افہام و تفہیم
مولانا اللہ یار خانافہام و تفہیم
میری علمی اور مناظرہ ذندگی میں ایسے واقعات پیش آتے رہے کہ قرآن کریم کے متعلق شیعہ کی طرف سے سوالات پیش کئے جاتے رہے خواہ وہ سوال طلب حق کی غرض سے ہوں یا محض ذہنی کشتی مقصود ہو مگر ان کے جوابات خاصا علمی ذخیرہ ہیں لہٰذا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے چند سوالات اور ان کے جوابات پیش کر دیئے جائیں ۔
سوال نمبر 1
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے اہل بیت اور قرآن سے تمام کرنا یہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے حتی کہ حوض کوثر پر آکر ہمارے پیش ہوں گے
فانهما لن يتفرقاحتى يردا •على الحوض الكوثر
جواب
اس حدیث میں تین الفاظ قابل غور ہیں۔اول تمسک دوم قرآن سوم اہل بیت۔ اہل بیت کی ترکیب کا مفہوم خود شیعہ کے ہاں بڑا پہلو دار ہے،بہرحال جس پر ذیادہ تر اعتماد کیا جاتا ہے وہ آئمہ شیعہ ہیں۔
تمسک کا لفظ اپنے دینی مفہوم کے اعتبار سے ایمان اور عمل سے عبارت ہے یعنی تمسک سے مراد یہ ہے کہ اس کے حق ہونے سے پریقین ہو اور اس کی تعلیمات کے مطابق عملی زندگی ہو۔
قرآن کا مفہوم شیعہ کے نزدیک وہ کتاب ہے جو اماموں کے بغیر کسی کو دیکھنا نصیب نہ ہوئی اور یکے بعد دیگرے ائمہ کو بطور میراث پہنچتی رہی اور آئمہ نے اس کی ایسی حفاظت کی کہ اس ہوا بھی نہ لگنے دی اور شیعہ کے علاوہ جو لوگ اسلام کو دین حق سمجھتے ہیں ۔ ان کے نزدیک قرآن کا مفہوم وہ کتاب ہے جو بنی کریمﷺ پر انسانوں کی ہدایت کے لیے نازل ہوئی اور حضورﷺ نے اس کا ایک ایک لفظ صحابہ تک پہنچایا، اور اس کی حفاظت کا یہ اہتمام کیا گیا کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس کا ایک حرف بلکہ ایک شوشا تک نہیں بدلا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ کے اہل بیت نے کس قرآن کے ساتھ تمسک کیا اگر پوشیدہ قرآن کے ساتھ تمسک کیا تو اس کا ثبوت کیا ہے؛ جب وہ قرآن ہی میں موجود نہیں تو اس کے ساتھ تمسک کا کیا مطلب، اور اگر کہا جائے کہ ائمہ نے اسی پوشیدہ قرآن کے ساتھ تمسک کیا تو ان کی زندگی کا ہر کام اس کے موجودہ قرآن سے مختلف بلکہ الٹا ہونا چاہیے، کیونکہ گذشتہ ابواب میں ثابت کیا جا چکا ہے کہ شیعہ کے نزدیک کہ موجودہ قرآن میں حلال کو حرام اور حرام کو حلال بنا دیا گیا ہے اور اگر ائمہ نے موجودہ قرآن کے ساتھ تمسک کیا تو انہوں نے اپنے عقیدے کے مطابق اصل قرآن کو چھوڑ دیا ،لہذا قرآن اور اہل بیت میں جدائی تو ہو گی۔تمسک کا معاملہ بڑا ٹیڑھا نظر آتا ہے کہ عمل کرنے کے لیے اصل قرآن نہیں اور جو قرآن موجود ہے اس پر عمل کرنا قرآن سے تمسک نہیں بنتا یہاں تو تمسک میں بھی تفریق ہو گئی۔ ایمان پوشیدہ قرآن پر اور عمل موجود قرآن پر یعنی اہل بیت نے دونوں قرآنوں سے یہی علیحدگی اختیار کر لی ۔ حوض کا وقت تو ابھی بڑا دور ہے۔
یہ دعویٰ کہ اہل بیت اور قرآن جدا نہ ہوں گے اس کے دلائل شیعہ کتب سے پیش خدمت ہیں ۔
1_ ابان بن تعذب امام جعفر سے روایت کرتا ہے کہ آپ نے فرمایا ہمارے والد امام باقر جو امیّہ کر زمانے میں فتوی دیا کرتے تھے کہ باز اور شاہین جس جانور کو قتل کریں وہ حلال ہیں آپ کا فتوی تقیّہ سے تھا، مجھے بنو امیّہ کا خوف نہیں میں کہتا ہوں وہ حرام ہیں (فروغ کافی جلد دوم کتاب الصید)
امام باقر اہل بیت سے ہیں اور قرآن اور اہل بیت کبھی جدا نہ ہوں گے لہٰذا انہوں نے ایک چیز کو حلال قرار دیا تو لازماً کتاب اللّٰہ سے اخذ کیا ہو گا اور عمر بھر انہیں حرام کھلاتے رہے جنہیں اہل بیت سے تمسک کا حکم ہے اور وہ بھی صرف اس بنا پر کہ بنو امیّہ کا موہوم خوف تھا۔ امام جعفر کو چونکہ خوف نہ تھا اس لیے حقیقت بتا دی کہ میرے باپ نے جسے حلال کہا تھا وہ حقیقت میں حرام ہے باپ بیٹے میں لازماً کسی ایک نے قرآن کے خلاف کیا ، لہذا قرآن سے کبھی جدا نہ ہوں گئے والی بات تو ختم کو گئی۔ معلوم ہوا کہ حرام و حلال کا معیار قرآن نہیں بلکہ کوئی وہمی خطرہ ہے پھر یہ ہے کہ باپ نے تو تقیہ کیا تو بیٹے کے متعلق کیا ضمانت ہے کہ تقیہ نہ کرے ، پھر کسی مسئلہ کے متعلق بھی حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا کہ حق ہے یہ باطل ہے اب فیصلہ طلب بات یہ ہے کہ باپ اور بیٹے میں سے کسی کے متعلق کہا جائے گا کہ وہ اور قرآن جدا نہ ہوئے۔
زرارہ بن اعین کہتے ہیں کہ میں نے امام باقر سے مسئلہ پوچھا آپ نے جواب دیا پھر ایک شخص آیا اس نے وہی سوال کیا ، آپ نے پہلے جواب سے مختلف دیا پھر تیسرا شخص آیا اس نے وہی بات پوچھی اور ایسا جواب پایا جو ہم دونوں سے مختلف تھا۔ جب وہ دونوں چلے گئے تو میں نے عرض کیا اے ابن رسول وہ شخص عراق کے باشندے سے آپ کے قدیمی شیعہ آپ سے مسئلہ پوچھتے ہیں اور آپ ان دونوں کو مختلف جواب دیتے ہیں؟ فرمایا یہی بہتر ہے اور ہمارے اور تمہارے بچاؤ کا باعث ہے۔ میں نے پھر آپ کے صاحبزادے امام جعفر صادق سے عرض کیا کہ آپ کے شیعہ جن کو آپ کے نیزے کی نوک پر یا آگ کے شعلوں میں دھکیل دیں تو تامل نہ کریں وہ آپ کے پاس سے مختلف عقیدے لے کر نکلتے ہیں تو آپ نے وہی جواب دیا جو آپ کے والد نے دیا تھا۔
(کافی : کتاب العلم باب اختلاف الحدیث )
اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن اہل بیت سے تمسک کرنے کا حکم ہے اور جن کے متعلق کیا گیا ہے کہ وہ اور قرآن جدا نہ ہوں گے ان کے پیش نظر تو صرف اپنا بچاؤ لڑنا تھا حقیقی دیں سکھانا یا صحیح عقیدہ بتانا ان کے پروگرام سے خارج تھا۔
عن ابى عبدالله قال انى اتكلم على سبعين وجها. لى فى كلها المخرج وايضا عن ابى بصير قال سمعت ابا عبدالله انى اتكلم با لکلمتہ الواحد لها سبعون وجها ان شئت اخفت کذاوان شئت اخذت کذا۔واساس الاھوال ص 25
امام جعفر نے فرمایا میں ایسی گفتگو کرتا ہوں جس کے ستر پہلو نکل سکتے ہیں اور ہر پہلو میں میرے لیے نکلنے کا راستہ ہوتا ہے نیز ابو بصیر سے روایت ہے کہ میں نے امام جعفر سے سنا فرماتے تھے میں ایسی بات لیتا ہوں جس کے ستر معنی نکل سکتے ہیں تو اس کا مفہوم یہ لوں ، چاہوں تو وہ لوں۔
اب کوئی خدا لگتی کہے کہ اس قسم کے ثقل سے کوئی بات حاصل کی جا سکتی ہے اس لیے اگر کوئی تمسک کرے تو اس کو حق کیسے معلوم ہوسکے گا کیا ہادی اور ہادی بھی ایسا جسے ثقل دوم کہا گیا ہو کے لیے ضروری ہے کہ صاف اور حق بات کبھی نہ کہے ، ہمیشہ پہلو وار کلام کرے جب اس کے سامنے مقصد یہ ہو کہ بات ایسی کروں کہ کوئی گرفت کرے تو نکل سکوں تو اس ہادی سے تمسک کرنے والوں پر کیا بیٹے گی۔ جب بات کے شر پہلو ہوں تو خود امام کا عقیدہ اور مذہب یقینی طور کون معلوم کر سکتا ہے بلکہ اس سے تو ظاہر ہے کہ امام کا کوئی مذہب ثابت نہیں ہو سکتا ۔
عن الى عبد الله عليه السلام قال جاء رجل منها أنظر اليه ابو عبد الله قال انا والله لا ضلت انا والله لادهمند مجلس الرجل فسئله مسئلة فافتاه فلما خرج قال ابو عبد الله لقد افتيته بالضلالة التى لا هداية فيها .
( مختصر بصائر الدرجات ص194)
ایک آدمی امام جعفر کے پاس آیا ، امام نے اسے دیکھ کر فرمایا خدا کی قسم میں اسے ضرور گمراہ کروں گا، میں اسے ضرور وہم میں ڈالوں گا۔ وہ بیٹھا مسئلہ پوچھا، امام نے فتوی دیا اور چلا گیا تو فرمایا میں نے اسے گمراہ کرنے والا فتوی دیا ہے ۔ میرے فتوے میں مطلق کوئی ہدایت نہیں_____ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حضورﷺ نے اسی اہل بیت سے تمسک کرنے کی وصیت فرمائی تھی، اگر یہی ہے تو وہاں سے تو اعلان ہو رہا ہے کہ ہمارے پاس مطلق ہدایت نہیں تو کیا حضورﷺ نے گمراہی کے لیے تمسک کرنے کی ہدایت فرمانی تھی۔ اہل بیت کے علوم بیان کرتے ہوئے اصول کافی میں ابو بصیر کی طویل روایت بیان کی گئی ہے کہ امام کے پاس قرآن کے علاوہ مصحف فاطمہ، چمڑے کا تھیلا وغیرہ بھی ہوتا ہے اور مصحف فاطمہ کی وضاحت یوں کی گئی ہے۔
قال مصحف مثل قرأ نكم ھذا ثلاث مرات والله ما فيه عن قرأنكم حرف واحد
مصحف وہ ہے جس میں تمہارے قرآن سے تین گناہ ہے خدا کی قسم اس میں تمہارے قرآن کا ایک حرف بھی نہیں ہے ۔
لیجئے اللہ کی کتاب مصحف فاطمہ کا ایک تہائی ہے مگر قرآن سے تمسک کی وصیت تو حضورﷺ نے فرمائی تھی اس نئے ذخیرہ سے تمسک کا حکم کا نے دیا اور یہ کہاں سے آگیا پھر ایسے ضخیم سرمایہ کے ہوتے ہوئے قرآن کی ضرورت ہی کیا رہ گئی۔
یہ چند مثالیں تو مشتے نمونہ ازخروارے ہے۔اہل بیت سے تمسک کرنے والوں کے لٹریچر میں اہل بیت کی سیرت وکردار کا وہ نقشہ کھینچا گیا ہے کہ خدا کی پناہ ،جہاں اتنے پیچ پڑے ہوں وہاں اس سے تمسک کی عملی صورت کوئی دانشور بنا سکے تو یہ عظیم ریسرچ ہو گی۔
سوال نمبر 2
اگر قرآن کو محرف مان لیا جائے تو بھی ایمان میں خلل نہیں آتا جیسے توریت اور انجیل محرف ہیں لیکن ہمارا ان پر ایمان ہے
الجواب
قرآن کو موجودہ توریت اور انجیل پر قیاس کرنا مع الفارق ہے بلکہ قیاس خاسد ہے۔ ہمارا ایمان اور موجودہ توریت محرف پر نہیں بلکہ ایمان اس پر ہے کہ توریت اور انجیل نام کی کتابیں ہیں جو اللّٰه تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئی تھیں وہ بر حق تھیں مگر شیعہ کا ایمان نزول قرآن پر بھی نہیں ہو سکتا ،کیونکہ شیعہ لوگ قرآن کے نزول کے عینی شاہدوں ناقلین قرآن کی جماعت کو جھوٹاب ہی نہیں بلکہ ایمان سے محروم قرار دے چکے ہیں جس کی تفصیل گذر چکی ہے۔پھر قرآن کے نزول پر ایمان کیونکر ہوسکتا ہے۔ہاں توریت اور انجیل کے نزول کی شہادت خود قرآن دیتا ہے اور قرآن کے نزول کی شہادت صحابہ رضی اللّٰہ عنہم دیتے ہیں، گویا توریت وانجیل کے نزول کے شاہد بھی صحابہ رضی اللّٰہ عنہم ہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سابقہ کتب الٰہی پر صرف ایمان لانا ضروری ہے مگر قرآن پر ایمان لانے کے ساتھ عمل کرنا بھی ضروری ہے۔شیعہ کا نہ تو قرآن پر ایمان ہے نہ اس پر عمل ہے۔
سوال نمبر 3:
ہماری تحریف کی روایات کی تاویل ہو سکتی ہے کہ ان کا تعلق اختلاف قراءت سے ہے ۔
الجواب
یہ سوال مذہب شیعہ اور اقوال ائمہ سے عدم واقفیت کی دلیل ہے۔ائمہ تو اختلاف قراءت کے منکر ہیں اور ائمہ کا یہ کہنا کہ قرآن منزل 18 ہزار آیت کا تھا اور قرآن موجودہ 6232 آیت اختلاف قراءت کا جا سکتا ہے یا اختصار قراءت مجتہد لکھنوی نے تاویل یوں کی ہے کہ جن روایتوں میں آتا ہے ھذہ الایتہ ھذا انزلت ان میں رسول کی گنجائش ہےکہ تفسیر ھذہ الایتہ ھکذا انزلت یعنی اس آیت کی تفسیر یوں نازل ہوئی تھی۔
مجتہد صاحب کی یہ تاویل کئی وجوہ سے باطل ہے۔
1_شیعہ کا اقرار موجود ہے کہ روایات تحریف قرآن تحریف پر صاف ہے اور بصراحت دلالت کرتی ہیں۔لہذا صراحت کے اقرار کے ساتھ تاویل کا اقدام ہی حرام ہے یہاں "ہو سکتی" ہے کا احتمال کہاں۔
2_ علامہ نوری نے فصل الخطاب 104 پر تصریح کر دی ہے کہ تحریف سے مراد تحریف لفظی ہے۔
ان الظاھر من التحريف تحريف اللفظ لا المعنى قلت حمل التحريف على المعنوى فيه قد مر فسادبما مزيد عليه وحمل الاسقاط على اسقاط التاويل اوضح منه.
ظاہر ہے تحریف سے مراد تحریف لفظی ہے معنوی نہیں اور تحریف کو تحت معنوی پو محمول کرنا فاسد ہے جیسا کہ گذر چکا ہے اور اسقاط سے اسقاط تاویل مراد لینا اس سے بھی ذیادہ فاسد ہے۔
3_ تفسیر قرآن الفاظ کی صورت میں نازل نہیں ہوتی تھی بلکہ معانی کی صورت میں حضور اکرمﷺ کے قلب اطہر پر نازل ہوتی تھی ان معانی کو نبی کریمﷺ اپنے الفاظ میں بیان فرماتے تھے اور اس کو حدیث کہتے ہیں یعنی قران کا متن اور اس کی تفسیر دونوں منزل من اللّٰه میں فرق یہ ہے کہ متن بصورت الفاظ نازل ہوا تھا اور تفسیر بصورت معنی نازل ہوئی جس کو حضور اکرمﷺ اپنے الفاظ بیان فرماتے متن کا نام قران ہے اور تفسیر کا نام حدیث ہے تفسیر کو قرآن نہیں کہتے اور اس تفسیر قرآن میں صرف حضورﷺ کے الفاظ ہی نہیں بلکہ اپ کا قول فعل اور تقریر اور صحابی کا قول فعل اور تقریر سب شامل ہیں۔قال تعالی ولا قد یسرنا لسانک۔یعنی ہم نے آپ کی زبان سے قرآن کو اسان کر دیا۔لسانک سے مراد حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو قران کی نبوی تفسیر ہے۔
سوال شیعہ نمبر 4:
تحریف سے مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آیات کا محمل بدل دیا جائے مقدم کو موخر کر دیا جائے اور مؤخر کو مقدم کر دیا جائے۔
الجواب:
تقدیم تاخیر کے لیے تحریف کی اصطلاح استعمال کرنا ایجاد بندہ ہے اس کا زیادہ سے زیادہ تغیر ترتیب کہا جا سکتا ہے جس سے خبط ربط ہو سکتا ہے اور تقدیم و تاخیر بھی مراد الہیئ کو خراب کر دیتی ہے لہٰذا تخریت کا نام تقدیم و تاخیر بھی رکھ دیا جائے تو شیعہ کا مسئلہ جوں کا توں الجھا ہی رہے گا۔ چنانچہ علامہ نوری نے فصل الخطاب ص120پر فرمایا
فمن تقدم سورۃ لا او تأخر فقد افسد نظيم القرآن
جس نے سورۃ قرآن کو آگے پیچھے کر دیا اس نے نظم قرآن کو فاسد کر دیا
پھر ص 270
افمن كان على بينة من ربه یعنی رسول الله ویتلوه شاهد منه وصيه اماما ورحمة ومن قبله کتاب موسی اولئك یومنون به فحرموها و قالوا افمن كان على بينة من ربه و يتلوه شاهد منہ ومن قبله كتاب موسی اماما ورحمتہ فقد مواحرفا علی حرف فذهب معنى الآية
پس جو شخص واضح راہ پر ہے اپنے رب سے یعنی رسول کریم شاہد سے امام مراد ہے جو وصی رسول کا اس سے پہلے کتاب موسیٰ رحمت تھی وہ لوگ اس کے ساتھ ایمان رکھتے ہیں۔ مگر قرآن میں صحابہ نے تحریف کر دی ۔ایک حرف کو آگے پیچھے کر دیا پس آیت کا معنی بدل دیا گیا۔
یعنی لفظ امام لفظ منہ کے ساتھ تھا مگر صحابہ نے امام کو موخر کر کے صفت کتاب موسیٰ کا بنا دیا یعنی لفظ امام کو موخر کر کے آیت کا معنی فاسد کر دیا، لہٰذا ثابت ہو گیا کہ تقدیم تاخیر سے مراد الٰہی بدل جاتی ہے۔ تحریف سے تقدیم تاخیر مراد لینے کی پناہ گاہ بے کار ثابت ہوئی لفظ تحریف استعمال کر دیا اصطلاح تقدیم تاخیر اپنا لو نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اور وہ یہ کہ شیعہ تحریف قرآن کے بہر صورت قائل ہیں محض لیبل بدلنے سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔
سوال شیعہ نمبر: 5
قرآن کے محرف ہونے کے باوجود ہمارا ایمان قرآن پر موجود ہے۔ تحریف کا گناہ صحابہ پر ہے۔
الجواب
قرآن کے محرف ہونے پر بھی قرآن پر ایمان ہے، کا مطلب یہ ہوا کہ شیعہ کا پختہ ایمان ہے کہ یہ قرآن وہ نہیں جو اللّٰه تعالیٰ نے محمد رسول اللّٰہ پر نازل کیا تھا۔ اب کوئی پوچھے کہ اس ایمان اور کفر میں فرق کیا ہے، بہر حال اس سوال سے آپ نے اس حقیقت کا اظہار کر دیا کہ آپ قرآن کے محرف ہونے پر یقین رکھتے ہیں۔ رہی یہ بات کہ تحریف قرآن کے گناہ کا ارتکاب صحابہ نے کیا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ صحابہ میں کون کونسے حضرات اس فعل میں سر فہرست آتے ہیں ۔ آپ نے تو یہاں تک تسلیم کرلیا کہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ وغیرہ وہی قرآن لکھتے جو مسجد نبوی میں نازل ہوتا تھا اور گھر میں نازل ہونے والا قرآن حضرت علی کے بغیر کوئی نہ لکھتا تھا تو حفاظت قرآن کی ذمہ داری بھی سب سے زیادہ حضرت علی پر آتی ہے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ حضرت علی بحکم الٰہی نبی کریمﷺ کے وصی اور خلیفہ بلا فصل تھے۔
دیکھنا یہ ہے کہ خلیفہ یا نائب کا منصب کس امر کا تقاضا کرتا ہے ، جو ڈیوٹی اصل حاکم کی ہوتی ہے وہی فرائض خلیفہ کو ادا کرنے ہوتے ہیں۔ خلیفہ بلا فصل کے سامنے تحریف قرآن ہوتی رہی اور وہ دیکھتے رہے کیا خلافت کا تقاضا یہی تھا ؟ کیا نبی کریمﷺ اپنی حیات طیبہ میں یہی کام کرتے رہے جو حضرت علی نے کیا۔ آپ یہی کہیں گئے کہ حضرت علی کمزور تھے۔
اصحاب ثلاثہ کے سامنے ان کا بس نہیں چلتا تھا مگر کمزوری کی بھی کوئی حد ہوتی ہے جب حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ عملاً خلیفہ بنے اس وقت کس کا ڈر تھا کہ اصل قرآن غیر محرف کو رائج نہ کیا اور محرف ان کو درست نہ کیا اگر حضرت علی ایسے ہی کمزور تھے کہ نہ خلفائے ثلاثہ کے عہد میں دین کو بگڑنے سے بچا سکے نہ اپنے عہد حکومت میں بگڑے ہوئے دین کی اصلاح کر سکے تو انہیں خلیفہ بلا فصل اور وصی بنانے کا مقصد کیا تھا جو خلیفہ نہ سنت رسولﷺ جاری کر سکے نہ قرآن درست کر سکے نہ اصل قرآن رائج کر سکے نہ جہاد کر سکے اسے خلیفہ مقرر کرنے سے فرض کیا ہو سکتی ہے۔ یہی کہا جا سکتا ہے کہ مقرر کرنے والے رسول کریمﷺ ہیں اور آپ نے بحکم الٰہی حضرت علی کو خلیفہ اور وصی مقرر کیا، پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا کو علم نہیں تھا کہ حضرت علی اتنے کمزور ہیں کہ وزیر ہوں یا امیر کسی حال میں بھی نیابت کا حق ادا نہیں کر سکیں گے آخری جواب یہی بن سکتا ہے کہ خدا کو بدا ہو گیا، انجام کار نہ سوچ سکا اور حضرت علی کو خلیفہ بلا فصل بنا دیا۔ یہ جواب ایسا ہے کہ بس لا جواب ہے ۔
سوال شیعہ نمبر 6 :
مولوی اسماعیل شیعہ نے کہا تھا کہ قرآن ہمیں تواتر طبقاتی سے ملا ہے اور تحریف قرآن کا عقیدہ شیعہ روایات سے بلاشبہ تواتر سے ثابت ہے مگر یہ تواتر معنوی ہے اور تواتر معنوی کا مقابلہ تواتر طبقاتی سے نہیں ہو سکتا، کیونکہ تواتر طبقاتی اعلیٰ قسم ہے اور تواتر معنوی ادنی لہٰذا حکم تواتر طبقاتی پر ہوگا۔
الجواب :
پہلی بات یہ ہے کہ آپ نے تسلیم کر لیا کہ قرآن کا محرف ہونا تواتر سے ثابت ہے۔ رہی بات تواتر مغوی اور طبقاتی کی تو آپ اپنے ائمہ معصومین سے تواتر طبقاتی کی کوئی روایت دکھائیں ۔ ائمہ سے عدم تحریف کی ایک صحیح روایت دکھا دیں میں ترک مذہب کی شرط پر یہ چیلینج کرتا ہوں ۔ کتب شیعہ میں چار قسم کے تواتر کا کہیں وجود ہی نہیں پایا جاتا۔
مولوی صاحب :- آپ نے فتح الملہم سے کہیں تواتر طبقاتی کا لفظ دیکھ لیا ۔ حضرت انور شاہ رحمۃ اللّٰہ نے چار قسم کا تواتر لکھا ہے تواتر روایات، تواتر توارث ، تواتر طبقاتی اور تواتر معنوی مگر ساتھ ہی یہ بھی لکھا ہے ان چار قسموں کے تواتر کا انکار کفر ہے۔
مولوی صاحب:
آپ نے سوال کیا کیا خود اپنی زبان سے اپنے آپ پر شیعہ پر کفر کا فتویٰ صادر کر دیا کہ شیعہ تواتر معنوی سے تحریف قرآن کے قائل ہیں۔
سوال شیعہ نمبر7
سنیوں کی کتابوں میں بھی روایات تحریف قرآن موجود ہیں ۔ یہ سوال ایسا ہے کہ شیعہ کو اس پر ناز ہے چنانچہ مولوی اعجاز الحسن بدایونی نے تنبہیہ الناصبین میں علامہ حائری نے مواعظ تحریف میں علامہ دلدار علی نے صوارم میں اور مولوی حامد حسین نے استقصاء الافہام میں اور مرزا محمد کشمیری نے نذھہ میں درج کیا ہے ۔
الجواب
1) الزامی جواب حقیقی جواب ہر گز نہیں ہو سکتا ، مناظرانہ فنکاری سے کام لیتے ہوئے کسی سنی کے مقابلہ میں یہ الزامی جواب دے کر خوش ہو سکتے ہیں مگر خود تحریف کے عقیدے سے دستبردار نہیں ہو سکتے بلکہ اس جواب میں آپ کا اقرار موجود ہے کہ آپ تحریف قرآن کے قائل ہیں اگر کسی یہودی، عیسائی یا آریہ کو آپ یہی جواب دیں تو اسے جواب نہیں کہا جائے گا لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے عقیدہ تحریف قرآن کا کوئی علمی اور تحقیقی جواب دیں۔
(2) اہلسنت کے ہاں جو روایات ملتی ہیں ان سے کسی سنی عالم نے آج تک نہ تحریف قرآن کا مفہوم سمجھا، نہ بیان کیا ، بلکہ علمائے سنت کے مفسرین اور محدثین کی ایک جماعت نے نسخ تلاوت کا بھی اس بناء پر انکار کر دیا کہ جن روایات سے بعض آیات کا منسوخ التلاوت ہونا ثابت ہوتا ہے وہ سب اخبارا حاد ہیں اور ظنی ہیں ان کی وجہ سے کسی آیت کا نزول و نسخ ثابت نہیں ہو سکتا ، چنانچہ تفسیر اتفاق میں علامہ سیوطی نے قاضی ابو بکر سے نقل کیا ہے۔
تنبیہ حكى القاضي في الانتصار عن قوم انكار هذا الضرب لان الاخبار فيه اخبار احاد ولا يجوز القطع على نزول قرآن نسخه باخبار الاحاد لاجة فيها.
قاضی ابو بکر نے اپنی کتاب انتصار میں علماء کی ایک جماعت کا انکار نقل کیا ہے کہ اس قسم کی روایات اخبار احاد ہیں اور قرآن کے نازل ہونے اور منسوخ ہو جانے کا یقین کرنے کے لیے ان روایات کو سند تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
بفرض محال یہ روایات صحیح بھی ہوتیں تو واجب الرد تھیں کیونکہ قرآن تواتر طبقاتی سے ثابت ہے کہ اور یہ غیر متواتر روایات اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی، پھر یہ بات ہے کہ یہ روایات نسخ کے متعلق ہیں اگر یہ تحریف کی روایات ہوتی تو اہل سنت کے اصول کے مطابق تواتر کے مقابلہ میں مردود تھیں اس کے برعکس شیعہ کے ہاں تحریف کی روایات کا یہ مقام ہے کہ
(الف) وہ متواتر ہیں۔
(ب) زائد از دو ہزار ہیں۔
(ج) روایات امامت کا ہم پلہ ہیں۔
(د) قرآن کی تحریف پر صاف دلالت کرتی ہیں ۔
اور ان روایات کی سند پر شیعہ کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن محرف ہے۔
(3) نسخ کی جو روایات اہل سنت کے ہاں پائی جاتی ہیں وہ نبی کریمﷺ سے منقول نہیں اور اہل سنت کے عقیدہ کے مطابق نبی کریمﷺ کے علاوہ کوئی اور شخص معصوم نہیں اس کے برعکس تحریف قرآن کی روایات شیعہ کے ہاں متواتر طور پر اماموں سے منقول ہیں جو ان کے ہاں معصوم اور مفترض الطاعتہ ہیں۔
(4) اہلسنت میں کوئی شخص تحریف قرآن کا قائل نہیں بلکہ وہ اس عقیدہ کو بدترین کفر جانتے ہیں اور اس امر کا اقرار شیعہ کو بھی ہے چنانچہ مولوی حامد حسین نے استقصاء الافحام جلد 1 ص 9 پر دیا ہے۔
مصحف عثمانی که اهلسنت آن را قرآن کامل اعتقاد کند و معتقد نقصان ان را ناقص الایمان بلکه خارج از اسلام پندارند۔
مصحف عثمانی کو اہلسنت قرآن کامل اعتقاد کرتے ہیں اور اس میں کی پیشی کے قائل کو ناقص الایمان بلکہ خارج از اسلام جانتے ہیں۔
یہ شیعہ سلطان المناظرین کا اقرار ہے۔
5)جو روایات تفسیر اتقان یا در منشور یا معالم التنزیل سے پیش کی جاتی ہیں ان روایات کا یہ مضمون نہیں کہ اس آیت میں تحریف کر دی گئی ہے یا کمی یا زیادتی کی گئی ہے، جیسا کہ شیعہ روایات میں صاف صاف یہ ذکر کیا جاتا ہے۔ اہل سنت کے تمام علماء و محدثین ، مفسرین نے ان روایات کو نسخ تلاوت پر محمول کیا ہے کسی ایک عالم نے بھی ان سے تحریف کا مفہوم نہیں لیا۔ لطف کی بات یہ ہے کہ مناظرہ کے مقام سے ہٹ کر شیعہ مفسرین نے بھی تین قسم کا نسخ مانا ہے جیسا کہ شیعہ مفسر ابو علی طبرسی نے اپنی تفسیر مجمع البیان میں زیر آیت ما نسخ من آية میں لکھا ہے۔
والنسخ و في القرآن على ضروب منها ان يرفع حكم لاية وتلاوتها كما روی من إلى بكرة انه قال كنا نقرا الاترغبوا عن ابا نگر خانه نفر بكم ومنها ان يثبت الولاية في الحظ ويوقع حكمها كقوله فأن فاتكم شيء من أزواجكم فعاتبو فهد ا ثابت اللفظ في الخط مرتفعة الحكير ومنها ما يرتفع الفظ ويثبت الحكم كاية الرحم لقد جاءت اخبار كثيرة بان اشيا كانت في القرآن و اسلام تلاوتها فقه ها ماروی عن اإلى موسی انہ کانوا یقرون لو کان لاین ادهم و اديان لا تخابها ثالثا ولا يلا جوف ابن أدم الا التراب و يتوب الله على من تاب تم رفع وعن الس ان سبعين من الانصار الذين تتلوا بينو معونة فنزل فيهم قرآن بلغوا عنا قومنا أنا لقينا ربنا فرضی عنا و ارضا تا ثم رفع ذلك قد ذكرنا حقيقة النسخ عند المحقيقين .
قرآن میں نسخ کئی قسم کا ہوا ہے مثلاً ایک یہ کہ آیت اس کا حکم اور تلاوت دونوں ممنوع ہو جائیں جیسا کہ ابی بکرہ کی روایت میں منقول ہے کہ ہم یہ پڑھتے تھے الاتر غبو الخ ۔ دوسری قسم ہہ کہ تلاوت باقی رہے اور حکم منسوخ ہو جائے جیسا کہ آیت فان فاتکم الخ اس کا لفظ موجود ہے حکم اس کا منسوخ ہے اور تیسری قسم یہ کہ تلاوت منسوخ ہو جائے اور حکم باقی رہے جیسا کہ آیت رحیم حقیقت یہ ہے کہ اکثر روایات میں آچکا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں ایسی تھیں جن کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے ازاں جملہ ایک روایت وہ ہے کہ ابو موسیٰ سے منقول ہے کہ لوکان لابن آدم الخ اس کی لوگ تلاوت کرتے تھے پھر وہ منسوخ ہو گئی اور انس سے روایت ہے کہ ستر انصاری جو بیری معونہ میں شہید ہوئے تھے ان متعلق قرآن میں کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں۔ یعنی بغوا عنا الخ پھر ابو علی طبرسی کہتا ہے کہ نسخ کی حقیقت پر محققین کے نزدیک مسلم ہے میں نے بیان کر دی۔
اس سے معلوم ہوا کہ شیعہ محققین بھی تین قسم کا نسخ مانتے ہیں پھر حیرت ہے کہ وہ اہلسنت کی روایات نسخ کو تحریف پر کیوں محمول کرتے ہیں۔
تحریف قرآن کا عقیدہ اہل سنت کے ہاں عقلاً بھی محال ہے، کیونکہ اہل سنت صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ کو کامل الایمان اور جاں نثاران رسولﷺ اور محافظین قرآن مانتے ہیں، نبی کریمﷺ نے صحابہ کی ایک جماعت کو کتابت وحی کی خدمت پر مقر کیا تھا جن میں خلفائے اربعہ .
حضرت امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ زبان سعید ، خالد بن ولید ،ابی ابن کعب، از زید بن ثابت اور ثاقب بن قیس ارقم بن ابی اور حنزلہ بن ربیع وغیر ہم شامل ہیں ان میں سے نزول آیت کے وقت جو شخص حاضر ہوتا فوراً ضبط تحریر میں لے آتا اس طرح حضور اکرم نے خود حفاظت قرآن کا اہتمام کیا اور حضور کی زندگی میں صحابہ میں حفاظ قرآن کی ایک جماعت موجود تھی جن میں خلفائے اربعہ رضی اللّٰہ عنہم،امیر معاویہ رضی اللّٰہ عنہ، طلحہ رضی اللّٰہ عنہ ،زبیر رضی اللّٰہ عنہ ، سعد رضی اللّٰہ عنہ، ابن مسعود ، حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللّٰہ عنہ،ابو ہریرہ ابن عمر رضی اللہ ، ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ عمرو ابن عاصی، عبداللّٰہ بن عمر عبد اللّٰہ بن زبیر عبد اللّٰہ بن ساب، حضرت عائشہ ، حضرت حفصہ ، حضرت ام سلمی ، ابی ابن کعب ، معاذ بن جبل زید بن ثابت ، ابودردا رضی اللّٰہ ، مجمع بن حارثہ ، انس بن مالک اور ابوزید وغیرہ قرآن کے حافظ موجود تھے وہ حفاظ قرآن ان کے علاوہ ہیں وہ کیں جو ستر کے قریب بیر معونہ میں شہید ہوئے اور اس سے کہیں زیادہ یمامہ کی لڑائی میں ، قرآن کریم تین بار جمع ہوا۔ سب سے پہلے نبی کریمﷺ کے زمانے میں اس دور میں جمع قرآن کی صورت یہ تھی کہ جب کوئی آیت نازل ہوتی نبی کریمﷺ کاتب الوحی کو فرماتے تھے کہ اس آیت کو فلاں سورۃ میں فلاں محل اور مقام پر رکھو ، یعنی آیات کی ترتیب و نبی کریمﷺ نے بنائی تھی۔ جو لوگ لکھنا جانتے تھے وہ مختلف ، چیزوں پر لکھتے تھے جن میں ہڈیاں پتے ، پھر اور کپڑا وغیرہ شامل ہیں۔
جمع قرآن کا دوسرا دور صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا کارنامہ ہے آپ نے تمام صحابہ کے پاس سے لکھا ہوا مواد منگوایا اور حفاظ قرآن کی مدد سے اسی ترتیب کے ساتھ جمع کیا گیا جو نبی کریمﷺ نے صحابہ کو سکھائی تھی۔
تیسرا دور حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ کا ہے اس دور میں تو قریش کے لہجے پر قرآن پڑھنے پر لوگوں کو جمع کیا گیا پھر وہ آیات جو منسوخ التلاوت تھیں نکال دی گئیں وہ عبارتیں جو تلاوت قرآن کے دوران متن کے علاوہ بطور دعا پڑھی جاتی تھیں اور بعض حضرات نے لکھ رکھی تھیں وہ نکال دی گئیں ، اسی طرح جو مشکل الفاظ کے معانی صحابہ نے لکھوا رکھے تھے یا کسی قرآن آیت کی کوئی خاصیت لکھی ہوئی تھی وہ عبارتیں نکال دی گئیں۔ اس اقدام کو کوئی کور باطن اس طرح ( EXPLOIT کر سکتا ہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کا کچھ حصہ اپنی مرضی سے نکال دیا تھا مگر اس قرآن پر صحابہ کا اجماع اور اس ترتیب پر صحابہ کا اتفاق قرآن کے غیر محرف ہونے کی قطعی دلیل ہے اور یہی قرآن تواتر طبقاتی سے ہم کو ملا ہے اگر تواتر سے امان اٹھ جائے تو دنیا میں کوئی چیز کوئی مذہب اور کوئی دین یقینی نہیں رہے گا ۔ یہ بات صرف شیعہ کی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ خلفائے ثلاثہ کوئی مافوق الفطرت قوت کے مالک تھے کہ اتنی بڑی جماعت جو ایک لاکھ اور کئی ہزار پر مشتمل تھی اور حد تواتر کو پہنچ چکی تھی اس ساری جماعت کو جھوٹ پر جمع کر لیا ورنہ یہ دعویٰ کوئی صحیح العقل انسان تسلیم نہیں کرسکتا۔ یہ خیال رہے کہ حضرت عثمان نے قرآن کو ترتیب نزولی پر جمع نہیں کیا بلکہ اسی ترتیب پر جمع کیا جونبی کریمﷺ نے اللّٰہ تعالیٰ کی طرف سے مطلع ہو کر صحابہ کو بتائی تھی ۔ آیات کی ترتیب توقیفی ہے جو بنی کریمﷺ نے بتائی تھی اسی ترتیب سے جمع ہوا۔ سورتوں کی ترتیب میں اختلاف ہے۔
تفسیر مناہل العرفان جلد 1ص 347 پر لکھا ہے۔
ان ترتيب السور لها توقيفي بتعليم الرسول كترتيب الآيات وانه لم يوضع سورة ...في مكانها الا با مرمته صلى الله علیہ وسلم۔
تمام سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے جو نبی کریمﷺ کی تعلیم سے رکھی گئی جس طرح ترتیب آیات کو ہر آیت اور سورۃ اپنے اپنے عمل پر حکم رسولﷺ رکھی گئی۔
اور ابو جعفر نخاس نے اپنی تفسیر الناسخ المنسوخ میں فرمایا ۔
والمختاران تأليف السور والآیات علی هذا الترتيب من رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔
اور مذہب مختار یہ ہے کہ قرآن کی سورتوں اور آیتوں کی ترتیب نبی اکرمﷺ کے حکم سے رکھی گئی-
اور علامہ ابو بکر انباری کا فرمان ہے کہ
ويقف جموئيل النبي صلى الله عليه ما را عوض السور والايات والحروف لله۔
اور حضرت جبریل نبی کریمﷺ کو مطلع کرتے تھے ہر سورہ ہر آیت اور ہر حروف کے متعلق کہ فلاں جگہ رکھا جائے ۔
تفسیر مناہل العرفان میں ہے کہ قرآن کا رسم الخط بھی نبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق ہے:
ان توفيقي لا تجوز من الفته و ذلك منذهب الجمهور.
تالیف و ترتیب قرآن کی توقیفی ہے اس کی مخالفت ناجائز ہے اور یہی مذہب ہے جمہور اسلام کا۔
حضرت عثمان نے قرآن کریم کی نقول تیار کرا کر ممالک محروسہ میں بہیج دیں ۔ علامہ ابن عاثرنے فرمایا کہ ان کی تعداد چھ تھی اور مختلف مقامات کی نسبت سے ان کے نام مکی، شامی، بصری، کوفی اور مدنی عام اور ایک نسخہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے پاس رکھا تھا جیسے مدنی خاص کہا گیا ۔ بعض کا قول ہے کہ یہ تعداد زیادہ تھی، ایک بحرین میں بھیجا، ایک یمن میں اور ایک مصر میں بھیجا۔
حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے ہر جگہ قرآن کی تعلیم دینے کے لیے معلمین بھی مقر فرمائے ۔ مدینہ منورہ میں زید بن ثابت کو مکہ مکرمہ میں عبد اللّٰہ بن سائب کو ، شام میں مغیرہ بن شعبہ کو، کوفہ میں ابا عبد الرحمن سلمی کو اور بصرہ میں عامر بن عبد القیس کو مقرر فرمایا پھر یہ روش تابعین میں قائم رہی، چنانچہ تفسیر مناہل العرفان میں ہے :-
ثم نقل التابعون عن الصحابة فقر أ اهل كل عصر ومصر بما في مصحفهم تلقي من الصحابة الذين تلقوه من فمر رسول اللہ فقاموا في ذلك مقام الصحابة الذين تلقوه كو من قم رسول الله ثم اجتمعت الامة وهي معصومة من الخطاء في اجتماعها على مافی ال۔صاحف
پھر یہ قرآن تابعین نے نقل کیا اور ہر ملک اور ہر زمانے کے مسلمانوں نے اسے پڑھا صحابہ نے جیسے نبی کریمﷺ کی زبان سے یہ قرآن سنا، تابعین کو پہنچایا اسی طرح تابعین نے آئندہ نسل کو منتقل کیا۔ امت کا اس پر اجماع ہے اور قرآن ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے۔ !
سورتوں کی ترتیب میں اختلاف ہے۔
تفسیر مناہل العرفان جلد1 ص4 پر لکھا ہے۔
ان ترتيب السور لها توقيفي بتعليم الرسول كترتيب الآيات وانه لم يوضع سورة ...في مكانها الا با مرمته صلى الله علیہ وسلم۔
تمام سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے جو نبی کریم کی تمام سورتوں کی ترتیب توقیفی ہے جو نبی کریمﷺ کی آیت اور سورۃ اپنے اپنے عمل پر حکم ہوئی رکھی گئی۔
اور ابو جعفر نخاس نے اپنی تفسیر الناسخ المنسوخ میں فرمایا ۔
والمختاران تأليف السور والآیات علی هذا الترتيب من رسول الله صلى الله عليه وسلم ۔
اور مذہب مختار یہ ہے کہ قرآن کی سورتوں اور آیتوں کی ترتیب نبی اکرمﷺ کے حکم سے رکھی گئی ۔اور علامہ ابو بکر انباری کا فرمان ہے کہ
ويقف جموئيل النبي صلى الله عليه ما را عوض السور والايات والحروف لله۔
اور حضرت جبریل نبی کریمﷺ کو مطلع کرتے تھے ہر سورہ ہر آیت اور ہر حروف کے متعلق کہ فلاں جگہ رکھا جائے ۔
تفسیر مناہل العرفان میں ہے کہ قرآن کا رسم الخط بھی نبی کریمﷺ کے حکم کے مطابق ہے:
ان توفيقي لا تجوز من الفته و ذلك منذهب الجمهور.
تالیف سے نیب قرآن کی توقیفی ہے اس کی مخالفت نا جائز ہے اور یہی مذہب سے جمہور اسلام کا۔
حضرت عثمان نے قرآن کریم کی نقول تیار کر گر ممالک محروسہ میں جیح دیں ۔ علامہ ابن عاشر
نے فرمایا کہ ان کی تعداد چھ تھی اور مختلف مقامات کی نسبت سے ان کے نام کی ۔ شامی بصری کوئی اور مدد کی عام اور ایک نسخہ حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے اپنے پاس رکھا تھا جیسے مدنی خاص کہا گیا ۔ بعض کا قول ہے کہ یہ تعداد زیادہ تھی، ایک بحرین میں بھیجا، ایک مین میں اور ایک مصر میں بھیجا۔
حضرت عثمان رضی اللّٰہ عنہ نے ہر جگہ قرن کی تعلیم دینے کے لیے ملین بھی مقر فرمائے ۔ مدینہ سورہ میں زید بن ثابت کو مکہ مکرمہ میں عبد اللّٰہ بن سائب کو ، شام میں مغیرہ بن شعبہ کو کوفہ میں ابا عبد الرحمن سلمی کو اور بصرہ میں عامر بن عبد القیس کو مقرر فرمایا پھر یہ روش تابعین میں قائم رہی، چنانچہ تفسیر مناہل العرفان میں ہے :-
ثم نقل التابعون عن الصحابة فقر أ اهل كل عصر ومصر بما في مصحفهم تلقي من الصحابة الذين تلقوه من فمر رسول اللہ فقاموا في ذلك مقام الصحابة الذين تلقوه كو من قم رسول الله ثم اجتمعت الامة وهي معصومة من الخطاء في اجتماعها على مافی ال۔صاحف
پھر یہ قرآن تابعین نے نقل کیا اور ہر ملک اور بیر زمانے کے مسلمانوں نے اسے پڑھا صحابہ نے جیسے نبی کریم کی زبان سے یہ قرآن سنا، تابعین پہنچا یا اسی طرح تابعین نے آئندہ نسل کو منتقل کیا۔ امت کا اس پر اجماع ہے اور قرآن ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے۔ !