Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت ابوذر غفاریؓ

  نقیہ کاظمی

(3)۔ حضرت ابوذر غِفاریؓ

حضرت ابوذر غفاریؓ صفہؓ کے ممتاز اور نمایاں طالب علموں میں ہیں ان کا ذاتی بیان ہے : ’’کنت من أہل الصفۃ، فکنا إذا أمسینا حضرنا باب رسول اللّٰہﷺ‘‘ میں اصحابِ صفہؓ میں تھا، جب شام کا وقت ہوتا تو ہم لوگ رسول اللّٰہﷺ کے درِ اقدس پہ حاضر ہو جاتے۔(طبقات ابنِ سعد:صفحہ256۔جلد1، حلیۃالأولیاء:صفحہ353،354۔جلد1)

حضرت ابوذرؓ کا اسم گرامی اور ان کا سلسلۂ نسب

حضرت ابوذر غفاریؓ کا اسم گرامی ’’ جُندب‘‘ ہے اور باپ کا نام ’’جُنادۃ‘‘ ہے، بعضوں نے سکن، سفیان اور عبد وغیرہ بتایا ہے۔

(الاستیعاب:صفحہ62۔جلد4، الإصابۃ:صفحہ63۔جلد4)

نصِّ نبوی میں ’’جندب‘‘ نام کی صراحت ہے، ایک مرتبہ رسول اللّٰہﷺ نے حضرت ابو ذرؓ کو اسی نام سے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: یاجندب! ماہذہ الضَجْعَۃ ؟ اے جندب ! یہ کیا لیٹنے کا طریقہ ہے؟

(حلیۃالأولیاء:353۔جلد1، حدیث شریف کی تفصیل آگے آرہی ہے)

اور سننِ ابنِ ماجہ میں ہے کہ رسول اللّٰہﷺ نے ’’یاجُنَیْدب‘‘ تصغیر کے ساتھ کہہ کر انہیں پکارا ہے (سننِ ابنِ ماجہ:صفحہ264) ابوذرؓ آپ کی کنیت ہے، اور اسی کنیت سے آپ مشہور ہوئے۔ آپ دراز قد، گندمی رنگ اور چھریرے بدن کے انسان تھے۔

(الإصابۃ:صفحہ64۔جلد4)

حضرت ابوذرؓ کا سلسلۂ نسب اس طرح ہے: جندب بن جنادۃ بن کعب بن صعیر بن وقعۃ بن حرام بن سفیان بن عبید بن حرام بن غِفار بن ملیل بن ضمرۃ بن بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ219۔جلد4)

’’کنانہ ‘‘ نبی اکرمﷺ کی پندرہویں پشت میں آتے ہیں اور ان ہی پر حضرت ابوذر غفاریؓ نبی اکرمﷺ سے جاملتے ہیں ۔

قبیلہ غِفار

مکہ مکرمہ سے پہاڑ وں کے درّوں اور ریگستانی بیابانوں میں ہوتا ہوا راستہ شام و فلسطین کی طرف جاتاہے، ٹھیک اسی شاہراہ کی کسی باریک سمت میں غفار بن ملیل کی اولاد غفار کے نام سے بسی ہوئی ہے۔ عام طور سے اس کا تلفظ غین کے زبر اور ف کے تشدید کے ساتھ کیاجاتا ہے جو غلط ہے۔

(الأنساب للسمعانی:صفحہ304۔جلد4)

صحیح غِفَار ہے غین کے زیر اور ف کو بغیر تشدید کے پڑھا جائے۔

حضرت ابوذرؓ اسلام لانے سے قبل توحید پرست تھے

حضرت ابوذرؓ اسلام لانے سے قبل زمانۂ جاہلیت میں بھی توحیدِ باری تعالیٰ اور لاالہ الا اللّٰه کے قائل تھے، اور بتوں کی پرستش نہیں کرتے تھے۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ222۔جلد4)

ایک مرتبہ انہوں نے اپنے بھتیجے کو مخاطب کرکے فرمایا ’’ لقد صلیت یا ابن أخی قبل أن القی رسول اللّٰہ ﷺ ثلاث سنین ‘‘ اے میرے بھتیجے! میں رسول اللّٰہﷺ کی زیارتِ مبارکہ سے تین سال پہلے ہی سے نماز یں پڑھتا تھا۔

راوی نے عرب کے شرک وضلالت کو دیکھتے ہوئے نماز کا نام سن کر بڑی حیرت وتعجب سے پوچھا! آپ نماز کس کے لیے پڑھتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ’’لِلّٰہ‘‘ اللّٰه تعالیٰ کے لیے! اس نے دریافت کیا! رخ کس طرف کیا کرتے تھے؟ جواب میں فرمایا: ’’حیث یوجہنی ربی ‘‘ جس طرف میرے پروردگار میرا رخ کردیتے۔ میں عشاء کی نماز پڑھتا جب اخیر رات ہوتی تو کمبل کی طرح پڑجاتا تھا ،یہاں تک کہ مجھ پر دھوپ پڑنے لگتی تھی۔

(صحیح مسلم:صفحہ297۔جلد2)

اسلام لانے کا واقعہ اور اس کا سبب

حضرت ابوذرؓ کے اسلام لانے کے واقعہ میں صحیح بخاری صحیح مسلم کی روایتوں میں بڑا اختلاف ہے، جس کی وجہ سے علامہ قرطبی کو مجبوراً یہ لکھنا پڑگیا ’’ وفي التوفیق بین الروایتین تکلف شدید‘‘ دونوں روایتوں میں تطبیق دینے میں سخت تکلف ہے۔

(فتح الباري:صفحہ175،جلد7)

اگر چہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی اور علامہ سندی نے ان روایتوں میں تطبیق دینے کی مکمل کوشش کی ہے، ان شاءاللّٰه اسی کے مطابق ان کے تفصیلی واقعۂ اسلام کو ذکر کیا جائے گا)

حضرت ابوذر غفاریؓ کا بیان ہے کہ ہم اپنی قوم ’’غفار‘‘سے نکل کھڑے ہوئے کیونکہ یہ لوگ حرام مہینوں کو حلال سمجھتے تھے، میں میرا بھائی اُنَیس اور ہماری ماں تینوں نے ایک ساتھ اپنے قبیلۂ غفار کو الوداع کہا، اور اپنے ماموں کے پاس آکر قیام کیا، انہوں نے ہماری خوب خاطرومدارات کی اور وہ خوب حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئے، جس کی بنا پر ان کی قوم ہم لوگوں سے حسد کرنے لگی اور ہمارے ماموں سے کہنے لگی، جناب آپ جب باہر جاتے ہیں اور گھر میں کوئی نہیں رہتا تو آپ کے بھانجے اُنَیس گھر والوں پر افسری کرتے ہیں اور ہر قسم کی ابتری پھیلا دیتے ہیں ان کی وجہ سے لوگوں کی ناک میں دم ہے۔ یہ سن کر ہمارے ماموں آئے اور پوچھ گچھ شروع کردی۔ اتنا سننا تھا کہ میں نے اپنے ماموں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا! آپ نے تمام گذشتہ احسانات کی نہروں کو گدلا کردیا، بس اس کے بعد ہمارا اجتماع آپ کے ساتھ ممکن نہیں۔ بالآخر ہم اپنے اونٹوں کے پاس گئے اور اپنا اسباب لادکر روانہ ہوگئے، ماموں اپنے چہرہ کو کپڑے سے ڈھانک کر روتے جاتے تھے، ہم چلتے رہے اور ’’مکہ‘‘ کے قریب پہنچ کر قیام کیا۔

ایک دن اُنَیس نے کہا! مجھے مکہ میں کام ہے، آپ یہاں ٹھہرے رہیئے، میں جاتا ہوں، وہ گیا اور اس نے واپسی میں تاخیر کردی، اُس کی واپسی پر میں نے دریافت کیا، تو نے میرے سلسلہ میں کیا کیا؟ وہ بولا، میں مکہ میں ایک شخص سے ملا جو تیرے دین پر ہے یعنی توحید پرست ہے اور وہ اللّٰه کی عبادت کرتا ہے اور وہ کہتاہے کہ اللّٰه تعالیٰ نے اس کو بھیجا ہے۔ میں نے دریافت کیا، لوگ اسے کیا کہتے ہیں؟ اس نے کہا لوگ اسے شاید کاہن اور جادوگر کہتے ہیں اور اُنَیس خود بھی شاعر تھا، اس نے کہا میں نے کاہنوں کی بات سنی ہے لیکن جو کلام یہ شخص پڑھتا ہے وہ کاہنوں کا کلام نہیں ہے اور میں نے اس کا کلام شعر کے تمام بحروں اور اوزان پر خوب جانچا، شعر تو وہ یقیناً نہیں ہے، خداکی قسم یہ سچا ہے اور وہ سب کے سب جھوٹے ہیں۔(صحیح مسلم:صفحہ297۔جلد2) صحیح بخاری میں اُنَیس کے کلام میں اتنا اضافہ ہے کہ میں نے ان کو اچھی عادتوں اور عمدہ اخلاق کا حکم کرتے دیکھا ہے۔(صحیح بخاري:صفحہ545۔جلد1، رقم3861۔) میں نے کہا تم یہاں رہو، میں خود اس شخص کو دیکھ کر آتا ہوں پھر میں مکہ آیا اور کمزور وناتواں شخص کو مکہ والوں میں چھانٹا (اس لیے کہ طاقت ور شخص سے پوچھنے پر مجھے تکلیف پہنچنے کا امکان تھا اور کمزور شخص سے کوئی خطرہ نہیں تھا) اور اس سے پوچھا، وہ شخص کہاں ہے جسے تم صابی کہتے ہو۔( یعنی دین بدلنے والا) عرب کے کفار معاذاللّٰه حضرت محمد رسول اللّٰہﷺ کو صابی کہتے تھے۔ اس نے میری طرف اشارہ کرکے لوگوں کو بھڑکایا اور کہا یہ صابی شخص ہے، یہ سن کر اہلِ مکہ ڈھیلے، ہڈیاں لے کر مجھ پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ میں چکراکر گر پڑا، جب میں ہوش میں آکر اٹھا تو میں نے اپنے آپ کو لال بت (خون میں نہانے کی بناپر) کی مانند دیکھا، اسی وقت زمزم پر آیا، پانی پیا اور خون دھویا، تیس دن وہاں رہا، زمزم کے پانی کے علاوہ اور کوئی کھانا میرے پاس نہ تھا، جب بھوک لگتی تو اسی کو پی لیتا، یہاں تک کہ (موٹاپے سے) میرے پیٹ کی بٹیں لٹک گئیں، اور میں نے اپنے کلیجہ میں بھوک کی توانائی قطعاً محسوس نہیں کی۔(صحیح مسلم:صفحہ297۔جلد2)

ان ہی دنوں میں حضرت علیؓ کا رات میں کعبہ شریف سے گذر ہوا، تو دیکھا کہ ایک پردیسی مسافر ہے، ان کو اپنے گھر لے آئے، میزبانی فرمائی، لیکن اس کے پوچھنے کی کچھ ضرورت نہ سمجھی کہ تم کون ہو، کیوں آئے ہو؟ مسافر نے بھی کچھ ظاہر نہیں کیا، صبح کو پھر مسجد حرام میں آگئے، اپنی زنبیل اور مشک رکھ کر مکہ مکرمہ کے کوچہ وبازار میں شام تک مصروفِ جستجو رہے لیکن کامیابی نہیں ہوئی، پھر حرم شریف لوٹ آئے، آج کے دن بھی شام کو حضرت علیؓ حرم کے پاس سے گذرے، انہیں دیکھ کر فرمایا: کیا آدمی کے لیے اپنی فرودگاہ تک جانے کا وقت نہیں آیا، یہ کہہ کر انہیں اپنے ساتھ لیا اور گھرلے آئے، آج بھی میزبانی کی مگر اس رات بھی پوچھنے کی نوبت نہ آئی اور صبح سویرے حرم شریف میں آ دھمکے۔

(صحیح بخاري:صفحہ545۔جلد1، حدیث نمبر:3861)

آج کی رات عجیب وغریب واقعہ پیش آیا جسے خود نقل کرتے ہیں: فبینما أہل مکۃ في لیلۃ قمراء اضحیان إلخ۔ چاند نی رات خوب روشن تھی، اہلِ مکہ اپنے کا موں میں مصروف تھے کہ یکایک اللّٰه تعالیٰ کی زبردست قدرت نے تھپکیاں دے کر انہیں سلادیا، اس وقت بیت اللّٰه شریف کا طواف کرنے والاکوئی نہیں تھا۔ صرف دو عورتیں ’’ اُساف ‘‘ اور ’’ نائلہ‘‘ کو دُہائی دے رہی تھیں، یہ عورتیں طواف کرتے کرتے میرے سامنے آئیں، میں نے کہا ایک کا نکاح دوسرے سے کردو، یہ سن کر بھی وہ اساف ونائلہ کو پکارنے سے باز نہ آئیں، اس دفعہ میں نے صاف کہہ دیا: ان کے فلاں میں لکڑی۔ یہ عورتیں اپنے معبود کے بارے میں کھلم کھلا گالی سن کر چلائیں اور یہ کہتی ہوئی چلیں، کاش! اس وقت میری جماعت کا کوئی آدمی یہاں ہوتا تو اس کی خبر لیتا، راستہ میں ان عورتوں کو رسول اللّٰہﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ پہاڑ کی جانب سے آتے ہوئے ملے، رسول اللّٰہﷺ نے ان عورتوں سے پوچھا کیا ہوا؟ وہ بولیں! ایک صابی کعبہ شریف کے پردوں میں چھپا ہوا ہے، انہوں نے پھر دریافت کیا! وہ صابی کیا بولا؟ وہ بولیں! زبان تک لانے کی بات نہیں ہے وہ بہت بُری بات بک رہا ہے۔ اس گفتگو کے بعد وہ تو گھر روانہ ہوگئیں۔اور رسول اللّٰہﷺ اپنے ساتھی کے ساتھ کعبہ شریف تشریف لائے، حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور طواف کیا پھر نماز پڑھی، جب نماز پڑھ چکے توابوذرؓ نے کہا: میں نے ہی اول اسلام کی سنت ادا کرتے ہوئے

’’السلام علیک یارسول اللّٰہ کہا‘‘

آپ نے فرمایا: وعلیک السلام ورحمۃ اللّٰہ‘‘

پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا: من أنت ؟ توکون ہے ؟

میں نے عرض کیا ’’من غفاری‘‘ قبیلۂ غفار کا ایک شخص ہوں۔ یہ سنتے ہی پیغمبر اسلامﷺ نے اپنے ہاتھ کو پیشانی کی طرف جھکایا اور سر پکڑلیا میں نے اپنے دل میں کہا کہ شاید غفاری کی جانب میرے انتساب کو آپ نے ناپسند فرمایا۔

(صحیح مسلم:صفحہ297۔جلد2)

رسول اللّٰہﷺ کے سر پکڑنے کی ’’طبقات ابنِ سعد ‘‘ کی ایک روایت میں یہ وجہ لکھی ہے! عجب النبيﷺ أنہم یقطعون الطریق ’’فجعل النبيﷺ یرفع بصرہ فیہ ویصوّبہ تعجباً من ذلک لِما کان یعلم منہم‘‘

نبی اکرمﷺ کو تعجب ہوا کہ قبیلہ غفار تو رہزنی کرتے اور ڈاکہ ڈالتے ہیں (ان میں ایساشخص کیوں کر پیدا ہوسکتا ہے) رسول اللّٰہﷺ نے پھر متعجب ہوکر اپنی نگاہ ان پر ڈالی اور کبھی جھک کر دیکھا، کیونکہ غفاریوں کے حالات سے خوب واقف تھے، پھر فرمایا: ’’ انّ اللّٰہ یہدی من یشاء ‘‘ یقیناً اللہ تعالیٰ جسے چاہتے ہیں ہدایت دیتے ہیں۔

(طبقات ابنِ سعد: صفحہ223۔جلد4)

بہر حال حضرت ابوذرؓ فرماتے ہیں: میں آپ کے دستِ مبارک پکڑنے کے لیے لپکا، لیکن ان کے ساتھی (حضرت ابوبکر صدیقؓ) نے مجھے روک لیا وہ بہ نسبت میرے رسول اللّٰہﷺ کی طبیعت سے زیادہ واقف تھے، پھر آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا تم یہاں کب سے ہو؟ میں نے عرض کیا: تیس راتیں یہاں گزر گئیں، آپ نے فرمایا: تجھے کون کھانا کھلاتا ہے؟ میں نے کہا: زمزم کے پانی کے علاوہ کچھ کھانا وغیرہ نہیں ہے، بلکہ زمزم کے پانی ہی پرگذر بسر کرتا ہوں، میں موٹا ہوگیا، یہاں تک کہ (موٹاپے کی وجہ سے) پیٹ کی شکن لٹک گئی، اور میں اپنے کلیجہ میں بھوک کے ضعف کا کوئی اثر نہیں پاتا۔ نبی اکرمﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا: ’’إنہا مبارکۃ، إنہا طعام طعم ‘‘ زمزم کا پانی برکت والاہے ، اور سیر کرنے اور پیٹ بھرنے والی غذا اور کھانا ہے ۔(صحیح مسلم:صفحہ297۔جلد2)

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیؓ کے یہاں صرف سونے کے لیے دو راتیں گذاری تھیں، کھانے کی مہمان داری نہیں ہوئی تھی۔ اسی صورت میں دونوں صحیح روایتوں میں تطبیق ہوسکے گی۔

الغرض:

حضرت ابوبکر صدیقؓ نے عرض کیا، یا رسول اللّٰہﷺ! آج کی رات انہیں کھانا کھلانے کی مجھے اجازت دیجئے۔ انہیں اجازت مل گئی، رسول اللّٰہﷺ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ چلے، میں بھی ان دونوں کے ساتھ چلا، حضرت ابوبکر صدیقؓ مجھے اپنے ساتھ گھر لائے اور طائف کی کشمشیں نکال کر ہمارے حوالہ کیں، یہ سب سے پہلا کھانا تھا جو میں نے مکہ مکرمہ میں کھایا، پھر جب تک ٹھہرنا چاہا ٹھہرا۔

(صحیح مسلم:صفحہ297۔جلد2)،

واضح رہے کہ صحیح مسلم کی روایت میں ان کے اسلام لانے کے لفظ کی صراحت نہیں ہے، جس کی بنا پر علامہ سندی ہی کی رائے کو ترجیح دیتا ہوا رقم طراز ہوں کہ درحقیقت نبی اکرمﷺ کی اس ملاقات سے ان کے دل میں ایمان خوب راسخ ہوگیا تھا مگر یہ برملا اس کا اظہار نہ کرپائے اور رسول اللّٰہﷺ کے ٹھکانہ کا انہیں صحیح علم نہیں ہو سکا، جس کی بنا پر پھر تیسری رات حضرت علیؓ کے مہمان بنے اور ساری راز دارانہ گفتگو وغیرہ ہوئی واللّٰہ اعلم۔

(حاشیہ سندی علی صحیح مسلم:صفحہ297۔جلد1)

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صبح ہوتے ہی حرم میں آگئے، جب رات ہوئی تو حضرت علیؓ نے آج تیسری رات ضیافت کے لیے اپنے ساتھ گھر لے پہنچے، آخر حضرت علیؓ سے نہ رہا گیا، بول پڑے! مالذي أقدمک؟ کس ضرورت سے آپ آئے ہیں؟ اور کیا غرض ہے؟ تو حضرت ابوذرؓ نے پہلے ان کو قسم اور عہدوپیمان دیئے اس بات کی کہ وہ صحیح اور سچ سچ بتائیں گے حضرت علیؓ نے عہد کیا۔ اس کے بعد اپنی غرض بتلائی، یہ سن کر حضرت علیؓ نے فرمایا: یہ بالکل سچ ہے کہ وہ اللّٰه کے رسول ہیں۔ جب صبح ہو تو میرے ساتھ چلنا میں وہاں تک پہنچادوں گا لیکن مخالفت کا زورہے اس لیے راستہ میں اگر ایسا واقعہ نظر آئے کہ جس سے میرے ساتھ چلنے کی وجہ سے تم پر کوئی خطرہ معلوم ہو تو بیٹھ جاؤں گا، گویا کہ پیشاب کر رہا ہوں تم سیدھے چلے چلنا، پھر جدھر میں جاؤں چلے جانا اور جہاں داخل ہونے لگوں تو تم بھی وہاں داخل ہوجانا۔ چنانچہ صبح کو حضرت علیؓ کے پیچھے پیچھے نبی اکرمﷺ کی خدمت میں پہنچے، وہاں جاکر رسول اکرمﷺ کے کچھ فرمانِ عالی سنے۔

(صحیح بخاري:صفحہ545۔جلد1، حدیث نمبر3861)

طبقات ابنِ سعد کی روایت میں ہے کہ انہوں نے رسول اللّٰہﷺ سے قرآن مجید کی کچھ آیت تلاوت کرنے کی درخواست کی، تو آپﷺ نے قرآن کریم کی ایک سورت پڑھی، جسے حضرت ابوذرؓ نے سن کر ’’ اشہد أن لاالہ الا اللہ واشہد ان محمداً رسولہ‘‘ بلند آواز سے پڑھا اور اسی وقت مسلمان ہوگئے۔ تھوڑی دیرمیں حضرت ابوبکر صدیقؓ تشریف لائے، رسول اللّٰہﷺ نے ان کے اسلام کی خوش خبری سنائی، حضرت ابوبکر صدیقؓ نے انہیں بغور دیکھ کر پہچان لیا اور فرمایا: ’’ ألیس ضیفي بالأمس ؟‘‘ کیاوہ شخص نہیں ہے جو کل میرے مہمان تھے؟ جواب دیا: کیوں نہیں!! پھر حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: ’’ انطلق معی ‘‘ میرے ساتھ چلئے، حضرت صدیقِ اکبرؓ اپنے گھر لے گئے اور انہیں دو رنگین و خوبصورت کپڑے نکال کر دیئے، کپڑے بدلے اور جب تک مکۃالمکرمۃ میں ان کا قیام رہا، حضرت ابوبکرؓ کے مکان پر مقیم رہے۔(صفحہ223۔جلد4)

حضرت ابوذرؓ چوتھے نمبر پر مسلمان ہوئے ہیں یہ خود فرماتے ہیں : ’’أسلم قبلی ثلاثۃ وأنا الرابع‘‘ مجھ سے پہلے کُل تین حضرات مسلمان ہوئے، اور میں چوتھے نمبر پر مسلمان ہوا ہوں۔

(حلیۃالأولیاء:صفحہ157۔جلد1)

صحابہ کرامؓ میں اسلام کے مبلغِ اوّل

حضرت ابوذرؓ کے کانوں میں جب کبھی غیراللّٰه کے نام کی دہائی کی آواز گونجتی تو ان کی غیرتِ ایمانی جوش میں آجاتی اور کافروں کے ہاتھوں کافی تکلیفیں اٹھانا پڑتیں۔ ان کے بہادرانہ کردار اور غیرتِ ایمانی کو دیکھتے ہوئے اور ان پر شفقت کرتے ہوئے رسول اللّٰہﷺ نے انہیں ان کی قوم کا بلکہ اسلام کا مبلغِ اوّل بنا کر بھیجنا چاہا اور اس طرح ارشاد فرمایا:

قد وُجِّہتْ لي أرض نخل، لاأراہا إلا یثرب فہل أنت مبلغ عني قومک؟ عسی اللّٰہ أن ینفعہم بک ویاجرک فیہم۔

ترجمہ: مجھے کھجوروں والی زمین دکھلائی گئی ہے اور میں اسے یثرب (مدینۃ منورۃ) کے علاوہ اور کسی شہر کو خیال نہیں کرتا،توکیا میری طرف سے تم اپنی قوم میں تبلیغ کرسکتے اور دین کی دعوت دے سکتے ہو؟ امیدہے کہ تیری ذات سے اللّٰه تعالیٰ انہیں نفع پہنچائے اور تمہیں ان میں تبلیغ کرنے کا اجر وثواب دے۔

(صحیح مسلم:صفحہ298۔جلد2)

یہ دعوت وتبلیغ کے لیے آمادہ ہوگئے اور فرمایا: ’’إنی منصرف إلی أہلي وناظر متی یوم بالقتال فالحق بک ‘‘ میں اپنے گھر جاتا ہوں اور انتظار کرتا رہوں گا کہ جنگ کا کب حکم دیا جاتا ہے تو اسی وقت آپ سے آملوں گا۔(طبقات ابنِ سعد:صفحہ223۔جلد4)

حضرت ابوذرؓ تاڑ گئے تھے کہ رسول اللّٰہﷺ شفقتاً انہیں واپس بھیج رہے ہیں تاکہ کفار کی ایذاؤں کا انہیں زیادہ سامنا نہ کرنا پڑے، لہٰذا تجاہلِ عارفانہ برتتے ہوئے دریافت کیا ’’فإنني أری قومک علیک جمیعاً‘‘ آپ کی قوم کو متفق ہوکر آپ کے ایذاء کے درپے میں دیکھتا ہوں اس لیے بھی میرا جانا مناسب ہے۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا: ’’ أصبت ‘‘ سچ کہتے ہو۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ222۔جلد4) یہ سنتے ہی حضرت ابوذرؓ کی رگِ حمیت پھڑک اٹھی اور مارِجوش کے کہا ’’لا أرجع حتی أصرخ بإسلام في المسجد الحرام‘‘ میں نہیں جاسکتا جب تک کلمۂ اسلام کے ساتھ مسجد حرام میں جاکر نہ چیخوں حتیٰ کہ غیظ میں آکر قسم کھا بیٹھے، جوصحیح بخاری میں ریکارڈ ہے۔ ’’ والذي نفسي بیدہ لأصرخنّ بہا بین ظہرانیہم ‘‘ اس ذات پاک کی قسم ! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اس کلمۂ توحید کو ان کافروں کے بیچ میں چلا کر پڑھوں گا۔ چنانچہ اسی وقت مسجدِ حرام میں تشریف لے گئے اور باٰوازِ بلند ’’اشہد ان لاالہ الا اللّٰه واشہد ان محمداً رسول اللّٰہ‘‘ پڑھا، پھر کیا تھا چاروں طرف سے لوگ اٹھے اور اس قدر مارا کہ زخمی کردیا، نبی اکرمﷺ کے چچا جان حضرت عباسؓ جو اس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے ان کے اوپر بچانے کے لیے لیٹ گئے اور قریش کو مخاطب کرکے کہا! ارے کیا کرتے ہو؟ تمہارا ستیاناس ہو، انہیں پہچانتے ہو؟ یہ قبیلۂ غفار کا آدمی ہے، جدھر سے تمہارے شامی تاجروں کا راستہ ہے۔ اور تمہاری تجارت وغیرہ سب ملکِ شام سے وابستہ ہے۔ اس طرح سے حضرت عباسؓ نے انہیں کافروں کے پنجوں سے چھڑایا۔

دوسرے دن پھر اسی طرح انہوں نے جاکر کافروں کے بیچ باوازِ بلند کلمہ پڑھا اور لوگ اس کلمہ کے سننے کی تاب نہ لاسکے اور ان پر پہلے دن کی طرح پھر ٹوٹ پڑے اور جی کھول کر مارنا شروع کیا، حسنِ اتفاق سے حضرت عباسؓ نے آج بھی انہیں کافروں سے چھٹکارا دلایا۔

(صحیح بخاري:صفحہ545۔جلد1، حدیث نمبر:3861)

وطن واپسی اور اسلام کی تبلیغ:

رسول اللّٰہﷺ کے حکم سے وطن واپس آئے اور سب سے پہلے اپنے بھائی حضرت اُنَیس سے ملے، وہ اتنظار میں تھے ہی، سب سے پہلے یہی پوچھا ماصنعتَ؟ آپ نے کیا کیا؟ بولے : ’’إنی قد أسلمت وصدقت‘‘ میں مسلمان ہوگیا اور محمدﷺ کی نبوت کی تصدیق کی یہ سنتے ہی اُنَیس نے کہا: مابی رغبۃ عن دینک فإني قد أسلمت وصدقت‘‘ مجھے بھی آپ کے دین سے کوئی نفرت اور انکار نہیں، میں بھی مسلمان ہوا اور محمدﷺ کی نبوت کی تصدیق کی، تبلیغی مہم کو جاری رکھتے ہوئے یہ دونوں اپنی والدۂ محترمہ کے پاس آئے، اس حال کو دیکھ کر وہ بولیں مجھے بھی تم دونوں کے دین سے کوئی نفرت نہیں ہے، میں بھی مسلمان ہوئی اور میں نے بھی محمدﷺ کی رسالت کی تصدیق کی۔

(صحیح مسلم:صفحہ298۔جلد1)

مکۃالمکرمۃ سے روانگی کے وقت رسول اللّٰہﷺ سے قریش کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ کہا تھا اے اللّٰه کے رسولﷺ! قریش نے میرے اوپر جو مظالم ڈھائے ہیں اور انہوں نے جو میری بے تحاشہ پٹائی کی ہے اس کا بدلہ لیے بغیر نہیں رہوں گا، چنانچہ قریش سے بدلہ لینے کے لیے ’’عُسفان‘‘ کی گھاٹی’’ ثنیۃغزال‘‘ (جو تاجرانِ قریش کے راستہ میں پڑتی تھی) میں جاچھپے اور اس راستہ سے جو قافلۂ قریش گذرتا اسے لوٹ لیتے، جب ان پر قبضہ ہوجاتا تو اس کے بعد فرماتے: اگر تم لوگ اللّٰه تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہو اور محمدﷺ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہو تو سارا مال ابھی واپس کردیا جائے گا۔ او ر اگر انکار کروگے تو یاد رکھو ایک دانہ بھی نہیں مل سکتا ’’فیقولون لاالہ الااللّٰہ ویاخذون الغرائر ‘‘ یہ سن کر قریش کلمۂ لاالہ الااللّٰہ کا اقرار کرلیتے اور سارامال واپس لے کر لوٹتے ۔(طبقات ابنِ سعد:صفحہ224۔224۔جلد4)

واضح رہے کہ اگر حضرت ابوذرؓ کے ہاتھ پر ایمان لانے والے محض مال کی طمع سے مسلمان ہوتے تو ان کے لیے بالکل ممکن تھاکہ مکۃالمکرمۃ میں جاکر اسلام سے پھر جاتے، لیکن تاریخ اس کی ایک نظیر بھی پیش نہیں کرتی، جو مسلمان ہوتے تھے بس ہمیشہ کے لیے ہوتے تھے کہ حق وصداقت کی روشنی دلوں میں خواہ کسی طریقے اور کسی وسیلے سے بھی ہو جب صحیح طورپر اترجاتی ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر وہ بہت مشکل سے بجھتی ہے۔

الغرض وادئ ’’عُسفان‘‘ کو سرکنے کے بعد حضرت ابوذرؓ اپنے بھائی اور اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ اپنے اونٹوں پرسارا سامان لادکر اپنی قوم ’’غفار‘‘ میں پہنچے، ان میں اسلام کی تبلیغ کی، آدھی قوم مسلمان ہوگئی اور ان کے امام ’’أیماء بن رحضہ غفاری‘‘ تھے اور وہ ان کے سردار بھی تھے، آدھی قوم نے یہ کہا کہ جب رسول اللّٰہﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئیں گے توہم مسلمان ہوں گے ۔(صحیح مسلم:صفحہ296۔جلد2)

دربارِ رسالتﷺ میں حاضری

رسول اللّٰہﷺ مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور بدر واُحد جیسے معرکے بھی گذرگئے، تب حضرت ابوذرؓ تشریف لائے۔ (طبقات ابنِ سعد:صفحہ222۔جلد4) اور قبیلۂ غفار کی آدھی قوم جو مسلمان نہیں ہوئی تھی وہ بھی آئی اور مسلمان ہوگئی اور قبیلۂ اسلم کے لوگ آئے انہوں نے عرض کیا، یارسول اللّٰہﷺ! ہم بھی اپنے غفاری بھائیوں کی طرح مسلمان ہوتے ہیں۔ یہ منظر دیکھ کر رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’غفار غفراللّٰہ لہا وأسلم سالمہا اللّٰہ' غفار کی اللّٰه تعالیٰ مغفرت کرے اور اسلم کو اللّٰه تعالیٰ سلامت رکھے۔

(صحیح مسلم:صفحہ296۔جلد2)

مدینہ منورہ میں آکر دامنِ رسول اللّٰہﷺ کو اس مضبوطی سے تھام لیا کہ پھر الگ ہونے کا خیال ہی نہ آیا، رسول اللّٰہﷺ کو بھی ان سے کافی اُنس ہوگیا کہ جب بھی رسول اللّٰہﷺ صحابۂ کرامؓ کی مجلس میں تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت ابوذرؓ کی خیریت دریافت فرماتے اگر یہ غائب ہوتے تو انہیں تلاش کراتے۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ58۔جلد2۔ الإصابۃ:صفحہ64۔جلد4)

صفہ کی زندگی

حضرت ابوذرؓ اصحابِ صفہؓ کے ساتھ مل گئے، اور صفہ کی زندگی گزارنے لگے، خود ان کا بیان ہے: کنت من أہل الصفۃ إذا أمسینا حضرنا باب رسول اللّٰہﷺالخ۔

(طبقات ابنِ سعد:صفحہ256۔جلد1) جب شام کا وقت ہوتاتو ہم لوگ رسول اللّٰہﷺ کے درِاقدس پہ حاضر ہوجاتے، رسول اللّٰہﷺ ہر ایک صحابی کو اپنے ساتھ ایک ایک اہلِ صفہ کولے جانے کا حکم فرمایا کرتے تھے، بعض اوقات دس اصحابِ صفہؓ، یا زیادہ ، یا اس سے کم بچ جاتے اور رسول اللّٰہﷺ کا کھانا لایا جاتا تو سب لوگ مل کر کھاتے۔ جب ہم اصحابِ صفہؓ رات کے کھانے سے فارغ ہوجاتے، تو نبی اکرمﷺ ہم لوگوں سے فرماتے جاؤ! مسجد میں سوجاؤ۔ اسی طرح ایک مرتبہ میں مسجدِ نبوی میں جاکر سوگیا، رسولِ اکرمﷺ میرے پاس سے گذرے اور میں اپنے چہرہ کے بل سورہا تھا تو آپﷺ نے اپنے پاؤں مبارک سے ٹھوکر مار کر فرمایا: ’’یاجندب! ماہذہ الضجعۃ فإنہا ضجعۃ الشیطان‘‘ اے جندب! یہ کیا لیٹنے کا طریقہ ہے؟ یہ توشیطان کے لیٹنے کا طریقہ ہے۔

(حلیۃ الأولیاء:صفحہ353،354۔جلد1۔ سنن ابن ماجۃ:صفحہ264، مختصراً)

حضرت ابوذرؓ اصحابِ صفہؓ کے ممتاز طالب علم ہونے کے ساتھ ساتھ رسول اللّٰہﷺ کے ممتاز خادم بھی رہے ہیں۔ نبی اکرمﷺ ان کی خدمت سے بہت زیادہ خوش تھے ۔

ایک دن کاواقعہ ہے کہ حضرت ابوذرؓ آپﷺ کی خدمت سے فارغ ہوکر رات گزارنے کے لیے مسجدِ نبوی میں آئے، چونکہ مسجدِ نبوی ہی ان کا گھر تھا، تھوڑی دیر کے بعد نبی اکرمﷺ مسجد میں تشریف لائے اور انہیں مسجد میں سویا ہوا پاکر اپنے انگوٹھے کے اشارہ سے جگایا، یہ گھبراکر اٹھ بیٹھے۔ نبی اکرمﷺ نے دریافت کیا: کیا تم اسی جگہ سوگئے؟ انہوں نے عرض کیا پھرکہاں سوؤں؟ کیا اس مسجد کے علاوہ بھی کوئی میرا گھر ہے!! رسول اللّٰہﷺ ان کےپاس بیٹھ گئے پھر دریافت کیا اے ابوذرؓ! اس دن کیا کروگے جب لوگ تمہیں اس (مسجدِ نبوی) سے نکالیں گے؟ جواب دیا! کہ میں شام چلاجاؤں گا، کیونکہ وہ ہجرت گاہ ہے، میدانِ محشر کے قائم ہونے کی جگہ ہے اور انبیاء کرام کا مسکن ہے۔ میں ان ہی لوگوں میں ہوکر رہ جاؤں گا۔ پھر آپﷺ نے ارشاد فرمایا: جب لوگ تمہیں شام سے نکالیں گے اس دن کیاکروگے؟ یہ بولے کہ میں مسجدِ نبوی لوٹ کر آجاؤں گا، یہی میراگھراور میرامسکن ہوگا۔ پھر آپ نے ارشاد فرمایا: لوگ یہاں سے تمہیں دوبارہ نکالیں گے توکیا کروگے؟ یہ سن کر بولے! اپنی تلوار سونت لوں گا اور نکالنے والوں سے جیتے جی لڑتا رہوں گا۔ رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں اس سے بہتر بات نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا ضرور، اے اللّٰه کے رسول! میرے ماں باپ آپ پرقربان!!

آپﷺ نے ارشاد فرمایا : تم ان لوگوں کی اتباع کرتے رہنا جس طرف بھی وہ تمہیں لے جائیں، یہاں تک کہ تم اسی حالت میں مجھ سے آملو۔

(مسند أحمد:صفحہ457۔جلد6)

تحصیل علم

حضرت ابوذرؓ اصحابِ صفہؓ کے ساتھ رہ کر اور رسول اللّٰہﷺ کے خادم بن کر بہت زیادہ علوم حاصل کئے اور رسول اللّٰہﷺ نے بذاتِ خود انہیں مخاطب کرکے علم زہد وتقویٰ سکھایا ہے۔ حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے میں ایک مرتبہ مدینہ منورہ کی کالی پتھریلی زمین میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ جارہاتھا، اتنے میں سامنے سے ’’اُحد‘‘ پہاڑ دکھائی دیا۔ آپﷺ نے فرمایا اے ابوذرؓ! انہوں نے کہا لبیک یارسول اللّٰہﷺ! پھر آپ نے فرمایا: اے ابوذرؓ! اگر اس اُحد پہاڑ کے برابر بھی میرے پاس سونا ہو تو میں اس کو بالکل پسند نہیں کروں گا کہ ایک اشرفی برابر سونا بھی میرے پاس تیسرے دن تک رہ جائے، البتہ کسی کا قرض مجھ پر آتا ہو اس کے ادا کرنے کے لیے کچھ رکھ چھوڑوں تو یہ اور بات ہے۔ میں سارا سونا اللّٰه کے بندوں میں دائیں بائیں اور پیچھے (تینوں طرف) محتاجوں میں بانٹ دوں گا۔ سنو! جو لوگ دنیا میں بہت مال ودولت رکھتے ہیں اور سرمایہ دار کہلاتے ہیں آخرت میں وہی نادار اور ٹٹ پونجیے ہوں گے البتہ جس شخص کو اللّٰه تعالیٰ نے دولت دی ہو پھر وہ دائیں بائیں اور پیچھے اس کو لٹائے یعنی محتاجوں اور مسکینوں کو خوب دے۔

(صحیح بخاري:صفحہ954۔جلد2، نمبر6444)

ایک دن نبی اکرمﷺ نے حضرت ابوذرؓ کو مخاطب کرکے فرمایا: اے ابوذرؓ! *’’أعقل ما أقول لک‘‘* میری بات سمجھو اور مانو، ایک بکری کسی مسلمان کو حاصل ہو یہ اس سے بہترہے کہ ’’احد‘‘ پہاڑ کے برابر اس کے پاس سونا ہو ، پھر اپنے بعد اس کو چھوڑ جائے۔

(مسند أحمد:صفحہ181۔جلد5)

مال ودولت جاہ وعزت کی مذمت سننے کے بعد یہ کسب وحِرفت نہ چھوڑ بیٹھیں اور حالاً وقالاً بھیک مانگنے پر نہ آمادہ ہوجائیں، اس لیے آپﷺ نے ضروری تنبیہ فرمائی!

حضرت ابوذرؓ کا بیان ہے کہ مجھے رسول اللّٰہﷺ نے بلایا اور فرمایا: کیا تم ایک ایسی بات پر بیعت کروگے کہ جس کے بدلے تمہارے لیے صرف جنت ہی جنت ہے؟ میں نے عرض کیا! جی ہاں! اور میں نے ہاتھ پھیلادیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا میں تم سے عہد لینا چاہتا ہوں کہ تم کسی آدمی سے کچھ نہ مانگو گے، میں نے کہا بہت بہتر ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: حتیٰ کہ وہ کوڑا بھی نہیں جوتمہارے گھوڑے پرسے گرپڑے، بلکہ تم اترو اور خود اٹھاؤ۔(مسند أحمد:صفحہ202۔جلد5)

حضرت ابوذرؓ تمام صحابۂ کرامؓ میں رسول اللّٰہﷺ سے علمی سوالات کرنے میں نمایاں تھے، حضرت علیؓ ان کے سلسلہ میں فرماتے ہیں ’’کان یکثر السوال فیعطی ویمنع‘‘ کہ یہ رسول اللّٰہﷺ سے بہت زیادہ سوال کرتے تھے، تو انہیں کبھی جواب دیاجاتا اور کبھی نہیں۔

(طبقات ابن سعد:صفحہ232۔جلد4)

انہیں تحصیلِ علم کا بہت شوق تھا، پیغمبراسلامﷺ سے خوب کھود کریدکر علمی سوالات کرتے تھے، اسی شدتِ سوال کی بنا پر ایک مرتبہ نبی اکرمﷺ کے ایسے سخت عتاب کا سامنا کرنا پڑا کہ جسے کبھی نہ بھول سکے۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت ابوذرؓ کو شبِ قدر کی بڑی تلاش رہتی تھی، خود فرماتے ہیں کہ ایک دن نبیﷺ سے پوچھنے لگا کہ یارسول اللّٰہﷺ! کیا شبِ قدر صرف رمضان کے مہینے کے ساتھ مخصوص ہے یا دوسرے مہینوں میں بھی ہوسکتی ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا صرف رمضان میں! میں نے عرض کیا کہ شبِ قدر محض اس وقت تک رہے گی جب تک اللّٰه تعالیٰ کے پیغمبر ہم میں ہیں، یاقیامت تک اس کا سلسلہ باقی رہے گا؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا: نہیں، بلکہ قیامت تک باقی رہے گی۔ میں نے عرض کیا کہ رمضان کے کس عشرہ میں اس رات کو تلاش کیاجائے؟ آپ نے فرمایا: شروع عشرہ، یا اخیر عشرہ میں اسے تلاش کرو۔ نبی اکرمﷺ اس کے بعد کسی اور گفتگو میں مشغول ہوگئے، میں تاک میں لگا رہا، ذرا غفلت پاکر پھر پوچھا کہ آخر ان دو عشروں میں سے کس عشرہ میں واقع ہوتی ہے؟ فرمایا: آخر عشرہ میں۔ اور فرمایا: بس آئندہ کچھ نہ پوچھنا، پھر آپﷺ دوسری بات میں مشغول ہوگئے مگر میں موقع کی تلاش میں رہا۔ موقع پاتے ہی ممانعت کے باوجود میں نے عرض کیا اے اللّٰه کے رسول! آپ پر جو کچھ بھی میراحق ہے، میں اس حق کی قسم دے کر عرض کرتا ہوں کہ مجھے بتادیجئے کہ اخیر عشرہ کی کس رات میں یہ رات آتی ہے؟ بس اتنا کہنا تھا۔ ’’فغضب علي عضباً لم یغضب مثلہ منذ صحبتہ‘‘ کہ رسول اللّٰہﷺ میرے اوپراس قدر برہم اور غضب ناک ہوئے کہ اتنا غصہ آپ کو مجھ پر کبھی نہ آیا تھا جب سے آپ کے دامنِ صحبت سے وابستہ ہواتھا ۔(مسند أحمد:صفحہ171۔جلد5)

ان کے اسی علمی جذبہ اور شوق کو دیکھ کر رسول اللّٰہﷺ نے بار بار انہیں مخاطب کرکے منبعِ نبوت سے سیراب کیا ہے اور خاص طورسے انہیں بہت ساری نصیحتیں فرمائی ہیں اور کچھ احادیث ایسی ہیں جو خاص طور سے تنہائی میں ان ہی سے رسول اللّٰہﷺ نے بیان فرمائی ہیں۔ غرضیکہ انہوں نے رسول اللّٰہﷺ سے بہت زیادہ علوم حاصل کیے خود فرماتے ہیں ’’لقدترکنا رسول اللّٰہﷺ وما یتقلب في السماء طائر إلا ذکرنا منہ علماً (مسند أحمد: صفحہ162۔جلد5) رسول اللّٰہﷺ اس وقت ہم لوگوں سے رخصت ہوئے جب فضاء میں اڑنے والے پرندوں کے متعلق بھی ہمیں کوئی نہ کوئی علم مل گیا۔

حضرت ابوذرؓ کی مجموعی احادیث کی تعداد علامہ شمس الدین ذہبی کے بیان کے مطابق281 ہے۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ75۔جلد2)

حضرت ابوذرؓ رسولﷺ کی نظر میں

1- نبی اکرمﷺ نے حضرت ابوذرؓ کے صدق وصفا، ظاہر وباطن کی پاکیزگی اورقلب وزبان کی سچائی کی گواہی ان الفاظ میں دی ہے ’’ما أقلت الغبراء، ولا أظلّت الخضراء أصدق من لہجۃ أبی ذرؓ‘‘ آسمان تلے اس سرزمین پر ابوذرؓ سے زیادہ کوئی سچا نہیں ہے۔

(جامع ترمذي:صفحہ220۔جلد2، نمبر3801)

2-پیغمبر اسلامﷺ نے انہیں اپنی سواری پراپنے پیچھے بٹھا کر ردیف النبیﷺ کے شرف سے نوازاہے ۔(مسندِ أحمد:صفحہ164۔جلد5، طبقاتِ ابنِ سعد:صفحہ228۔جلد4)

3- رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا: اللّٰه تعالیٰ نے مجھے چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے اور خود اللّٰه تعالیٰ بھی ان سے محبت کرتے ہیں۔ صحابۂ کرامؓ نے عرض کیا، یارسول اللّٰہﷺ ان خوش نصیبوں کے نام بتادیجئے۔ سب سے پہلے حضرت علیؓ کا نام لیا اور تین مرتبہ ان کا نام لیا۔ پھر ابوذرؓ، مقدادؓ اورسلمانؓ کے نام ذکر فرمائے۔ ان اسمائے گرامی کے ذکر کرنے کے بعد پھر وہی جملہ ارشاد فرمایا کہ اللّٰه تعالیٰ نے مجھے ان چار شخصوں سے محبت کرنے کا حکم دیاہے اور خود اپنے بارے میں بھی بتایا کہ میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں۔

(جامع ترمذي:صفحہ213۔جلد2، مناقب علیؓ مسند ِأحمد: صفحہ351۔جلد5)

4- نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: ہر نبی کو سات رفقاء اور سات وزراء دیئے گئے ہیں اور مجھے چودہ رفقاء اور وزراء دیئے گئے ہیں۔ ان میں ایک ابوذرؓ ہے۔

(مسندِ أحمد:صفحہ164۔جلد5، طبقاتِ ابن ِسعد:صفحہ228۔جلد4)

5- غزوۂ تبوک میں حضرت ابوذرؓ اسلامی فوج سے پیچھے رہ گئے، صحابۂ کرامؓ میں ان کے سلسلہ میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں، رسول اللّٰہﷺ کو معلوم ہوگیا، آپ نے ارشاد فرمایا: اس کو چھوڑ دو، اگر اس کی ذات میں خیر وبھلائی ہوگی تو اللّٰه تعالیٰ خود تم لوگوں سے ملادیں گے، واقعہ یہ ہوا کہ حضرت ابوذرؓ کا اونٹ ایک جگہ ٹھہرا کہ اسلامی فوج آگے بڑھ گئی، اونٹ سست پڑگیا، بہت کوشش کرنے کے باوجود اس کے رفتار میں تیزی نہ آئی، آخر تھک کر اونٹ سے اتر گئے، جو سر پر لاد سکے لاد لیا، اور رسول اللّٰہﷺ کی تلاش میں نکل پڑے، قافلہ کے قریب آگئے، کسی صحابی کی نظر پڑی کہ کوئی پیادہ پا تیزی کے ساتھ چلا آرہا ہے، رسول اللّٰہﷺ کوبھی معلوم ہوا، آپ نے دیکھ کر ارشاد فرمایا ’’ کن أباذر ‘‘ ابوذرؓ ہی ہو۔ کچھ ہی دیر میں صجابۂ کرامؓ میں شور ہوا کہ یہ ابوذرؓ ہیں، خدا کی قسم ابوذرؓ ہی ہیں۔ رسول اللّٰہﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ رحم اللہ أباذرؓ یمشی وحدہ، ویموت وحدہ، ویبعث وحدہ‘‘ اللّٰه تعالیٰ ابوذرؓ پر رحم کرے، اکیلا ہی چلتا ہے، اکیلا ہی مرے گا اور اکیلاہی اٹھایا جائے گا۔

(سیر أعلام النبلاء:صفحہ561۔جلد2)

6- سیدالبشرﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’من سرّہ أن ینظر إلی تواضع عیسی ابن مریم فلینظر إلی أبی ذرؓ‘‘ جوحضرت عیسی بن مریم علیہما الصلاۃ والسلام کے تواضع کو دیکھ کر خوش ہونا چاہتا ہے وہ ابوذرؓ کو دیکھ لے۔

(طبقاتِ ابنِ سعد: صفحہ228۔جلد4۔)

صحابہ کرامؓ اور دیگر علماءِ عظام کی نظر میں

خلیفۂ راشد حضرت علیؓ نے حضرت ابوذرؓ کے علمی مقام کو اجاگر کرتے ہوئے فرمایا ’’ وعی علماً عجز منہ‘‘ حضرت ابوذرؓ ایسے علم کو حاصل کیے ہوئے ہیں جس سے لوگ عاجز آگئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ حریص ولالچی تھے، کس چیز میں؟ خود ہی فرماتے ہیں: ’’شحیحا علی دینہ حریصاً علی العلم‘‘ دین کی پیروی کرنے اور اس کی باتوں پر عمل کرنے میں لالچی اور علم کے حاصل کرنے میں حریص تھے۔ بہت زیادہ رسول اللّٰہﷺ سے پوچھا کرتے تھے، پھر انہیں کبھی جواب دیا جاتا اور کبھی نہیں۔ ’’ وقد ملئ لہ في وعائہ حتی امتلأ‘‘ اس پر ان کے لیے ان کا پیمانۂ علم اتنا بھردیا گیا کہ وہ لبریز ہوگیا۔

(طبقاتِ ابنِ سعد:صفحہ232۔جلد4)

ایک مرتبہ حضرت علیؓ نے فرمایا: ’’ أبوذرؓ عَلَمُ العلم، ثم أوکی، فربط علیہ ربطاً شدیداً ‘‘ ابوذرؓ علم کے پہاڑ ہیں، سارے علم کو انہوں نے اپنے سینۂ گنجینہ میں محفوظ کر رکھا ہے۔

(طبقاتِ ابنِ سعد:صفحہ232۔جلد4، سیراعلام النبلاء:صفحہ60۔جلد2)

’’کان عمر یوازی ابن مسعودؓ في العلم‘‘ خلیفۂ راشد حضرت عمر بن خطابؓ انہیں علم میں حضرت عبداللّٰہ بن مسعودؓ کے ہم پلہ گردانتے تھے اور انہیں بدریین کی فہرست میں شمار کرکے ان کے ساتھ بدریوں جیسا معاملہ کیاکرتے تھے جب کہ ابوذرؓ غزوۂ بدر میں شریک نہیں رہے ہیں۔

(الإصابۃ:صفحہ65۔جلد4)

حضرت علیؓ کے شاگردِ رشید، بانیٔنحو، امام ابوا لاسود دولی نے کہا: ’’زرت اصحاب النبيﷺ فما رأیت لأبی ذرؓ‘‘ رسول اللّٰهﷺ کے صحابیوں کو میں نے دیکھا، لیکن ابوذرؓ جیسا کسی کو نہ دیکھا۔

(مسندِ أحمد:صفحہ181۔جلد5۔)

علامہ شمس الدین ذہبی کا بیان ہے: ’’کان یفتی في خلافۃ أبي بکرؓ وعمرؓ و عثمانؓ ‘‘ کہ حضرت ابوذرؓ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت عثمانؓ کے زمانۂ خلافت میں فتویٰ دیا کرتے تھے۔

(سیر اعلام النبلاء:صفحہ42۔جلد2۔)

فقرو فاقہ وتنگ دستی

غزوۂ احد میں میرے والد محترم شہید ہوگئے تھے اور انہوں نے بطورِ میراث کے کچھ بھی مال نہیں چھوڑا اور میرے گھر میں کچھ کھانے کوبھی نہیں تھا۔ ایک روز میری اہلیہ محترمہ نے بھوک کی وجہ سے میرے پیٹ سے ایک پتھر باندھ دیا اور کہا: دیکھ، فلاں فلاں شخص نے رسول اللّٰہﷺ سے سوال کیا ہے تو آپ نے ان کو خوب نوازا ہے۔ تم بھی جاؤ اور آپﷺ سے کچھ مانگ کرلے آؤ۔ میں رسول اللّٰہﷺ کے پاس مال وغیرہ مانگنے ابھی آیا ہی تھا کہ آپ نے مجھے دیکھتے ہی ارشاد فرمایا: ’’من یستغن یغنہ اللّٰہ، ومن یستعف یعفہ اللّٰہ‘‘ جو اللّٰه تعالیٰ سے بے نیازی طلب کرتا ہے، اللّٰه تعالیٰ اسے بے نیازی کی دولت سے نوازتے ہیں اور جو اللّٰه تعالیٰ سے عفت وپاکدامنی مانگتا ہے تو اللّٰه تعالیٰ اسے عفیف وپاکدامن بناتے ہیں۔

(صفۃالصفوۃ:صفحہ715۔جلد1، الإصابۃ:صفحہ336۔جلد2)

’’حلیہ‘‘ کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا: اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے! بندہ کو صبر سے بہتر اور وسیع ترین کوئی چیز نہیں دی گئی ہے۔ (حلیۃالأولیاء:صفحہ370۔جلد1) یہ ارشادِ عالی سن کر خاموشی کے ساتھ واپس آگیا اس کے بعد پوری زندگی میں نے کسی کے آگے کبھی بھی دستِ سوال دراز نہیں کیا۔ اللّٰه تعالیٰ نے خود ہی اتنا مال دیا کہ میرے علم میں انصارِ مدینہ میں مجھ سے زیادہ کوئی مالدار نہیں ہوا۔

(صفۃالصفوۃ:صفحہ715۔جلد1)