Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا

  نقیہ کاظمی

سیدہ امِ کلثوم رضی اللہ عنہا:

نام و نسب:

سیدہ امِ کلثومؓ نبی مکرمﷺ‎ کی تیسری بیٹی ہیں یہ سیدہ رقیہؓ سے چھوٹی ہیں یہ بھی سیدہ خدیجہؓ کے بطن سے پیدا ہوئیں۔

قبولِ اسلام:

نبی کریمﷺ‎ اور سیدہ خدیجہؓ کی نگرانی میں ہوش سنبھالا اور آغوشِ رسالت میں پرورش پائی جب حضور نبی کریمﷺ‎ نے اعلانِ نبوت فرمایا تو یہ تمام بہنیں اپنی والدہ سیدہ خدیجہؓ کے ہمراہ اسلام لائیں۔

(اسدالغابہ: جلد، 5 صفحہ، 216 طبقات ابنِ سعد: صفحہ، 52)

نکاحِ اوّل اور طلاق:

اعلانِ نبوت سے پہلے نبی کریمﷺ‎ نے اپنی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح اپنے چچا ابولہب کے بیٹے عتیبہ کے ساتھ کر دیا تھا لیکن جب اسلام کا دور آیا اور نبی کریمﷺ‎ نے اعلان نبوت فرمایا اور قرآنِ مجید کا نزول شروع ہوا اور قرآنِ کریم میں سورة الہب نازل ہوئی جس میں ابولہب اور اس کی بیوی کی مذمت کی گئی تو ابولہب نے اپنے بیٹے عتیبہ سے کہا محمدﷺ‎ کی بیٹی کو طلاق دے دو تو عتیبہ نے طلاق دے دی۔

مدینہ طیّبہ کی طرف ہجرت:

نبی کریمﷺ‎ مکہ مکرمہ سے مدینہ طیّبہ کی طرف ہجرت فرمائی تو آپﷺ‎ کے خاندان کے کچھ افراد مکہ میں رہ گئے تھی جن میں امُ المومنین سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ اور آپﷺ‎ کی بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ شامل تھیں آپﷺ‎ نے سیدنا ابورافعؓ اور سیدنا زید بن حارثہؓ کو روانہ کیا اور خرچ کے لیے 500 درہم سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے پیش کیے چناچہ سیدنا زید بن حارثہؓ اور سیدنا ابورافعؓ مکہ مکرمہ پہنچے اور نبی کریمﷺ‎ کے گھر والوں یعنی امُ المؤمنین سیدہ سودہ بنتِ زمعہؓ اور سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ کو لے کر مدینہ طیّبہ جا پہنچے۔

(طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 811 البدایہ لابنِ کثیر: جلد، 3 صفحہ، 202) 

سیدہ امِ کلثومؓ کی شادی:

حضورﷺ‎ نے ارشاد فرمایا:

ما انا ازواجّ بناتی ولکن اللہ تعالی یزوجھن۔

ترجمہ: میں اپنی بیٹیوں کو اپنی مرضی سی کسی کی تزویج میں نہیں دیتا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے نکاحوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔

(المستدرک للحاکم: جلد، 4 صفحہ، 94)

جب سیدہ رقیہؓ کا انتقال ہوا تو سیدنا عثمانؓ کو سخت صدمہ پہنچا وہ ہر وقت غم میں ڈوبے رہتے تھے چناچہ ایک دن نبی کریمﷺ‎ نے انہیں غمگین دیکھا تو فرمایا: مالی اراک مغموما؟ سیدنا عثمانؓ تمہیں کیوں غمزدہ دیکھ رہا ہوں ؟

سیدنا عثمان بن عفانؓ عرض کرتے ہیں آقا مصیبت کا جو پہاڑ مجھ پر گرا ہے کسی اور پر نہیں گرا اللہ کے رسولﷺ‎ کی بیٹی جو میرے نکاح میں تھی انتقال فرما گئیں جس سے میری کمر ٹوٹ گئی اور وہ رشتہ مصاحبت بھی ختم ہوگیا جو میرے اور آپﷺ‎ کے درمیان تھا نبی کریمﷺ‎ نے تسلی دی اورفرمایا کہ یہ جبرائیل علیہ السلام میرے پاس آے ہیں اور مجھے خبر دی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم فرمایا ہے کہ میں سیدہ امِ کلثومؓ کو آپ کے نکاح میں دوں اور جو مہر سیدہ رقیہؓ کے لیے مقرر ہوا تھا اُسی کے موافق سیدہ امِ کلثومؓ کا مہر ہو۔

(ابنِ ماجہ اسدالغابہ: جلد، 5 صفحہ، 316 کنزالعمال: جلد، 6 صفحہ، 573)

چناچہ سیدہ امِ کلثومؓ کا نکاح سیدنا عثمانؓ کے ساتھ ربیع الاوّل 2 ہجری میں ہوا اور جمادی الاخریٰ میں رخصتی ہوئی۔

(طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 52 اسد الاغابہ لابنِ اثیر الجزری: جلد، 5 صفحہ، 316)

سیدنا عثمانؓ کا ایک منفرد اعزاز:

سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں حضور نبی کریمﷺ‎ کی دو لختِ جگر آئیں جس کی وجہ سے ان کو ذوالنورین کہا جاتا ہے اسی طرح انہیں دوہجرتیں کرنے کا اعزاز حاصل ہوا ایک حبشہ ایک مدینہ کی طرف تو ذوالہجرتین کا لقب حاصل ہوا ۔ابنِ عساکرؒ میں ہے کے حضرت آدم علیہ وسلم سے لیکر حضور نبی کریمﷺ‎ تک کوئی انسان ایسا نہیں گزرا جس کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں سوائے سیدنا عثمانؓ کے۔

عدمِ اولاد:

روایات کے مطابق سیدہ امِ کلثومؓ سے سیدنا عثمانؓ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔

سیدنا عثمانؓ بے مثال شوہر:

ایک دن حضورﷺ‎ سیدہ امِ کلثومؓ کے پاس گئے اور فرمایا بیٹی سیدنا عثمانؓ کہاں ہیں سیدہ امِ کلثومؓ نے عرض کیا کہ کسی کام سے گئے ہیں پھر آپﷺ‎ نے ان سے فرمایا تم نے اپنے شوہر کو کیسا پایا؟ سیدہ امِ کلثومؓ نے عرض کیا ابا جان وہ بہت اچھے اور بلند مرتبہ شوہر ثابت ہوئے ہیں آپﷺ‎ نے فرمایا بیٹی کیوں نہ ہوں وہ دنیا میں تمہارے دادا حضرت ابراہیم علیہ اسلام اور تمہارے باپ حضرت محمدﷺ‎ سے بہت مشابہ ہیں ایک حدیث میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں کہ سیدنا عثمانؓ میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سب سے زیادہ میر ے اخلاق اور عادات سے مشابہ ہیں۔ 

(سیرت حلبیہ: جلد، 4 صفحہ، 44)

سیدہ امِ کلثومؓ کا انتقال:

حضور نبی کریمﷺ‎ کی یہ تیسری بیٹی سیدہ امِ کلثومؓ بھی شعبان 9 ہجری کو انتقال فرما گئیں۔ 

سیدہ امِ کلثومؓ چھ سال تک سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں رہیں۔

(طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 52)

سیدہ امِ کلثومؓ کے انتقال پر سیدنا عثمانؓ ایک دفعہ پھر غموں کے سمندر کے میں ڈوب گئے ان حالات میں بنی کریمﷺ‎ نے سیدنا عثمانؓ کو تسلی دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: لو کن عشرا لزوجّتھن عثمانؓ۔

یعنی میرے پاس دس بیٹیاں بھی ہوتی تو میں یکے بعد دیگری سیدنا عثمانؓ کے نکاح میں دے دیتا۔

(طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 52 مجمع الزوائد للہیثمی: جلد، 9 صفحہ، 712)

بعض روایات میں اس سے زیادہ تعداد بھی منقول ہے۔

سیدہ امِ کلثومؓ کا غسل اور نمازِ جنازہ:

سیدہ امِ کلثومؓ کے انتقال کے بعد اُن کے غُسل و کفن کے انتظامات نبی کریمﷺ‎ نے خود فرمائے سیدہ امِ کلثومؓ کو غسل سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ سیدہ صفیہؓ بنتِ عبدالمطلب، سیدہ لیلیٰ بنتِ قانفؓ اور سیدہ امِ عطیہؓ انصاریہ نے دیا۔

(طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 62 اسد الغابہ: جلد، 5 صفحہ، 216) 

جب سیدہ امِ کلثومؓ کا غسل اور کفن ہو چکا تو ان کے جنازہ کے لیے حضور نبی کریمﷺ‎ تشریف لائے اور آپﷺ‎ کے ساتھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمیعن بھی تھے حضور نبی کریمﷺ‎ نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور ان کے لیے دعائے مغفرت فرمائی۔

 (طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 62 ،شرح مواھب اللدنیہ للزرقانی: جلد، 3 صفحہ، 200)

سیدہ امِ کلثومؓ کا دفن:

نمازِ جنازہ کے بعد آپؓ کو دفن کرنے کے لیے جنتُ البقیع میں لایا گیا اور نبی کریمﷺ‎ خود تشریف لائے سیدنا ابو طلحہٰؓ انصاری قبر میں اترے اور بعض روایات میں ہے کہ سیدنا علیؓ، سیدنا فضل بن عباسؓ اور سیدنا اسامہ بن زیدؓ بھی ان کے ساتھ قبر میں اترے اور دفن میں معاونت کی۔

رسول اللہﷺ‎ کے آنسو:

سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ‎ سیدہ امِ کلثومؓ کے دفن کے موقع پر قبر کے پاس تشریف فرما تھے میں نے دیکھا کہ نبی کریمﷺ‎ کی آنکھوں سے فرطِ غم کی وجہ سی آنسو جاری تھے۔