دھوکہ نمبر 2
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 2
یہ دھوکہ بھی اسی قسم کا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ اہل سنت اللّٰه تعالیٰ سے برائیوں کے صدور کو جائز مانتے ہیں مثلاً زنا،چوری کا صدور اللّٰہ تعالیٰ کے خلق و ارادہ کی بنا پر مانتے ہیں نہ کہ انسان و شیطان کے ۔
حالانکہ اللّٰہ تعالیٰ کے متعلق ایسا عقیدہ رکھنا سوءادب اور سخت گستاخی ہے۔ اور یہ نادان نہیں جانتے کہ اہل سنت کا تو یہ مذہب ہے کہ اللّٰہ تعالٰی کا کوئی فعل برا نہیں ۔ وہ فعل جو انسان و شیطان کی نسبت سے برا ہے اور اس پر ان کی گرفت ہو گی وہی فعل اللّٰه تعالٰی کی نسبت سے برائی سے پاک اور بری ہے۔
یہ بات بالکل واضح ہے کہ حسن و قبیح ، اچھائی، برائی نسبتی امور میں سے ہیں جن کی طرف ان کی نسبت کی جائے ان کے اختلاف کی وجہ سے ان میں بھی اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ اصل قباحت اور برائی تو ان دونوں کا اللّٰہ تعالٰی سے صدور ماننا ہے جس کی وجہ سے الجھنوں کے گرداب میں پڑ جاتا ہے۔
اصول شیعہ کے مطابق جب اچھائی اور برائی کو اللّٰہ تعالٰی کے افعال میں پایا گیا تو چاہے برائی پیدا کرنے کی نسبت اللّٰہ تعالٰی کی طرف نہ بھی کی جائے تب بھی برے کاموں پر بندوں کو قدرت و اختیار دینا تو اللّٰہ تعالٰی ہی کا کام ہے۔ اور یہ بات چار و نا چار شیعوں کو بھی ماننی پڑ رہی ہے ۔ اس کا نتیجہ یہی ہے کہ اللّٰہ تعالٰی سے برائیوں کا صدور خود بخود لازم آجاتا ہے کیونکہ برائی پر کسی کو قدرت و اختیار دینا بھی تو برائی ہے۔
مثلاً ایک شخص کے متعلق ہم یقین سے جانتے ہیں کہ اگر اسے چھری مل گئی تو وہ اپنا پیٹ پھاڑے گا اس کے باوجود اسے چھری تھما دیں۔ تو عقلمندوں کے نزدیک قابل ملامت و مذمّت باہم ہوں گے نہ وہ خود اور اس کے باوجود کہ اس نے اپنا پیٹ خود پھاڑا ہے، اس کے مار ڈالنے والے ہم ہی ہوں گے۔ یہ دونوں صورتیں بالکل ایک جیسی ہیں، تو اس طعن کے مورد بھی شیعہ خود ہی ٹھرے،
اہل سنت نے تو یہ کہ کہہ کر اللّٰہ تعالٰی کی ذات افعالِ قبیحہ کے صدور سے پاک و بری ہے اور صدور فعل میں توحید حقیقی کا اعتقاد رکھ کر بلا شرکت غیر اس سے افعال صادر ہوتے ہیں تمام اعتراضات و الزامات کی جڑیں ہی کاٹ دیں ۔ اور امن چین سے ہو گئے ۔ ذالک فضل اللّٰه علیھم(یہ ان پر اللّٰه کا فضل ہے ) ۔
اور ایک بات یہ بھی کہ سب مانتے ہیں کہ اللّٰه تعالٰی نے حیوانات کے گوشت کو انسان کے لئے حلال کیا ہے اور ان کو حیوانات پر پورا پورا تسلط دیا ہے، پس ان کو ذبح کرتے ہیں، ان کی کھال کھینچتے ہیں۔ اب انسانوں میں تو بہت سے نافرمان و سرکش بھی ہیں جب کہ جانور سب کے سب مطیع و فرمانبردار اور تسبیح خواں ہیں، تو نافرمانوں کو مطیع و فرمانبردار پر اس حد تک مسلط کرنا کہ وہ انہیں قتل بھی کریں، ان کی کھال بھی کھینچیں۔ اگرچہ یہ برائی نہیں تو اور کیا ہے۔ اگر اس کے جواب میں یہ کہا جائے کہ حیوانوں کو یہاں جو دکھ اور تکلیف پہنچ رہی ہے، اس کے عوض آخرت میں یہ کئی گنا بدلہ پائیں گے۔ جیسے کہ شیعہ اور معتزلہ کا مذہب ہے۔ اور جس تکلیف کے عوض بہت کچھ اچھا بدلہ ملے، وہ ضائع اور رائیگاں نہیں ہوتا۔ تو اس پر ہم کہیں گے کہ پہلے تکلیف پہنچانا پھر بدلہ دینے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ اسے تکلیف پہنچائی ہی نہ جائے کہ اس کا بدلہ دینا پڑے۔ اکثر عقلمندوں کے نزدیک یہ دوسری صورت زیادہ بہتر ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی شخص کے بیٹے کو اول مار ڈالا جائے اور پھر قتل کی دیت دیدی جائے اور یہ عذر کیا جائے کہ اس سے غرض تو یہ تھی کہ اس دیت کی رقم سے اس شخص کا افلاس دور ہو تو کون عقلمند اس کو عدل و انصاف کہے گا۔
ایک اور صورت: کہ اللّٰه تعالیٰ اپنے اکثر گنہگار بندوں کو بڑی فراوانی سے دولت دیتا ہے۔حالانکہ ان لوگوں کے حق میں دولت کی کثرت سم قاتل سے بھی زیادہ مہلک ہے۔ کیونکہ اس وجہ سے زمین پر فساد، تباہ کاری، فسق و فجور، تکبر و بغاوت برپا کرتے اور خوں ریزی، زناکاری، لواطت، شراب نوشی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں، بلکہ بعض تو نمرود، فرعون اور مقنع کی طرح خدا بن بیٹھتے ہیں۔ بعض پیغمبروں، پیغمبر زادوں کو قتل کر دیتے ہیں۔ تو یہ سارے افعال سب ہی کے نزدیک برے اور قبیح ہیں اور ان برے کاموں پر قدرت دینا یا ان کے لئے اسباب مہیا کردینا بجائے خود قبیح تر ہے۔
اس پر اگر شیعہ یہ کہیں کہ پیغمبروں یا پیغمبرزادوں پر قید و بند یا قتل و ذلت کی جو کچھ مصیبتیں آئیں وہ چونکہ آخرت میں ثواب عظیم کا سبب ہیں اس لئے ان مصیبتوں میں تو حسن و صلاح ہے نہ کہ قبیح و فساد! تو ہم ان سے پوچھیں گے کہ ان پیغمبروں یا پیغمبرزادوں کو جو ان مصائب سے دوچار نہیں ہوئے،یہ ثواب ملے گا یا نہیں۔ اگر ملا تو مثلاً حضرت یحییٰ علیہ السلام اور سیدنا حسین رضی اللّٰه عنہ کے حق میں ترک اصلح ہوا اور فعل قبیح کا ارتکاب: اور اگر ان کو یہ ثواب نہیں ملے گا تو پھر ان کے حق میں ترک اصلح اور فعل قبیح کا ارتکاب ہوا کہ وہ ثواب عظیم سے محروم ہوئے۔
اب ہر دو مسئلوں کی تحقیق ملاحظہ ہو کہ وجوب کی اور حسن و قبح کی تین قسمیں ہیں۔
(1)طبعی ، (2)شرعی اور (3)عقلی۔
تو معلوم ہونا چاہیئے کہ باجماع علماء یہ بات ثابت ہے کہ اللّٰه تعالٰی کے لئے وجوب طبعی و شرعی متصور نہیں کیونکہ پہلا وجوب بے اختیاری اور بیچارگی کی دلیل ہے کہ طبیعت سے مجبوری کا اظہار ہوتا ہے اور دوسرا محکوم و مکلف ہونے کو متقاضی ہے اور اللّٰه تعالٰی ان تمام عیوب سے پاک و منزہ ہے۔ اب رہا وجوب عقلی کے یہ معنی کہ ہر خصوصی اور جزئی واقعہ میں عقل کے تقاضے کے خلاف کام کرنا اللّٰه تعالٰی کے لئے جائز نہ ہو تو یہ معنی شان الوہیت کے سراسر خلاف ہے اور بحث بھی اسی میں ہے۔کیونکہ شیعہ اور معتزلہ اسی معنی کو صرف دین، یا دین و دنیا دونوں میں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے ذہنوں میں اللّٰه تعالٰی کی حیثیت ارسطو، افلاطون یا سکندر اور اورنگزیب کی سی ہے۔
ظاہر ہے کہ جب عقلاًء اور عقول حادث ہیں اور مخلوق و مقہور اور ہر حیثیت سے اللّٰه تعالیٰ کے زیرِ فرمان تو اب اللّٰه تعالٰی کو اسی کی مخلوق اور حوادثات کے زیر فرمان ماننا کتنی بے عقلی اور بد عقلی کی بات ہے۔
اور اگر وجوب عقلی کا یہ مطلب ہے کہ تمام عالم کی مصلحتوں کے پیش نظر جو کچھ حکمت کا تقاضہ ہو،اس کے مطابق اللّٰه تعالٰی سے فعل سرزد ہو تو یہ بات اہل سنت کے ہاں بھی تسلیم شدہ ہے۔ يراعى الحكمة فيما خلق و أمر. (اللّٰہ تعالٰی ہر چیز کی پیدائش اور اس کے حکم کے وقت حکمت کو مد نظر رکھتا ہے۔) جیسا کہ عقائد عضدیہ اور علم کلام کی دوسری کتابوں میں موجود ہے۔
لیکن جب تمام عالم کی مصلحتوں کا لحاظ رکھنے کا نام حکمت الٰہیہ ہے اور ان مصلحتوں پر خدائے علام الغیوب کے سوا کسی کا احاطہ ممکن نہیں تو ہر خصوصی فرد یا جزئی واقعہ میں اصلح پہلو کو متعین کرنا اور اس کو اللّٰه تعالیٰ پر واجب ٹھہرانا انتہائی بے ادبی اور حد درجہ کی بے عقلی ہے۔ اور پھر یہ ممکن بھی نہیں۔ اس لئے اہل سنت نے یہ قاعدہ مقرر کیا کہ اللّٰه تعالٰی سے جو کچھ سرزد ہو، اس کے بارے میں یہ اجمالی عقیدہ رکھنا چاہیئے کہ وہ حکمت کے مطابق ہے۔ اور جو صادر نہ ہو، اسکے متعلق یہ عقیدہ کہ وہ حکمت کے موافق نہ تھا۔ یہ نہیں کہ وہ ادھورے جزئی اصول کلیہ جو عقلاء کی ایک جماعت نے گھڑ گھڑا کر مقرر کر لئے ہیں، ان کو اللّٰه تعالٰی کی ذات پر چسپاں کردیا جائے۔ لہٰذا اہل سنت وجوب یہاں بھی استعمال نہیں کرتے تا کہ خلاف مقصود کا وہم تک نہ ہو سکے۔
حاصل کلام یہ کہ ان شبہات کا جواب دینا شیعوں کے احاطہ امکان سے باہر ہے، تا آنکہ وہ اہل سنت کے مذہب کو مان کر عقیدہ لا يسئل عما يفعل تسلیم نہ کر لیں۔