Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

وضو میں پاؤں کا دھونا

  احقر العباد نذیر احمد مخدوم سلمہ القیوم

وضو میں پاؤں کا دھونا

سوال

قرآن پاک میں ہے وَامْسَحُوا بِرُوسِكُمْ وَارجُلَكُمْ یعنی سر اور پاؤں کا مسح کرو مگر سنی لوگ پاؤں کو دھو کر قرآن کے واضح حکم سے اختلاف کرتے ہیں ۔

الجواب

قرآن پاک میں آیت وضو میں چار کاموں کا ذکر ہے فاعسلوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا برؤسِكُمْ وَارْجُلَكُمْ ، وجوہ ، وجہ کی مجمع بمعنی چہرہ - ایدی ، ید کی مجمع معنی ہاتھ رؤس ، رأس کی جمع معنی سر اور ارجل رجل کی جمع بمعنی پاؤں ۔ ان سے وُجُوهَكُم کی ھاء پر اور ایدیکم کی یاء پر زبر ہے۔ برؤسکم کے سین کے نیچے زیر ہے۔ جن اسموں پر زبر ہے ان کو دھونا ضروری ہے اب دیکھو ارجلکم کے لام پر زبر ہے تو دھونے کے حکم میں ہوگا اور اگر زیر ہے تو میں کے حکم میں ہوگا، تو قرأت اور متواترہ میں ارجلکم کے لام پر زبر ہی لکھی اور پڑھی جاتی ہے جو پاؤں کے دھونے پر دلالت کر رہی ہے۔

سوال

وضو میں پاؤں کا دھونا کسی شیعی کتاب سے بھی مل سکتا ہے یا نہیں ؟ 

 الجواب

شیعہ کتب سے وضو کے اندر پاؤں کے دھونے کی روایات بھی دستیاب ہوتی ہیں۔

 ملاحظہ ہو فروع کافی صفحہ 14 جلد 1 طبع تہران (ایران) 

 پہلا حوالہ

 عن ابى عبد الله عليه السلام ...... ان نسیت مع راسك حتٌى تغسل رجليك فامسح راسك ثم اغسل رجليك

 سیّدنا جعفرؒ فرماتے ہیں اگر تو سر کا مسح بھول جائے یہاں تک کہ دونوں پاؤں کو دھو بیٹھے تو پہلے سر کا مسح کرے پھر دونوں پاؤں کو دھو ڈال ۔

 ناظرین کرام: اس روایت کو غور سے پڑھیں پاؤں کے دھونے میں سیدنا جعفرؒ کا فرمان صریح ہے۔ اگرچہ مسح سر اور غسل رجلین کی تقدیم تاخیر کی غلطی کا مسئلہ بیان فرمایا جا رہا ہے مگر پاؤں کا دھونا تو ثابت ہو ہی رہا ہے ۔ لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

 دوسر احوالہ

 ملاحظہ ہو شیعہ کی صحاحِ اربعہ سے کتاب الاستبصار صفحہ 24 جلد1

 عن على عليه السلام قال جلست اتوضا فاقبل رسول اللهﷺ حين ابتدءت في الوضوء فقال لى تمضمض و استنشق واسئنن ثم غسلت وجهی ثلاثا فقال يجزيك من ذالك المرتان فقال فغسلت زراعی فمسحت برأسی مرتين فقال قد يجزيك من ذالك المرة وغسلت قدمي ققال لي يا على خلل بين الاصابع لا تخلل بالنار.

 سیّدنا علیؓ فرماتے ہیں کہ وضو کے لیے بیٹھا تھا کہ رسول پاکﷺ تشریف لائے جس وقت میں نے وضو شروع کیا، تو حضورﷺ نے فرمایا کلی کر اور ناک میں پانی ڈال اور مسواک کر، اس کے بعد میں نے تین بار چہره دھویا تو آپﷺ نے فرمایا دو دفعہ ہی کافی ہے۔ پھر میں نے دونوں بازوں کو دھویا پر دو دفعہ سر کا مسح کیا تو آپﷺ نے فرمایا ایک دفعہ ہی کافی ہے اور میں نے دونوں پاؤں دھوئے تو آپﷺ نے فرمایا اے علیؓ انگلیوں میں خلال کر ان کو آگ سے خلال نہ کیا جائے گا۔ 

 یہ روایت بھی پاؤں کے دھونے میں نصِ صریح ہے ۔ بظاہر ایک دلیل ہے، مگر حقیقت میں یہ دو مستقل دلیلیں ہیں ایک یہ کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ بنفسِ نفیس خود وضو میں پاؤں کو دھو رہے ہیں ، دوسری اس طرح کہ رسول پاکﷺ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ چنانچہ جہاں سیدنا علیؓ نے ایک اندام کو تین مرتبہ دھویا تو آپﷺ نے فرمایا دو دفعہ کافی ہے اور جہاں سر کا مسح دو دفعہ کیا حضورﷺ نے فرمایا کہ ایک مرتبہ ہی کافی ہے۔ گویا رسول پاکﷺ سیّدنا علیؓ سے وضو کروا کے آنے والی دنیا کے لیے ایک نمونہ پیش فرما رہے ہیں ۔

 اب شیعہ صاحبان سے گزارش ہے کہ اس روایت کو غور سے دیکھیں کیا سیدنا علیؓ پاؤں کا مسح فرما رہے ہیں یا دھو رہے ہیں ۔ ظاہر بات ہے کہ غسلت قدمی کا لفظ روایت میں موجود ہے جو پاؤں کے دھونے پر دلالت کر رہا ہے ۔ نیز انگلیوں کا خلال تب ہی متصّور ہو سکتا ہے کہ پاؤں کو دھویا جائے ۔ مسح میں خلال متصّور ہی نہیں ہو سکتا ۔ نیز عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ پاؤں کو دھویا جائے کیونکہ چلنے پھرنے میں گرد و غبار بنسبت ہاتھ اور چہرے کے پاؤں پر زیادہ پڑتا ہے جسے نماز سے پہلے صاف کیا جاتا ہے۔