Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ابو مخنف لوط بن یحیی

  مولانا اشتیاق احمد ، مدرس دارالعلوم دیوبند

*ابو مخنف لوط بن یحیٰی*

کتبِ تاریخ کی ان تمام روایات کو جو ابومخنف سے مروی ہیں کسی بھی طرح منِ وعن تسلیم نہیں کیا جاسکتا ہے، لہٰذا اس طرح کی روایات کی حقیقت جاننے کے لیے کتبِ تاریخ اور پھر کتبِ رجال کی مراجعت کی جائے۔  لوط بن یحیٰی ابو مخنف کے بارے میں ائمہ جرح وتعدیل کے اقوال ملاحظہ فرمائیں :

علامہ ذہبی رحمہ اللہ علیہ اور ابن حجر رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں :

”اَخْبَارِیٌّ تَألَّفَ لاَ یُوْثَقُ بِہ“۔ 

(لسان المیزان : ۵/۵۶۷،میزان الاعتدال:۳ /۴۱۹ )

ابو حاتم وغیرہ نے اسے متروک الحدیث کہا ہے ۔

(الجرح والتعدیل :۷ /۲۴۸ ،لسان المیزان :۵ /۵۶۷، سیر اعلام النبلاء :۷/ ۳۰۲)

یحییٰ بن معین نے فرمایا:

”لَیْسَ بِثِقَةٍ، لَیْسَ بِشَيْءٍ“۔ 

(الضعفاء الکبیر: ۴/ ۱۸ ، لسان المیزان:۵ /۵۶۸)

عقیلی نے ”ضعفاء“ میں ذکر کیا ہے۔ 

(حوالہٴ بالا ، مزید دیکھیے:

سیر اعلام النبلاء : ۷ / ۳۰۲،الضعفاء والمتروکین ،ص: ۳۳۳ ، میزان الاعتدال : ۳/ ۴۲۰، المغنی فی الضعفاء : ۲ /۲۳۴)

ابو عبید آجری کہتے ہیں کہ میں نے امام ابو داؤد رحمہ اللہ علیہ سے ابو مخنف کے بارے میں پوچھا ،تو انہوں نے اپنے ہاتھ جھاڑے اور فرمایا کہ کیا کوئی اس کے بارے میں بھی پوچھتا ہے یعنی یہ اس قابل نہیں کہ اس کے بارے میں پوچھا جائے۔

(لسان المیزان ۵ /۵۶۸)

ابن عراقی کنانی فرماتے ہیں :

”کَذَّابٌ تَألَّفَ“

(تنزیہ الشریعة:۱/ ۹۸) 

ابن جوزی نے بھی کذاب کہا ہے۔

(الموضوعات ،ص:۴۰۶)

ابن عدی نے فرمایا :

”شِیْعِیٌ مُحْتَرِقٌ، صَاحِبُ أخْبَارِہِمْ“۔

(الکامل فی الضعفاء الرجال :۶ / ۹۳ ،لسان المیزان:۵ /۵۶۸)

بعض نے تو یہاں تک لکھا کہ یہ ”امامی“ شیعہ تھا ۔

(الاعلام لخیر الدین الزرکلی:۵ / ۲۴۵)

*ابو مخنف شیعہ مورخین کی نظر میں*

شیعہ مورخین خاص کرکتبِ رجال کے مصنّفین محسن امین، شرف الدین، آغا بزرگ طہرانی، عباس قمی، محمد مہدی طباطبائی، خوئی، خاقانی، نجاشی، حلی، اور طوسی وغیرہ نے اس کا تذکرہ اپنی کتابوں میں بطور شیعہ مورخ کے کیا ہے؛ بلکہ اس کا شمار بڑے اور اکابر شیعہ مورخین میں کیا ہے۔ 

(اعیان الشیعہ ،ص:۱۲۷ ،اعلام الشیعہ:۱ / ۱۶،الکنیٰ والالقاب:۱ /۱۴۸،فہرست اسماء مصنفی الشیعہ للنجاشی، ص: ۲۲۴ ،۲۲۵،الفہرست للطوسی :۲ / ۲۰ ،الفوائد الرجالیہ لبحر العلوم :۱ / ۳۷۵، ۳۷۹، الکنیٰ والالقاب:۱/ ۱۶۹،المراجعات:۲ /۲۱،حلیة الابرار :۴ / ۱۴۶،رجال الخاقانی: ۱ /۱۷۷،رجال الطوسی:۱ / ۴۵۹،رجال النجاشی :۱ /۳۲۱،معجم رجال الحدیث :۱۱ /۱۳۶،۱۳۸،الاحتجاج لطبرسی : ۱/۴۵۶، الذریة: ۶ / ۳۹۴ ،خلاصة الاقوال : ۱ / ۳۸۹،نقد الرجال :۷ /۱۴۰،۱۴۱))

مزید برآں صاحب ”الفوائد الرجالیہ“ طباطبائی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے اس کے شیعہ ہونے میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے، جیسا کہ اصحابِ معاجم کی ایک جماعت نے اس کی تصریح کی ہے۔

(الفوائد الرجالیہ:۱ ۳۷۹)

*حساس موضوعات پر جھوٹ پر مبنی کتابیں لکھنا*

یہ ابومخنف وہ بدبو دار شیعی مورخ ہے جس نے خیر القرون میں رونما ہونے والے تمام اہم واقعات پر جھوٹ سے بھری مستقل کتابیں لکھی ہیں، جیسے: سقیفہ بنو ساعدہ میں بیعت ابوبکر رضی اللہ عنہ، شوریٰ، خلافت سے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی قائم کردہ شوریٰ، مقتل عثمان رضی اللہ عنہ، مقتل علی رضی اللہ عنہ، جنگ جمل و صفین، مقتلِ حسین رضی اللہ عنہ، وفاتِ معاویہ رضی اللہ عنہ اور ولایتِ یزید، مقتل عبداللہ بن الزبیر رضی اللہ عنہ، سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ اور عین وردہ وغیرہ۔ 

(فوات الوفیات لمحمد بن شاکر،بص :۲۲۵ ،الاعلام للزرکلی : ۵ / ۲۴۵ ، الفہرست لابن الندیم، ص: ۱۰۵ ، ۱۰۶ ، معجم الادباء :۶ /۶۷۰ ، معجم المئولفین :۸ / ۱۵۷)

مشہور مستشرق (اے بیل) نے ”دائرہ معارف اسلامیہ“ میں اس بات کی تصریح کی ہے کہ ابو مخنف نے قرونِ اولٰی میں رونما ہونے والے واقعات کی تاریخ میں ”۳۲“ رسالے لکھے ہیں، جن کا اکثر حصہ طبری نے نقل کیا ہے؛ البتہ ابومخنف سے منسوب جو کتابیں ہم تک پہنچیں ہیں وہ متاخرین (شیعہ) کی وضع کردہ ہیں۔ 

(الاعلام للزرکلی:۵ ۲۴۵)

عباس قمی شیعی نے ”الکنیٰ والالقاب“ میں ابو مخنف کے بارے میں لکھا ہے کہ : ابو مخنف بڑے شیعہ مورخین میں سے تھا اس کے مشہور شیعہ ہونے کے باوجود طبری اور ابن اثیر وغیرہ نے اس سے روایات نقل کر نے میں اس پر اعتماد کیا ہے۔

(الکنیٰ والألقاب :۱/۱۶۹)

*حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ کا قول*

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ علیہ طبری وغیرہ سے ابومخنف کی روایات نقل کرنے کے بعد یہ لکھنے پر مجبور ہوئے :

شیعوں اور رافضیوں کی شہادت حسین رضی اللہ عنہ سے متعلق بہت ساری دروغ گوئیاں اور بے بنیاد خبریں ہیں، ہم نے جو ذکر کیا اس میں وہی کافی ہے اور ہماری ذکر کردہ بعض چیزیں قابلِ اشکال ہیں، اگر ابن جریر طبری وغیرہ جیسے ائمہ اور حفاظ اسے ذکر نہ کرتے تو ہم بھی ان روایات کو نہ لاتے اور یہ اکثر ابومخنف کی روایتیں ہیں جو یقینًا شیعہ ہے اور ائمہ حدیث کے نزدیک ضعیف ہے ؛لیکن اخباری (صحافی) اور حافظ ہے اور اس کے پاس اس حوالے سے ایسی چیزیں ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں، لہٰذا بعد کے اکثر مصنّفین نے ان روایات کے بارے میں ابو مخنف سے نقل پر اکتفا کیا ہے۔

(البدایة والنھایة : ۸/ ۲۰۹)

*ابن عدی رحمہ اللہ علیہ کی صراحت*

ابن عدی رحمہ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ اس کی کوئی روایت قابل ِاعتبار نہیں، سب بدبو دار اور بے ہودہ روایتیں ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ یہ بدبخت سلف صالحین کی ہتک عزت کرتا ہے؛ چناچہ وہ فرماتے ہیں:

ابو مخنف متقدمین سلف صالحین کے بارے میں خبریں نقل کرتا ہے اور اس سے بعید نہیں کہ وہ ان کی ہتک عزت کرے، یہ بدبودار شیعہ اور ان کا مورخ ہے، میں نے اس لیے اس کا ذکر کیا ہے کہ اس کی احادیث کے ذکر سے استغناء نہیں، میرے علم میں اس کی کوئی ایسی صحیح روایت نہیں جسے میں ذکر کروں، اس کی صرف وہ ناپسندیدہ بدبودار روایتیں ہیں جنہیں میں ذکر کرنا پسند نہیں کرتا ہوں۔(الکامل فی ضعفاء الرجال :۶ /۹۳)

*خلاصہ کلام*

ان تمام تصریحات سے یہ بات بالکل واضح ہوگئی ہے کہ ابو مخنف ایک بدبودار، شیعہ، امامی، مورخ ہے جو بالاتفاق تمام ائمہ حدیث و رجال کے نزدیک ناقابلِ اعتبار اور جھوٹا شخص ہے؛ بلکہ ابن عدی رحمہ اللہ کے بقول یہ شخص سلفِ صالحین کے واقعات ذکر کرکے ان کی ہتک عزت کرتا ہے؛ چنانچہ جن اہلِ تاریخ نے اپنی اسناد کے ساتھ خاص کر طبری اور ابن اثیر وغیرہ نے جو بغیر کسی تنقیح و تحقیق کے اس طرح کے بدبودار شیعہ، امامی اور جھوٹے لعین شخص کی بے بنیاد روایتوں کو اپنی کتابوں میں بکثرت نقل کیا ہے، وہ قابل اعتبار ہرگز نہیں، ضرورت اس امر کی ہے کہ حضراتِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے متعلق کوئی ایسی روایت سامنے آئے جس میں اشارتاً و کنایتاً یا کسی بھی پیرائے سے ان کی شان میں گستاخی، یا تنقیص کا پہلو نکلتا ہو، تو اس کو آنکھیں بند کرکے نقل کرنے، یا اس پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے اس کی تنقیح اور تحقیق کی جائے، تاکہ ابو مخنف جیسے بدبخت شیعہ مورخ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پر کیچڑ اچھالنے کی منحوس، نامبارک اور نامسعود سعی اور گھناؤ نے منصوبے میں ناکام اور نامراد ہوجائیں۔

وماعلینا الالبلاغ المبین۔