حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ
حامد محمد خلیفہ عمانحضرت ابن عمرو رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’تقدیر حضرت حسین رضی اللہ عنہما کو جلد لے گئی۔ اللہ کی قسم! اگر میں انہیں پا لیتا تو کبھی جانے نہ دیتا۔ ہاں وہ ہی مجھ پر غالب آ جاتے تو اور بات تھی۔‘‘ (ابن کثیر، البدایۃ و النہایۃ: جلد، 8 صفحہ 173 اس اثر کو یحییٰ بن معین نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے)
قتلِ حسین رضی اللہ عنہ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں کو رنج و الم اور حزن و ملال کا مرکز بنا دیا تھا۔ وہ اس مصیبت عظمیٰ کو یاد کر کے حسرت کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس اس گہرے غم کو غلط کرنے کے لیے اس بات کو یاد کرنے کے سوا کوئی اور راستہ نہ تھا کہ انہوں نے خانوادۂ رسول کے اس چراغ کو کوفہ جانے سے روکنے کی نہایت بلیغ سعی کی تھی اور اپنا سارا زور خرچ کر دیا تھا لیکن جناب حسین رضی اللہ عنہ کے پختہ عزم کے سامنے عاجز آ گئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جناب حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے خروج کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کوفہ خروج کر جانے کی بابت مشورہ مانگا، تو میں نے کہا: اگر آپ برا نہ مانیں تو میں آپ کے سر کو پکڑ کر آپ کو روک لوں۔‘‘ اس پر سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا: میں فلاں فلاں جگہ مارا جاؤں یہ مجھے اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں حرم کی حرمت کو حلال کروں۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ’’یہی ایک بات یاد کر کے میں اپنے دل کو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا پرسا دے لیا کرتا ہوں۔‘‘ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 2 صفحہ 83)
٭سعید بن مسیب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’اگر حسین رضی اللہ عنہ خروج نہ کرتے، تو یہ ان کے لیے بہتر ہوتا۔‘‘
٭ امام ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’میں کہتا ہوں کہ یہی حضرت ابن عمر، ابو سعید خدری، حضرت ابن عباس، حضرت جابر رضی اللہ عنہم اور ایک جماعت کی رائے تھی اور انہوں نے اس بابت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے بات بھی کی تھی۔‘‘ (تاریخ الاسلام: جلد، 2 صفحہ 83)
٭حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما خروج کرنے کی بابت مجھ پر غالب آ گئے۔ میں نے انہیں کہا تھا کہ اپنے بارے میں اللہ سے ڈریے، گھر بیٹھے رہیے اور اپنے امام کے خلاف خروج مت کیجیے۔‘‘ (مختصر تاریخ دمشق: جلد، 2 صفحہ 442)
٭ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے:
’’خروج کرنے کی بابت حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما ہم پر غالب آ گئے۔ میری عمر کی قسم! انہوں نے اپنے والد اور بھائی سے عبرت حاصل کی تھی۔ لوگوں کی بے وفائی اور عدمِ اخلاص کو دیکھ کر ان کے لیے مناسب تو یہی تھا کہ وہ زندگی بھر کسی جگہ کے لیے حرکت نہ کرتے اور اس مصلحت میں داخل ہو جاتے، جس میں دوسرے لوگ داخل ہوئے تھے کہ جماعت میں خیر ہوتی ہے۔‘‘ (المعرفۃ و التاریخ للفسوی: جلد، 1 صفحہ 360 بغیۃ الطلب: جلد، 3 صفحہ 260)
٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
’’میں نے حسین رضی اللہ عنہما سے بات کی، میں نے انہیں یہ کہا کہ اللہ سے ڈریے اور لوگوں کو ایک دوسرے سے مت لڑائیے، اللہ کی قسم! جو کچھ آپ کرنے چلے ہیں اس پر لوگ آپ کی تعریف نہ کریں گے، مگر انہوں نے میری بات نہ مانی۔‘‘ (مختصر تاریخ دمشق، باب جوامع حدیث مقتل الحسین: جلد، 2 صفحہ 441)
٭حضرت ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’مجھے حضرت حسین رضی اللہ عنہما کے خروج کی خبر ملی۔ میری مقام مَلَل (ملل: یہ مکہ سے مدینہ جاتے ہوئے راستے میں آنے والا ایک مقام ہے۔ (معجم البلدان: جلد، 1 صفحہ 173) یہ مدینہ سے ایک رات کی مسافت پر ہے اور خاص بنو خزاعہ کی بستی ہے۔ (جلد، 3 صفحہ 227))پر ان سے ملاقات ہو گئی۔ میں نے اللہ کا واسطہ دیا کہ خروج نہ کیجیے کیونکہ آپ غلط جگہ کی طرف خروج کر رہے ہیں، آپ اپنے آپ کو قتل کرنے جا رہے ہیں، تو بولے: ’’میں (اب) واپس نہ جاؤں گا۔‘‘ (مختصر تاریخ دمشق: جلد، 2 صفحہ 441)
٭ فرزدق شاعر کہتا ہے:
’’ذات عرق کے مقام پر میری حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہو گئی۔ وہ کوفہ جا رہے تھے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا: کیا خیال ہے اہل کوفہ میرے ساتھ کیا کرنے والے ہیں؟ میرے پاس ایک اونٹ کے بوجھ کے بقدر ان کے خطوط ہیں۔ میں نے کہا: وہ کچھ نہیں کرنے والے۔ وہ آپ کو چھوڑ دیں گے۔ ان کے پاس مت جائیے۔ مگر انہوں نے میری بات نہ مانی۔‘‘ (تاریخ دمشق: جلد، 14 صفحہ 314)
سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما جب کوفہ کی طرف روانہ ہوئے، تو ایک پانی پر پہنچے۔ کیا دیکھا کہ وہاں عبداللہ بن مطیع عدوی پہلے سے فروکش ہے۔ آپ کو دیکھ کر وہ آگے بڑھا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان! اے رسول اللہﷺ کے نور نظر! کیا بات آپ کو (یہاں) لے آئی ہے؟ پھر آپ کو نیچے اتارا۔ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبر تو تمہیں مل ہی گئی ہو گی، پس اہل کوفہ نے مجھے اپنی طرف بلایا ہے۔ عبداللہ نے کہا: اے رسول اللہﷺ کے لخت جگر! میں آپ کو اللہ اور اسلام کی حرمت یاد دلاتا ہوں کہ کہیں اس کو توڑ نہ دیا جائے۔ میں آپ کو رسول اللہﷺ اور عربوں کی حرمت کے بارے میں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں۔ اللہ کی قسم! اگر آپ نے اس امر خلافت کا مطالبہ کیا، جو بنی امیہ کے ہاتھ میں ہے تو وہ آپ کو قتل کر دیں گے اور اگر انہوں نے آپ کو قتل کر دیا تو پھر آپ کے بعد کسی کے قتل سے بھی نہ ڈریں گے۔ اللہ کی قسم! اسلام، قریش اور عربوں کی حرمت توڑ دی جائے گی۔ ایسا مت کیجیے اور کوفہ نہ جائیے اور بنی امیہ سے تعرض نہ کیجیے۔ عبداللہ بن مطیع کہتا ہے: سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے میری بات نہ مانی اور چلتے رہے۔ (تاریخ الطبری: جلد، 3 صفحہ 301)
راستہ میں ملنے والے بعض خیر خواہوں اور اہل تجربہ نے جب آپ سے یہ کہا کہ آپ کے ساتھ کم لوگ ہیں تو سیدنا حسین رضی اللہ عنہ نے ہاتھ میں پکڑے کوڑے سے اپنے پیچھے لدے ایک تھیلے کی طرف اشارہ کر کے کہا: ’’یہ تھیلا لوگوں کے خطوط سے بھرا ہے۔‘‘ (تاریخ دمشق: جلد، 14 صفحہ 314)
یہ امر کوفیوں کی سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے خلاف گہری سازش کی غمازی کرتا ہے۔ وہ یہ کہ ان سبائیوں کو کبھی کسی عرب خاندان سے عقیدت و محبت نہیں ہوئی اور نہ یہ قیامت تک کسی عرب خاندان سے محبت ہی کریں گے اور اگر وہ کسی خاندان سے محبت و عقیدت کا اظہار کرتے بھی ہیں، تو ضرور بالضرور وہ کوئی غیر عرب خاندان ہو ہو گا۔ اللہ کی قسم! دورِ حاضر میں وہی دھوکے میں پڑا ہے، جو انہیں صحیح سمجھتا ہے اور وہ خونِ حسین رضی اللہ عنہ کے دل فگار واقعہ کو بلائے طاق رکھے ہوئے ہے اور اس نے آل بیت اطہار کے خونوں کو یکسر فراموش کر دیا ہے اور اسے واقعہ کربلا سے قبل وقوع پذیر ہونے والا سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دل دہلا دینے والا واقعہ بھی یاد نہیں رہا۔
فرزدق شاعر یہ بھی کہتا ہے: ہم حج کرنے نکلے۔ جب ہم مقام صفاح پہنچے تو ایک قافلہ ملا۔ انہوں نے قبائیں پہنی ہوئی تھیں، ان کے پاس چمڑے سے بنی ڈھالیں تھیں۔ جب میں قریب ہوا، تو کیا دیکھا کہ وہ تو حسین بن علی رضی اللہ عنہما ہیں۔ میں نے پوچھا: کیا آپ ابو عبداللہ ہیں؟ انہوں نے فرمایا: (ہاں) اے فرزدق! تیرے پیچھے کیا ہے؟ فرزدق بولا: آپ لوگوں کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور فیصلہ آسمانوں پر ہے جبکہ تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہیں۔ فرزدق کہتا ہے: پھر میں مکہ داخل ہوا تو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے دریافت کرنے ان کے پاس گیا۔ ہم نے ان سے سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خروج کے بارے میں پوچھا تو فرمانے لگے: تمہیں ان میں اسلحہ کی مبارک نہ ہو۔ فرزدق ان کی یہ بات نہ سمجھ سکا، اسی لیے شہادتِ حسین رضی اللہ عنہ کے بعد وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ پر طعن کیا کرتا تھا، وہ اس بات کا مطلب یہ سمجھا تھا کہ ’’انہیں تلواریں قتل نہ کریں گی۔‘‘ سفیان کہتے ہیں کہ فرزدق اس بات کا دوسرا مطلب سمجھا تھا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ ان کے بارے میں جو تقدیر میں طے ہو چکا ہے، اس کی بنا پر انہیں قتل ہونا نقصان نہ دے گا۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر: جلد، 14 صفحہ 213) یعنی نبی کریمﷺ انہیں جنت کی اور اس بات کی خوش خبری دے چکے تھے کہ وہ نوجوانانِ جنت کے سردار ہوں گے۔
سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند ارجمند علی زین العابدین بن حسین بن علی بن ابی طالب کہتے ہیں: جب حضرت مسلم بن عقیل کا بھیجا ہوا، قاصد آپ کو کوفہ سے چار مراحل کے فاصلے پر ملا اور اس نے مسلمؒ کے قتل ہو جانے کی دل خراش خبر سنائی تو علی نے اپنے والد حسین رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: ابا جان! اب لوٹ چلیے۔ یہ سن کر بنو عقیل بول پڑے: یہ وقت اب لوٹنے کا نہیں۔ (تاریخ الاسلام للذہبی: جلد، 1 صفحہ 524) اس پر آپ مجبور ہو کر چلتے رہے کہ شاید ان تک وہ شر نہ پہنچے جو ان کی راہ تک رہا تھا۔