دھوکہ نمبر 4
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 4
شیعہ کہتے ہیں کہ اہل سنت انبیاء کرام علیہم اسلام کے متعلق یہ غلط و ناقص عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان سے گناہ سرزد ہو سکتا ہے۔اس کے بر خلاف شیعہ ان میں پوری نزاہت اور پاکیزگی کا عقیدہ رکھتے ہیں۔وہ اسے درست نہیں سمجھتے کہ نبیوں سے نبوت سے پہلے یا نبوت کے بعد کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ سر زد ہو سکتا ہے۔اس لحاظ سے اہل سنت شیعہ مذہب ادب سے زیادہ قریب ہے یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر انبیاء کرام علیہم السلام سے گناہ سر زد ہونا تسلیم کر لیا جائے تو ان کے قول و فعل سے اعتماد اٹھ جائے گا اور ان کی بعثت کا مقصد ہی فوت ہو جائے گا۔
مگر یہ سب کچھ افتراء بہتان،تحریف اور مسخ ہے۔کیونکہ اہل سنت گناہ کبیرہ کو بعد نبوت عمداً و سہواً ہرگز جائز نہیں رکھتے،البتہ گناہ صغیرہ کو سہواً جائز سمجھتے ہیں۔بشرطیکہ اس پر اصرار نہ ہو۔اور جھوٹ نہ عمداً نہ سہواً نہ قبل نبوت نہ بعد نبوت ان سے منسوب کرنے کو جائز نہیں سمجھتے۔اس صورت میں ان سے اعتماد اٹھنے کا سوال ہی نہیں۔
یہاں ایک باریک بات قابل غور ہے کہ شیعہ اکثر مسائل میں زیادتی سے کام لیتے ہیں اور ہر بلند درجہ کو اپنا مذہب بنا لیتے ہیں مگر واقعہ اور حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔اس لئے ان کا مذہب ایک وہم اور غیر حقیقی بن کر رہ جاتا ہے۔
بر خلاف اہل سنت کے کہ وہ ہر قدم،جانچ پرکھ اور خوب سوچ سمجھ کر اٹھاتے ہیں اور واقعہ و حقیقت کبھی ان کی تکذیب نہیں کرتے۔شیعوں کے اکثر اعتقادی مسائل میں یہی نقص پیدا ہو گیا ہے،اسی وجہ سے وہ اپنے موہوم عقائد کو نفس الامر سے ہم آہنگ کرنے میں عقلی طور پر فرو مایہ رہ جاتے ہیں اور حیران و پریشان ہوتے ہیں اور پھر لچر و مہمل اقوال ان سے سر زد ہونے لگتے ہیں چنانچہ یہ عقیدہ بھی انہی مسائل میں سے ہے۔
بے شمار آیات قرآنی اور احادیث نبویﷺ اثبات پر ناطق و شاہد ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام سے لغزشوں کا صدور اور ان پر عتاب الٰہی بھی ہو اور نتیجتاً اور ان حضرات کی جانب سے بکاء،ندامت،اور اظہار عجز و زاری ہو اگر ہم عصبیت کو نکتہ عروج پر پہنچا دیں تو پھر ان صریح آیات و احادیث کی توضیح و تشریح میں مہمل و بے معنی کلمات کے سوا ہمارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا تو اول ہی مرحلے پر ہم عصبیت کے ایسے معنی کیوں نہ متعین کر لیں کہ بعد میں ان الجھنوں اور پریشانیوں سے سابقہ نہ پڑے۔
پھر تعجب اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بلندی اعتقاد کے باوجود یہ خود اپنے معصوم ائمہ سے ایسی روایات بیان کرتے ہیں جن سے انبیاء اکرام سے نبوت کے بعد گناہ کبیرہ سرزد ہونے کا ثبوت ملتا ہے ۔چنانچہ کلینی سند صحیح کے ساتھ ان الفاظ سے ابو یعفور سے روایت بیان کرتا ہے اور وہ ابی عبداللّٰہ رحمۃ اللّٰه سے کہ اَنَّ يُوْنُسَ عَلَيْهِ السلام قَدْ اَنى ذَنْباً كَانَ الْمَوْتُ حلالاً.
اسی طرح مرتضیٰ جسکا شمار ان کے ان معتبر مجتہدین میں ہوتا ہے۔انبیاء کرام علیہم اسلام سے قبل البلوغ گناہ کے صدور کو جائز قرار دیتا ہے۔اور یوسف علیہ اسلام کے ساتھ ان کے بھائیوں کے سلوک کو صغر سنی پر محمول کرتا ہے ۔اس کلام کی کمزوری ظاہر و باہر ہے۔
غرض ان شیعوں نے جو کام بھی کئے ہیں۔چھوٹی عمر کے بچوں سے بھی ایسے کاموں کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔