مسئلہ تحریف قرآن
مولانا اللہ یار خانمسئلہ تحریف قرآن
مشائخ اربعہ کا ذکر آگیا تو ایک تاریخی حقیقت بیان کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے جہاں تک عقیدہ تحریف قرآن کا تعلق ہے شیعہ مذہب پر تین دور گزرے ہیں۔
دور اول
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے لے کر شیخ صدوق تک اس کی وفات 381ھجری میں ہوئی اور اس سے پہلے شیعہ مذہب میں کسی نے قرآن کے متعلق عدم تحریف کا عقیدہ کسی ایک شیعہ نے نہیں ظاہر کیا۔ یعنی کہ محمد بن یعقوب کلینی متوفی 329ھجری مسئلہ تحریف قرآن میں بڑا غالی تھا جس سے ظاہر تھا کہ ابتدائی تین یا ساڑھے تین صدیوں میں کوئی شیعہ عالم نہیں ملتا جس کا عقیدہ عدم تحریف قرآن کا ہو۔ اس دور میں شیعہ کے بارہ امام اور سفراء امام غائب سب شامل ہیں اور کوئی متنفس نہیں ملتا جس کا عقیدہ عدم تحریف کا ہو۔
دور دوم
شیخ صدوق متوفی سنہ 381ھجری اور ابو علی طبرسی سنہ 548ھجری مصنف تفسیر مجمع البیان اس دور میں چار علماء شیعہ ایسے ملتے ہیں جنہوں نے عدم تحریف قرآن کا ذکر کیا ہیں مشائخ اربعہ میں یعنی شیخ صدوق، ابوجعفر طوسی ، شریف مرتضی علم الہدی اور شیخ ابو علی طبرسی ۔ یہ دور متوسطین کا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ مذہب کے اصول ہمیشہ متقدمین سے بعد میں آنے والوں کو منتقل ہوتے ہیں کہ متقدمین ہی ماخذ مذہب کے عینی شاہد اور بانی مذہب کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں۔ مگر یہاں معاملہ برعکس ہے کہ متوسطین نے اپنے متقدمین کی مخالفت کر کے اپنی عقل سے مذہب کا تانا بانا تیار کیا۔ انسانوں کے تیار کردہ مذاہب میں تو ایسا ہو جاتا ہےمگر الہامی مذہب میں اس کو الحاد کہتے ہیں ۔
دور سوم
اس دور میں ایک تو ان چاروں مشائخ کی تردید پر زور دیا گیا۔ دور اصل عقیدہ تحریف قرآن کا پوری قوت سے چرچا کیا گیا۔ اس دور میں علامہ حسین بن محمد تقی نوری نے تحریف قرآن کے موضوع پر معرکۃ الآراء کتاب لکھی جس کا نام ہی اس حقیقت کی گواہی پر دال ہے کہ فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب چونکہ شریف مرتضیٰ نے قرآن میں عدم زیادتی پر اجماع کا دعویٰ بھی کیا تو علامہ نوری اس کی خبر لیتے ہیں۔
فصل الخطاب کے ص 34
و بعد ملاخطة ما ذكرنا تعرف ان دعواه جراة عظيمة وكيف يمكن دعوى الاجتماع بل الشهرة المطلقة على مسئلة خالفها الجمهور القدماء وجل المحدثين واساطين المتاخرين
ہمارے بیان کردہ دلائل کے بعد اجماع کا دعویٰ کرنا شیخ کی بڑی جرات ہے اجماع کا دعویٰ کہاں ممکن ہے جبکہ مطلق شہرت بھی ممکن نہیں پھر مسئلہ عدم تحریف قرآن میں جس کے مخالف جمہور مقدمین ہیں اور بڑے بڑے محدثین اور متاخرین میں سے مذہب شیعہ کے ستون تحریف قرآن کے قائل اور عدم تحریف کے مخالف ہیں۔
پھر اسی فصل الخطاب میں ص343 پر علامہ نوری نے شیخ صدوق کو خوب لتاڑا ہے.
قلت انه لشدۃ حرصه على اثبات مذهبه يتعلق بكل ما يحتل تائيد لمذهبه ولا يلتفت الى لوان مه الفاسدة التي لا يمكنه الالتزام به فان ما ذكرها الدخا لفون بعينها و اور دو ها علی اصحابنا المدعيين الثبوت النص الجلى على امامة مولانا على عليه السلام واجابوا عنها بما لا يبقى معه ريب وقد احياها بعد طول المدة غفلة او تناسيا عما هو مذکور فی کتب الامامیہ۔
میں کہتا ہوں کہ شیخ صدوق اپنے مذہب کو ثابت کرنے میں اتنا حریص ہے کہ جس بات میں اپنے مذہب کی ذرا سی تائید پاتا ہے اس کو نقل کر دیتا ہے اور اس کے نتائج فاسدہ کی طرف توجہ نہیں کرتا جین کو تسلیم کرنا اس کے امکان میں نہیں ہے جو اعتراض اس نے تحریف قرآن پر کیا ہے۔بعینہ وہی ہے جو ہمارے مخالفین مولا علی کی امامت پر فص جلی ہونے پر کرتے ہیں۔اور ہمارے شیعہ علماء نے اس اعتراض کا جواب ایسے عمدہ طریقے سے ایسے دلائل سے دیا ہے کہ کوئی شبہ باقی نہیں رہتا مگر شیخ صدوق وغیرہ نے ایک زمانہ طویل کے بعد اس اعتراض کو پھر زندہ کر دیا جو کچھ کتب امامیہ میں لکھا ہے اس سے انہوں نے غفلت برتی ہے یا بھول کر یہ روش اختیار کی ہے۔
علامہ نوری نے بات بڑی پتے کی کی ہے کہ اگر منکرین تحریف قرآن کی دلیل صحیح مان لی جائے تو صحا بہ کرام کو محافظ قرآن و محافظ دین اسلام ماننا پڑے گا۔ جب یہ تسلیم کر لیا کہ انہوں نے قرآن میں کمی بیشی نہیں ہونے دی تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت بلا فصل کا معاملہ افسانہ بن کر رہ جائے گا کیونکہ اگر حضور ﷺ نے ان کے سامنے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی خلافت بلا فصل کا حکم دیا ہوتا تو وہ بھلا کہ کسی اور کو خلیفہ بننے دیتے تھے اور یہی صورت قضیہ فدک کی ہے اگر حضور ﷺ نے فدک کے متعلق وہ احکام دئے ہوتے جو شیعوں نے تراش لیے ہیں تو ایسی امین جماعت کسی کو حضور ﷺ کے فیصلے سے منحرف ہونے دیتی تھی لہذا خیریت اسی میں ہے کہ تحریف قرآن کے عقیدے پر پکے رہو تا کہ خلافت بلا فصل اور اسی قبیل کے ایجاد دہندہ کے قسم کے عقیدے اچھالنے کا موقع مل سکے ۔ قرآن کو غیر محرف مان لیا گیا تو شیعہ مذہب کی ساری رونق اور چہل پہل ٹھپ ہو جائے گی ۔
حرکت مذبوحی
انسان کی یہ کمزوری ہے کہ جب وہ ہدایت کی شاہراہ سے ہٹ کر خواہشات کی پگڈنڈی پر چلنا شروع کرتا ہے تو ضمیر اسے ملامت کرتا ہے انسان کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ ایسے بہانے تلاش کرتا ہے کہ ضمیر کی آواز کو دبا کر من مانی کرنے کی کوئی صورت نکل آئے یہی صورت تحریف قرآن کے مسئلہ میں شیعہ کو پیش آرہی ہے اگر تحریف قرآن کا عقیدہ اپنائیں تو اسلام سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں نہ اپنائیں تو شیعہ مذہب کی ضروریات دین کا انکار لازم آتا ہے اور ضروریات کا انکار کفر ہے لہذا شیعہ مذہب کے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے انہیں کوئی بہانہ چاہیے چنانچہ ان کے علماء نے ایک راہ ڈھونڈ نکالی ہے۔
احتجاج طبرسی 77طبع قدیم :
قال (على رضی اللّٰہ عنہ) فاخبروني عما كتب عمر رضی اللّٰہ عنہ و عثمان رضی اللّٰہ عنہ اقراٰن كله ام فيه ماليس بالقراٰن قال طلحة رضی اللّٰہ عنہ بل قرآن كله قال ان اختاتم بما فيه لنجوتم من الناس ودخلته الجنة فان فيه حجتنا و بیان حقنا و فرض طاعتنا.
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا مجھے اس قرآن کے متعلق بتاؤ جو عمر رضی اللّٰہ عنہ و عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے لکھا ہے آیا۔ وہ پورا قرآن ہے یا اس میں کچھ ایسی چیزیں بھی شامل ہیں جو قرآن سے نہیں تو حضرت طلحہ رضی اللّٰہ عنہ نے جواب دیا پورا قرآن ہے تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا اگر تم اس پر عمل کرو گے تو نجات پاؤ گے دوزخ سے اور داخل ہو گے جنت میں ۔ کیونکہ اس قرآن میں ہماری امامت کے دلائل موجود ہیں حقوق موجود ہیں ہمارا مفترض الطاعت ہونا موجود ہے۔
یہ روایت کھینچ تان کے کچھ کام تو دے سکتی ہے مگر حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کی ذات مورد الزام ٹھہرتی ہے۔ وہ یوں کہ :۔
1_اس قرآن میں امامت کے دلائل چھوڑ شیعہ کی مفروضہ امامت کا ذکر تک نہیں۔
2_امامت کے حقوق کا کہیں نام و نشان نہیں ۔
3_اماموں کا مفترض الطاعت ہونا کسی دورازکار تاویل سے بھی کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا لہذا یہ روایت حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ پر بہتان ہے کہ انہوں نے قرآن کے متعلق وہ اوصاف بیان کیے جن کا اس میں نشان تک نہیں ملتا لہذا یہ روایت کذب سریخ ہے۔
دوسری بات:
اس روایت کے متعلق علامہ خلیل قزوینی شیعہ عالم نے لکھا ہے شرح کافی جز ششم کتاب فصل القرآن ص 76
آنچه در کتاب احتجاج طبرسی نقل شده از امیر المومنین علی رضی اللّٰہ عنہ بعد از کلام طویل با طلحہ رضی اللّٰہ عنہ ناخبروني الخ
مراد این است که با وجود اسقاط و اختلاف در قرأت آنقدر باقی ماند که صریح باشد در امامت اہل بیت معصومین عالمین بجميع لاحكام
احتجاج طبرسی میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ اور طلحہ رضی اللّٰہ عنہ کے درمیان جو مکالمہ درج ہے اس سے مراد یہ ہے کہ باوجود قرآن سے آیات کم کر دینے کے اور اختلاف تلاوت کے قرآن میں اتنا پھر بھی باقی ہے کہ مسئلہ امامت اہل بیت پر صاف صراحت سے دلالت کرتا ہے۔
صاحب احتجاج طبرسی حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے الفاظ سے یہ مراد لیتے ہیں کہ تحریف نہیں ہوئی اور
صاحب صافی یہ مراد لیتے ہیں کہ تحریف تو یقیناً ہو گئی مگر امامت کا مسئلہ پھر بھی باقی رہ گیا۔
نتیجہ یہ نکلا کہ عدم تحریف کے حق میں احتجاج طبرسی کی یہ روایت کسی کام کی نہیں لہذا روایت باطل .
تیسری بات یہ ہے کہ یہ سہارا اس لیے کار آمد نہیں کہ یہ خبر واحد ہے۔ اور اس کے مقابلہ میں تحریف قرآن کے حق میں 2000 سے زائد روایات مستفیضہ متواترہ اور صحیح، پھر یہ کہ تحریف قرآن پر صریح دلالت کرتی ہیں۔ لہٰذا یہ بیچاری اکیلی خبر واحد کچھ نہیں کر سکتی
چوتھی بات یہ ہے کہ علامہ نوری نے فصل الخطاب 97 میں اس روایت کو هباء منثورا بنادیا ۔
وهو مخالف لهذا القراٰن الموجود من حيث التأليف و ترتيب السور والايات بل الكلمات ايضا و من جهة الزيادة و النقصة
وہ قرآن جو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا ہے اس موجودہ قرآن کے مخالف ہے ترکیب کے اعتبار سے ،سورتوں کی ترتیب آیتوں بلکہ کلمات کے اعتبار سے مخالف ہے اور باعتبار کمی و زیادتی کے بھی مخالف ہے۔
سوال یہ ہے کہ احتجاج طبرسی میں حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا جو قول پیش کیا گیا ہے اسے فصل الخطاب کے مذکورہ بالا قول کے مطابق رکھ کر دیکھیں تو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑتا ہے کہ روایت بنانے میں حافظہ بنا شد کو زیادہ دخل ہے ۔ کیونکہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا اپنا قرآن جو سارے کا سارا اس قرآن سے مخالف ہے اس کے ہوتے ہوئے وہ حکم دے رہے ہیں کہ محرف قرآن پر عمل کرنے میں نجات ہے۔ یہ کیونکر ہو سکتا ہے۔
ہاں اس روایت سے یہ وضاحت ہو گئی کہ شیعہ کے نزدیک قرآن میں تحریف کی نوعیت کیا ہے ۔
1_ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ موجودہ قرآن میں ترتیب بدل دی گئی ہے۔
2_ آیات بدل دی گئی ہیں۔
3_ کلمات بدل دئے گئے ہیں۔
4_ کمی بیشی کی گئی ہے۔
پانچویں بات یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے اس قرآن میں عدم تحریف کا کوئی ذکر نہیں کیا صرف یہ کہا کہ ان اخذتم لنجوتم تو عین ممکن ہے کہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے یہ بات تقیہ کے طور پر کی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کے متعلق ایسی باتیں شیعہ کتب میں ملتی ہیں مثلاً
احتجاج طبرسی ص 130
والله لقد امرت الناس ان لا يجتمعوا في شهر رمضان الا في الفريضة فتنادى بعض اهل عسکری ممن يقاتل معنی یا اهل الاسلام غيرت سنة عرينهانا عن الصلوة فی شھر رمضان متطوعاً۔
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ فرماتے ہیں خدا کی قسم میں نے حکم دیا تھا کہ رمضان میں سوائے فرضوں کے اکٹھا نہ ہوا کریں، تو میرے فوجی جو میرے ساتھ ہو کر لڑ رہے تھے پکار اٹھے اے مسلمانو! سنت عمر کو بدلا جا رہا ہے۔ حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ ہمیں رمضان میں نفلی نماز باجماعت سے منع کرتے ہیں ۔
اس کے بعد حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ خاموش ہو گئے اور کچھ تعرض نہ کیا۔ تقیہ کر لیا۔ تو اس روایت میں بھی بات کچھ ایسی ہی نظر آتی ہے۔ جب حضرت طلحہ رضی اللّٰہ عنہ نے قرآن کے متعلق اپنا عقیدہ پیش کیا تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سمجھ گئے اور تقیہ کر لیا اور کہ دیا۔ اخذاتم نجوتم۔
اس ساری بحث سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پورے شیعہ مذہب میں ان مشائخ اربعہ کے سوا کوئی شخص عدم تخریف کا قائل نہیں ۔ جب یہ مخالفت کر کے بھی مشائخ ہی رہے تو لازما انہوں نے تقیہ کے طور پر ہی یہ کاروائی کی تھی لہذا اب اگر کوئی شیعہ عدم تحریف کا عقیدہ ظاہر کرتا ہے تو صرف تقیہ کا ثواب لینے کو کرتا ہے، ورنہ دین شیعہ اور عدم تحریف قرآن کا عقیدہ دو متضاد چیزیں ہیں۔