مطاعن سیدنا عثمان غنیؓ جلا وطنی مردان
احقر العباد نذیر احمد مخدوم سلمہ القیوممطاعن سیدنا عثمان غنیؓ جلا وطنی مردان
سوال
رسول پاکﷺ نے مروان کو جلاوطن کر دیا اور ابوبکرؓ و عمرؓ نے بھی اپنے اپنے دور میں مدینہ منورہ میں داخل نہ ہونے دیا۔ مگر عثمانؓ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے مدینہ منورہ میں بلا لیا۔ جس سے رسول پاکﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ثابت ہوتی ہے۔
جواب نمبر 1
مروان کا مدینہ سے نکالا جانا یہ قصہ بالکل من گھڑت ہے۔ اس کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا کیونکہ جلا وطن اُسے کیا جاتا ہے جو شرارتی ہو اور سنگین قسم کے جرم کا ارتکاب کرے۔ اور مرفوع القلم بھی نہ ہو۔
کتبِ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول پاکﷺ کی وفات کے وقت مروان کی عمر چار سال یا کچھ سال تھی اور ایک روایت میں آٹھ سال کی عمر ثابت ہوتی ہے۔ بہر حال وفاتِ نبویﷺ کے وقت مروان کی بلوغت ثابت نہیں ہوتی۔ اور نا بالغی کی حالت میں شرعی احکام لازم نہیں ہوتے۔
بلکہ شیعہ کی معتبر کتاب ناسخ التواریخ سے ملتا ہے کہ رسول پاکﷺ کی زندگی مبارک میں مروان پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
ملاحظہ ہو ناسخ التواریخ صفحہ 251 جلد 3:
اولهم مروان وقد لعنهٗ رسول اللّٰہﷺ وطردةٗ وما ولد
پہلا ان میں سے مروان ہے جس پر رسولِ خداﷺ نے لعنت کی اور جلا وطن کیا وہ پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔
اس روایت کے مطابق شیعہ ہی بتائیں کہ جو ابھی تک پیدا بھی نہیں ہوا اس سے رسولِ پاکﷺ مدینہ سے جلا وطن کیسے کر سکتے ہیں ۔
جواب نمبر 2
اصل بات یہ ہے کہ رسولِ پاکﷺ نے مروان کے باپ حَکَمْ کو مدینہ سے نکال دیا تھا۔ کیونکہ وہ شرارتیں کیا کرتا تھا۔ اور رسولِ پاکﷺ کی مرض وفات میں سیدنا عثمان غنیؓ نے حَکَمْ کو واپس مدینہ میں بلانے کی اجازت طلب کر لی تھی۔ اور رسول پاکﷺ نے اجازت مرحمت فرما دی تھی۔ اور اس وقت حکم سچے دل سے تائب ہو چکا تھا۔صدیق اکبرؓ کے دور میں جب سیدنا عثمانؓ نے اجازت چاہی ،تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا عثمان غنیؓ سے رسول پاکﷺ کی طرف سے اجازت ملنے کے گواہ طلب کیئے۔ گواہ نہ ملنے پر اجازت نہ ملی، اسی وجہ سے فاروقیؓ دور میں بھی اجازت نہ ملی جب سیدنا عثمان غنیؓ کی اپنی خلافت کا زمانہ آیا، تو انہیں تو حتمی طور پر معلوم تھا کہ رسول پاکﷺ نے اجازت دی ہوئی ہے۔ اس لیے انہوں نے حَکَمْ کو واپس بلا لیا۔
جواب نمبر 3
عثمانیؓ دور میں چونکہ حَکَمْ بوڑھا ہو چکا تھا۔ جوانی والا زمانہ گزر چکا تھا۔ اور منافقوں سے ساز باز کا کوئی خطرہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ اسلام کا غلبہ ہو چکا تھا۔ اور منافقوں کا تقریباً خاتمہ ہو چکا تھا۔ اس لیے سیدنا عثمان غنیؓ نے اسے واپس بلا لیا کیونکہ اصول کا قاعدہ ہے۔
الحکم المووّل بالعلة یرتفع عند ارتفاعھا۔
یعنی جو حکم کسی علّت کے ساتھ معلول ہو اس کی علت ختم ہونے پر وہ حکم بھی ختم ہو جاتا ہے۔ تو جب حکم کے بوڑھا ہونے کی وجہ سے نیز سچے دل سے تائب ہونے کی وجہ سے منافقوں کے ختم ہو جانے کی وجہ سے اس سے شرارتوں کا مادہ ختم ہو گیا، تو اس کا جلا وطن رہنے والا حکم بھی ختم ہو گیا۔