قتل عثمان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شراکت کا الزام اور اس پر رد
امام ابن تیمیہ[قتل عثمان میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شراکت کا الزام اور اس پر رد:]
[چھٹا اعتراض] :
...شیعہ کا یہ قول کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرانا چاہتی تھیں اور اسی سازش میں شریک رہا کرتی تھیں ۔اور کہا کرتی تھیں :’’ بوڑھے احمق کو قتل کردو۔‘‘ وہ ہمیشہ دعا کیاکرتی تھیں :’’اللہ اس بیوقوف بوڑھے کو قتل کرے۔‘‘
جب عائشہ رضی اللہ عنہا کو قتل عثمان رضی اللہ عنہ کی خبر پہنچی تو بہت خوش ہوئیں ۔‘‘
[انتہیٰ کلام الرافضی]
[ یہ شیعہ کا وضع کردہ جھوٹ ہے۔ نعثل کا لفظ صرف قاتلین عثمان کی زبان پر جاری ہوا۔ قاتلین عثمان میں سے اوّلین شخص جس نے نعثل کا لفظ بولاوہ جبلہ بن عمرو ساعدی تھا۔ اس نے کہا :’’ اے نعثل میں آپ کو قتل کرکے ایک خارشی اونٹ پر سوار کروں گا اور اسے شہر سے باہر پتھریلی زمین کی طرف ہانک دوں گا ۔
(تاریخ طبری:۵؍۱۱۴، مطبع حسینیہ)
بعد ازاں یہ لفظ جنگ جمل کے موقع پر ہانی بن خطاب ارجی کی زبان پر جاری ہوا وہ کہتا ہے۔
اَبَتْ شُیُوْخُ مُذْحَجٍ وَّ ہَمْدَانَ اَنْ لَّا یَرُدُّوْا نَعْثَلًا کَمَا کَانَ
تیسری مرتبہ یہ لفظ عبدالرحمن بن حنبل جمحی نے جنگ صفین کے موقع پر بولا ۔وہ کہتا ہے:
اِنْ تَقْتُلُوْنِیْ فَاَنَا ابْنُ حَنْبَل اَنَا الَّذِیْ قَتَلْتُ فِیْکُمْ نَعْثَلًا
جب جبلہ بن عمرو ساعدی نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرتے ہوئے پہلی مرتبہ نعثل کا لفظ بولا حضرت عائشہ اس وقت مکہ مکرمہ میں محو عبادت تھیں ۔ جب حج سے واپس لوٹیں تو یہ لفظ آپ کے کانوں تک پہنچا۔
اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ انسان خطا و نسیان سے مرکب ہے، اور رسولوں کے سوا کوئی بشر معصوم نہیں ہو سکتا۔ صحابہ کرام اور خاص طور پر خلفاء راشدین انسانیت کی اعلیٰ ترین صفات سے بہرہ ور ہیں ، تاہم وہ خطاء کے مرتکب ہو سکتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کی خطا کو درست بھی کرتے ہیں ، وہ خطا کے مرتکب ہونے کے باوصف قلبی طہارت ، صفاء نیت، صدق جہاد اور سلامت مقاصد کی بنا پر باقی مسلمانوں سے بلند ترین مقام و مرتبہ پر فائز ہیں ۔]
[جواب] :
۱۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس روایت کی دلیل پیش کیجیے۔
دوسری بات:....جو چیز اماں عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے ‘ وہ اس رافضی دعوی کو رد کرتی ہے۔ اور اس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ حضرت کے قتل پر سخت انکاری تھیں ۔قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کومذمت اور نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتیں اور اس میں شرکت کرنے والوں کو ....خواہ ان کا بھائی محمد بن ابوبکر ہو یا کوئی اور مذموم قرار دیتی تھیں ۔انہوں نے اپنے بھائی محمد بن ابو بکر اور مشارکین قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر بد دعا کی تھی۔
[غلط فہمی کی بنا پر اہل حق کا باہم کفر و نفاق کا فتوی] :
تیسری بات :....فرض کیجیے صحابہ میں سے کوئی....حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہوں یا کوئی اور....غصہ کی حالت میں کوئی ایسی بات کہے؛ اس لیے کہ وہ بعض خرابیوں کا انکار کرنا چاہتا ہو‘ تو اس کی بات کیوں کر حجت ہو سکتی ہے۔ اس سے نہ کہنے والے کی شان میں کوئی فرق آتا ہے نہ اس کی شان میں جس کے بارے میں وہ لفظ کہا گیا۔ بایں ہمہ وہ دونوں جنتی بھی ہوسکتے ہیں اور اﷲ کے ولی بھی۔ حالانکہ ان میں سے ایک دوسرے کو واجب القتل اور کافر تصور کرتا ہے مگر وہ اس ظن میں خطاء کار ہے۔
جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ سے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذ کور ہے؛ جو بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکے تھے۔صحیح حدیث میں ثابت ہے ان کے غلام نے کہا : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم ! حاطب بن ابی بلتعہ جہنم میں جائے گا ۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم نے جھوٹ بولا ؛ وہ بدر اور حدیبیہ میں شرکت کر چکا ہے۔ ‘‘
[البخاري ۴؍۵۹؛ مسلم۴؍۱۹۴۱۔]
حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: (( جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کا ارادہ کیا تو حاطب نے مشرکین مکہ کے نام ایک خط لکھا اور اس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے راز منکشف کردیے۔ وحی کے ذریعہ آپ ان تمام حالات سے باخبر ہوئے ،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ وزبیر رضی اللہ عنہ کو بلا کر کہا مکہ کی جانب چلتے جاؤ اور جب باغ خاخ آجائے تو وہاں تمھیں ایک شتر سوار عورت ملے گی اس کے پاس ایک خط ہو گا ۔ وہ خط اس سے لے لیجیے۔ جب علی و زبیر رضی اللہ عنہما وہ خط لے کر واپس لوٹے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ کو بلا کر خط لکھنے کا سبب دریافت کیا۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اﷲ کی قسم! میں نے یہ فعل اس لیے انجام نہیں دیا کہ میں مرتد ہو گیا یا کفر پر راضی ہو گیا تھا۔اصل معاملہ یہ ہے کہ میں نسباً قریشی نہیں ہوں ، بلکہ باہر سے آکر مکہ میں آباد ہوا تھا۔ مدینہ میں جو لوگ ہجرت کرکے آئے ہیں ، مکہ میں ان کے عزیز و اقارب ہیں جو ہر طرح ان کے گھر بار کی حفاظت کرتے ہیں ۔ میں نے چاہا کہ اس طرح قریش کو ممنون کردوں تاکہ وہ میرے کنبہ کی حفاظت کرتے رہیں ۔‘‘حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اجازت دیجیے کہ اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ آپ نے فرمایا:’’ حاطب بدر میں شرکت کر چکا ہے اور اﷲتعالیٰ نے اہل بدر کے متعلق فرمایاہے:
{اِعْمَلُوْا مَاشِئْتُمْ فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ }
(جو اعمال چاہو انجام دو میں نے تمھیں بخش دیا۔‘‘اسی دوران میں سورۂ ممتحنہ کی یہ آیت نازل ہوئی:
{ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃِ }
’’ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ، تم ان کے ساتھ دوستی لگانا چاہتے ہو۔‘‘
[ صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب فضل من شھد بدراً (حدیث: ۳۹۸۳، ۴۸۹۰) ، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب من فضائل حاطب بن ابی بلتعۃ (حدیث: ۲۴۹۴)]
اہل علم حاطب رضی اللہ عنہ کے واقعہ کی صحت پر متفق ہیں ۔ یہ واقعہ مفسرین، فقہاء اور علماء سیر وتواریخ کے یہاں خبر متواتر کا درجہ رکھتا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے عہد خلافت میں جب فتنہ پروری کا دور دورہ تھا یہ واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے۔ اس کا راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کاتب عبداﷲ بن ابی رافع ہے۔ واقعہ بیان کرنے سے آپ کا مقصد یہ ثابت کرنا تھا کہ سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم باہمی مشاجرات و تنازعات کے باوصف اللہ تعالیٰ کے نزدیک مغفورہیں ۔خواہ ان کے مابین کچھ بھی ہوا ہو۔
اس بات پر مسلمانوں کا اتفاق ہے کہ: حضرت عثمان وطلحہ زبیر رضی اللہ عنہم حاطب رضی اللہ عنہ سے بہرحال افضل ہیں ۔ حاطب اپنے غلاموں کے ساتھ سخت سلوک کرتے تھے۔نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مشرکین مکہ کو خط لکھ کر حاطب رضی اللہ عنہ نے جس جرم کا ارتکاب کیا تھا وہ ان لغزشوں کی نسبت عظیم تر تھا جو سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم کی جانب منسوب ہیں ۔ بایں ہمہ آپ نے اس کو قتل کرنے سے روکا اور اس کے جہنمی ہونے کی تردید کی۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ حاطب رضی اللہ عنہ بدر و حدیبیہ میں شرکت کر چکا تھا۔ تاہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا: اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ آپ نے اسے منافق کہا اور مباح الدم قرار دیا۔ اس کے باوجود کسی کے ایمان میں فرق آیا نہ جنتی ہونے میں ۔
[واقعہ افک سے استدلال] :
صحیحین میں واقعہ افک کی تفصیل مذکور ہیں ۔ جب یہ واقعہ پیش آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے رئیس المنافقین سے نجات حاصل کرنے کے لیے فرمایا:
’’مجھے ایسے شخص کی ایذا سے کون نجات دے گا، جس نے میرے اہل کے بارے میں مجھے بڑی تکلیف دی ہے۔ اﷲ کی قسم! مجھے اپنے اہل خانہ کے بارے میں خیر ہی کی امید ہے اور جس شخص کے ساتھ ان کو متہم کیا جا رہاہے اس کے بارے میں بھی میں خیر کے سوا اور کچھ نہیں جانتا۔‘‘
یہ سن کر قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ اٹھے....یہ وہی سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہیں جن کی موت پر عرش الٰہی پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ احکام الٰہی میں انھیں کسی ملامت گر کی پروا نہیں ہوا کرتی تھی۔ انھوں نے اپنے حلیف بنی قریظہ کے بارے میں فیصلہ صادر کیا تھا کہ لڑنے والوں کو قتل کیا جائے۔ بچوں کو قیدی بنایا جائے اور ان کے مال کو مال غنیمت تصور کیا جائے۔ یہ سن کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ:’’آپ نے ان کے بارے میں اﷲ کا وہ فیصلہ صادر کیا ہے جو سات آسمانوں کے اوپر سے نازل ہوا تھا۔‘‘
[سیرۃ ابن ہشام ۳؍ ۲۵۱۔ولکن مع اختلاف في اللفظ في: صحیح بخاری۴؍۶۷۔ کتاب الجہاد والسیر۔ باب إذا نزل العدو علی حکم رجل، صحیح مسلم ۳؍۱۳۸۸ ؛ ۔ کتاب الجہاد والسیر ؛ باب جواز القتل من نقض العہد ۔]
...اور [حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے] کہا: اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اس خدمت کے لیے حاضر ہیں ، اگر وہ اوس کے قبیلہ سے تعلق رکھتا ہو گا تو ہم اسے موت کے گھاٹ اتا دیں گے اور اگر خزرج کا آدمی ہوا تو اس کے بارے میں ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔
یہ سن کر سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ اٹھے اور کہا :’’آپ نے جھوٹ بولا، اﷲ کی قسم! آپ اسے قتل نہیں کر سکتے؛ اور نہ ہی اسے قتل کرنے پر قادر ہوسکتے ہیں ۔ اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر کہا:آپ جھوٹ بولتے ہیں ، اﷲ کی قسم! ہم اسے قتل کر کے رہیں گے۔ آپ منافق ہیں اور اسی لیے منافقین کی وکالت کر رہے ہیں ۔‘‘اوس و خزرج آپس میں گتھم گتھا ہونے والے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر سے اتر کر انھیں خاموش کرادیا۔‘‘
[صحیح بخاری، کتاب المغازی۔ باب حدیث الافک(حدیث۴۱۴۱)۔ صحیح مسلم کتاب التوبۃ، باب فی حدیث الافک(حدیث۲۷۷۰)]
اب ظاہر ہے کہ یہ تینوں اصحاب سابقین اوّلین میں سے تھے۔ اور اس کے باوصف اُسید رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ کو منافق کہا، حالانکہ ان دونوں حضرات کا ولی اﷲ اور جنتی ہونا کسی شک و شبہ سے بالا ہے۔اس سے یہ حقیقت منصہ شہود پر جلوہ گر ہوتی ہے کہ بعض اوقات ایک شخص بنا بر تاویل دوسرے شخص کو کافر قرار دیتا ہے، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی کافر نہیں ہوتا۔
حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :آپ اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشریف لائے اور گھر میں داخل ہو کر نماز پڑھنے لگے ۔مگر صحابہ رضی اللہ عنہم آپس میں گفتگو میں مشغول رہے ۔ [دوران گفتگو مالک بن دخشم کا تذکرہ آیا لوگوں نے اس کو مغرور اور متکبر کہا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر سن کر بھی حاضر نہیں ہوا معلوم ہوا وہ منافق ہے] ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا:
’’ ہم دل سے چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کیلئے بددعا کریں کہ وہ ہلاک ہو جائے یا کسی مصیبت میں گرفتار ہو جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا:’’ کیا وہ اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور میری رسالت کی گواہی نہیں دیتا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :’’زبان سے تو وہ اس کا قائل ہے مگر اس کے دل میں یہ بات نہیں ۔‘‘ فرمایا:’’ جو شخص اللہ تعالیٰ کی تو حید اور میری رسالت کی گواہی دے گا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہوگا یا یہ فرمایا کہ اس کو آگ نہ کھائے گی۔‘‘
[صحیح بخاری، کتاب الصلاۃ، باب المساجد فی البیوت (حدیث:۴۲۵) ، صحیح مسلم ۔ کتاب الإیمان۔ باب الدلیل علی ان من مات علی التوحید....(حدیث:۳۳) واللفظ لہ۔]]
جب یہ اصول ہے؛ او ر پھر یہ ثابت ہوجائے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی ایک حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا یا حضرت عمار رضی اللہ عنہ یا کوئی دوسرا صحابی اگرکسی دوسرے صحابی کو کافر سمجھے؛ مثلاً : حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے صحابی کو ؛ اور تأویل کی بنا پر اس کو قتل کرنا جائز سمجھے ؛ تو اس کا شمار بھی مذکورہ بالا تاویل کے باب سے ہوگا۔ اور یہ بات ان میں سے کسی ایک کے ایمان پر بھی قادح نہیں ہوگی۔ او رنہ ہی اس سے کسی کے اہل جنت ہونے میں کوئی فرق آئے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ اور حضرت عمار رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں ۔حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی بہت بڑی ہے ؛ جب آپ کی یہ غلطی معاف کردی گئی ہے تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی غلطی بالاولی مغفرت کی مستحق ہے۔
جب یہ جائز ہے کہ حضرت عمر او رحضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہما جیسے انسان کفر کا حکم لگانے اور مباح الدم سمجھنے میں اجتہاد کرسکتے ہیں ‘ اگرچہ یہ اجتہاد حقیقت واقع کے مطابق نہ بھی ہو؛ تو پھر اس قسم کے اجتہاد کا حضرت عمار رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس قسم کے اجتہاد کا ہونا زیادہ اولی ہے ۔
[بڑے آدمی کے لیے معصوم ہونا شرط نہیں ] :
چوتھی بات:....ان سے کہا جائے گا: ’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر قدح کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے جو روایت منقول ہے ؛ اگر یہ صحیح سند سے ثابت ہوجائے تو پھر بھی اس میں دو احتمال ہیں : یا تو آپ کی رائے درست ہوگی ؛ یا غلط ۔ اگر آپ کی رائے درست ہے ؛ تو پھر اسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی برائیوں میں شمار نہیں کرنا چاہیے ۔اور اگر آپ کی یہ رائے غلط ہے تو پھر اسے سیّدناعثمان رضی اللہ عنہ کی برائیوں میں شمار نہیں کیا جانا چاہیے ۔ [ان روایات کی بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے نقائص کو جمع کرنا قطعی طور پر باطل ہے ]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے قتل عثمان رضی اللہ عنہ پر جس دکھ و رنج کا اظہار کیا ؛ آپ کے قاتلین کی مذمت کی ؛ اور آپ کے خون کا انتقام چاہا؛ اس کا تقاضا [ہے کہ اگربالفرض کبھی کوئی ایسی بات سے آپ ہوئی ہے تو اس پر] ندامت ہے۔جیسا کہ آپ نے مدینہ طیبہ سے جنگ جمل کے لیے نکلنے پر ندامت کا اظہار فرمایا تھا۔ بیشک اگر اس واقعہ پر آپ کی ندامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حق کا اعتراف ہے؛ تو پھر یہ [قتل عثمان پر] ندامت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور ان کے حق کا اعتراف ہے۔ اگر یہ اعتراف درست نہیں تو پھلا اعتراف بھی درست نہیں ۔
مزید برآں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جمہور صحابہ اور جمہور مسلمین سے جس قدر ملامت کا اظہار حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ہوا ہے؛ایسی ملامت کا اظہار عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے نہیں ہوا۔اگریہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرملامت کے لیے حجت ہے ؛ تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ملامت کے لیے بھی حجت ہے۔ اگر اس واقعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر ملامت کے لیے کوئی حجت نہیں ہے تو پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پرملامت کے لیے بھی کوئی حجت نہیں ہے۔ اگر اس سے مقصود اس ملامت گری پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی شان میں قدح کرنا ہے تو پھر یہ جان لینا چاہیے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا [اس مسئلہ میں اکیلی نہیں ہیں ‘ بلکہ آپ ] جمہور صحابہ کیساتھ ہیں ۔ مگر اس ملامت گری کے درجات مختلف ہیں ۔
اگر اس سے مقصود تمام لوگوں پر قدح کرنا ہو‘جیسے : حضرت عثمان؛ حضرت علی ؛ حضرت طلحہ ؛ حضرت زبیر ؛ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم نیز ملامت کیے گئے اور ملامت کرنے والے ۔
تو ان سے کہا جائے گا کہ : ہم ان میں سے ہر ایک کے لیے معصوم ہونے کا دعوی نہیں کرتے۔بلکہ ہم کہتے ہیں : یہ لوگ اولیاء اللہ متقین تھے؛ ان کا شمارنجات پانے والی اللہ تعالیٰ کی جماعت میں ہوتا ہے۔ اللہ کے نیک بندے تھے ؛ اور جنت کے سرداروں میں سے تھے۔ اور ہم یہ بھی کہتے ہیں : گناہ کا صادر ہونا ان لوگوں کے لیے بھی جائز ہے جو صدیقین سے افضل ہوں ‘ او رصدیقین سے بڑے ہوں ۔ مگر ان گناہوں کی سزا توبہ ‘ استغفار ؛گناہ مٹانے والی نیکیوں ؛ مصائب و آلام ؛ اور دوسرے امور کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے۔ پس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان کے لیے توبہ و استغفارکرنا بھی ثابت ہے ‘ اور ان کی اتنی نیکیاں ہیں جو ان کے بعد آنے والے کسی کے حصہ میں نہیں آئیں ۔اور انہیں ایسی آزمائشوں اورمصیبتوں سے پالاپڑا ہے [جنہوں نے ان کے گناہ دھوکر ختم کردیے ہیں ] یہ مصیبتیں کسی دوسرے پر نہیں آئیں ۔ ان کی اتنی قابل شکر کوششیں اور نیک اعمال ہیں جو ان کے بعد آنے والوں کے حصہ میں نہیں آئے۔ یہ برگزیدہ لوگ گناہوں کی بخشش کے بعد میں آنے والے لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار ہیں ۔
لوگوں کے بارے میں جو گفتگو ہو وہ ظلم و جہل کی بجائے علم و عدل پر مبنی ہوناواجب ہے؛ ظلم و جہالت پر مبنی کرنا اہل بدعت کا شیوہ ہے ۔ روافض کا یہ حال ہے کہ وہ دو قریب الفضیلت اشخاص میں تقابل کرتے ہوئے ایک کو معصوم قرار دیتے اور دوسرے کو ظلم و گناہ کا مجسمہ کافر و فاسق قرار دیتے ہیں ۔ یہ بات ان کے جہل و تناقض کی آئینہ دار ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ کوئی یہودی یا نصرانی جب حضرت موسیٰ یا عیسیٰ کی نبوت کا اثبات کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر تنقید کرے گا تو یہ اس کے عجز و جہل اور تناقض کا اظہار ہو گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ یا عیسیٰ کی رسالت کے اثبات میں وہ جو دلیل پیش کرے گا، اسی دلیل؛ بلکہ اس سے بھی قوی تر دلیل وبرہان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت ثابت ہو گی۔اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر جو بھی شبہ پیش کیا جائے گا اس سے زیادہ قوی شبہ حضرت عیسیٰ اور حضرت موسی علیہم السلام پر پیش کیا جائے گا۔خلاصہ یہ کہ جو شخص بھی دو مماثل چیزوں میں تفریق پیدا کرے گا یا ایک چیز کی مدح کرے اور بعینہٖ اس جیسی چیز کی مذمت کرے یا بالعکس وہ اسی قسم کے عجز و جہل اور تناقض کا شکار ہو گا۔ علماء و مشائخ کے اتباع کا بھی یہی حال ہے، جب کوئی شخص اپنے ہادی و پیشوا کی مدح میں رطب اللسان ہو اور اس جیسے دوسرے بزرگ کی مذمت کا مرتکب ہو تو وہ بھی تناقض کے مرض میں مبتلا ہو گا۔
جب کوئی عراقی یوں کہے کہ: اہل مدینہ نے فلاں فلاں سنت کے خلاف کیا ہے؛ اور ان مسائل میں صحیح حدیث کو ترک کردیا ہے؛ اور ایسے ہی فلاں فلاں مسئلہ میں رائے کی پیروی کی ہے۔مثال کے طور پر کوئی اہل مدینہ کے بارے میں کہے کہ: ان کے نزدیک تلبیہ پڑھنے کا وقت جمرہ عقبہ کی رمی تک نہیں ؛ اور نہ ہی محرم احرام سے اورتحلل ثانی سے پہلے خوشبو لگاسکتا ہے۔اور نہ ہی مفصل سورتوں میں سجدہ ہے۔ اور نہ ہی نماز میں تعوذ اور دعا استفتاح اور دو طرف سلام ہے۔اور ایسے ہی ہر کنچلی والا درندہ بھی حرام نہیں ہے؛ اور نہ ہی ہر ناخن والا پرندہ ان کے نزدیک ناجائز ہے؛ اوروہ حشوش کو بھی حلال سمجھتے ہیں ۔حالانکہ ان کے مابین ان مسائل میں اختلاف نہیں ۔ تو اہل مدینہ کہتے ہیں : ہم سنت کے سب سے بڑے پیروکار؛ اوراہل عراق کی نسبت اس کی مخالفت اور ائے سے بہت دور ہیں ۔وہ اہل عراق جن کی رائے میں ہر نشہ آور مشروب حرام نہیں ہوتا؛ اوریہ کہ صرف نجاست کے گر جانے سے کنوئیں کا پانی ناپاک نہیں ہوتا ۔ ان کے نزدیک استسقاء کے لیے نماز نہیں ہے؛ اور نہ ہی نماز کسوف کی ہر رکعت میں دو رکوع ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی وہ حرم مدینہ کو حرم سمجھتے ہیں ۔اورنہ ہی ایک گواہ اور قسم کی موجودگی میں فیصلہ کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی قسامہ میں دونوں مدعیان کو قسم دیتے ہیں ۔اور نہ ہی حج قرآن میں ایک سعی اور طواف پر اکتفاء کرتے ہیں ۔وہ سبزیوں میں تو زکواۃ کو واجب کہتے ہیں ؛ مگراجناس میں اسے جائز نہیں سمجھتے۔ اور نہ ہی نکاح شغار اورنکاح حلالہ کے باطل ہونے پر یقین رکھتے ہیں ؛ اور اعمال میں نیت کو شرط نہیں سمجھتے۔ ادنیٰ قسم کے حیلوں سے اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کر لیتے ہیں ۔ مثال کے طور پر ادنیٰ قسم کے حیلہ سے شفعہ کے حق کو ساقط کردیتے ہیں ۔ اور حرام چیزیں جیسے زنا؛ جوا؛ اور سفاح کو حیلوں سے حلال کر لیتے ہیں ؛ ایسے ہی حیلوں سے زکاۃ کو ساقط کرتے ہیں ۔ اور عقد میں قصد کو معتبر نہیں سمجھتے۔ اور حدود کو معطل کرتے ہیں ؛ حتی کہ ملک کی سیاست صرف ان کی رائے کے مطابق ہو جائے۔پس یہ لوگ کھانے یا پھل کی چوری اور مباح چیز کی چوری پر چور کا ہاتھ نہیں کاٹتے ۔اوروہ کسی شرابی پر حد نہیں لگاتے حتی کہ وہ اقرار کرلے؛ یا پھر اس پر گواہی قائم ہوجائے۔ وہ کسی کو الٹی کرتا دیکھ کر؛ یا شراب کی بو پاکر حد نہیں لگاتے۔ جب کہ خلفائے راشدین اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اس کے خلاف ہے۔اور بھاری چیز سے قتل کرنے پر قصاص کو واجب نہیں کہتے۔اور نہ ہی قاتل کے ساتھ ویسا سلوک کرتے ہیں جیسا اس نے مقتول کے ساتھ کیا ہے۔ بلکہ بسا اوقات ظالم نے مظلوم کا ہاتھ اور پاؤں کاٹے ہوتے ہیں ؛ اور اس کا پیٹ چاک کیا ہوتا ہے۔مگریہ لوگ صرف اس کی گردن زنی کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔اور کسی ذمی کافر کے بدلہ میں کسی بہترین مسلمان کو بھی قتل کردیتے ہیں ۔ مہاجرین و انصار اور اہل ذمہ کفار کی دیت کو برابر سمجھتے ہیں ۔اور جو کوئی اپنی کسی محرم جیسے ماں یا بیٹی سے وطی کر لے ؛اوروہ اس کا حکم جانتا بھی ہو؛ اس سے حد کو محض عقد کی صورت کی وجہ سے ساقط قرار دیتے ہیں ۔مزید برآں وہ منافع کے کرایہ کو ساقط قرار دیتے ہیں ۔ اور مزدلفہ اور عرفات کے علاوہ کہیں بھی دو نمازیں اکٹھی پڑہنے کے قائل نہیں ہیں ۔ اورنہ ہی فجر کو اندھیرے میں پڑہنا مستحب سمجھتے ہیں ۔اور نہ ہی سری رکعات میں امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی تلاوت کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی رات سے روزہ کی نیت کرلینے کو واجب کہتے ہیں ؛ حالانکہ انہیں علم ہوتا ہے کہ کل رمضان ہے۔اور مشاع کے وقف اور ہبہ اور گروی رکھنا جائز نہیں سمجھتے۔گوہ اور گھوڑے کو حرام کہتے ہیں ؛ جنہیں اللہ اوراس کے رسول نے حلال ٹھہرایا ہے۔ اور اس نشہ آور چیز کو حلال کہتے ہیں جسے اللہ اوراس کے رسول نے حرام ٹھہرایا ہے۔ ان کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ عصر کا وقت اس شروع نہیں ہوتا جب ہر چیز کا سایہ اس کا دگنا ہو جائے؛ اور کہتے ہیں : بیشک نماز فجر طلوع کے ساتھ باطل ہو جاتی ہے۔ اور قرعہ کو جائز نہیں سمجھتے۔ اورحدیث مصراۃ کو قبول نہیں کرتے؛ اور نہ ہی مشتری کے مفلس ہونے جانے پر اس کی بات مانتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں : جمعہ اوردیگر نماز ایک رکعت سے کم پر بھی ان کا ادراک ہو سکتا ہے۔ اور ایک یا دو یوم کی مسافت پر نماز کی قصر کو جائز نہیں سمجھتے؛ اور نماز کو اس کے وقت سے مؤخر کرنے کو جائز سمجھتے ہیں ۔
ایسے بعض فقہائے حدیث کے متبعین کا حال ہے۔ اگر ان میں سے بعض لوگ یہ کہیں کہ ہم سنت کے بڑے متبع ہیں ؛ بیشک ہم صحیح حدیث کی اتباع کرتے ہیں ؛ جبکہ تم لوگ ضعیف حدیث پر عمل کرتے ہو۔ ان کے مقابلہ میں دوسرے لوگ کہیں : بیشک ہم صحیح حدیث کے تم سے بڑے عالم؛ اور تمہاری نسبت جو کہ ضعیف راویوں سے روایت کرتے ہیں ؛ اور ان کی صحت کا اعتقاد رکھتے ہیں ؛ سے بڑے متبع ہیں ۔وہ گمان کرتے ہیں کہ بیشک یہ چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے؛ حالانکہ وہ آپ سے ثابت نہیں ہوتی۔ جیسا کہ یہ گمان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھارسفر میں پوری نماز پڑھ لیا کرتے تھے۔ اوریہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں رکوع کے بعد قنوت نازلہ پڑھتے رہے؛ حتی کہ اس دنیا سے تشریف لے گئے۔ اوریہ کہ آپ نے مطلق حج کا احرام باندھا تھا۔ جس میں آپ نے تمتع یا قران یا افراد کی نیت نہیں کی تھی۔ اوریہ کہ مکہ صلح کے ذریعہ فتح ہوا۔ اوریہ کہ جو کچھ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما اور دیگر نے جو جائداد کی تقسیم ترک کردی تھی ؛ یہ متناقض ہے۔ یہ مفقود کے بارے میں خلفائے راشدین اور صحابہ کرام جیسے حضرت علی اور ابن عمر رضی اللہ عنہم کے حکم اور فیصلہ کے خلاف ہے اور ضعیف راویوں سے منقول کئی ایک احادیث سے استدلال کرتے ہیں ۔
جب ہم یہ کہتے ہیں : ضعیف حدیث رائے سے بہتر ہے۔ اس سے مراد وہ ضعیف حدیث نہیں ہوتی جو کہ متروک ہے۔لیکن اس سے مراد حدیث ِحسن ہوتی ہے۔ جیساکہ حضرت عمرو بن شعیب کی اپنے باپ اور ان کی اپنے والد سے روایت اور حضرت ابراہیم ہجری کی روایت؛ اور ان کی امثال دیگروہ احادیث جنہیں امام ترمذی صحیح یا حسن کہتے ہیں ۔ امام ترمذی سے قبل اصطلاح میں حدیث کی صرف دو اقسام تھیں : صحیح اور ضعیف ۔ اورپھر ضعیف کی دو اقسام تھیں : متروک اورغیر متروک۔ تو ائمہ حدیث اس اصطلاح کے اعتبار سے بات کرتے تھے۔ پھر ان کے بعد ایسے لوگ آئے جوصرف امام ترمذی کی اصطلاح کو ہی جانتے تھے۔ تو انہوں نے جب بعض ائمہ کا یہ قول سنا کہ: ’’ضعیف حدیث ہمارے نزدیک قیاس سے زیادہ محبوب ہے۔ تو ان لوگوں نے یہ گمان کر لیا کہ اسے سے مراد وہ احادیث ہیں ؛جنہیں امام ترمذی جیسے لوگ ضعیف کہتے ہیں ۔اوروہ ان لوگوں کے طریقہ کو ترجیح دینے لگ گئے جو خیال کرتے ہیں کہ ہم صحیح احادیث کی اتباع کرنے والے ہیں ۔اس مسئلہ میں وہ ان متناقضین میں سے ہوتا ہے جو کسی چیز کو دوسری ایسی چیز پر ترجیح دیتے ہیں جو خود ترجیح کی زیادہ حق دار ہوتی ہے۔اس سے کسی بھی طرح کم نہیں ہوتی۔
یہی حال مشائخ طریقت کا ہے؛ جب ان میں سے کوئی ایک کسی ایسے شیخ پر طعنہ زنی کرناچاہتا ہے جس کی کوئی دوسرا تعظیم و تکریم کرتا ہو؛ حالانکہ وہ تعظیم کا زیادہ مستحق اور قدح سے زیادہ دورہوتا ہے۔ جیسے وہ لوگ جو ابو یزید اور شبلی وغیرہ کو افضلیت دیتے ہیں ؛ جو ان سے احوال کی حکایات نقل کرتے ہیں ؛وہ جنید اور اور سہل بن عبداللہ تستری جیسوں پر تنقید کرتے ہیں ؛ جو کہ زیادہ استقامت پر اوربلند مقام و مرتبہ والے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ جہالت کی بنا پر کسی کے عظیم انسان ہونے کے صرف دعوی کو اس کی فضیلت کا موجب قرار دیتے ہیں ۔ اور یہ نہیں جانتے کہ اس کا آخری انجام یہ ہے کہ یہ انسان خطاؤں سے مغفورلہ ہو؛ نہ کہ اس کی سعی مشکورانہ ہو۔ جو کوئی بھی عدل اور علم کی راہ پر نہیں چلتا ؛ نتیجہ میں اسے ان تناقضات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ لیکن انسان کی وہی حالت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان گرامی ہے:
{ وَ حَمَلَہَا الْاِنْسَانُ اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَہُوْلًاo لِّیُعَذِّبَ اللّٰہُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَالْمُنٰفِقٰتِ وَالْمُشْرِکِیْنَ وَ الْمُشْرِکٰتِ وَ یَتُوْبَ اللّٰہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo}
(الاحزاب۳۷]
’’ اور انسان نے اسے اٹھا لیا، بلاشبہ وہ ہمیشہ سے بہت ظالم، بہت جاہل ہے ؛تاکہ اللہ منافق مردوں اور منافق عورتوں اور مشرک مردوں اور مشرک عورتوں کو عذاب دے اور (تاکہ) اللہ مومن مردوں اور مومن عورتوں کی توبہ قبول کرے اور اللہ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔‘‘
پس انسان ظالم اور جاہل ہی ہے؛ سوائے اس کے جس پر اللہ تعالیٰ رحم فرمادے۔