دھوکہ نمبر 8
شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒدھوکہ نمبر 8
کہتے ہیں کہ اہل سنت قرآن کی مخالفت کرتے ہیں مثلاً وضو میں پاؤں پر مسح کرنے کے بجائے ان کو دھوتے ہیں۔حالانکہ قرآن کی آیت صاف طور پر مسح پر دلالت کرتی ہے۔ اس دھوکہ نے بہت سے ایسے جاہلوں کو راہ راست سے بھٹکا دیا ہے جو نحو اور عربی کی معمولی شد بد کے ساتھ احکام الٰہی کی تحقیق میں قدم رکھتے اور خود کو عالم سمجھتے ہیں حالانکہ وہ اتنی قابلیت بھی نہیں رکھتے اصول اور قواعد اجتہاد کو سمجھ سکیں۔ یا مختلف مسائل میں باہم تطبیق دے سکیں ۔
اب اس اجمال کی تفصیل ملاحظہ ہو فریقین کے نزدیک قرآن مجید میں آیت وضو میں اٙرْجُلِکُمْ ل کے زیر اور زبر کی قرائتیں متواتر صحیح اور درست ہیں۔
پھر دونوں اس اصولی قاعدہ پر بھی متفق ہیں کہ جب متواتر قرائتیں باہم متعارض ہوں تو وہ دو مختلف آیتوں کا حکم رکھتی ہیں ۔ اس سے پہلے تو ان دونوں میں تطبیق کی کوشش کرنی چاہیے۔ پھر ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے بارے میں غور کرنا چاہیے اگر دونوں صورتیں ممکن نہ ہوں تو ان کو کالعدم تصور کر کے ان سے کم مرتبہ دلائل کی طرف رجوع کرنا چاہیئے مثلاً دو آیتوں میں تطبیق ممکن نہ ہو تو حدیث کی طرف رجوع کریں، کیونکہ تعارض کے سبب آیتوں پر عمل ممکن نہ ہونے کے سبب وہ کالعدم ہوئیں اور اگر احادیث باہم متعارض ہوں تو اقوال صحابہ اور اہل بیت کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔ یا جو لوگ قیاس کے قائل ہیں ان کو مجتہدین کے قیاس پر عمل کرنا چاہئیے ۔
پس اس آیت وضو میں ہم نے دونوں قرأتوں میں غور کیا تو اہل سنت کے نزدیک ہر دو قرأت میں دو وجوہ سے تطبیق پائی ۔
ایک یہ کہ مسح کو غسل پر محمول کریں جیسا کہ ابو زید انصاری اور دوسرے اہل لغت نے ان الفاظ میں تصریح کی ہے۔
اٙلْمٙسْحُ فِیْ کٙلٙامِ الْعِرٙبِ یٙکُوْن غٙسْلاً یُقٙالُُ لِلرِّجُلِ اِذٙا تٙرٙضّٙاء مٙسٙحُ اللّٰہُ مٙا بِکٙ اٙیْ اٙزٙالٙ عنك المرض ويقال مسح الأرض المطر۔
کلام عرب میں مسح کے معنی غسل کے بھی ہوتے ہیں ۔ وضو کرنے والے کے لئے کہا جاتا ہے مسح یعنی اس نے وضو کیا یہ بھی کہتے ہیں مسح اللّٰہ کہ اللّٰه تعالٰی تیرے مرض کو دور کرے۔
اور اسی طرح مسح الارض کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ بارش نے زمین کو دھو دیا ۔
اس وجہ میں اگر شیعہ یہ جرح کریں کہ برؤسكم میں مسح کے حقیقی معنی مراد ہیں اور ارجلكم میں مجازی معنی تو ایک ہی چیز میں حقیقت و مجاز کا اجتماع نا جائز اور ممتنع ہے ۔
اس کا جواب یہ ہو گا کہ با رجلکم سے پہلے امسحوا کا لفظ مانا گیا ہے، تو اب جب لفظ دو ہو گئے تو دو معنی مراد لینے میں کوئی مضائقہ نہ رہا ، شارح زبدة الاصول امامیہ کے ماہرین عربیت سے نقل کرتا ہے کہ حقیقت و مجاز کا اس طرح جمع ہونا جائز ہے ۔ مثلاً معطوف علیہ میں حقیقی معنی مراد ہوں اور معطوف میں مجازی، چنانچہ آیت لاتقربو الصلوة وانتم سکاری حتیٰ تعلموا ماتقولون ولاجنبا الا عابری سبیل ۔ میں کہا ہے کہ صلٰوة بحالت معطوف علیہ مخصوض ارکان شریعت میں حقیقی معنی میں یعنی مسجد جو محل نماز ہے میں مستعمل ہے ۔ شارح زبدہ کا کہنا ہے کہ یہ استخدام کی ایک قسم ہے ۔
امامیہ کے مفسرین کی ایک جماعت اور ان کے فقہاء نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے پس آیت زیر بحث میں بھی یہی صورت ہو گی کہ وہ مسح جو رؤس (سر) سے تعلق رکھتا ہے اپنے حقیقی معنوں میں لیا جائے گا اور وہ مسح جو پاؤں سے تعلق رکھتا ہے مجازی معنی غسل میں لیا جائے گا ۔
پھر اس بحث سے قطع نظر اس آیت کے نزول سے کئی سال پہلے ابتدائے بعثت ہی میں حضرت جبریل علیہ السلام کے واسطہ سے وضو کی فرضیت اور اس کی تعلیم وقوع میں آ چکی تھی ۔ پس اس قسم کا ایہام یہاں مراد لینے میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ مخاطبین، وضو کی کیفیت ترتیب تو پہلے ہی سے سمجھتے تھے بلکہ روزانہ پانچ مرتبہ عملی مظاہرہ کرتے رہتے تھے اس لئے وضو کی کیفیت ترتیب کا سمجھنا ان کے لئے اس آیت پر ہی منحصر نہ تھا۔ بلکہ ظاہری طرز کلام سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کلام خاص وضو اور غسل کے متبادل طریقہ تیمم کے لئے ہے اور وضو کا ذکر بطور تمہید و تقریب ہے اور جو بات بطور تمہید و تقریب ہو اس کے بیان میں چنداں وضاحت ضروری نہیں ہوتی ۔
دوسرے یہ کہ ارجل کا زیر اپنے متصل لفظ رؤس کے زیر کی وجہ سے ہے مگر معنی با عتبار زبر کے ہوں گے! اور جو جوار کو سیلبویہ ، اخفش، ابوالبقاء اور دیگر تمام معتبر نحویوں نے لغت اور عطف دونوں صورتوں میں جائز رکھا ہے۔ اور یہی قرآن میں بھی ہے ۔ لغت کی حالت میں جر جوار کی مثال قرآن مجید کی اس آیت میں ہے عذاب يوم اليم. کہ اس میں اليم اگرچہ عذاب کی صفت ہے مگر جر جوار يعنی یوم کی وجہ سے مجرور ہوا عطف کی حالت جر جوار کی مثال حورُٗ عین کا مثال الؤلوء المكنون ہے کہ اس میں بقراہ حمزہ کسائ اور بروایت مفضل عاصم کی قِراة پر جر جوار اکواب واباریق کی وجہ سے مجرور ہے۔ اور ولدان مخلدون پر معطوف ہے کیونکہ اکواب واباریق پر عطف کرنے سے اس کے کوئی معنے نہیں رہتے ۔
اس کے علاوہ خالص اور اصل شعرائے عرب کے نظم و نثر میں بھی اس کی مثالیں ملتی ہیں ۔ نابغہ کا ایک شعر ہے ۔
لم یبق الا اسیر غیر منفلت ومرتقمن مقال الاسرار مکبول
ان میں سے کوئی قیدی ذندہ نہیں رہا ۔ مگر وہ جو دور سیوں سے پابستہ ہے ۔
اس میں موثق اگرچہ عطف اسیر کی موجودگی میں اس پر معطوف ہے مگر بسبب جرجوار یعنی منفلت کے مجرور ہوا۔
اب اگر زجاج حرف عطف کی موجودگی کے سبب جر جوار سے انکار کرے تو اس کا قول قابل توجہ نہیں۔ کیونکہ ماہرین لسان اور ائمہ عربیت نے اس کو جائز رکھا ہے، اور قرآن مجید اور بلغاء عرب کے کلام میں اس کی مثالیں موجود ہیں دجاج کا قول دراصل اس کے تتبع اور تحقیق کی خامی کے سبب ہے اسی کے ساتھ یہ ایک طرح کی شہادت پر نفی ہے اور ایسی شہادت معتبر نہیں۔ اس مسئلہ میں اہل سنت نے تطبیق کی ایک دوسری صورت بھی ذکر کی ہے وہ یہ کہ قرأة جر(زیر) کو موزہ پہننے کی حالت پر محمول کرتے ہیں اور قرأۃ نصب (زبر) کو پاؤں میں موزہ نہ ہونے کی صورت پر ۔ لیکن اس صورت میں ہمیں ایک ضمیر ماننے کی مجبوری در پیش ہے جو طبیعت سے کچھ دور ہے۔
شیعہ حضرات کے نزدیک بھی ان دونوں قراءتوں میں دو وجوہ سے تطبیق دی جاتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اہل سنت قرأة نصب کو جس کے ظاہری معنے غسل کے ہیں اصل قرار دیتے ہیں اور قرأة جر کو اسی طرف لوٹاتے ہیں اور شیعہ اس کے بر خلاف کرتے ہیں ۔
پہلی وجہ تطبیق یہ ہے کہ قرأۃ نصب کی صورت میں ارجل کا عطف محل رؤس پر ہو اس صورت میں رؤس اور ارجل (سر پاؤں) ہر دو پر مسح کا حکم ہو گا ۔ اس لئے کہ اس قرأة پر اگر منصوب پر عطف کرتے ہیں تو معطوف اور معطوف علیہ میں اجنبی جملے کا فاصلہ آتا ہے اور یہ جائز نہیں ۔
اور دوسری وجہ یہ ہے کہ واؤ مع کے معنی میں ہو جیسا کہ کہتے ہیں ۔ استوی الماءو الخشية مگر ان دونوں وجوہ پر اہل سنت کی طرف سے چند اعتراضات ہیں اول تو یہ کہ محل پر عطف قرار دینا باجماع فریقین خلاف ظاہر ہے اس صورت میں عطف مغسولات پر ہے ۔اور ظاہر سے انحراف بغیر دلیل ظاہر کے جائز نہیں ، اگر اس پر قراءت جبر کو دلیل ٹھہرائیں جیسا کہ پچھلے کلام سے معلوم ہوا تو وہ قرأة نسب میں ہو سکتا ہے اور اجنبی جملے کا بیچ میں آنے کا سوال اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وامسحو برؤسکم وارجلکم کا تعلق مغسولات سے کچھ نہ ہو اور اگر یہ معنی کئے جائیں کہ دھونے کے بعد اپنے ہاتھوں کو سر پر ملو تو اجنبی کا فصل کیسے ہوا اکثر اہل سنت کا مذہب بھی یہی ہے کہ بقیہ غسل سے مسح کر سکتے ہیں۔
ایک وجہ اعتراض یہ بھی ہے کہ دو متعاطف یا معطوف علیہ میں کسی بھی اہل عربیت کے نزدیک فصل متمنع نہیں۔ بلکہ ان کے ائمہ نے بھی اس کے جائز ہونے کی تصریح کی ہے اور ابوالبقاء نے تو تمام نحویوں کا اس کے جواز پر اجماع نقل کیا ہے۔ ہاں اہل بلاغت کے کلام میں اجنبی کا درمیان میں لانا کسی خاص نکتہ پر مبنی ہوتا ہے۔
ایک اور بات یہ بھی ہے کہ اگر ارجلکم کا عطف محل برؤسكم پر کریں تو ہو سکتا ہے کہ ہم اس سے غسل کے معنی سمجھیں کیونکہ عربی کے مقررہ قوائد میں سے ایک قائدہ یہ بھی ہے کہ جب قرب معنے والے دو فعل ایک جگہ جمع ہوں جن میں سے ہر ایک کا ایک متعلق ہو تو ایک فعل کو حذف کر کے اس کے متعلق کا فعل مذکور پر عطف کرنا گویا اسی کا متعلق ہے۔ عبید بن ربیعہ العادی کا یہ شعر اسی قبیل سے ہے۔
فعلا فروع الایھقان واطفلت بالجبلتین طبائھا و نعامھا
چڑیا ایہقان کی شاخوں پر اور بچے دیے پھاڑوی میں ہرنیوں اور شتر مرغوں نے
یہاں باضت فعل حذف ہوا ، ہاضت نعا مہا۔ اس لئے کہ شتر مرغ بچے نہیں انڈے دیتی ہے اسی قاعدہ کی ایک اور مثال ایک اور شاعر کے کلام سے بھی ملتی ہے ۔
تراہ کان مولاہ یجدع انفہ و عینیہ ان مولاہ کان لہ وفر
تو اسکو دیکھے گا کہ گویا اسکا آقا اس کی ناک کاٹتا ہے۔ اس کی آنکھیں پھوڑتا ہے۔اس کا آقا بہت دولتمند تھا۔
اس شعر میں قاعدہ مذکورہ کے مطابق بفقإ فعل محذوف ہے اس کے متعلق کا عطف فعل مذکورہ کے متعلق پر کر دیا ہے۔
اس قاعدہ کی تیسری مثال میں ایک اور شاعر کا قول ہے۔
اذا ما الغانیات برزت یوما ورجحن الجواجب والعیونا
جب نکلیں کسی دن گانے والیاں کشیدہ ابرو اور سرمہ لگاٸے آنکھوں میں۔
یہاں کحلن فعل محذوف ہے یعنی کحلن العیرنا۔
اسی قاعدہ کے مطابق کسی اعرابی کا قول۔
علفتھا تبنا و ماء باردا۔
یہاں سقیتھا فعل محذوف ہے جس کا متعلق ماء مذکور ہے
تیسرا اعتراض یہ کہ واو کو مع کے معنیٰ میں لینا بغیر قرینے کے جاٸز نہیں اور یہاں ایسا کوئی قرینہ موجود نہیں بلکہ اس کے خلاف قرینہ موجود ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ جب دونوں طرف تطبیق کی وجوہ ہیں تو اب سوال ترجیح کا رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے اہلسنت کے محققین احادیث نبویہﷺ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور انہی کو بسبب ترجیح قرار دیتے ہیں ۔کیونکہ قرآنی معانی کو یہی حل کرتی ہیں۔ پھر زیر بحث وضو ایسا عمل ہے جس کو رسالت مابﷺ دن رات میں پانچ مرتبہ عمل میں لاتے تھے۔ اور نو مسلموں کی خاطر ایسے احکام شریعہ کو کھلم کھلا طریقے سے شہرت دیتے تھے۔ جو مسلمان ہوتا تو سب سے پہلے نماز اور اس سے بھی پہلے اسکے شرائط مثلا وضو سیکھنا۔ ان میں سے کسی نے بھی آنحضرتﷺ سے پاؤں پر مسح کرنے کی روایت نہیں کی بلکہ غسل کی ہی روایت کی ہے۔ یہاں تک کہ خود شیعہ اسکے معترف ہیں کہ آنحضرتﷺ سے غسل رجلین کی ہی روایت ہے۔ البتہ شیعہ حضرات یہ کہہ کر بحث ختم کر دیتے ہیں کہ اٸمہ سے ہم کو صحیح روایات پہنچتی ہیں کہ وہ مسح کیا کرتے تھے۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اہل سنت جن ائمہ سے غسل کی روایت بیان کرتے ہیں وہ صرف تقیہ تھا۔ اب اس پر اہلسنت کہتے ہیں کہ امامیہ کی کتب صحیحہ میں صاف صاف روایتیں موجود ہیں جن سے اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ ائمہ اطہار ایسے موقعوں پر جہاں تقیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی تھی پاؤں دھویا کرتے تھے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ غسل کی روایت ائمہ سے اتفاق شدہ ہیں اور مسح کی روایت مختلف فیہ کہ بعض شیعہ روایت کرتے ہیں اور بعض نہیں کرتے۔
بہرحال یہ تو معلوم ہو ہی گیا کہ نبی اکرمﷺ کا فعل بالاجماع غسل ہی کا ہے۔ آنحضرتﷺ سے مسح کی روایت ہر دو فریق میں سے کسی نے نہیں کی، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ نبی اکرمﷺ سے زیادہ قرآن کے معانی کو کوئی نہیں سمجھتا تھا اور نہ سمجھ سکتا تھا۔ اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ غسل کے جو معنیٰ ہم نے سمجھے ہیں وہ عین آنحضرتﷺ کی سمجھ کے مطابق ہیں۔
اور یہیں سے وہ الزام لوٹ گیا کہ فہم آنحضرتﷺ کے بموجب، قرآن کی مخالفت شیعہ کرتے ہیں اہل سنت نہیں۔
سچ ہے جو اپنے بھائی کے لیے گڑھا کھودتا ہے، اس میں خود ہی جا گرتا ہے۔
اور زیادہ تعجب اور اچنبے کی بات یہ ہے کہ ان کے جلیل القدر علماء نے پاؤں دھونے کی روائیتیں اپنی کتابوں میں کی ہیں اور ان کا کوئی جواب نہیں دیا نہ ہی راویوں کا کوئی عذر بیان کیا۔ ان کی اس انوکھی بات کا عذر کوئی ہو سکتا ہے۔ تو صرف یہ کہ دروغ گورا حافظہ نباشد۔ اور عذر نسیان واقعی بالا جماع عذر شرعی ہے۔
اب ذرا ان حضرات کی اس سلسلہ کی روایات کا جائزہ لیتے ہیں، ان میں ایک یہ ہے۔
1_ روی العیاشی من علی بن حمزہ قال سالت ابا ابراہیم عن القدمین فقال تُغسَلاَت غسلا ( علی بن حمزہ سے عیاشی روایت کرتا ہے کہ علی نے ابو ابراہیم سے قدمین کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا یقیناً دھوئے جائیں گے۔
2_ رویٰ محمد بن النعمان عن ابی بصیر عن ابی عبد اللّہ علیہ السلام قال اذا نسیت مسح رأسک حتٰی تغسل رجلیک فامسح راسک ثمہ اغسل رجلیک۔
“محمد بن نعمان نے ابی بصیر سے اور انہوں نے ابو عبد اللَّہُ علیہ السلام سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا کہ اگر سر کا مسح بھول جائے اور پاؤں بھی دھو لے تو اب سر کا مسح کر اور پاؤں پھر دھو۔”
اس روایت کو کلینی اور ابو جعفر طوسی دونوں نے صحیح سندوں سے روایت کیا ہے۔ اس میں نہ ضعف کی گنجائش ہے نہ تقیہ کی کیونکہ مخاطب مخلص شیعہ تھا۔
3_ وروی محمد بن الحسن الصفار عن زید بن علی عن ابیہ عن جدہ عن امیر المومنین قال جلست اتوضاء فاقبل رسول اللَہ صلی اللَہ علیہ وسلم فلما غسلت قدمی قال یا علی خلل بین الاصابع۔
محمد بن حسن صفار نے زید سے زید نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے دادا سے اور انہوں نے امیر المومنین حضرت علی رضی اللّٰہ عنہ سے روایت بیان کی، کہ حضرت علی نے فرمایا کہ میں وضو کرنے بیٹھا تھا کہ رسولﷺ تشریف لے آئے، جب میں نے پاؤں دھوئے تو آپ نے ارشاد فرمایا علی، انگلیوں میں خلال بھی کر لو۔
اس طرح کی اور روایات بھی ان کی کتب صحیحہ میں موجود ہیں۔
اس بیان سے یہ دو باتیں معلوم ہوئیں۔ اوّل تو یہ کہ شیعہ حضرات کو چاہیے کہ بموجب قواعد اصول مسح و غسل ہر دو کو جائز رکھیں نہ صرف مسح کو، دوسرے یہ کہ اگر اہل سنت غسل کی روایت کو جس کی سند پر دونوں کا اتفاق ہے۔ احتیاطً اختیار کریں اور مسح کی روایت کو جس کی سند مختلف فیہ ہے، نظر انداز کر دیں تو وہ ہر گز قابل الزام اور لائق ملامت نا ہوں گے۔ خصوصاً جب کہ شریف رضی نے نہج البلاغہ میں امیر المومنین سے روایت کرتے ہوئے نبی کریمﷺ کے وضو کی روایات بیان کی ہیں جن میں پاؤں کا دھونا ثابت کیا ہے۔
اسی طرح دیگر صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین نے بھی نبی کریمﷺ سے صرف غسل ہی کی روایت کی ہے۔
اور وہ ضعیف روایات جو بطریق عباد بن تمیم اور اس کے چچا سے مروی ہیں کہ آپ نے وضو کیا اور قدموں پر مسح کیا وہ سب خلشوں سے خالی نہیں۔ اس لیے کہ اوّل تو وہ اس روایت میں منفرد ہے۔ اور عام راویوں سے اپنی روایت میں مختلف دوسرے اس میں یہ بھی احتمال ہے کہ ممکن ہے۔ اس وقت اپنے پاؤں میں موزے پہن رکھے ہوں اور راوی نے موزے نہ دیکھے ہوں صرف مسح کا عمل دیکھا ہو اور تیسرے یہ بھی ممکن ہے کہ راوی نے مسح کا لفظ مجازاً استعمال کیا ہو اور امیر المومنین سے جو روایت بایں الفاظ مروی ہے کہ
مَسَحَ وَجْهَهٗ وَیَدَیْهِ وَ مَسَحَ عَلیٰ رَأسِہٖ وَ رِجْلَیْہِ وَشَرِبَ فَضْلَ طُھُوْرِہٖ قَائِماً وَقَالَ اِنَّ النَّاسَ یَزْعَمُوْنَ اَنَّ الشُّرْبَ قَائمِاً لاَ یَجُوْزُ وَ قَدْرَأَیٰتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنَعَ مِثْلَ مَا صَنَعْتُ ھٰذَا وُضُوْءُ مَنْ لَّمْ یُحْدِثُ-
یعنی اپنے چہرے، ہاتھوں، سر اور پاؤں کا مسح کیا اور وضو کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پیا اور وضو کا لوگ گمان کرتے ہیں کہ کھڑے ہو کر پانی پینا جائز نہیں تو میں نے رسولﷺ کو دیکھا کہ آپ نے ایسا ہی کیا جیسا کہ میں کیا۔ یہ وضو اس شخص کا ہے جس کا وضو نہ ٹوٹا ہو۔
شیعوں کی طرف سے یہ روایت اس لیے حجت نہیں بن سکتی کہ امر زیر بحث ہے بے وضو کا وضو ہے نہ وضو والے کا وضو۔ کیونکہ محض نظافت و پاکیزگی اطراف تو مسح سے بھی ہو سکتی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ اس روایت میں چہرے اور ہاتھوں کا مسح بھی بیان کیا ہے۔ جب کہ خود شیعوں کے ہاں بھی ہاتھوں اور چہرہ کے مسح کا کوئی قائل نہیں گو ان میں سے ایک فرقہ ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین کی ایک جماعت کا مذہب یہی مسح ہے، جیسے عبد اللّٰہ بن عباس رضی اللّٰہ عنہ، عبد اللّٰہ بن مسعود رضی اللّٰہ عنہ اور ابو ذر اور انس رضی اللّٰہ عنہ۔ حالانکہ یہ محض افتراء ہے، ان اصحاب میں سے کسی سے بھی صحیح طریق پر کوئی ایسی روایت مروی نہیں جس سے معلوم ہو کہ یہ حضرات اس کے قائل تھے۔ بلکہ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ تو بطورِ شبہ و تعجب یہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم قرآن میں تو مسح ہی کو پاتے ہیں مگر اہلِ اسلام نے غسل ہی کو مانا ہے۔
مطلب یہ کہ حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ کی قرأت کے مطابق قرآن کے ظاہری الفاظ سے تو مسح کا پتہ چلتا ہے لیکن حضورﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللّٰه علیہم اجمعین کا اس پر عمل نہ تھا وہ غسل فرماتے تھے۔ اس سے واضح طور پر یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ زیر کی قرأت قابلِ تاویل اور متروک الظاہر ہے۔
اس سے ایک اور بات یہ بھی ظاہر ہوئی کہ ابو العالیہ، عکرمہ اور شیعی سے جو لوگ یہ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ مسح کو جائز کہتے تھے۔ محض افتراء اور ان پر بہتان ہے۔
اسی طرح جناب حسن بصری رحمہ اللّٰہ علیہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ مسح اور غسل ہر دو کو جمع کرنے کے قائل تھے۔ جیسے کہ زیدیہ میں سے ناصر کا یہ مذہب ہے۔ تو یہ بھی بہتان اور جھوٹ ہے۔
یہ محمد ابن جریر طبری کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ اختیار کے قائل تھے کہ چاہو مسح کرو اور چاہو تو غسل کر لو۔ یہ بھی جھوٹ ہے۔
درحقیقت شیعہ راویوں نے اس قسم کے جھوٹ گھڑ کر ان کو مشہور کیا ہے، اور بعض اہلِ سنت نے بھی صحیح و ضعیف میں تمیز کیے بغیر بے سند، اس کی روایت کر دی ہے۔
امام طحاوی رحمہ اللّٰہ جو اہل سنت میں آثارِ صحابہ و تابعین کے علم میں بلند مرتبہ کے مالک ہیں عبد الملک بن سلیمان سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے عطاء سے دریافت کیا کہ کیا تم کو کسی صحابی سے ایسی روایت ملی ہے کہ انہوں نے پاؤں پر مسح کیا ہو تو عطا نے جواب دیا کہ نہیں۔
یہ بات بھی جان لینی چاہئیے کہ محمد بن جریر طبری نام کے دو اشخاص ہیں ایک محمد بن جریر بن رستم آملی، اور یہ شیعہ ہے جو کتاب الایضاح والمستر شد در بیاں امامت کا مصنف ہے۔ دوسرے محمد بن جریر بن غالب طبری، ابو جعفر ہے، جو تفسیر ابن جریر اور تاریخ کبیر کا مصنف ہے۔ یہ اہلِ سنت میں سے ہے۔ اور انھوں نے صرف غسل کی روایت کی ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن مجید کی اعرابی حالت کی توجیہ کرنے کو قرآن کی مخالفت کہنا اس شخص کے لیے ہرگز زیبا نہیں جس میں ذرا عقل بھی ہو۔ ہاں اگر قرآن کے الفاظ و کلمات کا جو انکار کرے وہ ضرور قرآن کی مخالفت کرتا ہے، جیسا کہ یہ شیعہ کہتے ہیں کہ قرآن میں الی المرافق کا لفظ نہیں ہے بلکہ من المرافق ہے۔ اسی طرح قرآن کے کسی حکم کا انکار کرنا یا اس کے کسی عام حکم کو خاص کرنا قرآن کی مخالفت ہے۔
چنانچہ شیعہ کہتے ہیں کہ باپ کی میراث میں سے تلوار، قرآن، انگوٹھی اور بدنی پوشاک بڑے بیٹے کا مخصوص حق ہے اس کے علاوہ اور بھی مال اگر چھوڑا ہو تو اس سے بھی حصہ لے گا، اس طرح شوہر کی میراث میں زمین، جاگیر، مکان، جانوروں، ہتھیاروں اور باغات میں بیوی کا حصہ نہیں مانتے۔ حالانکہ قرآن مجید، ان ہر دو کے میراث میں حصہ اور حقوق بلا کسی تخصیص اور صاف صاف بتاتا ہے چنانچہ مطہر علی نے بھی اس کا اعتراف کیا ہے۔ اسی طرح مہاجرین و انصار رضوان اللّٰه علیہم کے متعلق مدح کی آیات کو ایک خاص زمانہ تک مخصوص کرنا۔ یا ان میں سے بعض کو مدح و تعریف کے لیے مخصوص کرنا قرآن کی سراسر مخالفت ہے۔ (نعوذ بااللّٰہ)