Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

دھوکہ نمبر 5

  شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ

دھوکہ نمبر 5

یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت پیغمبروں سے بھول چوک سر زد ہونے کو جائز کہتے ہیں اور دلیل میں اہل سنت کی یہ روایت لاتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضورﷺ کو چار رکعت والی نماز میں سہو ہوا اور آپ نے دو رکعت پر سلام پھیر دیا۔

تو بھلا اس میں طعن کا کون سا پہلو ہے۔بھول چوک خاصا بشری ہے۔اور چونکہ بشریت میں انبیاء کرام سب انسانوں کے ساتھ شریک ہیں۔ لہٰذا ان میں امور بشریہ کا ہونا لازمی ہے۔ مثلاً مرض درد سر، زخم اور قتل جیسے عوارض ان کو بھی لاحق ہوتے ہیں،سانپ بچھو ان کو بھی ڈستے ہیں،دکھ درد ان کو ستاتا ہے،نیند و غفلت ان کو بھی ہوتی ہے،جادو سے یہ بھی متاثر ہوتے ہیں۔تو اب سہو ان امور میں کونسا بلند مرتبہ رکھتا ہے۔جس کا لاحق ہونا انبیاء کرام علیہم السلام کی ذات میں نقص کا باعث ہوا۔البتہ تبلیغی امور میں ان سے سہو کبھی سرزد نہیں ہوتا۔نہ اس کا اعتقاد جائز ہے کہ جائز کو نا جائز یا امر کے بجائے نہی فرمائیں۔

بعض محقق علماء نے لکھا ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام سے سہو اس لئے ہوتا ہے کہ وہ ہر دم ذات باری کے حضور اور اس کے مشاہدہ میں مشغول ہوتے ہیں۔اور عوام کا سہو اس لئے ہوتا ہے کہ وہ دنیوی امور میں پرا گندہ دل ہوتے ہیں تو صورت سہو میں تو مشترک ہے۔مگر سبب اور وجہ میں اختلاف اسی لئے کہا گیا ہے۔

کارپاں کاں را قیاس از خود میگر

گرچہ ماند در نوشتن شیر و بشیر

برگزیدہ لوگوں پر اپنے آپ کو قیاس نہ کرو اگرچہ شیر (درندہ) اور شیر ایک طرح لکھے جاتے ہیں پھر بھی الگ الگ ہیں۔

شیخ علی نے قصہ ذوالیدین کو اہل سنت پر طعن کا بڑا اچھا مورد خیال کیا ہے حالانکہ واقعہ کے بیان اور امر حق کی روایت میں طعن کیا ہے۔ اس کے بعد باوجود دروغ گورا حافظہ سنباشد کے مصداق شیخ مذکور کو یہ یاد نہیں رہا کہ خود کلینی اور ابو جعفر طوسی صحیح سندوں کے ساتھ ذوالیدین کے قصہ کو روایت کرتے ہیں۔جو ان کی کتابوں میں موجود ہے تو جس بات پر وہ اہل سنت کو جھوٹ کہتے ہیں وہ خود اس کا مورد ٹھرتے ہیں اس لئے کہ اہل سنت تو سہو کو نقص نہیں سمجھتے اور شیعہ اس کو نقص ماننے کے باوجود اس کی روایت کرتے ہیں۔جو زیادہ قابل طعن ہے۔