Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ کی دروغ گوئی

  امام ابنِ تیمیہؒ

شیعہ کی دروغ گوئیسوم :.... روافض ائمہ پر دروغ بیانی کرنے میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں ۔ امام جعفر صادق شیعہ کی دروغ گوئی کی خصوصی آماج گاہ ہیں ، دروغ گوئی کی حدیہ ہے کہ انہوں نے مندرجہ ذیل کتب کو امام موصوف کی جانب منسوب کر رکھا ہے:۱۔کتاب الجفر ۲۔ البطاقۃ ۳۔ الہفت ۴۔کتاب اختلاج الاعضاء۔ ۵۔ جدول الہلال ۶۔ احکام الرعود والبروق ۷۔منافع سور القرآن۔۸۔ قرأۃ القرآن في المنام ۔[1] [1] بہت ساری کتابیں حضرت جعفر الصادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب کی گئی ہیں جن کا موضوع مخفی اور باطنی علوم ہیں ؛ جن کے بارے میں شیعہ حضرات کا خیال ہے کہ یہ علم ائمہ کے ساتھ خاص تھا۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور کتاب ’’کتاب الجفر ‘‘ہے۔ اور بعض شیعہ یہ کتاب حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہیں ۔ اورکا نام رکھا ہے: ’’جفر تنبؤا بالاحداث إلی نہایۃ العالم۔‘‘دیکھو: بروکلمان ۱؍ ۲۶۰۔ اور اسی مصنف نے ’’کتاب ’’اختلاج الاعضاء اور منافع سور القرآن ‘‘ کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ کتاب الجفر اس کے متعلق کلینی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے: ’’بیشک کتاب الجفر میں حضرت موسی علیہ السلام کی تورات اور حضرت عیسی علیہ السلام کی انجیل ؛ اور دیگر تمام انبیاء اور اولیاء کے علوم ہیں ؛ اور بنی اسرائیل کے علماء کے علوم ہیں ۔اس میں حلال و حرام کا اور ماکان و ما یکون کا علم ہے۔ پھر یہ بتایا ہے کہ : جفر کی دو اقسام ہیں :۱۔ جو بکرے کے چمڑے پر لکھی جاتی ہے۔ اور دوسری وہ جو بھیڑ کے چمڑے پر لکھی جاتی ہے۔ دیکھو: ۱؍۲۳۸؛ ط: تہران۔ ایسے ہی جو کچھ ابوعبدالرحمن السلمی[2] [2] ابو عبد الرحمن محمد بن حسین بن محمد السلمی ولادت ۳۲۶ہـجری اور وفات ۴۱۲ہجری۔ علامہ ذہبی کہتے ہیں : صوفیاء کا شیخ تھا؛ان کے لیے تفسیر اور تاریخ بھی لکھی ہے۔ اور صوفیاء کے لیے اپنی طرف سے حدیثیں گھڑا کرتا تھا۔نے اپنی کتاب’’حقائق التفسیر‘‘ میں نقل کیا ہے؛ یہ کتب شیعہ فرقہ طرقیہ کا ذریعہ معاش ہیں ۔حتی کہ بعض لوگوں کا خیال ہے رسائل اخوان بھی امام جعفر کا کلام ہے۔ حالانکہ ہر عقل مند اور سمجھدار انسان جو اسلام کے بارے میں بہت معمولی سی معلومات رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب کی باتیں اسلام سے متناقض ہیں ۔مزید برآں کہ یہ کتاب حضرت جعفر بن محمد رحمہ اللہ کی موت کے دو سو سال بعد لکھی گئی ہے۔اس لیے کہ محمد بن جعفر رحمہ اللہ کی وفات سن ۱۴۸ھ میں ہوئی ہے۔ اوریہ کتاب چوتھی صدی ہجری میں اس وقت لکھی گئی جب مصر میں بنو عبید کی حکومت تھی؛ اور انہوں نے قاہرہ شہر آباد کیا تھا۔ تو یہ کتاب ان اسماعیلیہ کے مذہب کے مطابق لکھی گئی تھی۔ اس کتاب کا مواد خود اس پر دلالت کرتا ہے۔اس کتاب میں وہ احوال لکھے گئے ہیں جو شام کے ساحل پر مسلمانوں کے ساتھ پیش آئے؛ جب عیسائی مسلمانوں پر غالب آگئے تھے۔ یہ تیسری صدی ہجری کے بعد کا واقعہ ہے۔ اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ اس کتاب کے مصنفین جیسے زیدبن رفاعہ ؛اور ابوسلیمان بن معشر البستی؛ جو المقدسی کے نام سے مشہور تھا؛ اور ابو الحسن علی بن ہارون الزنجانی؛ اور ابو احمد النہر جوری اور عوفی؛ابو الفتوح المعافی بن زکریا الجریری ؛ جس کی کتاب ’’الجلیس الانیس ‘‘ ہے؛اور ان کے ساتھ مناظرہ کا بھی معلوم ہوا ہے؛ جس کا ذکر ابو حیان توحیدی نے اپنی کتاب ’’الإمتاع المؤانسۃ ‘‘ میں کیا ہے۔‘‘ [الفہرست لابن ندیم ۱۷۴]خلاصہ کلام! جو کوئی رافضہ کی تحریروں اور تقریروں میں ان کا آزما چکا ہو اسے علم ہے کہ رافضی اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے بڑھ کر جھوٹ بولنے والے ہیں ۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ صدق ناقل اور اتصال سند کو معلوم کیے بغیر کثرت سے جھوٹ بولنے والے شیعہ کی روایات پر اعتمادنہیں کیا جا سکتا ۔ شیعہ کی دروغ گوئی کا نتیجہ یہ ہوا کہ اہل کوفہ اور عراق کے باشندے بھی ان کی دیکھا دیکھی دروغ گوئی کے خوگر بن گئے اس کی حدیہ ہے کہ اہل مدینہ ان کی روایات کو قبول کرنے سے احتراز کرتے تھے، امام مالک رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:’’اہل عراق کی مرویات کے ساتھ اہل کتاب کی روایات کا معاملہ کریں ؛ نہ ان کی تصدیق کیجئے نہ تکذیب۔‘‘ایک مرتبہ محدث عبدالرحمن بن [1] [1] عبد الرحمن بن مہدی کی کنیت ابو سعید اور نسبت لؤلوی بصری ہے۔ ان کی تاریخ ولادت ووفات(۱۳۵۔۱۹۸) ہے ۔ یہ بہت بڑے حافظ حدیث تھے۔ ان کے اساتذہ میں شعبہ بن حجاج، سفیان ثوری اور امام مالک کے نام قابل ذکر ہیں ۔ عبد اﷲ بن مبارک اور امام احمد بن حنبل نے آپ سے روایت کی ہے یہ ہر سال حج کو جاتے اور ہر دو رات میں قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ مہدی رحمہ اللہ نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا:’’ ابو عبداﷲ ! (امام مالک کی کنیت) ہم نے آپ کے شہر (مدینہ طیبہ) میں چالیس دن میں چار سو حدیثیں سنی ہیں ، حالانکہ ہم (عراق میں ) ایک دن میں اس قدر احادیث سن لیا کرتے تھے۔‘‘امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’ ابو عبدالرحمن ! آپ کی ٹکسال ہمیں کہاں نصیب ! آپ کے علاقہ والے تو راتوں کو ٹکسال میں حدیثیں گھڑتے اور دن میں ان کو پھیلاتے ہیں ۔‘‘بایں ہمہ کوفہ میں بہت سے قابل اعتماد محدثین بھی موجود تھے۔ شیعہ کے کثرت کذب کا نتیجہ یہ ہوا کہ علم حدیث میں مہارت نہ رکھنے والوں پر احادیث کی چھان پھٹک مشکل ہو گئی اور وہ صحیح و ضعیف حدیث میں امتیاز نہیں کر سکتے تھے۔ جیسے کوئی اجنبی شخص ایک ایسے شہر میں داخل ہو جہاں کے آدھے باشندے دروغ پیشہ ہوں ؛ تو وہ شخص جب تک کسی صادق اور ثقہ راوی کو پہچان نہ لے گا ان سے روایت نہیں کرے گا۔یا جس طرح کسی شہر میں کھوٹے سکے زیادہ ہوں تو جو شخص کھرے کھوٹے میں تمیز نہیں کر سکتا معاملہ سے اجتناب کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ غیر ناقد کے لیے اہل بدعت کی کتب کا درس و مطالعہ جن میں روایات کا ذبہ کی بھر مار ہو؛ مکروہ ہے۔ اسی طرح افسانہ گو اور ان کے نظائر و امثال سے.... جو دروغ گوئی میں معروف ہوں .... علمی استفادہ ناروا ہے، اگرچہ یہ لوگ کافی سچ بھی بولتے ہیں ۔اس امر میں علماء اسماء الرجال یک زبان ہیں کہ شیعہ سب فرقوں کی نسبت زیادہ جھوٹ بولتے ہیں ۔