نماز تراویح
غلام مصطفی ظہیر امن پورینماز تراویح
قیام رمضان کو’’ تراویح‘‘ کہا جاتا ہے ، اس کے کئی نام ہیں ۔ اس بافضیات نماز کو محروم انسان ہی چھوڑ سکتا ہے۔
سیدنا ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ : حَفِظْنَاهُ. وَإِنَّمَا حَفِظَ مِنَ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ : " مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ، وَمَنْ قَامَ لَيْلَةَ الْقَدْرِ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ". تَابَعَهُ سُلَيْمَانُ بْنُ كَثِيرٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ
”جس نے ایمان سمجھتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا قیام کیا۔ اس کے پہلے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں ۔
(صحيح البخاري : 37 ، - مسلم : 173/759)
سیدنا ابو ہریرہؓ بیان کرتے ہیں :
وَحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرَغِّبُ فِي قِيَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يَأْمُرَهُمْ فِيهِ بِعَزِيمَةٍ فَيَقُولُ : " مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ". فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ، ثُمَّ كَانَ الْأَمْرُ عَلَى ذَلِكَ فِي خِلَافَةِ أَبِي بَكْرٍ وَصَدْرًا مِنْ خِلَافَةِ عُمَرَ عَلَى ذَلِكَ.
’’ رسول کریم ﷺ بغیر واجب حکم کے قیام رمضان کی ترغیب دیتے ہوئے فرماتے : جو ایمان سمجھتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے قیام رمضان کرے گا، اس کے پہلے تمام (صغیرہ) گناہ معاف کر دیئے جائیں گے، آپ کی وفات تک قیام رمضان بغیر جماعت کے چلتا رہا ، سیدنا ابو بکر کے دور خلافت اور سیدنا عمر کی خلافت کے شروع میں بھی معاملہ یونہی رہا۔
صحيح البخاري: (37, 2008, 2009) صحيح مسلم: (759) سنن أبي داود: (1371) سنن الترمذي: (683, 808)
Sahih Bukhari - 2008
کتاب:کتاب نماز تراویح پڑھنے کا بیان
باب:رمضان میں تراویح پڑھنے کی فضیلت
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ لِرَمَضَانَ : مَنْ قَامَهُ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا ، غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ .
میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ ﷺ رمضان کے فضائل بیان فرما رہے تھے کہ جو شخص بھی اس میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ ( رات میں ) نماز کے لیے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے ۔
سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں :
(1733) - حدّثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى. قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ،أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى فِي الْمَسْجِدِ ذَاتَ لَيْلَةٍ. فَصَلَّى بِصَلاَتِهِ نَاسٌ . ثُمَّ صَلَّى مِنَ الْقَابِلَةِ. فَكَثُرَ النَّاسُ. ثُمَّ اجْتَمَعُوا مِنَ اللَّيْلَةِ الثَّالِثَةِ أَوِ الرَّابِعَةِ. فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللّهِ . فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ: «قَدْ رَأَيْتُ الَّذِي صَنَعْتُمْ. فَلَمْ يَمْنَعْنِي مِنَ الْخُرُوجِ إِلَيْكُمْ إِلاَّ أَنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ».قَالَ: وَذلِكَ فِي رَمَضَانَ.
رسول اکرم نے رمضان کی ایک رات مسجد میں نماز پڑھی ، آپ کی اقتدا میں لوگوں نے بھی نماز پڑھی، اگلی رات نماز پڑھائی، تو نمازیوں کی تعداد بڑھ گئی، پھر لوگ تیسری یا چوتھی رات بھی جمع ہوئے، لیکن آپ کی نماز کے لئے نہ نکلے ۔ صبح ہوئی ، تو فرمایا : میں نے آپ کا شوق عبادت دیکھا لیکن باہر اس لئے نہیں آیا کہ کہیں آپ پر یہ نماز فرض نہ ہو جائے ، راوی کہتے ہیں : میں رمضان کا واقعہ ہے ۔
(صحيح البخاري : 1129 ، صحیح مسلم :1 177/76، واللفظ له)
سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں :
(1734) - وحدّثني حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى. أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللّهِ بْنُ وَهْبٍ. أَخْبَرَنِي يُونسُ بْنُ يزِيدَ عَنِ ابْنِ شِهَابٍ. قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّ عَائِشَةَ،أَخْبَرَتْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّهِ خَرَجَ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ فَصَلَّى فِي الْمَسْجِدِ. فَصَلَّى رِجَالٌ بِصَلاَتِهِ. فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَتَحَدَّثُونَ بِذَلِكَ. فَاجْتَمَعَ أَكْثَرُ مِنْهُمْ فَخَرَجَ رَسُولُ اللّهِ فِي اللَّيْلَةِ الثَّانِيَةِ. فَصَلَّوْا بِصَلاَتِهِ. فَأَصْبَحَ النَّاسُ يَذْكُرُونَ ذَلِك. فَكَثُرُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ مِنَ اللَّيْلَةَ الثَّالِثَةِ . فَخَرَجَ فَصَلَّوْا بِصَلاَتِهِ. فَلَمَّا كَانَتِ اللَّيْلَةُ الرَّابِعَةُ عَجَزَ الْمَسْجِدُ عَنْ أَهْلِهِ. فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللّهِ . فَطَفِقَ رِجَالٌ مِنْهُمْ يَقُولُونَ: الصَّلاَةَ فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ رَسُولُ اللّهِ حَتَّى خَرَجَ لِصَلاَةِ الْفَجْرِ. فَلَمَّا قَضَى الْفَجْرَ أَقْبَلَ عَلَى النَّاسِ. ثُمَّ تَشَهَّدَ، فَقَالَ: «أَمَّا بَعْدُ. فَإِنَّهُ لَمْ يَخْفَ عَلَيَّ شَأْنُكُمُ اللَّيْلَةَ. وَلكِنِّي خَشِيتُ أَنْ تُفْرَضَ عَلَيْكُمْ صَلاَةُ اللَّيْلِ. فَتَعْجِزُوا عَنْهَا».
رسول اکرم ﷺدوسری رات تشریف لائے، صحابہ کرام نے آپ کے ساتھ نماز پڑھی۔ لوگ اس کا تذکرہ کرنے لگے۔ تیسری رات مسجد میں نمازی بڑھ گئے ۔ آپ ﷺ تشریف لائے، لوگوں نے آپ ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ چوتھی رات مسجد تنگی داماں کا شکوہ کرنے لگی، مگر آپ ﷺ تشریف نہ لائے۔ حاضرین مسجد کہنے لگے : نماز (تراویح)! لیکن رسول الله ﷺ نماز فجر کے وقت ہی تشریف لائے ‘‘
(صحيح البخاري : 2012 ، - ح مسلم : 178/761)
دوسری روایت ہے :
«خشيت أن تفرض عليكم صلاة الليل، فتعجزوا عنها» .
مجھے خدشہ ہوا کہ قیام اللیل فرض نہ ہو جائے اور آپ اس سے عاجز آ جائیں ‘‘
صحیح بخاری 924: ، صحیح مسلم 178/761
سیدنا ابوذر بیان کرتے ہیں:
(21064) - حدّثنا عبد الله حدَّثني أبي حدثنا عبد الرزاق أنبانا سفيان عن داود بن أبي هند عن الوليد بن عبد الرحمن الجرشي عن جبير بن نفير الحضرمي عن أبي ذر قال: صمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلّم رمضان فلم يقم بنا شيئاً من الشهر، حتى بقي سبع فقام بنا حتى ذهب نحو من ثلث الليل، ثم لم يقم بنا الليلة الرابعة وقام بنا الليلة التي تليها حتى ذهب نحو من شطر الليل، قال: فقلنا: يا رسول الله، لو نفلتنا بقية ليلتنا هذه؟ قال: «إن الرجل إذا قام مع الإمام حتى ينصرف، حسب له بقية ليلته، ثم لم يقم بنا السادسة وقام بنا السابعة. وقال: وبعث إلى أهله واجتمع الناس، فقام بنا حتى خشينا أن يفوتنا الفلاح قال: قلت: وما الفلاح قال: السحور».
” ہم نے رسول اکرم ﷺ کے ساتھ رمضان کے روزے رکھے۔ آپ ﷺ نے قیام نہیں کروایا ، تئیسویں شب کا تہائی حصہ قیام کروایا۔ چوبیسویں کو قیام نہیں کروایا ، پھر پچیسویں کو نصف رات تک قیام کروایا۔ میں نے عرض کیا : اللہ کے رسول! کاش کہ آپ پوری رات قیام کرواتے ۔ فرمایا : باجماعت قیام کرنے پر پوری رات کے قیام کا ثواب ملتا ہے۔ چھبیسویں رات قیام نہیں کروایا۔ ستائیسویں شب صحابہ کرام کو بمع اہل وعیال قیام کروایا، تا آنکہ ہمیں خدشہ ہوا کہ فلاح‘‘ سے محروم نہ رہ جائیں ۔ راوی نے سیدنا ابو ذر سے پوچھا : فلاح سے کیا مراد ہے؟ کہا : سحری۔ پھر بقیہ ایام قیام نہیں کروایا ۔“
(مسند الإمام أحمد : 159/5، سنن أبي داود : 1375 ، سنن النسائي : 1606 ، سنن الترمذي : 806، سنن ابن ماجه : 1327 ، وسندہ صحیح)
سیدنا زید بن ثابت بیان کرتے ہیں:
6113 - وَقَالَ الْمَكِّىُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ. وَحَدَّثَنِى مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ حَدَّثَنِى سَالِمٌ أَبُو النَّضْرِ مَوْلَى عُمَرَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ - رضى الله عنه - قَالَ احْتَجَرَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - حُجَيْرَةً مُخَصَّفَةً أَوْ حَصِيرًا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - يُصَلِّى فِيهَا، فَتَتَبَّعَ إِلَيْهِ رِجَالٌ وَجَاءُوا يُصَلُّونَ بِصَلاَتِهِ، ثُمَّ جَاءُوا لَيْلَةً فَحَضَرُوا وَأَبْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - عَنْهُمْ، فَلَمْ يَخْرُجْ إِلَيْهِمْ فَرَفَعُوا أَصْوَاتَهُمْ وَحَصَبُوا الْبَابَ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمْ مُغْضَبًا فَقَالَ لَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ - صلى الله عليه وسلم - «مَا زَالَ بِكُمْ صَنِيعُكُمْ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُكْتَبُ عَلَيْكُمْ، فَعَلَيْكُمْ بِالصَّلاَةِ فِى بُيُوتِكُمْ، فَإِنَّ خَيْرَ صَلاَةِ الْمَرْءِ فِى بَيْتِهِ، إِلاَّ الصَّلاَةَ الْمَكْتُوبَةَ».» .
’’رسول اکرم ﷺ نے چٹائی یا کھجور کی چھال کا خیمہ بنایا، گھر سے نکل کر اس میں قیام اللیل کے لئے داخل ہوئے۔ صحابہ کرام آپ کے پیچھے ہو لیے اور آپ کی اقتدا میں قیام کرنے لگے۔ اگلی رات آئے ، تو رسول اکرم ﷺ آنے میں تاخیر کر دی ، لوگوں نے شور کیا اور دروازے کو کنکریاں ماریں ۔ رسول اللہ ﷺ غصہ میں باہر آئے اور فرمایا : آپ کا شوق عبادت ایسا ہی رہا، تو مجھے لگا کہ آپ پر یہ نماز ( مسجد میں ادا کرنا ) فرض کر دی جائے گی ۔ گھروں میں نماز پڑھا کر میں ، فرض نماز کے علاوہ مرد کی سب سے بہترین نماز گھر میں ہی ہے ۔‘‘
(صحيح البخاري :731، صحیح مسلم :213/781 ، واللفظ له)
سیدنا ثعلبہ بن مالک بیان کرتے ہیں :(4653) _ أنبأ أبو زكريا بن أبي إسحاقَ و أبو بكر أحمد بن الحسن القاضي و أبو عبد الرحمن السُّلَمِيُّ قالوا ثنا أبو العباس محمد بن يعقوبَ أنبأ بحر بن نصر قال قرىء على عبد الله بن وهْب أخبرك عبد الرحمن بن سلمانَ و بكر بن مُضَر عن ابن الهَادِأنَّ ثَعْلَبَةَ بنَ أبِي مالكٍ القُرَظِيَّ حدثه قالَ: خَرَجَ رسولُ الله ذَاتَ ليلةٍ في رَمَضَانَ فَرَأَى ناساً في ناحِيَةِ المَسْجِدِ يُصَلُّونَ فقالَ: «ما يَصْنَعُ هؤلاءِ»، قال قائل: يا رسولَ الله هؤلاءِ ناسٌ ليس مَعَهُم قرآنٌ، وأُبَيُّ بنُ كَعْبِ يَقْرأُ، وَهُم مَعَهُ
يُصَلُّونَ بصلاتِهِ ، قال: «قَدْ أحْسَنُوا أوْ قَدْ أصَابُوا». ولم يَكْرَهْ ذلِكَ لَهُمْ.
رسول اکرم ﷺ رمضان کی ایک رات تشریف لائے ، صحابہ کرام کو مسجد کے ایک کونے میں نماز پڑھتے دیکھا ، تو دریافت کیا : یہ کیا کر رہے ہیں؟ کسی نے کہا : اللہ کے رسول! انہیں قرآن یاد نہیں۔ ابی بن کعب قرأت کر رہے ہیں اور یہ ان کے ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔ فرمایا : انہوں نے اچھا کیا ہے اور درستی کو پہنچے ہیں۔ آپ ﷺ نے اسے ناپسند نہیں کیا ۔‘‘
(السنن الكبرى للبيهقي : 495/2، معرفة السنن والآثار للبيهقي : 303/2، ح : 1363 ، وسنده حسن)
سید نا نعمان بن بشیر بیان کرتے ہیں :
(18058) - حدّثنا عبدالله حدَّثني أبي حدثنا زيد بن الحبّاب حدثنا معاوية بن صالح حدَّثني نعيم بن زياد أبو طلحة الأنماري: «أنه سمع النعمان بن بشير يقول على منبر حمص: قمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلّم ليلة ثلاث وعشرين في شهر رمضان إلى ثلث الليل الأول ثم قمنا معه ليلة خمس وعشرين إلى نصف الليل ثم قام بنا ليلة سبع وعشرين حتى ظننا أن لا ندرك الفلاح، قال: وكنا ندعو السحور الفلاح، فأما نحن فنقول: ليلة السابعة ليلة سبع وعشرين وأنتم تقولون: ليلة ثلاث وعشرين السابعة، فمن أصوب نحن أو أنتم؟» .
’’ہم نے رسول اللہ ﷺکے ساتھ رمضان کی تئیسویں شب کا تہائی حصہ قیام کیا۔ پھر پچیسویں کو نصف رات، ستائیسویں کو اتنا لمبا قیام کیا کہ ہمیں سحری فوت ہونے کا خدشہ ہوا ۔‘‘
(مسند الإمام أحمد : 272/4، سنن النسائي : 7 : 1607، وسنده صحيح)
امام حاکم رحمتہ اللہ (440/1) نے اس حدیث کو امام بخاری رحمتہ اللہ کی شرط پر صحیح اور حافظ ذہبی بلانے نے’’ حسن‘‘ کہا ہے۔
عبدالرحمن بن عبدالقاری رحمتہ اللہ بیان کرتے ہیں :
(1986) - وعنِ ابنِ شِهابٍ عن عُرْوَةَ بنِ الزُّبَيرِ عن عبدِ الرحمنِ بن عبدٍ القارِيِّأنهُ قال: «خرَجتُ معَ عُمرَ بن الخَطّابِ رضيَ الله عنهُ ليلةً في رمضانَ إِلى المسجدِ فإِذا الناسُ أوزاعٌ مُتَفَرِّقونَ يُصلِّي الرجلُ لنَفْسِهِ، ويُصلِّي الرجُلُ لنفسه ويُصَلِّي الرَّجُلُ فيُصلِّي بصلاتِهِ الرَّهطُ. فقال عمرُ: إِني أرَى لو جَمعتُ هؤلاءِ على قارىٍء واحدٍ لَكانَ أمْثَلَ. ثمَّ عَزمَ فجمَعَهم على أُبيِّ بنِ كعبٍ. ثمَّ خَرَجتُ معهُ ليلةً أُخرى والناسُ يُصَلُّونَ بصلاةِ قارِئهم، قال عمرُ: نِعْمَ البِدْعةُ هذهِ، والتي يَنامونَ عنها أفضَلُ منَ التي يَقومونَ - يُريدُ آخرَ الليلِ - وكان الناسُ يَقُومونَ أوَّلهَ». .
’’ میں رمضان کی ایک رات سید نا عمر بن خطاب کے ساتھ مسجد کی طرف نکلا، لوگ مختلف گروہوں میں منقسم تھے۔ کوئی آدمی اکیلا اور کوئی جماعت کے ساتھ نماز پڑھ رہا تھا۔ سیدنا عمر نے فرمایا : میرے مطابق انہیں ایک قاری پر جمع کر دوں ، تو بہت اچھا ہوگا ۔ آپ نے عزم مصمم کر لیا اور لوگوں کو سیدنا ابی بن کعب کی امامت پر جمع کر دیا۔ ایک رات پھر میں آپ کے ساتھ نکلا ۔ لوگ ایک قاری کی اقتدا میں نماز پڑھ رہے تھے، تو سید نا عمر نے فرمایا : یہ تجدید تو کیا خوب ہے! البتہ ان سے وہ افضل ہیں، جو اس وقت سو جاتے ہیں اور آخری پہر قیام کرتے ہیں ۔
صحيح البخاري : 2010
سید نا عمرو بن مرہ جہنی بیان کرتے ہیں؛
(2203) - حدثنا علي ابن سعيد التستري أخبرنا الحكم ابن نافع عن شعيب يعني ابن أبي حمزة عن عبد الله ابن أبي حسين حدثني عيسى ابن طلحة عن عمرو ابن مرة الجهني قال:«جاء رسولَ الله صلى الله عليه وسلّم رجلٌ من قُضاعَةَ فقال له: يا رسول الله أرأيت إن شهدت أن لا إله إلا الله وأنك رسول الله وصليت الصلوات الخمس ، وصمت الشهر، وقمت رمضان، وآتيت الزكاة فقال النبي صلى الله عليه وسلّم: من مات على هذا كان من الصديقين والشهداء»
’’ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا : اللہ کے رسول! میں کلمہ توحید کی گواہی دوں، آپ کی رسالت کا اقرار کروں، پانچوں نمازیں پڑھوں ، زکوۃ ادا کروں ، رمضان کے روزے رکھوں اور تراویح ادا کروں ، تو میرا شمار کن میں ہوگا؟ فرمایا : صدیقوں اور شہیدوں میں ‘‘
(مسند البزار : 25 ، صحیح ابن خزيمة : 2212 ، صحیح ابن حبان : 3438، وسنده صحيح)
حافظ ہیثمی رحمتہ اللہ، فرماتے ہیں:
أرجوا أنه اسناد حسن أو صحيح .
’’امید ہے کہ سندحسن یا صحیح ہے ۔‘‘