دھوکہ نمبر 6
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 6
یہ کہتے ہیں کہ اہل سنت پیغمبروں کے لئے زبان سے کلمہ کفر کی ادائیگی کو جائز کہتے ہیں اور روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے لات اور عزیٰ کی مدح فرمائی۔
ان کا طعن یہ بھی مسخ و تحریف میں شمار ہوتا ہے، اس لئے اہل سنت کی کتب تفسیر میں ضعیف روایت کے حوالہ سے یہ آیا ہے کہ سورة نجم کی تلاوت کے وقت شیطان نے اس مجلس میں شریک ہو کر بلند آواز سے چند ایسے کلمات ادا کئے جن سے عزانیق علا کی مدح نکلتی ہے حالانکہ غرانیق کا لفظ بھی ملائکہ اور اصنام ہردو میں شریک ہے۔ کفار اس کو اپنے بتوں کی تعریف سن کر بڑے خوش ہوئے۔ موسیٰ بن عقبہ نے روایت کی ہے کہ مسلمانوں نے یہ الفاظ بالکل نہیں سنے اس کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور حضورﷺ کو اس واقعہ کی اطلاع دی تو آپﷺ کو بے انتہاء رنج و صدمہ ہوا - چنانچہ آپﷺ کی تسلی کی خاطر یہ آیت نازل ہوئی:
وَمَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ وَّ لَا نَبِیٍّ اِلَّاۤ اِذَا تَمَنّٰۤى اَلْقَى الشَّیْطٰنُ فِیْۤ اُمْنِیَّتِهٖۚ فَیَنْسَخُ اللّٰهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطٰنُ ثُمَّ یُحْكِمُ اللّٰهُ اٰیٰتِهٖؕ-وَاللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِـيْـمٌ لِّیٙجْعٙلٙ مٙا یُلْقِی الشّٙیْطٙانُ فِتْنٙةً لِّلّٙذِیْنٙ فِیْ قُلُوْبِھِمْ مٙرٙضٌ وّٙالْقٙاسِیٙةِ قُلُوْبُھُمْ۔
" اور آپ سے پہلے بھی ہم نے کوئی نبی و رسول نہیں بھیجا کہ کسی وقت اس نے تمنا کی ہو اور شیطان نے اس میں کچھ نہ ڈالا ہو پس اللّٰہ تعالٰی اس کے ڈالے ہوئے کو دور کر دیتا ہے اور مضبوط کرتا ہے اپنی آیتوں کو اور اللّٰہ تعالٰی دانا بڑی حکمت والا ہے کہ کر دیتا ہے شیطانی ملاوٹ کو ان کے حق میں فساد جن کے دلوں میں روگ ہے اور جن کے دل سیاہ ہیں۔"
اب بنظر انصاف سیاق آیت پر غور کیجئے کہ یہ آیت اس قصہ پر کس حد تک چسپاں ہوتی ہے، گویا اس کے معنیٰ صرف یہی ہیں پھر اس قصہ پر غور و فکر کی نظر ڈالیں کہ اس میں برائی کونسی ہے۔ اور پیغبر خداﷺ کی زبان مبارک پر کونسے کلمات کفر آئے ۔
شیطان کا انسان کو اشتباہ میں ڈالنا، آوازوں اور نغموں کے ذریعہ حکایات کرنا کونسی انوکھی اور تعجب کی بات ہے۔ ہاں اس بات پر تعجب ہے کہ کفار کے سامنے شیطانی کلمات، فرقانی کلمات سے گڈ مڈ کیسے ہو گئے کہ فرقانی کلمات تو اعجازی صفت سے متصف ہوتے ہیں اور شیطانی کلمات اس سے عاری۔ لیکن جب واقعہ کی گہرائی تک پہنچ کر دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کفار کی عجلت پسندی نے ان کو شیطانی کلمات کے اعجازی پہلو اور بلاغت پر غور اور سوچ کا موقع ہی نہیں دیا ۔ انہوں نے ان کلمات کے ظاہری مطلب کو اپنے عقیدے کے مطابق پایا تو یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ سب کلمات فرقانی ہی ہیں جیسا کہ عام شیعہ کی حالت ہے اگر ان کو اپنے امام سے کوئی ضعیف روایت بھی مل جاتی ہے جو ان کے مذہب کے موافق ہو اور مذہب اہل سنت کے مخالف ہو تو اسے سر آنکھوں پر رکھتے اور اس کو اپنا معمول بنا لیتے ہیں اور ان کے مقابلہ میں صحیح احادیث کو پس پشت ڈال دیتے ہیں حالانکہ ائمہ کا کلام غیر ائمہ کے کلام کے ساتھ مشتبہ نہیں ہو سکتا لیکن جمیت اور عصبیت کا پردہ آنکھوں میں ایسا پڑا ہوتا ہے کہ وہ حق و باطل میں تمیز کرنے کی فرصت ہی نہیں دیتا۔ اگر اہل سنت اتنی سی بات پر مطعون قرار پاتے ہیں تو امامیہ تو جو اپنی کتب صحیحہ میں انبیاء اور رسولوں کی "کفریات" کی روایت بیان کرتے ہیں ۔جس کی مثالیں انشاء اللّٰہ ان کے عقائد کے بیان میں پیش کی جائیں گی ۔ ملعون ٹھہرتے ہیں ۔ ملعون ٹھیرتے ہیں اور مطعون و ملعون کے فرق کو یقیناً ہر کوئی جانتا ہے۔