سیدہ زینب رضی اللہ عنہا
نقیہ کاظمیسیدہ زینب رضی اللہ عنہا:
نام و نسب: سیدہ زینبؓ سرکارِ دو عالمﷺ کی سب سے بڑی بیٹی ہیں۔ بعثتِ نبوت سے دس سال پہلے پیدا مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں حضورﷺ کی عمر اس وقت تیس برس تھی۔ ان کی والدہ کا نام سیدہ خدیجتہ الکبریٰؓ ہے جو حضورﷺ کی پہلی بیوی ہیں۔
ابتدائی حالات:
جب حضورﷺ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو جس طر ح سیدہ خدیجہؓ نے پہلے ہی اعلان پر اسلام قبول فرمالیا اسی طرح آپؓ کی اولاد بھی مشرف با اسلام ہوئی۔
اس وقت سیدہ زینبؓ کی عمر دس سال تھی
(البدایہ والنہایہ؛ جلد، 3 صفحہ، 113)
نکاح:
سیدہ زینبؓ کا نکاح سیدنا ابوالعاصؓ بن ربیع بن عبد العزیٰ بن عبد شمس بن عبد مناف سے ہوا سیدنا ابوالعاصؓ کا نسب چہارم پشت میں نبی کریمﷺ اور سیدنا علیؓ سے مل جاتا ہے۔ سیدنا ابوالعاصؓ مکہ کے صاحبِ ثروت شریف اور امانت دار انسان تھے۔ سیدنا ابوالعاصؓ سیدہ خدیجہؓ کے خواہر زادہ ہیں۔ ان کی والدہ کا نام سیدہ ہالہؓ بنتِ خویلد بن یاسد ہے جو سیدہ خدیجہؓ کی حقیقی بہن ہیں اور سیدہ خدیجہؓ سیدنا ابوالعاصؓ کی خالہ ہیں۔ سیدنا ابوالعاصؓ سیدہ زینبؓ کے خالہ زاد بھائی ہیں۔
سیدہ فاطمہؓ اور سیدہ زینبؓ حقیقی بہنیں ہیں اس بنا پر سیدنا علیؓ اور سیدنا ابوالعاصؓ آپس میں ہم زلف ٹھرے۔
مشرکین مکہ کے ناپاک عزائم:
نبی کریمﷺ کو مشرکینِ مکہ ہر طرح کی تکالیف پہنچائیں لیکن آپﷺ نے لا الہٰ الا اللہ کی صدا سے پورے مکہ میں انقلاب برپا کر دیا مشرکینِ مکہ نے حضورﷺ کو مزید تکلیف پہنچانے کے لیے سیدنا ابوالعاصؓ کو اس بات پر اکسایا کہ حضرت محمدﷺ کی بیٹی سیدہ زینبؓ کو طلاق دے دو اور قبیلہ قریش میں سے تم جس عورت سے نکاح کرنا چاہو ہم وہ عورت پیش کر سکتے ہیں۔ جواب میں سیدنا ابوالعاصؓ نے فرمایا قال لا وللہاذن لاافارق صاحبتی اللہ کی قسم میں اپنی بیوی سے ہرگز جدا نہیں ہوسکتا۔
(ذخائرالعقبیٰ: صفحہ، 751 البدایہ لابنِ کثیر: جلد، 3 صفحہ، 113)
شعب ابی طالب میں محصوری کے ایام میں بھی سیدنا ابوالعاصؓ نبی کریمﷺ اور دوسرے محصورین کے لیے خوراک کی فراہمی کا بندوبست کرتے رہے۔
(البدایہ: جلد، 3 صفحہ، 213)
اس لیے حضورﷺ کا فرمان ہے کہ سیدنا ابوالعاصؓ نے ہماری دامادی کی بہترین رعایت کی اور اس کا حق ادا کر دیا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب سیدنا ابوالعاصؓ نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ نبوت کے تیرہویں سال جب حضورﷺ نے مکہ سے ہجرت فرمائی۔ اس وقت سیدہ زینبؓ مکہ میں اپنے سسرال کے ہاں تھیں۔ ہجرت کے بعد اسلام کا ایک دوسرا دور شروع ہوتا ہے مدنی زندگی میں اسلام اور کفر کے درمیان بڑی بڑی جنگیں لڑی گئی ان میں ایک مشہور جنگ غزوہِ بدر کے نام سے معروف ہے اور اس جنگِ بدر میں سیدنا ابوالعاصؓ کفار کی طرف سے جنگ میں شریک ہو کر آئے۔
جنگِ بدر میں جب اہلِ اسلام کو فتح ہو گئی تو جنگی قاعدہ کے مطابق شکست خوردہ کفار کو اہلِ اسلام نے قید کر لیا اور ان قیدیوں میں حضورﷺ کے چچا سیدنا عباسؓ اور آپﷺ کے داماد سیدنا ابوالعاصؓ بھی شامل تھے۔
مسلمانوں کی طرف سے یہ فیصلہ ہوا جو قیدی لائے گئے ہیں ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دیا جاے اہلِ مکہ نے اپنے اپنے قیدیوں کو چھوڑانے کے لیے فدیے اور معاوضے بھیجنے شروع کیے اس ضمن میں سیدہ زینبؓ نے اپنے خاوند سیدنا ابوالعاصؓ کی رہای کے لیے اپنا وہ ہار جو ان کو سیدہ خدیجہؓ نے دیا تھا بھیجا مدینہ شریف میں یہ فدیے نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں پیش کیے گے اور سیدنا ابوالعاصؓ کا فدیہ سیدہ زینبؓ کی طرف سے ہار کی شکل میں پیش ہوا۔
اور نبی کریمﷺ نے اس پر نظر فرمائی تو رسول اللہﷺ پر بلا اختیار رقت کی کیفیت طاری ہو گئی۔اوراس کو دیکھ کر سیدہ خدیجہؓ کی یاد تازہ ہو گئی۔
نبیﷺ کی اس کیفیت کے اثر میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین متاثر ہوئے۔
اس وقت آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا اگر تم سیدنا ابوالعاصؓ کو رہا کر دو اور سیدہ زینبؓ کا ہار واپس کر دو تو تم ایسا کر سکتے ہو اس وقت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ آپ کا ارشاد درست ہے ہم سیدنا ابوالعاصؓ کو بلا فدیہ رہا کرتے ہیں اور سیدہ زینبؓ کا ہار واپس کرتے ہیں۔
اس وقت نبی کریمﷺ نے سیدنا ابوالعاصؓ سے وعدہ لیا کہ جب مکہ واپس پہنچیں تو سیدہ زینبؓ کو ہمارے ہاں مدینہ بھیج دینا چناچہ سیدنا ابوالعاصؓ نے وعدہ کر لیا تو انہیں بلا معاوضہ رہا کر دیا گیا۔
(دلائل النبوہ للبیہقی: صفحہ، 324 جلد، 2 مسند احمد بن حنبل صفحہ، 324)
(ابوداؤد شریف: جلد، 2 صفحہ، 367 مشکوٰۃ شریف صفحہ، 643 البدایہ والنہایہ: جلد، 2 صفحہ، 213)
سیدنا ابوالعاصؓ رہا ہو کر مکہ آئے اور سیدہ زینبؓ سے تمام احوال ذکر کیے اور مدینہ جانے کی اجازت دے دی۔
اور جو وقت نبی کریمﷺ نے مقرر فرمایا تھا وہ ایام بھی آگے تو سیدنا ابوالعاصؓ نے اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ روانہ کیا کنانہ نے اپنی قوس اور ترکش کو بھی ساتھ لیا۔
سیدہ زینبؓ سواری کے اوپر کجاوہ میں تشریف فرما تھی اور کنانہ آگے آگے ساتھ چل رہا تھا اس دوران اہلِ مکہ کو اطلاع ہو گئی جب وادی ذطوی کے پاس پہنچے تو مکہ والے پیچھے سے پہنچ گے ہبار بن اسود نے ظلم کرتے ہوئے نیزہ مار کر سیدہ زینبؓ کو اونٹ سے گرا دیا جس سے آپؓ زخمی ہوگئی اور حمل ساقط ہو گیا کنانہ نے اپنا ترکش کھول دیا اور تیر اندازی شروع کر دی اور کہا جو بھی قریب آئے گا اس کو تیروں سے پرو دیا جائے گا کفار نے کہا کہ اپنے دشمن کی بیٹی کو علانیہ جانے دیا تو لوگ ہمیں کمزور سمجھیں گے اس لیے انہیں چند یوم بعد رات کی تاریکی میں لے جانا کنانہ نے رائے تسلیم کر لی اور چند دنوں کے بعد رات کے وقت مکہ سے باہر مدینہ سے آئے ہوئے صحابی سیدنا زید بن حارثہؓ اور ان کے پاس پہنچایا پس وہ دونوں سیدہ زینبؓ کو لے کر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گے۔
(البدایہ والنہایہ جلد، 3 صفحہ، 330 زرقانی جلد، 3 صفحہ، 223)
سیدنا ابوالعاصؓ کا قبولِ اسلام:
مکہ مکرمہ سے قریش کا ایک قافلہ جمادی الاول 6ھ میں شام کے لیے عازمِ سفر ہوا اور سیدنا ابوالعاصؓ بھی اس قافلہ میں شریک تھے۔
نبی کریمﷺ نے سیدنا زید بن حارثہؓ کو 71 سواروں کے ہمراہ قافلے کے تعاقب کے لیے روانہ کیا اور مقامِ عیص میں قافلہ ملا کچھ لوگ گرفتار ہوئے اور باقی بھاگنے میں کامیاب ہوگئے سیدنا ابوالعاصؓ سیدہ زینبؓ کے ہاں تشریف لائے تو سیدہ زینبؓ نے ان کو پناہ دے دی اس کے بعد سیدہ زینبؓ کی سفارش پر تمام مال و اسباب ان کے حوالے کر دیا سیدنا ابوالعاصؓ نے مکہ جا کر جس جس کا مال تھا اس کے حوالہ کیا اور پوچھا کسی کا مال تو میرے ذمہ باقی نہیں تو تمام لوگوں نے کہا فجزاک اللہ خیرا فقد و جدناک وقیا کریما۔ اللہ تمہیں جزائے خیر دیے ہم نے تمہیں بڑا شریف اور وفادار پایا ہے اس کے بعد قریشِ مکہ کے سامنے اسلام کا اعلان کیا اور مکہ سے مدینہ منورہ تشریف لے آئے تو حضورﷺ نے سیدہ زینبؓ کو ان کے حوالے کر دیا۔
سیدہ زینبؓ کی فضیلت:
حضورﷺ کی اس لختِ جگر نے اسلام کے لیے پجرت کی اور تمام مصائب و آلام دین کے لیے برداشت کئے۔اور نبی کریمﷺ کی لختِ جگر جب دربارِ رسالت میں آئیں تو نبی کریمﷺ فرماتے:
خیر بناتی اصیبت فی ھی افضل بناتی اصیبت فی۔
ترجمہ: میری بیٹیوں میں سیدہ زینبؓ بہترین بیٹی ہے جس کو میری وجہ سے ستایا گیا۔
یہ افضل بیٹی ہے جس کو میری وجہ سے روکا گیا:
(مجمع الزوائد للہیثمی جلد، 9 صفحہ، 213 دلائل النبوہ للبیہقی: جلد، 2 صفحہ، 426)
سیدہ زینبؓ کی اولاد:
سیدہ زینبؓ کی تمام اولاد سیدنا ابوالعاصؓ بن الربیع سے ہوئی ان میں ایک صاحبزادہ جس کا نام سیدنا علیؓ تھا۔ یاد رہے یہ وہی سیدنا علیؓ ہے جس کو رسولﷺ نے کندھو پر بیٹھایا تھا جس نے کعبہ کے بت توڑے اور ایک صاحبزادی جس کا نام سیدہ امامہ بنتِ ابوالعاصؓ تھا اور ایک صاحبزادہ صغر سنی میں ہی فوت ہو گیا۔
سیدہ زینبؓ کے بیٹے سیدنا علی بن سیدنا ابوالعاصؓ نبی کریمﷺ کی نگرانی میں پرورش پاتے رہے۔
اور جب مکہ فتح ہوا تو نبی کریمﷺ نے ان کو اپنی سواری کے پیچھے بٹھایا تھا اور یرموک کے معرکہ میں شہید ہوئے اور بعض کے نزدیک یہ قریب البلوغ ہو کر فوت ہوئے۔
(اسدالغابہ لابنِ کثیر جلد، 4 صفحہ،41 الاصابہ لابن حجر عسقلانی: جلد، 2 صفحہ، 503)
سیدنا علی بن سیدنا ابوالعاصؓ اور سیدہ امامہ بنتِ سیدنا ابو العاصؓ سے نبی ﷺبڑی محبت فرمایا کرتے۔
ایک دفعہ نبیﷺ نماز کے لیے تشریف لائے کہ سیدہ امامہ حضورﷺ کے گود پر سوار ہیں۔
آپﷺ نے ایسی حالت میں نماز ادا فرمائی جب رکوع میں جاتے تو اتار دیتے جب کھڑے ہوتے تو اٹھا لیتے۔
(بخاری شریف: جلد، 1 صفحہ، 74 مسلم شریف: جلد، 1 صفحہ، 205 مسند ابو داؤد ظیالسی صفحہ، 85 ابو داؤد شریف: جلد، 1 صفحہ، 132 صحیح ابنِ حبان: جلد، 2 صفحہ، 313)
سیدہ عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں بیش قیمت ہار بطورِ ہدیہ آیا اس وقت آپﷺ کے پاس تمام ازواجِ مطہرات تشریف فرما تھیں اور یہی سیدہ امامہ صحن میں کھیل رہی تھیں آپﷺ نے ازواجِ مطہرات سے پوچھا یہ ہار کیسا ہے سب نے کہا کہ ایسا خوبصوت ہار تو ہم نے کبھی دیکھا ہی نہیں تو آپﷺ نے فرمایا لادفعتھا الی احب اھلی الی۔ یہ ہار میں اس کو دوں گا جو میرے اہلِ بیتؓ میں سے مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے۔
پھر آپﷺ نے وہ قیمتی ہار خود اپنے دست مبارک سے سیدہ امامہؓ کے گلے میں پہنا دیا۔
(اسد الغابہ: جلد، 5 صفحہ، 400 مجمع الزوائد للہیثمی: جلد، 9 صفحہ، 452 الفتح ربانی: جلد، 22 صفحہ، 420 الاصابہ: جلد، 4 صفحہ، 230)
سیدہ امامہ بنتِ ابوالعاصؓ سے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کا نکاح:
سیدہ فاطمہؓ نے اپنے انتقال سے قبل سیدنا علیؓ کو وصیت فرمائی تھی کہ اگر میرے بعد شادی کریں تو میری بڑی بہن کی بیٹی سیدہ امامہؓ کے ساتھ کرنا۔ وہ میری اولاد کے حق میں میری قائم قام ہو گی۔
چنانچہ سیدنا علیؓ نے اس وصیت کے مطابق 12ھ میں سیدہ امامہ بنتِ ابوالعاصؓ سے نکاح کیا اور سیدنا زبیر بن عوامؓ نے اپنی نگرانی میں ان کی شادی سیدنا علیؓ سے کر دی یہ نکاح مسلّم بین الفریقین ہے اہلِ سنت اور شیعہ حضرات اپنے اپنے مقام میں اس کو ذکر کیا کرتے ہیں۔
(مزید تفصیل کے لئے رجوع فرمائیں: الاصابۃ: جلد، 3 صفحہ، 433، انور النعمانیہ: جلد، 1 صفحہ، 347)
سیدہ زینبؓ کا انتقال پُر ملال:
سیدہ زینبؓ مکہ سے مدینہ تشریف لاتے ہوئے دورانِ ہجرت ہبار بن اسود کے نیزہ سے زخمی ہوئی تھیں کچھ عرصہ کے بعد آپؓ کا وہی زخم دوبارہ تازہ ہو گیا جو ان کی وفات کا سبب بنا اسی وجہ سے بڑے بڑے اکابرین، صاحبِ قلم حضرات نے ان کے بارے میں لکھا ہے کہ فکانوا یرونھا ماتت شھیدہ۔
حافظ ابنِ کثیرؒ نے لکھا کہ ان کو شہیدہ کے نام سے تعبیر کیا جانا چاہیئے۔
سیدہ زینبؓ کی وفات پر نبیﷺ غمزدہ ہوئے اور تمام بہنیں اس حادثہ فاجعہ سے اور تمام عورتیں شدتِ جذبات سے رو دیں۔
سیدنا عمرؓ سیدہ زینبؓ کی وفات کا سن کر حاضر ہوئے عورتوں کو روتا دیکھ کر آپؓ نے منع فرمایا تو حضورﷺ نے ارشاد فرمایا اے عمرؓ سختی سے ٹھر جائیں پھر حضورﷺ نے عورتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا شیطانی آوازیں نکالنے سے پرہیز کریں پھر فرمایا جو آنسو آنکھوں سے بہتے ہیں اور دل غمگین ہوتا ہے تو یہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی رحمت سے ہے۔
(مشکوٰۃ شریف: صفحہ، 152)
سیدہ زینبؓ کا اعزاز:
سیدہ زینبؓ کے غسل کا اہتمام حضورﷺ کی نگرانی میں ہوا سیدہ ام ایمنؓ، سیدہ سودہؓ، سیدہ ام سلمہؓ، سیدہ امِ عطیہؓ نے غسل دیا۔
سیدہ امِ عطیہؓ فرماتیں ہیں کہ حضورﷺ سیدہ زینبؓ کے انتقال کے بعد تشریف لائے اور فرمایا کہ سیدہ زینبؓ کے نہلانے کا انتظام کرو پانی میں بیری کے پتے ڈال کر ابالا جائے اور اس پانی کے ساتھ غسل دیا جائے۔ اور غسل کے بعد کافور کی خوشبو لگائی جائے جب فارغ ہو جائیں تو مجھے اطلاع کرنا پس ہم نے اطلاع کر دی تو حضورﷺ نے اپنا تہبند اتار کر جسمِ اطہر سے عنایت فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ میرے اس تہبند کو کفن کے ساتھ رکھ دو۔
(بخاری: جلد، 1 صفحہ، 187 مسلم: جلد، 1 صفحہ، 304)
سیدہ زینبؓ کا جنازہ:
جب سیدہ زینبؓ کا جنازہ تیار ہوگیا تو بڑے اعزاز و اکرام کے ساتھ پردہ داری سے میت کو تدفین کے لئے لے جایا گیا۔
سیدہ زینبؓ کا ایک اور اعزاز:
خالق ارض و سمٰوٰت نے سیدہ زینبؓ کو یہ اعزاز بھی دیا کہ ان کا جنازہ امام الانبیاءﷺ نے پڑھایا اور روایات میں آتا ہے وصلی علیہا رسولﷺ۔
(حوالہ انساب الاشراف: جلد، 1 صفحہ، 400)
حضورﷺ سیدہ زینبؓ کی قبر میں خود اترے:
سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ کی صاحبزادی کا انتقال ہوا تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حضورﷺ کی معیت میں سیدہ زینبؓ کو دفنانے کے لئے حاضر ہوئے ہم قبر پر پنہچے حضورﷺ نے نہایت مغموم تھے۔ ہم میں سے کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ قبر کی لحد بنانے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی حضورﷺ قبر کے پاس تشریف فرما ہوئے اور ہم لوگ آپﷺ کے آس پاس بیٹھ گئے اسی اثناء میں آپﷺ کو اطلاع کی گئی کہ قبر تیار ہو گئی ہے اس کے بعد آپﷺ خود قبر کے اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے بعد باہر تشریف لائے تو آپﷺ کا چہرہ انور کھلا ہوا تھا اور غم کے آثار کچھ کم تھے اب عشاق عرض کرتے ہیں: یا رسول اللہﷺ اس سے پہلے آپ کی طبیعت بہت مغموم نظر آرہی تھی اب آپﷺ کی طبیعت میں بشاشت ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا قبر کی تنگی اور خوف ناکی میرے سامنے تھی اور سیدہ زینبؓ کی کمزوری اور ضعف بھی میرے سامنے تھا اس بات نے مجھے رنجیدہ خاطر کیا پس میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی ہے کہ سیدہ زینبؓ کے لئے اس حالت کو آسان فرما دیا جائے تو اللہ تعالیٰ نے منظور فرما لیا اور سیدہ زینبؓ کے لئے آسانی فرما دی۔
(مجمع الزوائد للہیثمی: جلد، 3 صفحہ، 47 کنزالعمال: جلد، 8 صفحہ، 120)
میں نے بڑے اختصار کے ساتھ سیدہ زینبؓ بنتِ رسول ﷺ کے حالات پیدائش تا وفات لکھ دیئے ہیں تاکہ معلوم ہو جائے کہ حضورﷺ کا اپنی بڑی لختِ جگر کے ساتھ کیسا مشفقانہ معاملہ تھا کہ زندگی میں بھی حضورﷺ کی محبت حاصل رہی اور وفات کے بعد تمام معاملات حضورﷺ کی نگرانی میں ہوئے۔