حدیث ولایت
علامہ ڈاکٹر خالد محمود رحمہ اللہحدیث ولایت
حدیث ولایت میں من كنت مولاه فعلی مولاه گو اہل سنت کی کتابوں میں اہلِ سنت راویوں سے کسی سند صحیح سے ثابت نہیں۔ مگر چونکہ یہ فضائل کے ابواب میں سے ہے، عقائد کے باب میں نہیں۔ اس لیے یہ عام مشہور زبان زد عام و خاص ہے۔ اس بحث کے ضمن میں کئی آیت اللہ اس آیت تبلیغ کو بھی لے آتے ہیں حالانکہ غدیر خم کے قیام میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کوئی آیت نازل نہیں ہوئی جسے وحی متلو کہا جا سکے یا آگے اس کی تلاوت جاری ہوئی ہو۔
بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ مِنۡ رَّبِّكَ وَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلۡ فَمَا بَلَّغۡتَ رِسٰلَـتَهٗ وَاللّٰهُ يَعۡصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (سورۃ المائدہ : آیت 67)
ترجمہ: اے رسول! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے اس کی تبلیغ کرو۔ اور اگر ایسا نہیں کرو گے تو (اس کا مطلب یہ ہوگا کہ) تم نے اللہ کا پیغام نہیں پہنچایا۔ اور اللہ تمہیں لوگوں (کی سازشوں) سے بچائے گا۔
یہاں صرف اتنا جان لینا کافی ہے کہ اس آیت سے پہلے اور بعد میں دونوں جگہ اہل کتاب کا ذکر ہے اور رسول اللہﷺ کے بین الاقوامی غلبہ کا ذکر ہے کسی خلافت کا کوئی ذکر نہیں۔
قرآن کریم کی اس آیت کی وضاحت اس کے اپنے سیاق و سباق کے ساتھ ہونی چاہیے۔
مذکورہ حدیث میں کہ جس کا دوست میں ہوں علی بھی اس کا دوست ہے۔ (ولایت) دوستی میں ہے کہ کسی طرح تو علی سے دور نہ جا۔ اس روایت کے بعض طرق میں یہ بھی ہے کہ: اے اللہ تو اس سے محبت کر جو اس سے محبت رکھے اور اس سے دوری رکھ جو اس سے دور رہے۔ سو اس میں کوئی تردد نہیں رہتا کہ یہ حدیث دوستی اور محبت کے باب میں ہے خلافت کے باب میں نہیں اس ضعیف روایت کو اہلِ سنت محدثین بھی عام بیان کرتے رہے کیوں کہ ضعیف حدیث فضائل اعمال میں عام قبول کی جاتی ہے۔ ہاں عقائد کے لیے مضبوط دلیل کی ضرورت ہوتی ہے، جو یہاں نہیں ہے۔
آٹھویں صدی ہجری کے دو بڑے عالم حافظ ابنِ تیمیہ رحمۃ اللہ (728ھ) اور حافظ جمال الدین الزیلعی رحمۃ اللہ (762ھ) اس حدیث کے صحیح نہ ہونے کی یہ شہادتیں دے چکے۔
1) فلا يصح من طريق الثقاث اصلاً
(منہاج السنتہ طبع قدیم: جلد 4 صفحہ 86 طبع جدید)
ترجمہ: یہ روایت ثقہ اور معتبر طریقہ سے بنیادی طور پر ثابت نہیں ہے۔
2) احادیث الجھر وان کثرت رواتھا لکنھا کلھا ضعیفۃ وکم من حدیث کثرت رواتہ وتعددت طرقہ وھو حدیث ضعیف کحدیث الطیر وحدیث الحاجم والمحجوم وحدیث من کنت مولا فعلی مولاہ بل قد لا یزید کثرۃ الطرق الا ضعفاً (نصب الرایہ: جلد 1 صفحہ 360)
ترجمہ: نماز میں بسم اللہ بالجہر پڑھنے کی روایات اگرچہ بہت ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔ اور کتنی ہی روایات ہیں جن کے روای بہت ہیں۔ اور متعدد طرق رکھتی ہیں مگر وہ ضعیف ہیں جیسے حدیث الطیر اور حدیث افطر الحاجم و المحجوم و حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ بلکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کثرت طرق بجائے اس کے کہ اس کے نقصان کو پورا کرے اس کے ضعف کو اور بڑھا دیتا ہے۔
اب اس پر بھی کچھ توجہ کیجیئے کہ حدیث من کنت مولاہ فعلی مولاہ جس طرح سنداً ضعیف ہے اس کی دلالت بھی اپنے موضوع پر کہ اس سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کی جائے ہر گز صریح اور واضح نہیں ہے۔ یہ سوال نہ کیا جائے کہ آٹھویں صدی سے پہلے کے کسی معروف محدث سے اس کی تضعیف ثابت ہے؟ اگر ہے تو اس پر بھی کچھ روشنی ڈالی جائے۔
الجواب:
حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ نے جو اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے وہ ان کا اپنا وجدان نہیں انہوں نے اسے تیسری صدی کے امام بخاری رحمۃ اللہ اور ابرہیم الحربی رحمۃ اللہ (285ھ) اور بھی اس دور کے اور کئی محدثین سے لیا ہے۔
حافظ ابنِ تیمیہؒ لکھتے ہیں:
تنازع الناس في صحته فنقل عن البخارى وابراهيم الحربى وطائفة من اهل العلم بالحديث انهم طعنوا فيه و ضعفوة وقال ابو محمد بن حزم واما من كنت مولاه فعلی مولاہ فلا يصح من طريق الثقات اصلاً (منہاج السنہ: جلد 1 صفحہ 320)
ترجمہ: اس حدیث کی صحت میں علماء کا اختلاف چلا آ رہا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ اور امام ابراہیم الحربی رحمۃ اللہ اور اہل علم کے ایک پورے گروہ نے اس حدیث پر کلام کیا ہے اور انہوں نے اس حدیث کی تضعیف کی ہے۔ اور امام ابن حزم رحمۃ اللہ نے کہا ہے کہ من كنت مولاه فعلی مولاہ بنیادی طور پر ثقہ راویوں سے کوئی تعلق نہیں رکھتی۔
اور امام ابو داؤد صاحب السنن رحمۃ اللہ ( 275ھ) اور امام ابو حاتم الرازی رحمۃ اللہ (327ھ) نے بھی اس کی صحت میں کلام کیا ہے۔ عمدۃ المحدثین علامہ ابنِ حجر مکی رحمۃ اللہ (973ھ) لکھتے ہیں:
الطاعنون فی صحته جماعۃ من ائمہ الحدیث و عدوله المرجوع الیھم کابی داؤد السجستانی وابی حاتم الرازی وغیرھم۔(الصواعق المحرقہ: 107 فصل 5)
ترجمہ: اس کی صحت میں ائمہ حدیث کی ایک جماعت نے کلام کیا ہے اور ان عادلین نے جن کی طرف (تحقیق حدیث میں) رجوع کیا گیا ہے۔ جیسے امام داؤد سجستانیؒ (275ھ) اور ابو حاتم الرازیؒ (327ھ)۔
اس پر پھر ایک سوال ابھرتا ہے کہ حافظ ابنِ حجر رحمۃ اللہ نے اس روایت کے کئی ان راویوں کی توثیق کی ہے جنہیں بعض دوسرے محدثین ضعیف کہتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ حافظ ابنِ حجرؒ نے اس کے بعد جب حافظ جمال الدین الزیلعی رحمۃ اللہ (762ھ) کی کتاب نصب الرایہ دیکھی تو اس کی روشنی میں حافظ اب اپنے اس بیان پر نہ رہے اور انہوں نے نصب الرایہ کی تجرید الدرایہ میں اور اپنی تجرید تہذیب التقریب میں کھل کر اپنے بعض رواۃ کو جنہیں پہلے وہ ثقہ سمجھتے تھے ضعیف لکھا ہے۔
نا مناسب نہ ہو گا کہ ہم اثناء عشریوں کی دو شہادتیں اس پر کہ اس حدیث ولایت کی دلالت بھی موضوع خلافت پر واضح اور صریح نہیں پیش کر دیں۔ یہ ان کے دو بزرگ کتاب الاحتجاج کے مصنف علامہ طبرسی اور شرح تجرید کے مصنف علامہ طوسی ہیں۔ پہلے علامہ طبرسی کی شہادت لیجیے:
اثبت حجۃ اللہ تعریضاً لا تصریحاً بقوله فی وصیتہ من کنت مولاہ فعلی مولاہ (کتاب الاحتجاج: صفحہ 135طبع نجف اشرف)
ترجمہ: اس روایت (کہ جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے) کی دلالت حجتہ اللہ ہونے پر حضرت علیؓ صریح نہیں اس میں اس پر صرف تعریض پائی جاتی ہیں۔
2) اختلفوا فی دلالته علی الامارۃ (شرح تجرید: صفحہ 230طبع قم)
ترجمہ: حدیث ولایت کی دلالت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امیر ہونے پر اختلافی ہے۔
یہ دو بڑے اثناء عشری علماء کا بیان کہ حدیث ولایت سے سیدنا علیؓ کا امیر ہونا صریح اور کسی متفق علیہ پیرائے میں نہیں ملتا۔ یہ طالبان تحقیق کو اثناء عشریوں کی پیش کردہ اور کئی دوسری روایات پر بھی مزید غور کرنے پر مجبور کرتا ہے اور انہیں ان میں ایک روایت بھی ایسی نہیں ملتی جس کا ثبوت بھی قطعی ہو۔ درجہ احاد کی روایت سے نہ ہو اور اس کی دلالت بھی سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہ امیر ہونے پر قطعی ہو اور ظاہر ہے کہ عقائد قطعی اور یقینی دلائل سے قائم ہوتے ہیں ظنی امور سے نہیں۔
اب ہم حدیث غدیر خم کے مضمون پر بھی کچھ مزید غور کریں۔ آپﷺ نے بمقام غدیر خم دو خطبے دیے تھے
بمقام غدیر خم کے دو خطبے:
- وہ خطبہ جو صحیح مسلم میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کی روایت سے انی تارک فیکم الثقلین کہ عنوان سے مروی ہے۔ اس میں اولھما تو مذکور ہے لیکن ثانیھما کا لفظ کہیں نہیں ملتا۔ اسے سیدنا زید بن ارقمؓ نے اپنی کبر سنی میں بھول گئے اور آپ کے پاس آنے والے تین تابعین میں سے کسی نے آپ سے پوچھنے کی ہمت نہ کی اس واسطے اس کا مضمون کچھ ادھورا ہی رہ گیا اور ظاہر ہے کہ اس کی تشنگی ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی۔
- دوسرا خطبہ حدیث ولایت کا ہے۔ من کنت مولاہ فعلی مولاہ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جب حضورﷺ اپنے سفر حج سے واپسی پر مدینہ جا رہے تھے تو اس سفر میں کسی کا سیدنا علیؓ سے اختلاف ہو گیا اور دونوں آپس میں الجھ پڑے اس پر حضورﷺ نے فرمایا جو مجھے دوست رکھے وہ علی کو بھی دوست رکھے۔ (اس سے نا جھگڑے)
وہ بات کیا تھی جس میں کوئی صحابیؓ سیدنا علیؓ سے اختلاف میں آ گیا تھا؟
ہم نے تاریخ و سیر میں اس بات کو معلوم کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کسی روایت میں اس کا پتہ نہیں ملا۔ ہاں اس روایت سے اتنا ضرور معلوم ہو گیا کہ اس وقت مسلمانوں میں حضرت علیؓ کے مامور من اللہ ہونے یا امام اول ہونے کا کوئی تصور تک نہ تھا اور حضرت علیؓ سے اختلاف کرنا کوئی گناہ نہ سمجھا جاتا تھا ورنہ حضور اکرمﷺ اس پر توبہ کا حکم ضرور صادر فرماتے۔ اس روایت سے حضرت علی المرتضیٰؓ کے معصوم ہونے کی بھی پوری نفی ہو جاتی ہے کیوں کے معصوم سے کوئی اختلاف نہیں کیا جا سکتا یہ گناہ ہے اگر کسی سے صادر ہو تو اس کو توبہ کرنے کا کہا جائے گا۔
اگر اس بات کا پتہ چل جاتا جس میں اس صحابیؓ یا بعض صحابہؓ کا حضرت علیؓ سے اختلاف ہوا تو اس سے یہ بھی پتہ چل جاتا کہ اس تنازعہ میں حق پر کون تھا؟
بعض غیر مسلم یہاں یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ ان کے اس تنازع کا فیصلہ حضورﷺ نے اس کے حقائق اور دلائل سے کیوں نہ کیا؟ اس کے لیے علی سے اپنے تعلق کا واسطہ کیوں دیا؟
آپﷺ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک خاندان کا رشتہ بھی تھا۔ اور ایمان کا رشتہ بھی تھا تو اس حدیث ولایت سے بظاہر یہی سمجھ آتا ہے کہ شاید اس تنازعہ میں وہ دوسرے صحابیؓ جو حضرت علیؓ سے کسی بات سے الجھ پڑے تھے حق پر ہوں پھر بھی حضرت محمدﷺ نے علیؓ سے اپنا حق محبت ظاہر فرمایا جس سے اہل سنت نے یہ عقیدہ اختیار کیا کے اہل بیت کی محبت ہر مسلمان پر لازم ہے۔ مستشرقین مسلمانوں سے جب کبھی حضورﷺ کی سیرت پر نزاع کرتے ہیں تو برملا پوچھتے ہیں کہ آپﷺ جن باتوں کو عام مسلمانوں کے لیے جائز فرماتے تھے اپنے گھر کی باری آئی تو آپ (معاذ اللہ) اس میں دوسری رائے قائم کر لیتے تھے۔ آپ نے غدیر خم کے تنازعہ میں امر واقع پر فیصلہ نہ دیا۔ ان اختلاف کرنے والوں کو اپنے حقِ محبت کا احساس دلایا۔ اپنی امت کے لیے تو چار بیویوں کو جائز ٹھہرایا لیکن جب حضرت علیؓ نے ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا تو آپﷺ نے انہیں اس سے منع فرما دیا۔ ہم جواباً ان متشرقین کو کہتے ہیں حضورﷺ نے اپنی امت کو اپنے بارے میں سب سے زیادہ محبت کرنے کا سبق اس لیے دیا تھا کے اس محبت کی رو سے ان پر حضورﷺ کی پیروی اور شر یعت کی پابندی آسان ہو جائے۔ شریعت پر عمل کرنا ان کے لیے بوجھ نہ رہے۔ اب حضورﷺ کی انتہائی محبت کا ایک تقاضا یہ بھی تھا آپ کی امت کو آپﷺ کے رشتے داروں سے محبت ہو۔ حدیث ولایت میں اس سے بڑھ کر آپﷺ نے علی کے حق میں کوئی اور بات نہ کی۔
رہی دوسری بات کہ جب حضرت علیؓ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی زندگی میں ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہا تو آپﷺ نے اس سے علی کو منع فرمایا۔ یہ منع کی روایت ہماری نظر میں کہیں سے نہیں گزری۔ آپﷺ نے صرف یہ فرمایا تھا کہ اگر علی ابو جہل کی بیٹی سے نکاح کرنا چاہتا ہے تو فاطمہ کو طلاق دے دے۔ اللہ کے پیغمبر کی بیٹی اور اللہ کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں۔
اس وقت ہم حضور ﷺ کی سیرت مقدسہ پر بات نہیں کر رہے یہ بات صرف ضمناً سامنے آگئی تھی۔ بات حدیث ولایت پر ہو رہی ہے، اس میں لفظ مولا ولایت سے ہے اور اس کا معنی ہے دوستی اور دوستی کا لفظ دشمنی کے مقابل ہے۔ اگر یہ حدیث صحیح ہو تو اس کا حاصل حضرت علیؓ سے دوستی رکھنے کی طلب ہی ہے۔ یہ کوئی ان کی خلافت کی طلب نہیں اور اس کا قرینہ آخر میں حضورﷺ کی یہ دعا ہے:
اللھم وال من والاہ و عاد من عاداہ
ترجمہ: اے اللہ! تو اس سے محبت رکھ جو اس سے محبت رکھے اور اس سے عداوت رکھ جو اس سے عداوت رکھے۔
یہ آپﷺ نے علی کے حق میں جو دوستی چاہی تھی اس پر کوئی امر زائد نہیں ہے یہ صرف اس کی تفصیل ہے یہاں ولایت علی صرف ان کی دوستی کے معنی میں ہے، خلافت کا اس موضوع سے کوئی تعلق نہیں۔
اس حدیث کا آیت تبلیغ دین سے کوئی تعلق نہیں
جب بمقام غدیر خم حضورﷺ پر کوئی آیت نہیں اتری تو ظاہر ہے کہ یہ آیت تبلیغِ دین کا مقام (بَلِّغۡ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡكَ) غدیر خم سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ نہ اس آیت کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ میرے پیغمبر تو علی کی خلافت کا اعلان ضرور کر۔ اس کی تصدیق اس سے بھی ہوتی ہے آپ نے اپنے مرض وفات میں کاغذ اور قلم طلب فرمایا جس کا مطلب یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔کہ شاید آپ کسی کی خلافت کا حکم لکھوانا چاہتے ہوں۔
اس کی مزید تصدیق اس سے بھی ہو جاتی ہے کہ حضورﷺ کی وفات پر انصار نے سقیفہ بنی ساعدہ میں ایک بڑا اجتماع کیا کہ خلیفہ کا انتخاب انصار میں سے کیا جائے بظاہر یہ صورتحال مہاجرین کے خلاف تھی۔ اس سے بھی یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ غدیر خم کے مقام پر حضرت علیؓ خلافت کا کوئی اعلان نہ ہوا تھا ورنہ یہ صورتحال کبھی واقع نہ ہو پاتی۔ اس سے اس بات میں کوئی شک نہیں رہتا کہ حدیث ولایت کا خلافت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
شیعہ غدیر خم کے اس خطبے سے جو حدیثِ ولایت میں ہے اس قدر خوش ہیں کہ اس خوشی میں عید مناتے ہیں اور اس کا نام یہ بتایا جاتا ہے عید غدیر خم، اس کے لیے انہوں نے دن بھی کونسا چنا؟ 18 ذو الحجہ اور ہماری عوام یہ نہیں جانتے کہ یہ خلیفہ راشد امام مظلوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کا دن ہے۔
اب اس تاریخ پر دو چیزیں جمع ہوگئیں
- سیدنا عثمان غنیؓ کی شہادت کا غم
- اور عید غدیر خم کی خوشی
اب یہ حضرت عثمانؓ کی شہادت کی خوشی اور حضرت علیؓ کے بمقام غدیر خم خلیفہ مقرر ہونے کی خبر ایک ہی دن یعنی 18 ذو الحجہ کی دو تاریخی یادیں ہیں۔ یہ وہ تاریخی تضاد ہے جس نے آج تک اہل سنت اور شیعہ کو کبھی متحد نہیں ہونے دیا آج بھی اگر اثناء عشری یہ بات مان لیں کہ 18 ذو الحجہ کو غدیر خم عید کی خوشی منانا دراصل سیدنا عثمان غنیؓ سے ان کی اپنی اعتقادی برأت کا اظہار ہے۔ یہ سیدنا علیؓ کی خلافت کی نامزدگی نہیں۔ تو اہل سنت اور شیعہ آج بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو سکتے ہیں لیکن کیا کریں اثناء عشری اب تک اپنے اس عقائد سے یہ بات نکالنے کو تیار نہیں کہ پہلے تین خلفائے راشدینؓ سے بغض رکھنا ان کے ہاں واجبات ایمان میں سے ہے۔
حدیث ولایت کے بارے میں یہ آخری بات تھی جو ہم نے ہدیہ قارئین کر دی ہے۔ یہ اسی طرح ہے جیسے جاہل مسلمانوں میں بائیس رجب کو حلوہ پوری کے کنڈے نکالنے کی ایک چھپی رسم جاری کر دی گئی اور پھر تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا یومِ وفات تھا جس کی خوشی کا اظہار اس چھپے انداز میں جاہل مسلمانوں میں لایا جاتا ہے۔