عراقی شیعہ
الشیخ ممدوح الحربیعراقی شیعہ
یہ بات یقینی ہے کہ ایران کی نظریں، عراق پر لگی ہوئی ہیں کیونکہ وہ اسے مقدس سر زمین قرار دیتے ہیں، اس میں کربلا ہے، کربلا ان کے نزدیک مکہ مکرمہ سے بھی کئی گنا بڑھ کر ہے اور وہاں ان کا نجف شہر ہے۔ یہاں ایران سے روزانہ ایک ہزار آدمی زیارت کے لئے آتا ہے۔ یہ بھی حکومت عراق نے تعداد کا پابند کر رکھا ہے اگر یہ نہ ہو تو پتہ نہیں وہاں کیا حال ہو۔
عراق اور بغداد میں شیعہ خود کو اکثریت ظاہر کرتے ہیں، حالانکہ یہ جھوٹ ہے اور جھوٹ بولنا ان کا دین ہے۔ یہ ہر جگہ اپنی اکثریت کا جھوٹا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ عراق میں جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کی جستجو کے مطابق (40/100) ہیں یہ تب ہے جب کردی مسلمانوں کو بھی عراق میں شامل کریں ان کی (95/100) آبادی سنی ہے کیونکہ جنوبی علاقوں میں شیعوں کی آبادی بہت کم ہے اور بصرہ وغیرہ میں، حالانکہ وہاں سے شیعوں کے ظلم سے تنگ ہو کر بہت سارے سنی ہجرت کر چکے ہیں، اس کے باوجود آدھی آبادی سنی ہے۔ علمی ادارے اور ان کے دینی مدارس شیعہ عقائد پھیلانے میں حد درجہ متحرک ہیں، انہیں خصوصی تحفظ حاصل ہے، ان کا ہر عالم اور مدرس اپنے ادارہ کا خود کفیل ہے اور ان مدارس کا فتویٰ قابلِ اعتماد ہے اور یہ ادارے زیادہ تر نجف اور کربلا میں پھیلے ہوئے ہیں، ان مدارس میں طلباء کی تعداد محدود نہیں۔ غیر محدود ہے اور ہر وقت ان کا داخلہ کھلا ہے اور ہر عمر میں پڑھ سکتے ہیں۔ اور ان کی تعلیم پر توجہ مرکوز ہے کیونکہ عراق کی اندرونی کمائی کی بہ نسبت ان مدارس میں پڑھانے اور پڑھنے والوں کو امتیازات حاصل ہیں اور مدرسہ سے فراغت کے بعد بھی انہیں سہولیات میسر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان مدارس میں سے ہر مدرسہ تقریباً پندرہ سو کے قریب طلباء مستقل طور پر زیرِ تعلیم رہتے ہیں اس کے مدرس کی تخواه کم از کم (150) ڈالر ماہانہ ہے اور اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی دوائی مفت ہوتی ہے بلکہ سرجنی بھی مفت ہوتی ہے ہاں کوئی دوسری طرف سے اسے تعاون آ جائے تو پھر وہ خود خرچہ برداشت کرتا ہے۔ اور کئی مدرسین کو گاڑی اور ڈرائیور دیا جاتا ہے، رہائش دی جاتی ہے، ایران کو سفر کے مفت ویزے دیئے جاتے ہیں اور ہر مدرس شیعہ مذہب کی کتابوں پر مشتمل ایک بڑی لائبریری بھی تیار کر کے رکھتا ہے۔ طلباء کے وظائف ہوتے ہیں جو پچاس ڈالر کے قریب ہوتے ہیں۔ رہائش دی جاتی ہے، خواہ شادی شدہ طلباء ہوں یا غیر شادی شدہ ہوں۔ اور علاج معالجہ کی سہولیات اس کے علاوہ ہیں اور دائیں بائیں سیر کے لیے گاڑی کی سہولت مفت میسر ہے۔ جو چوتھے سال میں ہوتا ہے وہ تدریسی فرائض بھی سر انجام دیتا ہے اسے دیگر طلباء والے اخراجات کے علاوہ ماہانہ تنخواہ دی جاتی ہے۔ اور جو طلباء میں ممتاز حیثیت حاصل کرتے ہیں ان کی دلجوئی تو تصور سے بھی بالاتر ہے گویا وہ تو ایک کسریٰ بادشاہ ہے جسے تخت پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اور اس کی شادی میں پورا تعاون کرتے ہیں اور خفیہ اعلانیہ دستِ تعاون اس کے ساتھ رکھتے ہیں، اسے دنیا کی ہر ضرورت سے بے نیاز کر دیتے ہیں، اس کے باوجود یہ حسبِ توفیق صنعت و حرفت بھی سیکھتے ہیں کہ کسی بھی ناگہانی مصیبت سے نبرد آزما ہو سکیں اور روزی کما سکیں۔
بغداد اور دیگر علاقہ جات میں شیعوں نے جو غلبہ کی منصوبہ بندی کی ہے اس کی تعمیل کے لیے بغداد کے بازاروں میں آپ کو شیعہ ہی پھیلے ہوئے نظر آئیں گے۔ خاص طور پر بغداد کے جنوبی علاقہ میں جو لوگ ہیں یہ ایسے تاجر ہیں جو شیعوں کے داعی ہیں اور ان کی تنظیم کے ہیں اور ایران کے سپورٹر ہیں یہ شیعوں کی دینی رسومات کی تجدید کرتے ہیں اور انواع و اقسام کے کھانے بناتے ہیں اور ہرلیہ سیدنا حسیںؓ عیش سیدہ فاطمہؓ خبز سیدنا عباسؓ کے نام سے تقسیم کرتے ہیں سنی لوگ ان سے نہایت ہی حسنِ نیت کے ساتھ معاملات کرتے رہتے ہیں۔ جو ان کی سادگی کی دلیل ہیں اس سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے خوب کمائی کی اور زر اور زن کے ذریعہ غالب آ گئے۔ مفاد نکال کر سنیوں کو پسِ پشت ڈال دیا۔
عراقی شہروں پر قبضہ میں بھی ان کے تیار کردہ طریقے تھے۔ زمین خرید لی، بغداد میں جہاں شیعہ آبادی زیادہ تھی اس علاقہ میں گھر بسا لیے۔ اگر آپ یہ کہہ دیں کہ فلاں زمین برائے فروخت ہے شیعہ خواہ کسی بھی جگہ بکھرے ہوں گے وہ اس علاقے کے گھروں کو پہلی ہی فرصت میں خریدیں گے۔ خواہ کتنی ہی زیادہ گراں قیمت کیوں نہ ہوں۔
عراق میں تجارتی منڈیاں اور خصوصاً بغداد کے بازار تو شیعوں کی آواز بن چکے ہیں کسی بھی تجارتی علاقہ سے گزریں شیعہ ہی بیٹھا نظر آئے گا اور بعض بازار تو مکمل شیعوں کے ہیں اگر ان کے ہاں کوئی باپردہ خاتون اور باشرع داڑھی والا نوجوان گزرے گا تو وہ شیعوں سے طعن و تشنیع اور طنز اور ہیجان انگیز بات سنے گا۔ اگر تم انہیں سلام بھی کہو گے تو وہ جواب نہ دے گا۔ اگر دے گا تو وعلیکم کہے گا۔ جیسا کہ مسلمان یہودیوں کو وعلیکم کہتے ہیں گویا کہ تم ان کے لیے یہودی ہو۔ اگر کوئی سودا پوچھو تو سودا ہوگا مگر پرسکون انداز میں کہہ دیں گے یہ میرا نہیں میں فروخت نہیں کر سکتا۔ بلکہ اگر کوئی نوجوان مکمل ممتاز مسنون داڑھی رکھے ہوئے ہو اس کی بات سن کر اسے بھڑکائیں گے تاکہ یہ جھگڑا کرے اور اسے زود و کوب کریں۔ نقل و حرکت اور مواصلات کے تمام شعبے ان کے زیرِ تسلط ہیں۔ اور حکومتی ذرائع مواصلات پر بھی ان کا ہی اثر ہے بسیں اور چھوٹی کرایہ کی گاڑیاں اکثر ان کے تسلط میں ہیں۔ اور جو بھی ان میں سوار ہو ان کی یہ تمنا ہوتی ہے کہ اس تک ان کے باطل مذہب کی بات پہنچے، اگر بغداد میں کوئی اجنبی آ جائے اور بازار میں چلے تو وہ یہی تصور کرے گا میں اکیلا ہی سنی ہو باقی سب شیعہ ہیں۔ جو بھی گاڑی کرایہ پر لیں اس میں سیدنا علیؓ اور آلِ نبیﷺ کی خود ساختہ جھوٹی تصاویر لٹکی ہوں گی یا سیاہ عَلم لٹک رہا ہوگا۔ عراق کے بعض معروف خاندان ہیں یہ جنوب میں رہتے ہیں ان کے بعض افراد بھی شیعہ ہو چکے ہیں ان کے شیعہ مذہب میں آنے کی وجہ یہ ہوتی ہے، حالانکہ یہ سنیوں کے بیٹے ہیں انہیں عورت کے لالچ نے شیعہ بنایا ہے، نکاح متعہ کے روپ میں جو یہ نوجوانوں کے سامنے تعاون پیش کرتے ہیں تو سنی نوجوان بدمست ہو کر شیعیت اختیار کر لیتے ہیں۔ اردن اور سوریا میں ایرانی سفارت کار اور ان کی سرگرمیوں سے متاثر لوگ شب و روز شیعہ مذہب پھیلانے میں مصروف ہیں، اردن اور سوریا میں جو عراقی باشندے سفر کرتے ہیں ہم نے دیکھا ہے ان کے پاس شام کا کھانا میسر نہیں ہوتا۔ جب شیعہ مذہب میں آ جاتے ہیں تو زمینیں خرید رہے ہیں، اجرت پر دے رہے ہیں اور بڑے بڑے کالونی سینٹر تیار کر رہے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ عراق میں موجود شیعہ نوجوان انہیں ایران میں پڑھنے اور وفد کی صورت میں جانے کی ترغیب دیتے ہیں اور جنگی مشقون اور فنون جنگ سے آگاہ کرنے اور اسلحہ چلانے کی ترغیب بھی دیتے ہیں اور مزید انہیں سفر اور مزارات کی زیارت پر راغب کرتے ہیں جیسا کہ سیدنا جعفر طیارؓ کی قبر جو کہ اردن میں ہے اور سوریا میں سیدہ زینبؓ کی قبر ہے۔ اس طرح یہ نوجوان مکمل طور پر شیعوں کے پرجوش داعی بن کر عراق لوٹتے ہیں اور یہ فعال اور منظّم ہو کر شیعیت پھیلاتے ہیں اور ان کے لیے یہ بات سونے پر سہاگہ ہے کہ اہم عراقی اداروں پر شیعوں کو غلبہ حاصل ہے۔ یہ دولت اور عورت کے سبب یہودیوں کی مانند چھا جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ چیز مشاہدہ میں آئی ہے کہ عراق میں گھریلو کلب ہیں اور بغداد میں کئی قسم کے کھیل کھیلے جاتے ہیں، جسے یہ انفرادی کھیل کا نام دیتے ہیں۔ کراٹے، کونگ فو، جوڈو وغیرہ ان کلبوں میں کھیلے جاتے ہیں، زیادہ تر تعداد خواہ سکھانے والا ہو یا سیکھنے والا ہو شیعہ کی ہے، ان کلبوں کے بارے میں ایک شیعہ سے پوچھا گیا جو کہ تربیت لے رہا تھا کہ تم یہ تربیت ان کلبوں میں کیوں لیتے ہو؟ تو اس نے کہا:
انهم يريدون ان يعودوا انفسهم على ضرب السنة بانفسهم لابالسلاح فالسلاح به موت سريع لا يشفی غليلهم۔
"ہم خود کو سنیوں پر کاری ضرب لگانے کے لیے یہ تیاری کر رہے ہیں ہتھیار سے موت جلدی واقع ہو جاتی ہے اس سے پیاس نہیں بجھتی اس طرح تڑپا کر مارنے میں مزہ آتا ہے۔“
اس کے برعکس جو شیعہ نوجوان شیعیت سے تائب ہو کر سنی عقیدہ میں داخل ہوتے ہیں انہیں گھروں سے نکال دیا جاتا ہے ان کا خاندان ان کی شیعہ قوم ان سے مکمل بائیکاٹ کر دیتی ہے اور انہیں واجب القتل قرار دیتے ہیں اور اگر ان میں شادی شدہ نوجوان ہو تو اس کی بیوی چھین لیتے ہیں ان سے ایسا سلوک کرتے ہیں جو کافر اور مرتد سے کیا جاتا ہے۔ عراق میں شیعوں نے اسلحہ خانہ بھی تیار کر رکھا ہے یہ مبالغہ نہ ہو گا حقیقت ہے کہ ان کے پاس اتنا بڑا اسلحہ خانہ ہے عالم اسلام کی بعض حکومتوں کے پاس بھی اتنا اسلحہ نہ ہو گا جب امریکہ نے عراق پر اٹیک کیا تھا تو یہ شیعہ اسلحہ کے بڑے بڑے ذخائر پر قابض ہو گئے تھے نیز ایران ان کی مدد کرتا ہے یہ شیعہ عراق میں ایران کی منظّم فوج ہیں، عراق میں کوئی اسلحہ ہو کتنا مہنگا ہو اور زیادہ ہو یہ شیعہ فوراً خرید لیتے ہیں اور اگر آپ بغداد ہی کا جائزہ لیں اس میں ہر جگہ آپ کو اسلحہ کا ذخیرہ مل جائے گا، یہ بغداد شیعہ کی آبادی کا دھڑکتا دل ہے، یہ نام کو صدام کا علاقہ کہلواتا تھا، اصل شیعہ اس پر قابض ہیں، انقلاب یہیں سے اٹھا تھا۔ یہاں کچھ لوگوں نے ایران سے جنگی ٹریننگ لی ہوئی ہے۔ شہری لڑائی سڑکوں پر لڑی جانے والی جنگ اور جماعتوں سے لڑی جانے والی جنگ کی تربیت لے رکھی ہے اور اہم شخصیات پر قاتلانہ حملہ کی تربیت بھی انہوں نے لے رکھی ہے۔ سابق وزیر اوقاف عبداللہ فاضل پر انہوں نے ہی قاتلانہ حملہ کیا تھا۔
عراقی شیعوں کے نزدیک نکاح متعہ:
متعہ عراقی شیعوں کے ہاں بھی عام ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امہات المومنینؓ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ شیعوں سے انتقام لے رہا ہے کہ ان میں اکثریت شرف اور عفت اور پاک دامنی سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ گندے اور اپنے عقائد کی مانند لتھڑے ہوئے بدبودار جسم والے ہیں (الجزء من جنس العمل)"جيسا كام ویسا انعام۔"
عراقی متعہ کو عام کرنے کے لیے نوجوانوں کو راغب کرتے ہیں مرد ہوں یا عورتیں ہوں ان کا دین انہیں ذرہ برابر نہیں روکتا۔ نہ ہی ان کا معاشرہ عار سمجھتا ہے۔ انہوں نے متعہ کے نام پر زنا خانے کھول رکھے ہیں۔ جو بھی ان کے ہاں متعہ اور اصل زنا کرنا چاہتا ہے وہ ان کے دفاتر میں آ جاتا ہے وہ اس کے سامنے ان بدکار عورتوں کی تصویروں کی البم پیش کرتا ہے، پھر بڑا اٹھتا ہے جسے یہ "سید“ کہتے ہیں یہ ان کا بہتان بازی کا جھوٹا نکاح پڑھا کر زنا کا پرمٹ دیتا ہے۔یونیورسٹیوں میں ایسے ایسے جنسی حادثات پیش آتے ہیں کہ حیا سر پیٹ کر رہ جاتی ہے۔ آبِ شرمندگی پیشانی کو شرابور کر دیتا ہے۔ پسینہ پونچھیئے ذرا اپنی جبیں سے۔
کتنی ہی دوشیزائیں ایسی ہیں جن کی بکارت دری اس نکاحِ متعہ کے باطل ہاتھوں سے سرزد ہوئی جسے عراق کے شیعوں کے شیوخ نے اپنی نگرانی میں رواج دیا ہے۔