Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

شیعہ علی نقی

  مولانا اللہ یار خانؒ

شیعہ علی نقی

اپنی کتاب مذکورہ کے صفحہ 17،18 پر متعہ کے اثبات کے لئے فرماتے ہیں کہ وہ مذہب، مذہب ہی نہیں جس میں انسانی ضروریات کی اور جذباتِ نفسی کی رعایت نہ کی گئی ہو بلکہ وہ شریعت قابلِ عمل ہی نہیں کہ اُس پر عمل کیا جائے۔

الجواب: علی نقی! آپ کے دماغ میں متعہ کا اس قدر نشہ کیوں بھرا گیا ہے کہ اگر شریعت متعہ کے جواز کا فتویٰ دیتی ہے تب تو قابلِ عمل ہے ورنہ نہیں اور شریعت کا حسن و قبح بھی متعہ کے جواز پر موقوف ہے۔ العیاذ باللہ! اجی شریعتِ انسانی خواہشات کے تابع نہیں، انسانی خواہشات شریعت کے تابع ہیں۔ اور جس رب نے انسانی ضروریات اور جذبات کو پیدا کیا ہے اُس نے اُن کی رعایت بھی شریعت میں ملحوظ رکھ کر چار آزاد عورتیں اور لاتعداد لونڈیاں حلال فرمائی ہیں اور ان سے جو تجاوز کرتا ہے اس کو تعدی کرنے والا فرمایا ہے:

فَمَنِ ابۡتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡعٰدُوۡنَ‌ۚ۝ (سورۃ المعارج: آیت، 31)

 بیویوں اور لونڈیوں سے جو تعدی کرتا ہے یعنی متعہ کا طالب ہے وہ خدائی حدود سے تجاوز کرنے والا ہے اور شریعتِ غرا جس حکم کو حرام قرار دیتی ہے تو اس میں بھی انسانی مراعات ملحوظ ہوتی ہیں۔

علی نقی صاحب نے صفحہ 19 پر عقدِ نکاح کا یہ فلسفہ بیان کیا ہے کہ نکاح سے مقصد فراہمی نسل و حصول اولاد نہیں بلکہ غض بصر و احصان فرج اور انسان کے فطرتی جذبات و خواہشِ نفس کی مراعات ملحوظ ہوتی ہیں پھر اس دعویٰ پر اپنے ذہن کے مطابق بخاری شریف کی دو حدیثیں نقل فرمائی ہیں۔

الجواب: علی نقی صاحب! شریعت نے نکاح میں دو فائدے ملحوظ فرمائے ہیں۔ ایک حصولِِ اولاد جو اہم مقصد ہے نکاح سے۔ دوم غض بصر و احصان فرج چونکہ یہ فائدہ علت صوری کی شکل میں ہے، جو اول معلوم ہوتا ہے اس کو شارع علیہ السلام نے بیان فرما دیا اور حصولِ اولاد کا بمنزلہ علت غائی کے ہے جس کو ہر کوئی جانتا ہے اس کو بیان نہ فرمانا عدمِ بیان سے عدمِ فائدہ لازم نہیں آتا۔

علی نقی شیعہ! خدا تعالیٰ نے انسان کو بقاءِ نوع کا سخت محتاج پیدا کیا ہے اور بقاءِ نوعِ انسانی موقوف ہے توالد و تناسل پر اور توالد موقوف ہے نکاح صحیح پر، زنا کو شریعت نے اسی وجہ سے حرام قرار دیا ہے کہ اس سے نسلِ انسانی ضائع ہو جاتی ہے۔ بخاری کی حدیث و باقی احادیث جہاں کہیں آئی ہیں اُن کا مطلب یہ ہے کہ بصر بدکاری کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور فرج آلہ ہے بدکاری کا اور بدکاری سے نسلِ انسانی ضائع ہو جاتی ہے اور ان دونوں سے محفوظ رہنے کا طریقہ حضور انورﷺ نے نکاح بتایا نہ یہ کہ وضع نکاح ہی ان کے لیے ہے، نکاح موضوع تو ہے بقاءِ نوعِ انسانی کے لئے مگر نکاح سے غض بصر و احصان فرج بھی ہو جاتا ہے۔

جناب عالی! جذبات فطرتی و خواہشاتِ نفسانی بھی خدا تعالیٰ نے ہر جاندار میں بقاءِ نوع کے لئے ودیعت فرمائے ہیں جو مخلوق جوڑا سے پیدا نہیں ہوتی اس میں جذبات ہی مفقود ہیں اور بقاءِ نوعِ انسانی نکاح پر موقوف ہے۔ زنا سے تضیع اولاد ہو جاتی ہے۔

اما حفظ النسل شرع له حد الزنا جلدا اورجما لانه مورالى اختلاط الانساب المؤدى إلى انقطاع التعهد من الاباء المؤدى الى انقطاع النسل وانقطاع الانسان من الوجود شاطبى موانقات۔(صفحہ، 10 جلد، 2)

بہرحال حفاظتِ نسل کے لئے حدِ زنا جلد رجم مقرر ہوئی کیونکہ زنا سے انساب میں اختلاط پیدا ہو جاتا ہے اور اختلاط آباؤ اجداد سے کاٹ دیتا ہے اور انقطاع آباؤ اجداد نسل کو کاٹ دیتا ہے یعنی نسل ختم ہو جاتی ہے جب نسل ختم ہوئی تو انسان کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔