نماز میں ہاتھ باندھنا
احقر العباد نذیر احمد مخدوم سلمہ القیومنماز میں ہاتھ باندھنا
سوال
سنی لوگ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ رسول خداﷺ نے ساری عمر ہاتھ کھول کر نماز پڑھی
جواب
آپ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کی نسبت رسول پاکﷺ کی طرف کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ہماری کتابوں میں لکھا ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر ہاتھ باندھ کر عبادت کرتے تھے۔
ملاحظہ ہو مؤطا امام مالکؒ صفحہ 55 طبع مجتبائی ۔
من كلام النبوة وضع اليدين احداهما على الأخرى في الصلوة
تمام پیغمبروں کا کلام یہ ہے کہ نماز میں ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھنا چاہیئے۔
اور موطا امام مالکؒ کی مشہور شرح زرقانی میں لکھا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھنے پر تمام انبیاء کا اتفاق ہے ۔ ملاحظہ ہو زرقانی صفحہ320طبع مصر
من كلام النبوة اے مما اتفق عليه شرائع الانبياء من قبل کلام النبوۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ چیز جس پر تمام انبیاء کا اتفاق رہا ہے۔
نیز بخاری شریف صفحہ102 جلد1 پر
عن سهيل بن سعد قال كان الناس يؤمرون ان يضع الرجل اليد اليمنٰى على زراعة اليسرىٰ في الصلوة
سہل بن سعدؓ فرماتے ہیں کہ سب لوگوں کو حکم دیا جاتا تھاکہ مرد نماز میں داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھیں۔
سوال
ہاتھ باندھنے کاثبوت آپ کتب شیعہ سے بھی دے سکتے ہیں؟
الجواب
کتبِ شیعہ سے بھی نماز میں ہاتھ باندھنے کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ ملاحظہ ہو احتجاج طبرسی صفحہ60
ثم قام وتهيا لِلصلٰوة وحضر المسجد وصلى خلف ابى بكر
پھر ( علی المرتضیٰؓ) اٹھے نماز کی تیاری کی اور مسجد میں حاضر ہوئے اور سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نماز پڑھی۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نمازیں سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے پیچھے آپؓ کی اقتدار میں پڑھتے تھے اور ظاہر ہے کہ اقتدار میں امام اور مقتدی کی حالت اور کیفیت ایک جیسی ہونی چاہیئے تو جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھتے تھے تو ضروری ہے کہ سیدنا علیؓ بھی ہاتھ باندھ کر ہی نماز پڑھتے ہوں گے ۔ باقی بیعت کی طرح شیعہ حضرات اس اقتداء کو بھی تقیہ پر محمول کرتے ہیں کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم کے ڈر کے مارے سیدنا علیؓ اوپر اوپر سے ہاتھ باندھ لیتے تھے اور اندر اندر سے کھولے رکھتے تھے اور اہلِ سنت کہتے ہیں کہ شیر خدا کا ظاہر باطن ایک جیسا تھا کیونکہ اللہ والے اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
دوسرا حوالہ
شیعہ کی معتبر کتاب دره نجفیہ شرح نہج البلاغہ میں موجود ہے کہ معراج کی رات رسول خداﷺ نے عرش کے قریب دیکھا کہ فرشتوں کے مختلف گروہ مختلف حالات میں اللہ کی عبادت میں مشغول ہیں۔ ان سے کئی گروہ سجود میں تھے ، کئی رکوع میں اور کئی گروہ قعود میں تھے ، تو ان میں ایک لاکھ فرشتے قیام کی حالت میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ کر خدا تعالیٰ کی تحمید و تقدیس میں مشغول تھے ۔ ملاحظہ ہو درہ نجفیہ صفحہ32 طبع تہران -
و من وراءهم ماية الف صف قد وضعوا الإيمان على الشمائل.
اور ان کے علاوہ ایک لاکھ صف ایسی تھی جنہوں نے دائیں ہاتھ بائیں ہاتھوں پر رکھے ہوئے تھے۔
اس روایت سے معلوم ہوا کہ ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا ملائکہ کی سنت ہے۔
عقلی دلیل
عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ نماز ہاتھ باندھ کر ہی پڑھنی چاہیے۔ کیونکہ قانون ہے کہ انسان جو کام عادت کے طور پر کرتا ہے وہ عبادت نہیں ہو سکتے ۔ جیسے اگر رات کو کچھ نہ کھانا پینا انسان کی عادت ہے اور دن کو کھانا پینا انسان کی عادت ہے۔ اگر صبح صادق سے لے کر شام تک کچھ نہ کھائے تو یہ چند شرائط کے ساتھ عبادت بن جائے گی کیونکہ عادت کا خلاف کیا گیا اور اگر رات کو کچھ نہ کھانے پینے کو انسان روزہ عبادت تصور کرے تو یہ عبادت نہیں بنے گا۔ کیونکہ رات کو نہ کھانا پینا انسان کی عادت ہے۔
اسی طرح نماز میں رکوع ، سجود ، قعدہ وغیرہ انسان عادت کے خلاف ارکان ادا کرتا ہے تب ہی انہیں عبادت کہا جاتا ہے۔ جب یہ قاعدہ ذہن نشین ہو گیا تو اب چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے ، سوتے جاگتے ہر حال میں کھلے ہاتھ رہنا انسان کی عادت ہے ۔ اب اگر نماز کے اندر حالت قیام میں شیعوں کی طرح انسان کھلے ہاتھ رکھے تو یہ عبادت نہیں ہو گی بلکہ عادت ہو گی جو بارگاہ رب العزت میں مقبول نہیں ہے۔ عبادت تب ہی بنے گی جب عادت کا خلاف کرتے ہوئے انسان ہاتھ باندھ کر نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ نماز میں مشغول ہو جائے۔ کیونکہ عادت عبادت نہیں بن سکتی۔