نماز تراویح
غلام مصطفی ظہیر امن پورینمازِ تراویح
قیامِ رمضان کو تراویح کہا جاتا ہے، اس کے کئی نام ہیں۔ اس بافضیات نماز کو محروم انسان ہی چھوڑ سکتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
حَدَّثَنَا عَلِی بْنُ عَبْدِاللَٰهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَفِظْنَاهُ. وَإِنَّمَا حَفِظَ مِنَ الزُّهْرِی، عَنْ أَبِی سَلَمَةَ، عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ رَضِی اللَٰهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِی صَلَّى اللَٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ" تَابَعَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنِ الزُّهْرِی
ترجمہ: ”جس نے ایمان سمجھتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا۔ اس کے پہلے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
(صحيح البخاری: صفحہ، 37 مسلم: صفحہ، 175، 759)
سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں:
وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِی، عَنْ أَبِی سَلَمَةَ، عَنْ أَبِی هُرَيْرَةَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَٰهِ صَلَّى اللَٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِی قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ: "مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ" فَتُوُفِّی رَسُولُ اللَٰهِ صَلَّى اللَٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِی خِلَافَةِ أَبِی بَكْرٍ وَ صَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ.
ترجمہ: ’’رسول کریمﷺ بغیر واجب حکم کے قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے: جو ایمان سمجھتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے قیامِ رمضان کرے گا، اس کے پہلے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، آپﷺ کی وفات تک قیامِ رمضان بغیر جماعت کے چلتا رہا، سیدنا ابوبکرؓ کے دورِ خلافت اور سیدنا عمرؓ کی خلافت کے شروع میں بھی معاملہ یونہی رہا۔
(صحيح البخاری: جلد، 37 صفحہ، 2008, 2009 صحيح مسلم: صفحہ، 759 سنن أبی داؤد: صفحہ، 1371 سنن الترمذی: صفحہ، 683, 808)
کتاب: کتاب نمازِ تراویح پڑھنے کا بیان
باب: رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِی أَبُو سَلَمَةَ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِی اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لِرَمَضَانَ: مَنْ قَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ
ترجمہ: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپﷺ رمضان کے فضائل بیان فرما رہے تھے کہ جو شخص بھی اس میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ (رات میں) نماز کے لیے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
حدّثنا يَحْيىٰ بْنُ يَحْيىٰ قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِﷺ صَلَّى فِی الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ فَصَلَّى بِصَلاَتِهِ نَاسٌ ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ فَكَثُرَ النَّاسُ ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللّٰهِ فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الَّذِی صَنَعْتُمْ فَلَمْ يَمْنَعْنِی مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلاَّ أَنِّی خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ قَالَ: وَذلِكَ فِی رَمَضَانَ
ترجمہ: رسول اکرمﷺ نے رمضان کی ایک رات مسجد میں نماز پڑھی، آپﷺ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھی، اگلی رات نماز پڑھائی، تو نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی، پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات بھی جمع ہوئے، لیکن آپﷺ نماز کے لیے نہ نکلے۔ صبح ہوئی، تو فرمایا: میں نے آپ کا شوق عبادت دیکھا لیکن باہر اس لیے نہیں آیا کہ کہیں آپ پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے، راوی کہتے ہیں: یہ رمضان کا واقعہ ہے۔
(صحيح البخاری: صفحہ، 1129، صحیح مسلم: جلد، 1 صفحہ، 176، 177 واللفظ له)
سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں:
وحدّثنی حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيىٰ أَخْبَرَنَا عَبْدُاللّٰهِ بْنُ وَهْبٍ أَخْبَرَنِی يُونسُ بْنُ يزِيدَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ قَالَ: أَخْبَرَنِی عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ، أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ خَرَجَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِی الْمَسْجِدِ فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلاَتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَتَحَدَّثُونَ بِذَلِكَ فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِﷺ فِی اللَّيْلَةِ الثَّانِيَةِ فَصَلَّوْا بِصَلاَتِهِ فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَذْكُرُونَ ذَلِك فَكَثُرُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةَ الثَّالِثَةِ فَخَرَجَ فَصَلَّوْا بِصَلاَتِهِ فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللّٰهِﷺ فَطَفِقَ رِجَالٌ مِنْهُمْ يَقُولُونَ: الصَّلاَةَ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللّٰهِ حَتّٰى خَرَجَ لِصَلاَةِ الْفَجْرِ فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ ثُمَّ تَشَهَّدَ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَیَّ شَأْنُكُمُ اللَّيْلَةَ وَلكِنِّی خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ صَلاَةُ اللَّيْلِ فَتَعْجِزُوا عَنْهَا
ترجمہ: رسول اکرمﷺ دوسری رات تشریف لائے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ لوگ اس کا تذکرہ کرنے لگے۔ تیسری رات مسجد میں نمازی بڑھ گئے۔ آپﷺ تشریف لائے، لوگوں نے آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ چوتھی رات مسجد تنگی داماں کا شکوہ کرنے لگی، مگر آپﷺ تشریف نہ لائے۔ حاضرینِ مسجد کہنے لگے: نماز (تراویح)! لیکن رسول اللهﷺ نمازِ فجر کے وقت ہی تشریف لائے۔‘‘
(صحيح البخاری: صفحہ، 2012 ح، 178 مسلم: 761)
دوسری روایت ہے:
خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل، فتعجزوا عنهم
ترجمہ: مجھے خدشہ ہوا کہ قیام اللیل فرض نہ ہو جائے اور آپ اس سے عاجز آ جائیں۔
(صحيح البخاری: 924، - ح، 178 مسلم: 761)
سیدنا ابوذرؓ بیان کرتے ہیں:
حدّثنا عبدالله حدَّثنی أبی حدثنا عبد الرزاق أنبانا سفيان عن داود بن أبی هند عن الوليد بن عبدالرحمٰن الجرشی عن جبير بن نفير الحضرمی عن أبی ذر قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلّم رمضان فلم يقم بنا شيئاً من الشهر، حتى بقی سبع فقام بنا حتى ذهب نحو من ثلث الليل، ثم لم يقم بنا الليلة الرابعة وقام بنا الليلة التی تليها حتى ذهب نحو من شطر الليل، قال: فقلنا: يا رسول اللهﷺ، لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه؟ قال: إن الرجل إذا قام مع الإمام حتى ينصرف، حسب له بقية ليلته، ثم لم يقم بنا السادسة وقام بنا السابعة وقال: وبعث إلى أهله واجتمع الناس، فقام بنا حتى خشينا أن يفوتنا الفلاح قال: قلت: وما الفلاح قال: السحور
ترجمہ: ”ہم نے رسول اکرمﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ آپﷺ نے قیام نہیں کروایا، تئیسویں شب کا تہائی حصہ قیام کروایا۔ چوبیسویں کو قیام نہیں کروایا، پھر پچیسویں کو نصف رات تک قیام کروایا۔ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! کاش کہ آپﷺ پوری رات قیام کرواتے۔ فرمایا: باجماعت قیام کرنے پر پوری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔ چھبیسویں رات قیام نہیں کروایا۔ ستائیسویں شب صحابہ كرام رضی اللہ عنہم کو بمع اہل و عیال قیام کروایا، تا آنکہ ہمیں خدشہ ہوا کہ فلاح‘‘ سے محروم نہ رہ جائیں۔ راوی نے سیدنا ابو ذرؓ سے پوچھا: فلاح سے کیا مراد ہے؟ کہا: سحری۔ پھر بقیہ ایام قیام نہیں کروایا۔“
(مسند الإمام أحمد: جلد، 5 صفحہ، 159 سنن أبی داؤد: صفحہ، 1375 سنن النسائی: صفحہ، 1606 سنن الترمذی: صفحہ، 806، سنن ابنِ ماجہ: صفحہ، 1327 و سندہ صحیح)
سیدنا زید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں:
وَقَالَ الْمَكِّىُّ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰهِ بْنُ سَعِيدٍ وَحَدَّثَنِى مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُاللّٰهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِى سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رضى الله عنه قَالَ احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حُجَيْرَةً مُخَصَّفَةً أَوْ حَصِيرًا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم - يُصَلِّى فِيهَا، فَتَتَبَّعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ وَجَاءُوا يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، ثُمَّ جَاءُوا لَيْلَةً فَحَضَرُوا وَأَبْطَأَ رَسُولُ اللّٰهِ صلى الله عليه وسلم عَنْهُمْ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا الْبَابَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مُغْضَبًا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - «مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُكْتَبُ عَلَيْكُمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلاَةِ فِى بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلاَةِ الْمَرْءِ فِى بَيْتِهِ، إِلاَّ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ
ترجمہ: ’’رسول اکرمﷺ نے چٹائی یا کھجور کی چھال کا خیمہ بنایا، گھر سے نکل کر اس میں قیام اللیل کے لیے داخل ہوئے۔ صحابہ كرام رضی اللہ عنہم آپﷺ کے پیچھے ہو لیے اور آپﷺ کی اقتدا میں قیام کرنے لگے۔ اگلی رات آئے، تو رسول اکرمﷺ نے آنے میں تاخیر کر دی، لوگوں نے شور کیا اور دروازے کو کنکریاں ماریں۔ رسول اللہﷺ غصہ میں باہر آئے اور فرمایا: آپ کا شوق عبادت ایسا ہی رہا، تو مجھے لگا کہ آپ پر یہ نماز (مسجد میں ادا کرنا) فرض کر دی جائے گی۔ گھروں میں نماز پڑھا کرو، فرض نماز کے علاوہ مرد کی سب سے بہترین نماز گھر میں ہی ہے ‘‘
(صحيح البخاری: صفحہ، 731، صحیح مسلم: صفحہ، 781 ح، 213 واللفظ له)
سیدنا ثعلبہ بن مالکؓ بیان کرتے ہیں:
أنبأ أبو زكريا بن أبی إسحاقَ و أبو بكر أحمد بن الحسن القاضی و أبو عبدالرحمٰن السُّلَمِی قالوا ثنا أبو العباس محمد بن يعقوبَ أنبأ بحر بن نصر قال قرىء على عبدالله بن وهْب أخبرك عبدالرحمٰن بن سلمانَ و بكر بن مُضَر عن ابن الهَادِ أنَّ ثَعْلَبَةَ بنَ أبِی مالكٍ القُرَظِی حدثه قالَ: خَرَجَ رسولُ اللّٰهﷺ ذَاتَ ليلةٍ فی رَمَضَانَ فَرَأَى ناساً فی ناحِيَةِ المَسْجِدِ يُصَلُّونَ فقالَ: ما يَصْنَعُ هؤلاءِ، قال قائل: يا رسولَ الله هؤلاءِ ناسٌ ليس مَعَهُم قرآنٌ، وأُبَی بنُ كَعْبِ يَقْرأُ، وَهُم مَعَهُ يُصَلُّونَ بصلاتِهِ، قال: قَدْ أحْسَنُوا أوْ قَدْ أصَابُوا ولم يَكْرَهْ ذلِكَ لَهُمْ
ترجمہ: رسول اکرمﷺ رمضان کی ایک رات تشریف لائے، صحابہ كرام رضی اللہ عنہم کو مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھتے دیکھا، تو دریافت کیا: یہ کیا کر رہے ہیں؟ کسی نے کہا: اللہ کے رسولﷺ! انہیں قرآن یاد نہیں۔ سیدنا ابی بن کعبؓ قرأت کر رہے ہیں اور یہ ان کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ فرمایا: انہوں نے اچھا کیا ہے اور درستی کو پہنچے ہیں۔ آپﷺ نے اسے ناپسند نہیں کیا۔‘‘
(السنن الكبرىٰ للبيہقی: جلد، 2 صفحہ، 495 معرفة السنن والآثار للبيہقی: جلد، 2 صفحہ، 303 ح، 1363 وسنده حسن)
سیدنا نعمان بن بشیرؓ بیان کرتے ہیں:
حدّثنا عبدالله حدَّثنی أبی حدثنا زيد بن الحبّاب حدثنا معاوية بن صالح حدَّثنی نعيم بن زياد أبو طلحة الأنماری: أنه سمع النعمان بن بشير يقول على منبر حمص: قمنا مع رسول اللّٰه صلى الله عليه وسلّم ليلة ثلاث وعشرين فی شهر رمضان إلى ثلث الليل الأول ثم قمنا معه ليلة خمس وعشرين إلى نصف الليل ثم قام بنا ليلة سبع وعشرين حتى ظننا أن لا ندرك الفلاح، قال: وكنا ندعو السحور الفلاح، فأما نحن فنقول: ليلة السابعة ليلة سبع وعشرين وأنتم تقولون: ليلة ثلاث وعشرين السابعة، فمن أصوب نحن أو أنتم؟
ترجمہ: ’’ہم نے رسول اللہﷺ کے ساتھ رمضان کی تئیسویں شب کا تہائی حصہ قیام کیا۔ پھر پچیسویں کو نصف رات، ستائیسویں کو اتنا لمبا قیام کیا کہ ہمیں سحری فوت ہونے کا خدشہ ہوا۔‘‘
(مسند الإمام أحمد: جلد، 4 صفحہ، 272 سنن النسائی: جلد، 7 صفحہ، 1607 وسنده صحيح)
امام حاکم رحمتہ اللہ (جلد، 1 صفحہ، 440) نے اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ کی شرط پر صحیح اور حافظ ذہبیؒ نے حسن کہا ہے۔
عبدالرحمٰن بن عبدالقاری رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں:
وعنِ ابنِ شِهابٍ عن عُرْوَةَ بنِ الزُّبَيرِ عن عبدِالرحمٰنِ بن عبدٍ القارِی أنهُ قال: خرَجتُ معَ عُمرَ بن الخَطّابِ رضی الله عنهُ ليلةً فی رمضانَ إِلى المسجدِ فإِذا الناسُ أوزاعٌ مُتَفَرِّقونَ يُصلِّی الرجلُ لنَفْسِهِ، ويُصلِّی الرجُلُ لنفسه ويُصَلِّی الرَّجُلُ فيُصلِّی بصلاتِهِ الرَّهطُ فقال عمرُ: إِنی أرَى لو جَمعتُ هؤلاءِ على قارىٍء واحدٍ لَكانَ أمْثَلَ ثمَّ عَزمَ فجمَعَهم على أُبی بنِ كعبٍ ثمَّ خَرَجتُ معهُ ليلةً أُخرى والناسُ يُصَلُّونَ بصلاةِ قارِئهم، قال عمرُ: نِعْمَ البِدْعةُ هذهِ، والتی يَنامونَ عنها أفضَلُ منَ التی يَقومونَ يُريدُ آخرَ الليلِ وكان الناسُ يَقُومونَ أوَّلهَ
ترجمہ: ’’میں رمضان کی ایک رات سیدنا عمر بن خطابؓ کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا، لوگ مختلف گروہوں میں منقسم تھے۔ کوئی آدمی اکیلا اور کوئی جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ سیدنا عمرؓ نے فرمایا: میرے مطابق انہیں ایک قاری پر جمع کر دوں، تو بہت اچھا ہو گا۔ آپؓ نے عزم مصمم کر لیا اور لوگوں کو سیدنا ابی بن کعبؓ کی امامت پر جمع کر دیا۔ ایک رات پھر میں آپؓ کے ساتھ نکلا۔ لوگ ایک قاری کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے، تو سیدنا عمرؓ نے فرمایا: یہ تجدید تو کیا خوب ہے! البتہ ان سے وہ افضل ہیں، جو اس وقت سو جاتے ہیں اور آخری پہر قیام کرتے ہیں۔
(صحيح البخاری: صفحہ، 2010)
سیدنا عمرو بن مرہ جہنی بیان کرتے ہیں:
حدثنا علی ابنِ سعيد التستری أخبرنا الحكم ابن نافع عن شعيب يعنی ابن أبی حمزة عن عبدالله ابن أبی حسين حدثنی عيسى ابن طلحة عن عمرو ابن مرة الجهنی قال: جاء رسولَ الله صلى الله عليه وسلّم رجلٌ من قُضاعَةَ فقال له: يا رسول الله أرأيت إن شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وصليت الصلوات الخمس، وصمت الشهر، وقمت رمضان، وآتيت الزكاة فقال النبی صلى الله عليه وسلّم: من مات على هذا كان من الصديقين والشهداء
ترجمہ: ’’ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا: اللہ کے رسولﷺ! میں کلمہ توحید کی گواہی دوں، آپﷺ کی رسالت کا اقرار کروں، پانچوں نمازیں پڑھوں، زکوٰۃ ادا کروں، رمضان کے روزے رکھوں اور تراویح ادا کروں، تو میرا شمار کن میں ہو گا؟ فرمایا: صدیقوں اور شہیدوں میں‘‘
(مسند البزار: صفحہ، 25 صحیح ابنِ خزيمة: صفحہ، 2212 صحیح ابنِ حبان: صفحہ، 3438 وسنده صحيح)
حافظ ہیثمی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:
أرجوا أنه اسناد حسن أو صحيح
ترجمہ: ’’امید ہے کہ سند حسن یا صحیح ہے۔‘‘
(مجمع الزوائد: جلد، 1 صفحہ، 46)