمایا!  اے بنو عبدالمطلب کے لوگو! الله کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میرے علم میں کوئی ایسا نوجوان نہیں ہے جو مجھ سے افضل بات لے کر تمہارے پاس آیا ہو، میں تمہارے پاس دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا ہوں ، اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ آپ لوگوں کو اللہ کی طرف بلاؤں، پس بتاؤ کہ کون ہے جواس مہم  میں اس شرط پر میری مدد کرے گا کہ وہ میرا بھائی، وصی اور خلیفہ بنے۔ علیؓ فرماتے ہیں کہ یہ سن کر پوری قوم آپ کے خلاف بپھر گئی اور میں نے کہا: میں ان میں اگر چہ سب سے کم عمر کیچر بہتی آنکھوں والا ، پیٹ کا بھاری اور باریک پنڈلیوں والا ہوں، پھر بھی میں اس کام پر آپ کا وزیر اور معاون بننے کو تیار ہوں۔ پھر آپﷺ نے میری گردن پر اپنا ہاتھ رکھا اور فرمایا:

1- قابل غور ہے اس وقت آپ کی عمر تقریباً دس سال کی تھی۔

إن هذا أخي ووصي وخليفتي فيكم فاسمعوا له واطيعوا. ”یہ میرا بھائی ہے اور تم میں میرا وصی اور خلیفہ ہے، لہذا تم اس کی باتیں سننا اور اطاعت کرنا۔

اتنا سننا تھا کہ پوری قوم کے لوگ ہنستے ہوئے یہ کہہ کر اٹھ کھڑے ہوئے کہ اے ابوطالب!اس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی فرماں برداری کرو۔

دوسرے سیاق بیان میں ہے کہ ان میں سے کسی نے آپ کی بات نہ مانی تو علیؓ اٹھے اور کہا: میں، اے اللہ کے رسول! آپﷺ نے ان سے کہا: تم بیٹھ جاو۔ آپﷺ نے وہی بات قوم کے سامنے پھر دہرائی لیکن سب خاموش رہے۔ اس وقت بھی علیؓ اٹھے اور کہا: میں اے اللہ کے رسول! اس مرتبہ پھر آپﷺ نے ان سے کہا، بیٹھ جاؤ تیسری مرتبہ آپﷺ نے پھر وہی بات دہرائی، اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہ دیا، تو علیؓ نے کہا۔ میں آپ کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں، اے اللہ کے رسول! آپﷺ نے فرمایا تم بیٹھ جاؤ تم تو میرے بھائی ہو۔

یہ حدیث سند و متن دونوں اعتبار سے باطل ہے۔ اس میں عبدالغفار بن قاسم اور عبداللہ بن عبدالقدوس نامی دو راوی ہیں۔ عبدالغفار بن قاسم متروک راوی ہے اور ناقابلِ استدلال ہے، اس کے بارے میں علی بن المدینی فرماتے ہیں کہ : كان يضع الحديث، یہ حدیث گھڑا کرتا تھا۔ یحییٰ بن معین فرماتے ہیں:ليس بشی، اور عباس بن یحییٰ نے فرمایا: لیس بشئی امام بخاری نے فرمایا: ليس بالقوي عندهم ، یعنی علمائے جرح و تعدیل کے نزدیک قوی  نہیں ہے۔ ان کے بارے میں ابن حبان فرماتے ہیں کہ : یقلب الاخبار ولا یجوذ الاحتجاج به، ترکه احمد ابن حنبل و يحیی بن معین " یہ  روایات  کو الٹتے پلٹتے تھے ان سے حجت  پکڑنا جائز نہیں ، احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے بھی اسے متروک قرار دیا ہے، اور نسائی نے کہا کہ یہ متروک ہیں۔ (الضعفاء و المتروکین لنسائی: ص 210)

اسی طرح عبداللہ بن عبدالقدوس بھی اس سے کچھ کم نہیں ، یہ بھی تمام علمائے محدثین کے یہاں مجروح راوی ہے۔ امام نسائی نے اس کے بارے میں فرمایا: "لیس بثقہ"  یہ ثقہ  نہیں ہے ۔ اور دارقطنی نے کہا کہ: "ضعیف"، ضعیف ہے۔ (میزان الاعتدال: 457/2)