Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حدیث طیر

  مولانا ثناء اللہ شجاع آبادی

حدیث طیر

”حدیث طیر" امامت  علی کے حوالے سے شیعہ کے اہم ترین دلائل میں سے ایک ہے۔ جسے امام حاکم نے اپنی مستدرک میں انس بن مالک سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت کرتا تھا، (ایک بار) رسول اللہﷺ کو ایک بھنی  ہوئی  چڑیا  پیش کی گئی۔ آپﷺ نے فرمایا:

اللهم أتنی بأحب خلقت إليك يا معى من هذا الطير "اے اللہ! میرے پاس ایسے شخص کو بھیج  دے جو تیری مخلوق میں تجھے سب سے  زیادہ محبوب ہوا تاکہ میرے ساتھ اس چڑیا میں سے کھائے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ سے یہ دعا سن کر میں نے دعا کی کہ اے اللہ! محبوب بندہ قبیلہ انصار میں سے کسی کو بنا دے لیکن علیؓ تشریف لے آئے تو میں نے انہیں یہ کہ کر واپس کر دیا کہ نبی اکرمﷺ کسی کام میں مصروف ہیں، جب وہ دوبارہ آئے تو میں نے وہی بات کہہ کر واپس کر دیا، پھر تیسری بار وہی آئے تو آپﷺ نے فرمایا: افتح" دروازہ کھول دو“۔ جب وہ اندر آۓ اور آپﷺ نے فرمایا ما حسبک یا على، "کون سی چیز تیرے لیے یہاں آنے سے مانع ہوئی؟ عرض کیا: یہ تیسری مرتبہ مگر انس یہ کہہ کر واپس کردیتے تھے کہ نبی اکرمﷺ کسی کام میں مصروف ہیں ۔ آپﷺ نے انسؓ سے دریافت کیا:ما حملك على ما صنعت؟ "تم نے ایسا کیوں کیا؟‘‘جواب دیا: اے اللہ کے رسولﷺ! آپ کی دعا سن کر میری یہ خواہش تھی کہ وہ آدمی میری قوم کا ہو، تو آپﷺ نے فرمایا: ان الرجل قد يحب قومه، ہر آدمی  کو اپنی قوم سے محبت ہوتی ہے۔ (المستدرک، 130،131/3. سند اور متن دونوں اعتبار سے یہ حدیث ضعیف ہے)

یہ حدیث مختلف اسناد سے مروی ہے لیکن کوئی بھی سند ضعف سے خالی نہیں، مزید برآں انس بن مالک رضی الله عنہ کی طرف منسوب شده ان روایات کی اتنی کثرت اور پھر ان میں کوئی روایت سندا  صحیح نہ ہونا ایک تعجب خیز بات ہے۔ اور یہ سوچنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے کہ انسؓ کے وہ ساتھی اور شاگرد جنہوں نے کئی کئی سال تک آپ کی مصاحبت اختیار کی وہ کہاں تھے کہ انہیں اس روایت کا کوئی علم نہ ہو سکا؟ اور کسی نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا؟ حالانکہ وہ لوگ ثقاہت کے اعلی مقام پر تھے، جیسا کہ حسن بصری، ثابت البنانی " حميد الطويل، حبیب بن ابی ثابت، بکر بن عبد اللہ المزنی اور دیگر بہت سے افراد جو آپ سے احادیث روایت کرتے ہیں۔ اور ان کے علاوہ نامعلوم کتنے تابعین آپ کے شاگرد ہیں ان سے ہم ناواقف ہیں۔ علامہ قاضی ابوبکر الباقلانی نے ایک ضخیم کتاب ’’حدیث طیر کی سنداً اور متناً تضعیف پر لکھی ہے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ابن مردویہ نے اس حدیث کو تقریباً بیس(20) اسناد سے نقل کیا ہے لیکن سب تاریکی میں ہیں اور سب متکلم فیہ ہیں اس لیے میں نے اس  پر زیادہ طول طویل بحث نہیں کی۔ (سیدنا علی بن ابی طالب، ڈاکٹر محمد علی الصلابی) 

حدیث طیر محققین علماء اور اہل فن محدثین کے نزدیک من گھڑت اور جھوٹی ہے۔ (منہاج السنۃ: 99/4)