دھوکہ نمبر 10
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 10
کہتے ہیں کہ اہل سنت خود کو شارع سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جس چیز کا حکم خدا نے نہیں دیا یہ اپنی عقل سے اس کو شریعت میں داخل کر دیتے ہیں مثلاً قیاس کو بھی حکم شرعی کی ایک دلیل قرار دے کر اس سے احکام شرعی نکالتے ہیں۔
حقیقت اگر دیکھی جائے تو یہ طعن اہل سنت پر نہیں بلکہ اہل بیت پر ہے ۔ کیونکہ زیدیہ اور تمام اہل سنت قیاس کی روایت اہل بیت ہی سے کرتے ہیں اور انہوں نے طریق قیاس ان ہی بزرگوں سے سنا ہے ۔ چنانچہ قیاس کی روایات کی صحت کی دلیل یہ ہے کہ امامیہ میں سے ابو نصر ہبۃ اللّٰہ ابن احمد بن محمد اور اس کے پیرو اس کے قائل ہیں کہ قیاس بھی ایک
شرعی حجت ہے۔ اس لئے عام اثنا عشری طعن کے طور پر ان کو ثلاثہ عشریہ کہتے ہیں اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ قیاس کی روایتیں خود اثنا عشریوں کی کتب صحاح میں سند صحیح کے ساتھ موجود ہیں ۔ ان میں سے ایک روایت کو ابو جعفر طوسی تہذیب میں ابو جعفر محمد بن علی الباقر رحمہ ﷲ علیہ سے ان الفاظ میں روایت کرتا ہے۔
انه جمع عُمَرُ بْن الخَطَابِ أَصْحَابَ النبيﷺ فَقَالَ مَا تَقُولُونَ في الرجل یاتی اھلہ وَلَا يُنزِلُ فَقَالَتِ الْأَنصَارُ المَاء مِنَ الماءِ وَقَالَ المُهَاجِرُونَ إِذَ التَّقَى الخَتَانَانِ وَجَبَ الْغُسلُ فَقَالَ عُمَرُ بِعَلِي مَا تَقُولُ يَا أَبَا الحَسَن فَقَالَ أَتُوجِبُونَ عَلَيْهِ الْجَلْدَ وَ لَا تُوجِبُونَ عَلَيْهِ صَاعَا مِن مَّاء۔
"یعنی حضرت عمر فاروق رضی اللّٰہ عنہ نے تمام صحابہ کو جمع فرما کر ان سے سوال کیا تم اس شخص کے بارے میں کیا کہتے ہو جس نے اپنے بیوی سے صحبت کی مگر اس کو انزال نہیں ہوا؟ اس پر انصار بولے کہ قاعدہ الماء بالماء کے موافق غسل انزال پر ہوتا ہے۔ اس پر مہاجرین نے فرمایا کہ جب دو شرمگاہیں باہم مل جائیں تو اس غسل واجب ہوتا ہے۔ اس پر حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے فرمایا ابو الحسن تم اس بارے میں کیا کہتے ہو تو حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ نے فرمایا کہ ایسی صورت میں تم لوگ اس پر حد کو تو واجب جانتے ہو مگر ایک صاع پانی یعنی غسل اس پر واجب نہیں جانتے۔"
حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ کا یہ فرمانا حد شرعی پر غسل کے قیاس کی کھلی اور صاف صورت ہے۔ بعض دانشمند شیعہ اس قیاس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ قیاس نہیں ہے بلکہ ایک اولٰی اور بہتر چیز سے غیر اولٰی پر دلیل لانا ہے جس کو حنفیہ کی اصطلاح میں دلالت النص کہتے ہیں۔ جیسے ولا تقل لهما اف کا مارنے کی حرمت پر دلالت کرنا۔ اس کے سمجھنے میں مجتہد اور غیر مجتہد دونوں برابر ہیں۔ شیعوں کی اس تقریر کا خلاصہ یہ ہے کہ جب صحبت بلا انزال سخت و سنگین مشقت یعنی حد پر اثر اندازہ ہوئی تو کمزور و ضعیف مشقت یعنی غسل پر بطریق اولٰی اثر انداز ہو گی۔ اس تقریر کا بے ڈھنگا پن دیکھئے۔
اگر آپس میں ایک دوسرے سے مس (رگڑ) کا عمل ہو تو یہ عمل اہل سنت کے نزدیک باعث تعزیر ہے۔ اور امامیہ کے نزدیک حد شرعی کا موجب ہے اور بالاجماع غسل واجب نہیں ہوتا۔ اسی طرح دخول کے ساتھ لواطت کا فعل ہو تو وہ بعض اہل سنت اور امامیہ کے نزدیک حد شرعی کا موجب ہے ان کے علاوہ اوروں کے نزدیک موجب تعزیز ہے۔ اور امامیہ کے نزدیک اس پر غسل واجب نہیں۔ یا مثلاً اجنبی عورت کے ساتھ مباشرت فاحشہ صرف موجب تعزیر ہے نہ موجب غسل بالاتفاق علی، شارح مبادی الاصول باوجود کٹر اور متعصب شیعہ ہونے کے اس بات کا مقر و معترف ہے کہ صحابہ کرام رضی اللّٰہ عنہم اجمعین کے زمانہ میں قیاس پر عمل ہوتا تھا۔
علاوہ ازیں آگے چل کر ہم بتائیں گے کہ امام باقر امام صادق اور امام زید شہید رحمۃ اللّٰہ علیہم نے جناب امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ ﷲ علیہ کو قیاس کی اجازت دی تھی۔ باقی یہ بات کہ قیاس کے ثبوت کے دلائل اور منکرین کے اقوال کی تردید تو ان سب کے لئے اہل سنت کی اصول کی کتابوں کی طرف رجوع کریں۔