واقعہ کربلا
مولانا اقبال رنگونی صاحبواقعہ کربلا
[واقعہ کربلا شروع ہونے سے پہلے یزید کے بارے جان لیں کہ سیدنا معاویہؓ نے یزید کو جانشین کیوں بنایا؟]
یزید کی ولی عہدی
شیعہ حضرات یزید کے مسئلے میں سیدنا امیر معاویہؓ پر بہت کچھ اعتراضات کرتے ہیں کہ حضرت معاویہؓ کا اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ منتخب کرنا درست نہیں تھا۔ اس طریقہ سے انہوں نے خلفائے راشدینؓ سے اختلاف کیا اور مخالفینِ اسلام یعنی قیصر و کسریٰ کے طریقہ کو رواج دیا، اس وجہ سے امت میں بڑے مفاسد کھڑے ہوئے اور انہوں نے قوم کو غلط راہ پر ڈال دیا، یہ کام انہوں نے ذاتی مفاد اور حفاظتِ اقتدار کی خاطر سر انجام دیا تھا جو کہ غلط کام تھا۔
نوٹ: اس معاملہ میں یہ وضاحت ضروری ہے کہ یزید صحابی نہیں ہے، اس لیے اس سے متعلق کسی قسم کے الزام کا جواب دینے کے ہم ذمہ دار نہیں اور نہ ہی ہم اس کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ اپنے کاموں کا یزید خود ذمہ دار ہے۔
محترم قارئین کرام...! اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھانے کے لیے چند امور ذکر کیے جاتے ہیں، ان پر توجہ فرمائیں، امید ہے قابلِ اطمینان ہوں گے:
(1)_ یزید کی جانشینی کے مسئلہ میں پہلے یہ چیز معلوم کرنی چاہیے کہ شرعی طور پر بیٹے کو اپنے والد کی جگہ پر والی و حاکم منتخب کرنا جائز ہے یا نہیں؟
اس کے متعلق یہ چیز واضح ہے کہ نصوصِ قرآنی اور احادیث صحیحہ کے اعتبار سے یہ صورت منع نہیں بلکہ جائز ہے۔ شیعہ حضرات اس مسئلہ پر اپنی کتابوں سے بھی کوئی سند نہیں لا سکتے کہ بیٹے کو جانشین بنانا ناجائز ٹھہرے۔ اگر شرعی قوانین اور آئین کی رو سے بیٹے کو باپ کی جگہ پر والی منتخب کرنا ناجائز ہوتا تو سیدنا حسنؓ کو اس دور کے اکابر نے سیدنا علی المرتضیٰؓ کے قائم مقام کیسے منتخب کر لیا؟ انہیں کیوں یہ خیال نہیں آیا کہ اس طرح امت ایک غلط راہ پر چل پڑے گی۔ روایات میں اس طرح موجود ہے کہ سیدنا علی المرتضیؓ کے دفن سے فراغت کے بعد سیدنا حسنؓ نے خود لوگوں کو اپنی بیعت کی طرف دعوت دی اور بلایا۔ اس پر لوگوں نے حضرت حسنؓ کی بیعت کی۔
ثم انصرف الحسن بن علي من دفنه فدعا الناس إلى بيعته فبايعوه
(طبقات ابنِ سعد: جلد 3، صفحہ 38)
یہاں سے واضح ہو گیا کہ والد کی جگہ اس کے فرزند کو والی اور حاکم بنانا درست ہے، یہ کوئی قابل اعتراض چیز نہیں اور نہ ہی یہ قیصر و کسریٰ کے طریق کی اتباع ہے اور جو لوگ دن رات وورثَ سُلَيْمٰن دَاوُدَ پڑھتے ہوں وہ اس قسم کی غلط بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ البتہ انتخاب میں اس کی اہلیت شرط ہوتی ہے اور اس کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
یزید کو جانشین بنانے کی وجہ:
ظاہر بات ہے کہ اتنی عظیم سلطنت کے نظم و انتظام کو قائم رکھنے اور اس کے استحکام کی بڑی ضرورت تھی جس کی وجہ سے سیّدنا امیر معاویہؓ نے اپنا جانشین اور ولی عہد تجویز کرنے کی طرف توجہ کی اور حالات کے تقاضوں کے پیش نظر اپنے بیٹے یزید کو اس منصب کے لیے مناسب سمجھا۔
سیدنا امیر معاویہؓ نے اپنے ولی عہد کے انتخاب کے سلسلہ میں جو صورت اختیار فرمائی،وہ ان کے خیال میں اس دور کے حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تھی۔ سیدنا معاویہؓ کی دیانت دارانہ رائے تھی کہ یزید امور مملکت میں بہتر ہے۔
چنانچہ ابوزید عبد الرحمن بن محمد بن محمد بن خلدون ولی الدین التونسی الحضرمی الاشبیلی المالکی المعروف ابن خلدون ( 808ھ) لکھتے ہیں:
والّذي دعا معاوية لإيثار ابنه يزيد بالعهد دون من سواه إنّما هو مراعاة المصلحة في اجتماع النّاس واتّفاق أهوائهم باتّفاق أهل الحلّ والعقد عليه حينئذ من بني أميّة إذ بنو أميّة يومئذ لا يرضون سواهم وهم عصابة قريش وأهل الملّة أجمع وأهل الغلب منهم فآثره بذلك دون غيره ممّن يظنّ أنّه أولى بها
(تاریخ ابن خلدون: جلد 1، صفحہ 263 )
ترجمہ: جس بات نے امیر معاویہؓ کو کسی دوسرے کے بجائے اپنے بیٹے کو ولی عہد بنانے پر آمادہ کیا وہ صرف اس مصلحت کی رعایت تھی کہ اس وقت بنو امیہ کے اہل حل و عقد کے نزدیک یزید پر اتفاق کرنے سے مخالفین کا اتفاق واجماع حاصل ہوجائے گا، اس وقت بنو امیہ اپنے اصحاب اقتدارکے علاوہ کسی اور کو قبول کرنے پر راضی نہ تھے، اور بنوامیہ ہی قریش اور پوری ملت کے سرکردہ تھے انہیں ہی تسلط و اقتدار حاصل تھا، اسی وجہ سے معاویہؓ نے دوسروں پر یزید کو ترجیح دی، جن کے متعلق یہ گمان تھا کہ وہ ولایت و خلافت کے لیے زیادہ موزوں اور بہتر ہیں۔"
جہاں تک یزید کے فاسق ہونے کا معاملہ ہے تو سیدنا امیر معاویہؓ کی زندگی میں یزید کا فاسق ہونا اس حد تک ظاہر نہیں ہوا تھا جتنا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا۔ جن روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یزید سیّدنا امیر معاویہؓ کی زندگی میں ان حرکتوں کا عادی تھا وہ ضعیف اور مشکوک ہیں۔ اگر وہ روایات درست مان بھی لی جائیں تو پھر بھی یزید ولی عہد(جانشین) بننے تک ایسا کھلم کھلا بدکردار نہ تھا کہ اسے ولی عہد بنانے کی سرے سے گنجائش ہی نہ ہوتی۔ خصوصاً جس وقت یزید کو ولی عہد بنایا جارہا تھا اس وقت یزید کی شہرت اس حیثیت سے نہیں تھی جس حیثیت سے آج ہے۔ ظاہر ہے اس وقت وہ ایک صحابی اور خلیفۂ وقت کا صاحبزادہ تھا۔ اس کے ظاہری حالات، نماز روزہ کی پابندی اور اس کی انتظامی صلاحیتوں کی بنا پر یہ رائے قائم کرنے کی پوری گنجائش تھی کہ وہ خلافت کا اہل ہے۔ اسی وجہ سے دیگر جلیل القدر صحابہ کرامؓ اور تابعین بھی یہی رائے رکھتے تھے اور سیّدنا معاویہؓ کی بھی یہی رائے تھی۔
متعدد تواریخ میں منقول ہے کہ انہوں نے ایک خطبہ میں یہ دعا فرمائی کہ:
"اے اللہ! اگر میں نے یزید کو اس کی فضیلت دیکھ کر ولی عہد بنایا ہے تو اسے اس تک پہنچا دے جس کی میں نے اس کے لیے امید کی ہے اور اس کی مدد فرما اور اگر اس کام پر صرف اس محبت نے آمادہ کیا ہے جو باپ کو بیٹے سے ہوتی ہے تو اس کے خلافت تک پہنچنے سے پہلے اس کی روح قبض کر لے۔"
(الذھبی تاریخ الاسلام: جلد 2، صفحہ25)
سیدنا معاویہؓ کی اس پر خلوص دعا کے بعد بھی اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ انہوں نے یزید کو نا اہل سمجھنے کے باوجود محض بیٹا ہونے کی وجہ سے خلافت کے لئے نامزد کیا تھا تو یہ اتنا بڑا الزام ہے جس کو کسی کے سر تھوپنے کے لئے بڑے دل گردے کی ضرورت ہے۔ کسی شخص کی نیت پر حملہ کرنا اس کی زندگی میں بھی شریعت نے جائز قرار نہیں دیا چہ جائیکہ اس کی وفات کے چودہ سو برس بعد اس ظلم کا ارتکاب کیا جائے۔
کیا سیدنا معاویہؓ نے لوگوں سے یزید کی بیعت زبردستی کروائی؟
شیعہ کی طرف سے دوسرا اعتراض کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے زبردستی، ظلم و تعدی وغیرہ سے اپنے بیٹے کے لیے بیعتِ خلافت حاصل کی تو اس سلسلہ میں اتنی گزارش ہے کہ در حقیقت بیعتِ یزید کا مسئلہ ایک مجتہد فیہ مسئلہ کے درجہ میں تھا جو سیدنا امیر معاویہؓ کی طرف سے لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا اور اس میں معمول کے مطابق اختلافِ رائے بھی ہوا۔سیدنا امیر معاویہؓ اس دور کے حالات اور سیاسی و ملی مصالح کے پیش نظر اپنی رائے کو صحیح سمجھتے تھے۔ پھر اس سلسلہ میں لوگوں پر کوئی جبر و زبردستی نہیں کیا گیا حتیٰ کہ شیعہ مؤرخین، جو سیّدنا امیر معاویہؓ کے سخت مخالف و دشمن ہیں، انہوں نے بھی برملا طور پر اپنی تواریخ میں تحریر کیا ہے کہ:
وحج معاویه تلک السنه فتالف القوم ولم يكرههم على البيعۃ۔
مطلب یہ ہے کہ امیر معاویہؓ نے اس سال حج کیا اور قوم کے ساتھ الفت سے پیش ائے اور بیعت (یزید) پر ہرگز کسی کو مجبور نہیں کیا۔
(تاريخ يعقوبي شیعی: صفحہ 229، جلد2)
لہٰذا شیعہ کی طرف سے سیدنا امیر معاویہؓ پر یہ اعتراضات جو قائم کیے گئے ہیں، ان میں کچھ صداقت نہیں۔ بالکل بے اصل اور بے سروپا من گھڑت ہیں۔
اب آتے ہیں واقعہ کربلا کی طرف
سیدنا حسینؓ کا یزید کی بیعت سے انکار کرنا
سیدنا حسینؓ یزید کے کردار سے سخت نالاں تھے۔ ماہِ رجب 60 ہجری میں سیدنا امیر معاویہؓ کے انتقال کے بعد یزید نے تخت سنبھال لیا۔ اسے معلوم تھا کہ اس معاملہ میں سب سے زیادہ مخالفت کی آواز سیدنا حسینؓ کی جانب سے اٹھے گی۔ اس نے چاہا کہ سیدنا حسینؓ اس کی بیعت کر لیں مگر وہ اپنی کوشش میں ناکام رہا، اس دوران حضرت عبداللّٰہ بن زبیرؓ مدینہ سے مکہ چلے آئے۔ جب سیدنا حسینؓ کے بھائی محمد بن حنفیہؒ کو معلوم ہوا کہ حضرت حسینؓ بھی مدینہ سے نکل کر جا رہے ہیں تو انہوں نے آپؓ سے کہا کہ آپؓ میرے نزدیک روئے زمین کے تمام انسانوں سے زیادہ محبوب ہیں، آپؓ سے گزارش ہے کہ آپؓ کسی دوسرے شہر میں جانے کے بجائے دیہات یا کسی ویران علاقے چلے جائیں اور وہیں قیام کریں اور پھر وہاں سے حالات کا جائزہ لیں ، اگر حالات آپؓ کے موافق ہوں تو پھر کسی شہر چلے جائیں اور اگر کسی شہر جانے کی ہی خواہش رکھتے ہیں تو پھر مکہ مکرمہ تشریف لے جائیں۔ (البدایہ)
چنانچہ دوسرے دن آپؓ اپنے اہل وعیال کو لے کر مدینہ سے باہر نکلے اور اپنے بھائی محمد بن حنفیہؒ کے مشورہ پر مکہ مکرمہ روانہ ہوئے، آپؓ نے محمد بن حنفیہؒ کی رائے کی تصویب فرمائی اور ان کا شکریہ ادا کیا۔ راستے میں عبداللّٰہ بن مطیعؓ ملے تو انہوں نے کہا کہ آپؓ بے شک مکہ جائیں مگر کوفہ کبھی نہ جائیں، وہ غدار لوگ ہیں، وہاں کے لوگوں نے آپؓ کے والد کو شہید کیا ہے، پھر انہوں نے آپؓ کے بھائی کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا۔ آپؓ عرب کے سردار ہیں، حرمِ مکہ میں قیام کریں، چنانچہ آپؓ کے مکہ پہنچنے پر لوگ دیوانہ وار آپؓ کے پاس آنے لگے۔ ادھر کوفہ سے بھی آپؓ پر خطوط کا تانتا بندھ گیا کہ آپ جلد کوفہ آئیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور آپ کے لئے ہماری گردنیں حاضر ہیں، آپ آئیں اور ہمیں سنبھالیں چنانچہ آپؓ نے عراق جانے کا ارادہ کر لیا اور مکہ مکرمہ سے روانہ ہو گئے۔
صحابہ کرامؓ کا سیدنا حسینؓ کو کوفہ جانے سے منع کرنا
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ (1052ھ) لکھتے ہیں:
"کہ جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو معلوم ہوا کہ سیدنا حسینؓ عراق کا قصد(ارادہ) کر کے نکل پڑے ہیں تو آپؓ ان کے پیچھے گئے، تین دن کی مسافت طے کرنے کے بعد ان سے ملاقات ہوئی تو حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے انہیں روکا۔ سیدنا حسینؓ نے کہا کہ میں عراق اس لئے جا رہا ہوں کہ وہاں کے لوگوں نے عہد وپیمان کیا ہے اور مجھے خطوط بھیجیے ہیں۔ حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے کہا کہ آپؓ کبھی ان کے عہد و پیمان پر بھروسہ نہ کریں اور ان کے خطوط پر التفات نہ کریں، سیدنا حسینؓ نے آپؓ کی بات نہ مانی اور رخصت ہونے لگے تو حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے آپؓ کو گلے لگا لیا اور بہت روئے۔
(آداب الصالحین: صفحہ 177)
حضرت عبد اللّٰہ بن عمرؓ نے آپؓ سے کیا کہا اسے دیکھئے! امام ذہبیؒ (748ھ) لکھتے ہیں:
ان أهل العراق قوم مناكير قتلوا أباك وضربوا أخاك وفعلوا وفعلوا
(سیر اعلام النبلاء: صفحہ 1489)
"آپؓ عراق نہ جائیں، یہ لوگ اچھے کردار کے نہیں ہیں، انہوں نے ہی آپؓ کے والد کو شہید کیا، آپؓ کے بھائی کو مارا اور ان کے ساتھ نہایت نازیبا سلوک کیا تھا"
حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ نے بھی آپؓ سے یہی بات فرمائی اور کہا کہ اگر میرے اختیار میں ہوتا تو میں آپؓ کے بالوں کو پکڑ کر آپ کو روک لیتا کہ آپؓ وہاں نہ جائیں، آپ جن کے پاس جا رہے ہیں پتہ ہے وہ کون لوگ ہیں؟
الى قوم قتلوا أباك وطعنوا أخاك
(المصنف: جلد 15، صفحہ 96 کتاب الفتن)
"آپؓ ایسی قوم کے پاس جا رہے ہیں جنہوں نے آپؓ کے والد کو شہید کر ڈالا اور آپؓ کے بھائی کو نیزے کا وار کر کے زخمی کیا ہے"
آپؓ نے ان سے کہا:
ان أهل العراق قوم غدر فلا تغترن بهم
(البدايہ: جلد 8 صفحہ160)
عراقی لوگ غدار ہیں، ان سے آپؓ دھوکہ نہ کھائیں ( وہ بلا کر آپ کو تنہا چھوڑ دیں گے اور آپ سے بے وفائی کر جائیں گے)۔
آپؓ کے بھائی محمد بن حنفیہؒ نے بھی آپؓ کی منت سماجت کی کہ وہاں نہ جائیں، یہ لوگ غدار ہیں، آپؓ سے بھی وفا نہ کریں گے اس لیے آپؓ وہاں جانے سے اجتناب برتیں۔
تاہم آپؓ اپنے بھائی کی اس رائے سے متفق نہ ہو سکے اور اپنا ارادہ نہ بدلا تو انہوں نے اپنے بچوں کو روک لیا۔
فأبي الحسين أن يقبل فحبس محمد بن الحنفية ولده فلم يبعث أحدا منهم
(البداية: جلد 8، صفحہ 165)
علامہ علی بن برہان الدین حلبیؒ لکھتے ہیں کہ:
سیدنا حسینؓ کے پاس کوفہ والوں نے اپنا وفد بھیجا کہ آپؓ کوفہ آئیے ہم آپؓ کی بیعت کرنے کو تیار ہیں۔ سیدنا حسینؓ نے( کوفہ والوں کی بات پر اعتبار کر کے) وہاں جانے کا ارادہ کر لیا اس پر حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ نے ان کو اس ارادے سے روکا اور ان کو کوفہ والوں کی پچھلی غداریاں یاد دلائیں کہ کس طرح انہوں نے ان کے والد ماجد سیدنا علیؓ کو شہید کیا تھا اور کس طرح ان کے بھائی سیدنا حسنؓ کو دھوکہ دیا تھا اسی طرح حضرت عبد اللّٰہ بن عمرؓ اور حضرت عبد اللّٰہ بن زبیرؓ نے بھی ان کو اس ارادے سے روکنے کی کوشش کی مگر سیدنا حسینؓ نے ان خطرات کو نہیں مانا یہاں تک کہ حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ رونے لگے اور کہا کہ افسوس میرے عزیز! حضرت عبداللّٰہ بن عمرؓ نے آپؓ سے کہا میں آپؓ کو اللّٰہ تعالٰی کی امان اور حفاظت میں دیتا ہوں ۔ان کے بھائی سیدنا حسنؓ نے اپنی زندگی میں ان سے ایک دفعہ کہا تھا کہ:
"کوفہ کے شریروں سے بچتے رہنا کہ وہ تمہیں دغا دے جائیں اور دشمنوں کے حوالے کر دیں اور اس وقت تم پچھتاؤ جبکہ تمہیں ضرورت کے وقت کوئی پناہ گاہ اور سہارا نہ ملے"
سیدنا حسینؓ کو اپنے قتل کی رات میں اپنے بھائی کی یہ بات یاد آئی اور انہوں نے اپنے بھائی کے لئے دعائے رحمت کی۔
مکہ مکرمہ میں کوئی شحص ایسا نہیں تھا جو سیدنا حسینؓ کے کوفہ جانے پر رنجیدہ نہ ہوا ہو۔
(سیرت حلبیہ: جلد 1، صفحہ 534)
دورانِ سفر آپؓ کی ملاقات عرب کے مشہور شاعر فرزدق سے ہوئی۔ آپؓ نے اس سے عراق کے حالات معلوم کئے تو اس نے کہا کہ حضور سچی بات یہ ہے کہ ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں مگر تلواریں آپؓ کے مخالفین کے ساتھ ہیں، اس لئے بہتر ہے کہ آپؓ اپنا ارادہ ملتوی کر دیں۔ اس دوران آپؓ کو اپنے چچا زاد بھائی عبداللّٰہ بن جعفرؓ کا خط ملا انہوں نے بھی آپؓ کو آگے جانے سے رکنے کے لئے کہا پھر وہ خود بھی آپؓ کے پاس پہنچ گئے اور آپؓ کو آگے جانے سے منع کیا مگر آپؓ آگے بڑھ گئے۔
علامہ ڈاکٹر خالد محمود ؒ لکھتے ہیں:
سیدنا حسینؓ کے وہ خیر خواہ جنہوں نے آپؓ کو عراق نہ جانے کا مشورہ دیا، وہ یہ تھے: حضرت عبد اللّٰہ بن عمرؓ،حضرت عبداللّٰہ بن عباسؓ، حضرت عبد اللّٰہ بن زبیرؓ، حضرت محمد بن علیؓ، حضرت عبد اللّٰہ بن جعفرؓ، حضرت عبداللّٰہ بن مطیعؓ، حضرت عبد اللّٰہ بن عیاش، جناب يزيد بن الاصمؒ، جناب ابو واقد الليثي
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ کے ان خیر خواہوں کو عراق کے لوگوں پر ہر گز کوئی اعتماد نہ تھا. جس طرح سیدنا علیؓ اپنے پورے دورِ خلافت میں ان کی شکایت کرتے رہے، مدینہ منورہ کے اکثر لوگوں کی بھی یہی رائے تھی کہ سیدنا حسینؓ اگرچہ وہاں نقل مکانی اور عزلت(گوشہ) نشینی کے لئے جا رہے ہیں، لڑنے کے لئے نہیں لیکن یہ لوگ آپؓ کو وہاں کسی طرح امن سے نہ رہنے دیں گے، ان خیر خواہوں میں سے کسی کی زبان سے یہ بات نہ سنی گئی کہ آپؓ جنگ نہ کریں سب یہی کہتے رہے کہ یہ کوفہ کے لوگ آپؓ کو وہاں بلا کر دھوکہ دے رہے ہیں۔
تاہم آپؓ اپنا ارادہ بدلنے کے لئے تیار نہ ہوئے اور عراق کی جانب چل دیئے۔ تاریخ شاہد ہے کہ وہاں پھر وہی کچھ ہوا جس کا اندیشہ ان بزرگوں (بالخصوص آپؓ کے برادرِ اکبر سیدناحسنؓ) نے کیا تھا۔ وہ لوگ جنہوں نے آپؓ کو خطوط لکھے اور آپؓ کی مدد و نصرت کے وعدے کئے انہوں نے ہی آپؓ کی حمایت سے ہاتھ اٹھا دیئے اور آپؓ کو اپنے رفقاء کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا۔ یہ صرف آپؓ کے ساتھ ہی نہیں ہوا بلکہ عراق کے ان شیعوں نے سیدنا حسنؓ کے ساتھ بھی اسی طرح بدسلوکی کی تھی اور آپؓ کے والد محترم سیدنا علی المرتضیؓ بھی ان کے ہاتھوں بہت زیادہ تکلیف برداشت کرتے رہے۔
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ (728ھ) شیعہ کی بدعہدی بے وفائی اور مال و زر کی حرص کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"کہ ان لوگوں نے آپؓ کو خطوط لکھے نصرت کے وعدے کئے آپؓ نے ان کی باتوں پر بھروسہ کر کے اپنے چچازاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو وہاں بھیجا مگر ان لوگوں نے انہیں دھوکہ دیا۔ انہوں نے آخرت کے بجائے دنیا کو ترجیح دی اور دشمنوں کے ساتھ مل کر آپؓ کے خلاف لڑے۔ سیدنا علی المرتضیؓ کے ساتھ بھی ان لوگوں نے یہی سلوک کیا حتیٰ کہ آپؓ نے انہیں بددعا دیتے ہوئے کہا: اے اللّٰہ میں تو ان سے تنگ آگیا ہوں تو ان کو مجھ سے دور کر دے"
وَأَمَّا الشِّيعَةُ فَهُمْ دَائِمًا مَغْلُوبُونَ مَقْهُورُونَ مُنْهَزِمُونَ، وَحُبُّهُمْ لِلدُّنْيَا وَحِرْصُهُمْ عَلَيْهَا ظَاهِرٌ. وَلِهَذَا كَاتَبُوا الْحُسَيْنَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَلَمَّا أَرْسَلَ إِلَيْهِمُ ابْنَ عَمِّهِ، ثُمَّ قَدِمَ بِنَفْسِهِ غَدَرُوا بِهِ، وَبَاعُوا الْآخِرَةَ بِالدُّنْيَا، وَأَسْلَمُوهُ إِلَى عَدُّوِهِ، وَقَاتَلُوهُ مَعَ عَدُّوِهِ، فَأَيُّ زُهْدٍ عِنْدَ هَؤُلَاءِ، وَأَيُّ جِهَادٍ عِنْدِهِمْ؟ .
وَقَدْ ذَاقَ مِنْهُمْ عَلِيُّ [بْنُ أَبِي طَالِبٍ]- رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مِنَ الْكَاسَاتِ الْمُرَّةِ مَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، [حَتَّى دَعَا عَلَيْهِمْ] فَقَالَ: اللَّهُمَّ قَدْ سَئِمْتُهُمْ وَسَئِمُونِي، فَأَبْدِلْنِي بِهِمْ خَيْرًا مِنْهُمْ، وَأَبْدِلْهُمْ بِي شَرًّا مِنِّي وَقَدْ كَانُوا يَغُشُّونَهُ وَيُكَاتِبُونَ مَنْ يُحَارِبُهُ، وَيَخُونُونَهُ فِي الْوِلَايَاتِ وَالْأَمْوَالِ.
(منهاج السنۃ جلد2،صفحہ91)
ترجمہ: شیعہ ہمیشہ سے مغلوب و مقہور اور شکست خوردہ رہے ان پر دنیا کی محبت اور اس کی حرص کھلی ہوئی رہی ہے اسی لئے انہوں نے سیدنا حسینؓ کے ساتھ خط و کتابت کی، آپؓ نے اپنے چچازاد بھائی کو( وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لئے) بھیجا اور پھر خود بھی وہاں آگئے۔ ان خطوط لکھنے والوں نے آپؓ کو دھوکہ دیا اور دنیا کے بدلے آخرت کو فروخت کر دیا اور آپؓ کو قاتلوں کے حوالہ کر دیا اور آپؓ کے دشمنوں کے ساتھ ہو کر آپؓ سے جنگ کی تو پھر خود ہی انصاف کریں کہ ان میں کون سا خوف خدا تھا؟ اور وہ کونسا جہاد کر رہے تھے؟ ان لوگوں کی انہی زیادتیوں سے سیدنا علیؓ کو اتنی مصیبتوں سے گزرنا پڑا جن کی حقیقت کا اللّٰہ کے سوا کسی کو علم نہیں۔ معاملہ یہاں تک جا پہنچا کہ سیدنا علیؓ کو دعا کرنی پڑی کہ اے اللّٰہ میں ان سے تنگ آ گیا ہوں تو انہیں مجھ سے ملول کر دے۔اے اللّٰہ مجھے ان کے بدلے میں بہتر ساتھی عطا فرما اور میرے بدلے میں ان کو برا حکمران دے۔ یہ لوگ سیدنا علیؓ (اور آپؓ کے خاندان کے ساتھ) خیانت اور دھوکہ دہی کرتے رہے اور ان سے خط و کتابت کرتے جن سے سیدنا علیؓ کا مقابلہ جاری تھا یہ لوگ ولایت اور مالوں میں خیانت کے مرتکب ہوتے تھے