یزید کی ولی عہدی
مولانا محمد نافعیزید کی ولی عہدی
شیعہ حضرات یزید کے مسئلے میں سیدنا امیر معاویہؓ پر بہت کچھ اعتراضات کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہؓ کا اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ منتخب کرنا درست نہیں تھا اس طریقہ سے خلفائے راشدینؓ کا انہوں نے خلاف کیا اور مخالفین اسلام قیصر و کسریٰ کے طریقہ کو رواج دیا اس وجہ سے امت میں بڑے مفاسد کھڑے ہوئے آپ نے قوم کو غلط راہ پر ڈال دیا یہ کام انہوں نے ذاتی مفاد اور حفاظت اقتدار کی خاطر سر انجام دیا تھا جو امر مذموم تھا۔
یاد رکھیں اس معاملہ میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یزید صحابی نہیں ہے اس لیے اس سے متعلق کسی قسم کے الزام کا جواب دینے کے ہم ذمہ دار نہیں اور نہ ہی ہم اس کی ضرورت سمجھتے ہیں اپنے کاموں کا یزید خود ذمہ دار ہے۔
آپ کو اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھانے کے لیے چند امور ذکر کیے جاتے ہیں ان پر توجہ فرمائیں امید ہے قابل اطمینان ہوں گے۔
(1)۔ یزید کی جانشینی کے مسئلہ میں پہلے یہ چیز معلوم کرنی چاہیے کہ شرعی طور پر بیٹے کو اپنے والد کی جگہ پر والی و حاکم منتخب کرنا جائز ہے یا نہیں؟ تو اس کے متعلق یہ چیز واضح ہے کہ نصوصِ قرآنی اور احادیث صحیحہ کے اعتبار سے یہ صورت منع نہیں بلکہ جائز ہے شیعہ حضرات اس مسئلہ پر اپنی کتابوں سے بھی کوئی سند نہیں لا سکتے کہ بیٹے کو جانشین بنانا ناجائز ٹھہرے اگر شرعی قوانین اور آئین کی رُو سے بیٹے کو باپ کی جگہ پر والی منتخب کرنا ناجائز ہوتا تو سیدنا حسنؓ کو اس دور کے اکابر نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے قائم مقام کیسے منتخب کر لیا؟ انہیں کیوں یہ خیال نہ آیا کہ اس طرح امت ایک غلط راہ پر چل پڑے گی۔
بلکہ روایات میں اس طرح موجود ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ کے دفن سے فراغت کے بعد خود سیدنا حسنؓ نے لوگوں کو اپنی بیعت کی طرف دعوت دی اور بلایا اس پر لوگوں نے سیدنا حسنؓ کی بیعت کی "ثم التصرف بالحسن بن علىں من دفنه فدعا الناس إلى بيعته فبايعوه"۔
(طبقات ابنِ سعد صفحہ 25 جلد 3)
یہاں سے واضح ہوگیا کہ والد کی جگہ اس کے فرزند کو والی اور حاکم بنانا درست ہے یہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں اور نہ یہ قیصر و کسریٰ کے طریق کی اتباع ہے اور جو لوگ دن رات (وَ وَرِثَ سُلَیْمٰنُ دَاوٗدَ) پڑھتے ہوں وہ اس قسم کی غلط بات کیسے کہہ سکتے ہیں البتہ انتخاب میں اس کی اہلیت شرط ہوتی ہے اور اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
یزید کو جانشین بنانے کی وجہ:
ظاہر بات ہے کہ اتنی عظیم سلطنت کے نظم و انتظام کو قائم رکھنے اور اس کے استحکام کی بڑی ضرورت تھی اس بنا پر سیدنا امیر معاویہؓ نے اپنا جانشین اور ولی عہد تجویز کرنے کی طرف توجہ کی اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر اپنے بیٹے یزید کو اس منصب کے لیے مناسب سمجھا سیدنا امیر معاویہؓ نے اپنے ولی عہد کے انتخاب کے سلسلہ میں جو صورت اختیار فرمائی وہ ان کے خیال میں اس دور کے حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تھی سیدنا معاویہؓ کی دیانت دارانہ رائے تھی کہ یزید امور مملکت میں بہتر ہے۔
چنانچہ ابوزید عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الله بين التونسى الحضري المسالمی المعروف ابنِ خلدون ( 808 ھ) لکھتے ہیں۔
والذي دعا معاويةؓ الايثار ابنه يزيد بالعهد دون من سواد الما هو مراعاة المصلحة في اجتماع الناس واتفاق اهواعهم باتفاق اهل الحل والعقد عليه حيلتي من بنى أمنية اذ ينو أمية يومثال لا يرضون سواهم وهم عصابة قريش واهل الملة الجمع واهل الغلب ما هم فائره بذلك دون غيره ممن يظن الله اولى بها۔
(مقدمہ ابنِ خلدون تحت الفصل الثلاثون ضینولایۃ العبد)۔
ترجمہ: جو چیز سیدنا معاویہؓ کو دوسروں کے بجائے یزید کو ولی عہد بنانے کا سبب بنی وہ امت کے اتحاد اور اتفاق کی مصلحت تھی بنوامیہ کے ارباب حل و عقد ہی پر متعلق ہوسکتے تھے اس وقت وہ اپنے علاوہ کسی اور کے خلیفہ بنے پر راضی نہیں ہوتے تھے وہ قریش کا سب سے مضبوط گروہ تھے اور اہلِ ملت کی اکثریت انہی سے تعلق رکھتی تھی اس لیے سیدنا معاویہؓ نے یزید کو ان لوگوں پر ترجیح دی جن کے بارے میں گمان کیا جاتا تھا کہ وہ خلافت کے اہل ہیں۔
دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ سیدنا معاویہؓ دیکھ رہے تھے کہ اس وقت حکومت کا دارو مدار بنوامیہ اور اہلِ شام سے باہر کسی افضل شخص کو ولی عہد بنا دیا تو یہ امت کے لیے خانہ جنگی کا باعث بنے گا۔
جہاں تک یزید کے فسق و فجور کا معاملہ ہے سیدنا امیر معاویہؓ کی زندگی میں یزید کا فسق اور فجور اس حد تک ظاہر نہیں ہوا تھا جتنا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا جن روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یزید سیدنا امیر معاویہؓ کی زندگی میں ان حرکتوں کا عادی تھا وہ ضعیف اور مشکوک ہیں اگر وہ روایات درست مان بھی لی جائیں تو پھر بھی یزید ولی عہد بیٹے تک ایسا کُھلم کُھلا بدکردار نہ تھا کہ اسے ولی عہد بنانے کی سرے سے گنجائش ہی نہ ہوتی خصوصاً جس وقت یزید کو ولی عہد بنایا جارہا تھا اس وقت یزید کی شُہرت اس حیثیت سے نہیں تھی جس حیثیت سے آج ہے ظاہر ہے اس وقت وہ ایک صحابی اور خلیفہ وقت کا صاحبزادہ تھا اس کے ظاہری حالات نماز روزہ کی پابندی اور اس کی انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر یہ رائے قائم کرنے کی پوری گنجائش تھی کہ وہ خلافت کا اہل ہے اس وجہ سے دیگر جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین بھی یہی رائے رکھتے تھے اور سیدنا معاویہؓ کی بھی یہی رائے تھی۔
1۔ تاریخ طبری جلد 7 صفحہ 78 مطبوعہ خیاط بروت
سیدنا معاویہؓ کے یہ الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ وہ کسی ذاتی برتری کے تصور یا رشتے کی بنا پر یزید کو افضل نہیں سمجھ رہے تھے بلکہ ان کی دیانت دارانہ رائے یہی تھی اس کے علاوہ متعدد تواریخ میں منقول و خیر کہ انہوں نے ایک خطبہ میں یہ دعا فرمائی کہ "اے اللہ" اگر میں نے یزید کو اس کی فضیلت دیکھ کر ولی عہد بنایا ہے تو اسے اس تک پہنچا دے جس کی میں نے اس کے لیے امید کی ہے اور اس کی مدد فرما اور اگر کام پر صرف یہ محبت نے امادہ کیا خیر جو باپ کو بیٹے سے ہوتی ہے تو اس کے خلافت تک پہنچنے سے پہلے اس کی روح قبض کر لے۔"
1۔ الذھبی تاریخ الاسلام جلد 2 صفحہ 297
سیدنا معاویہؓ کی اس پر خلوص دعا کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یزید کو نااہل سمجھنے کے باوجود مخلص دین ہونے کی وجہ سے خلافت کے لئے نامزد کیا تھا تو اتنا بڑا الزام ہے جس کو کسی کے سر تھوپنے کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے کسی شخص کی نیت پر حملہ کرنا زندگی میں بھی شریعت نے جائز قرار نہیں دیا چہ جائیکہ اس کی وفات کے چودہ سو (1400) برس بعد اس ظلم کا ارتکاب کیا جائے۔
کیا سیدنا معاویہؓ نے لوگوں سے یزید کی بیعت زبردستی کروائی؟
شیعہ کی طرف سے دوسرا اعتراض کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے زبردستی و ظلم و تعدی وغیرہ سے اپنے بیٹے کے لیے بیعت خلافت حاصل کی تو اس سلسلہ میں اتنی گزارش ہے کہ درحقیقت بیعت یزید کا مسئلہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ کے درجہ میں تھا جو سیدنا امیر معاویہؓ کی طرف سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا اور اس میں معمول کے مطابق اختلاف رائے بھی ہوا سیدنا امیر معاویہؓ اس دور کے حالات اور سیاسی و ملی مصالح کے پیش نظر اپنی رائے کو صحیح سمجھتے تھے پھر اس سلسلہ میں لوگوں پر کوئی جبر و زبردستی نہیں کیا گیا حتیٰ کہ شیعہ مؤرخین جو سیدنا امیر معاویہؓ کے سخت مخالف و دشمن ہیں انہوں نے بھی برملا طور پر اپنی تواریخ میں تحریر کیا ہے کہ"وحج معاویهؓ تلک السنه فتالف القوم ولم يكرههم على البيعت"۔
مطلب یہ ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے اس سال حج کیا اور قوم کے ساتھ اُلفت سے پیش آئے اور بیعت (یزید) پر ہرگز کسی کو مجبور نہیں کیا۔
( تاريخ يعقوبي لاحمد بن يعقوب الكاتب المعروف یعقوبی اشیعی صفحہ 329 جلد 2)۔
لہٰذا شیعہ کی طرف سے سیدنا امیر معاویہؓ پر یہ اعتراضات جو قائم کیے گئے ہیں ان میں کچھ صداقت نہیں بالکل بے اصل اور بے سروپا من گھڑت ہیں
خلاصہ کلام:
(مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی رائے بھی یہی ہے کہ) یزید پہلے فاسق نہیں تھا بلکہ بعد میں ہوا چنانچہ سیدنا امیر معاویہؓ نے یزید کی اس صلاحیت کی بنا پر اس کو اپنا ولی عہد منتخب کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا نیز یہ چیز بھی مسلمات میں سے ہے کہ متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے شیرازہ امت کو منتشر ہونے سے بچانے کے لیے یزید کی حکومت کو تسلیم کرلیا تھا یہ بیعت اس لیے نہ تھی کہ وہ یزید کو ہر طرح سے حق دار خلافت سمجھتے تھے بلکہ اس لیے کہ امت مسلمہ میں خوں ریزی نہ ہو اور جس طرح بھی بن پڑے مسلمان ایک جھنڈے کے نیچے مجتمع رہیں یزید کی حکومت کو تسلیم کرنا اس شرط کے ساتھ تھا کہ ان کی اللہ اور رسول اللہﷺ سے بیعت برقرار رہے گی اور وہ حکومت کی کسی ایسی بات کو ہرگز نہیں مانیں گے جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف ہو۔
"بايعنا هذا الرجل على بيعة الله ورسولهﷺ"(بخاری)۔
مذکورہ بالا اشیاء اس چیز کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اس دور میں یزید کے ظاہری اعمال و احوال عموماً اس درجہ کے نہ تھے کہ اس کی مخالفت ضروری ہو اور اسلام کے خلاف اس کا کردار نہیں تھا سیدنا امیر معاویہؓ نے جس دور میں اس کا انتخاب کیا یا اس کی نامزدگی کی تو اس میں اہلیت سمجھ کر ہی ایسا کیا گیا تھا آئیندہ کے لیے کسی کو کیا معلوم ہوتا ہے کہ کیا حالات پیش آئیں گے؟۔
(والغيب عند الله تعالیٰ)