بئر رومہ
علی محمد الصلابیبئرِ رومہ
جس وقت رسول اللہﷺ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے وہاں میٹھے پانی کی بڑی قلت تھی، بئرِ رومہ کے علاوہ کوئی کنواں نہ تھا جہاں سے میٹھا پانی حاصل کیا جا سکے، اس موقع پر رسول اللہﷺ نے فرمایا: من یشتری بئر رومۃ فیجعل دلوہ مع دلاء المسلمین بخیر لہ فی الجنۃ۔
(صحیح النسائی للألبانی: جلد، 2 صفحہ، 766)
ترجمہ: ’’جو بئرِ رومہ کو خرید کر مسلمانوں کے لیے عام کر دے اس کو جنت میں اس سے بہتر ملے گا۔‘‘
اور آپﷺ نے فرمایا: من حفر بئر رومۃ فلہ الجنۃ۔
(صحیح البخاری: صفحہ، 2778۔ تعلیقًا)
ترجمہ: ’’جو بئرِ رومہ کو کھودے اس کے لیے جنت ہے۔‘‘
مدینہ میں نبی کریمﷺ کی آمد سے قبل رومہ کا پانی لوگ خرید کر پیا کرتے تھے۔ جب مہاجرین مدینہ پہنچے تو انہیں پانی کی ضرورت پڑی۔ بنی غفار میں سے ایک شخص کے پاس پانی کا ایک چشمہ تھا، جس کو رومہ کہا جاتا تھا، اور وہ ایک مشک ایک مد میں بیچتا تھا۔ نبی کریمﷺ نے اس سے کہا: تبیعہا بعین فی الجنۃ۔
ترجمہ: ’’کیا تم اس کو جنتی چشمے کے عوض بیچو گے؟‘‘
اس نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میرے اور میری اولاد کے لیے اور کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، یہ بات جب سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو انہوں نے اسے 35 ہزار درہم میں خرید لیا، پھر نبی کریمﷺ کے پاس آئے اور عرض کیا: کیا مجھے بھی وہی ملے گا جو آپﷺ نے اس شخص کے لیے فرمایا تھا؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں، سیدنا عثمانؓ نے عرض کیا: میں نے اس کو مسلمانوں کے لیے عام کر دیا ہے۔
(تحفہ الاحوذی بشرح الترمذی، المبارکفوری: صفحہ، 196)
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ ایک یہودی کا کنواں تھا جس کا پانی وہ مسلمانوں کو بیچتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کو بیس ہزار درہم میں خرید کر غنی و فقیر اور مسافر سب کے لیے عام کر دیا۔
(فتح الباری: جلد، 5 صفحہ، 408 الحکمۃ فی الدعوۃ الی اللہ: صفحہ، 231)