آیت تطہیر
مولانا اللہ یار خانؒآیتِ تطہیر
قرآنِ کریم کی کسی آیت کا حقیقی مفہوم سمجھنے یا کسی آیت کے کسی لفظ کا مدلول معلوم کرنے میں انسان اس وقت ٹھوکر کھاتا ہے جب آیت کو سیاق و سباق سے الگ کر کے کسی جزو سے اپنی پسند کا مفہوم نکالنے کی کوشش کی جائے یہ کوشش دراصل قرآن کے الفاظ سے معنیٰ اخذ کرنا نہیں ہوتا بلکہ آیت میں اپنے پسند کے معانی داخل کرنا ہوتا ہے اور جب اس کوشش کو وسعت دے کر دوسروں کو بھی راہ حق سے ہٹانے کی مہم شروع کر دی جائے تو اسے انسانیت کے حق میں ظلم عظیم کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے۔
اسی قسم کی ایک صورت آیتِ تطہیر کی تعبیر میں ملتی ہے چنانچہ اس مہم کی ابتداء سارے سلسلہ مضامین سے صرفِ نظر کر کے اس ٹکڑے سے کی جاتی ہے کہ:
اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا۞۔(سورة الاخزاب آیت نمبر 33)۔
اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مفہوم کا پورا منظر پیش نظر رکھا جائے لہٰذا قرآنِ کریم سے پورا مضمون نقل کرتے ہیں۔
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَيٰوةَ الدُّنۡيَا وَزِيۡنَتَهَا فَتَعَالَيۡنَ اُمَتِّعۡكُنَّ وَاُسَرِّحۡكُنَّ سَرَاحًا جَمِيۡلًا۞وَ اِنۡ كُنۡتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ وَالدَّارَ الۡاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡكُنَّ اَجۡرًا عَظِيۡمًا۞يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ مَنۡ يَّاۡتِ مِنۡكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفۡ لَهَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَيۡنِ ؕ وَكَانَ ذٰ لِكَ عَلَى اللّٰهِ يَسِيۡرًا ۞وَمَنۡ يَّقۡنُتۡ مِنۡكُنَّ لِلّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَتَعۡمَلۡ صَالِحًـا نُّؤۡتِهَـآ اَجۡرَهَا مَرَّتَيۡنِۙ وَاَعۡتَدۡنَا لَهَا رِزۡقًا كَرِيۡمًا۞يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ لَسۡتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ اِنِ اتَّقَيۡتُنَّ فَلَا تَخۡضَعۡنَ بِالۡقَوۡلِ فَيَـطۡمَعَ الَّذِىۡ فِىۡ قَلۡبِهٖ مَرَضٌ وَّقُلۡنَ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا۞وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى وَاَقِمۡنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيۡنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعۡنَ اللّٰهَ وَرَسُوۡلَهٗ ؕ اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا۞وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا ۞
(سورة الاخزاب آیت نمبر 28۔29۔30۔31۔32۔33۔34)۔
ترجمہ: اے نبیﷺ اپنی بیبیوں سے فرما دیجیے اگر دنیوی زندگی (کا عیش) اور اس کی بہار چاہتی ہو تو آو میں تم کو کچھ مال و متاع (دنیوی) دے دوں اور تم کو خوبی کے ساتھ رخصت کروں اور اگر تم اللہ کو چاہتی ہو تو اس کے رسول کو اور عالم آخرت کو تو تم سے نیک کرداروں کیلئے اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم مہیا کر رکھا ہے اے نبی کی بیبیو جو کوئی تم میں سے کھلی ہوئی بے حیائی کرے گی اس کو دوہری سزا دی جائے گی اور یہ بات اللہ کو آسان ہے اور جو کوئی تم میں سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی فرمانبرداری کرے گی اور نیک کام کرے گی تو ہم اس کو اس کا دوہرا ثواب دیں گے اور ہم نے اس کیلئے عمدہ روزی تیار کر رکھی ہے اے نبیﷺ کی بیویو تم معمولی عورتوں کی طرح نہیں ہو اگر تم تقویٰ اختیار کرو تو تم (نامحرم مرد دے) بولنے سے (جب کہ بضرورت بولنا پڑے) نزاکت مت کرو (اس سے) ایسے شخص کو (طبعاً) خیال (فاسد) ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے اور قاعدہ (عفت) کے موافق بات کہو اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے مطابق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسولﷺ کا کہنا مانو اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ اے گھر والو تم سے آلودگی کو دور رکھے اور تم کو ہر طرح (ظاہراً و باطناً) پاک و صاف رکھے اور تم آیاتِ الٰہی کو اور اس علم (احکام) کو یاد رکھ رکھو جسکا تمہارے گھروں میں چرچا رہتا ہے بیشک اللہ راز دان ہے پورا خبردار ہے۔
اس سلسلہ مضمون کا آغاز نبی کریمﷺ سے خطاب سے ہو رہا ہے اور حضورﷺ کو ارشاد ہورہا ہے کہ اپنی ازواجِ مطہراتؓ سے کہیے اگر تمہیں دنیوی آرائش و زیبائش سے لگاؤ ہے تو میں تمہیں رخصت کئے دیتا ہوں اور اگر اللہ و رسولﷺ و دار آخرت کی مسرتیں تمہارا نصبُ العین ہے تو تمہارے لیے اللہ تعالیٰ نے اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے پھر ازواجِ مطہراتؓ سے خطاب ہوتا ہے کہ تمہاری ذمہ داری بھی دوسروں کی نسبت کئی گنا زیادہ ہے اور اسی نسبت سے تمہارے لیے صلہ بھی دوسروں سے کہیں بڑھ کر ہے پھر ارشاد ہوتا ہے کہ تم دوسری عورتوں کی طرح من مانی کرنے کے لیے نہیں ہو بلکہ تمہاری ذمہ داری یہ ہے کہ مرکزِ نبوت میں بیٹھ کر پورے احساسِ ذمہ داری کے ساتھ ان ذمہ داریوں کو پوری کرتی رہو جو اللہ اور رسولﷺ کی طرف سے تم پر عائد ہوتی ہیں کیوں کہ حقیقت صرف اتنی ہے کہ اے نبی کے گھر والو! اللہ تم کو یوں پاک رکھنا چاہتا ہے جیسے پاکیزگی کا حق ہے تمہاری ذات تو علم و حکمت کا منبع ہے کیونکہ وحی الٰہی کا نزول تم ازواج النبی کے گھروں میں ہوتا ہے۔
آیات کہ اس سادہ اور مربوط ترجمانی کے بعد چند دقیق نکات پیش کیے جاتے ہیں۔
1۔ قرآنِ کریم نے جہاں بھی امہاتُ المومنینؓ کا ذکر فرمایا ہے ان کی زوجیت اور نکاح کی نسبت ذاتِ رسول موصوف بہ صفتِ نبوت کی طرف کی ہے صاف ظاہر ہے کہ زوجیت کی اضافت نبوت کی طرف ہے یعنی ان کی زوجیت کا تعلق نبوت سے ہے اور چونکہ مخلوق میں افضل ترین منصب نبوت کا ہے لہٰذا ان کی زوجیت میں بھی وہی عورتیں داخل ہوئیں جنہیں نبوت و رسالت سے پوری پوری مناسبت ہے نبی ظاہری اور باطنی گناہ سے معصوم ہوتا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے جسم کی پاکیزگی کا ایسا اہتمام کرتا ہے کہ مکھی جسے گندگی سے نسبت ہے اس کے جسم پر نہیں بیٹھ سکتی تو ظاہر ہے کہ جب نبی کی یہ شان ہے تو ازواجُ النبی دنیا کی محبت و زینت کی غلاظت لے کے نبیﷺ کے جسم سے کیسے مس کر سکتی ہیں لہٰذا اعلان کرایا گیا کہ اگر اس غلاظت کا شائبہ بھی تمہارے نہانخانہء دل میں کہیں پایا جائے تو میں تمہیں اپنے سے جدا کیے دیتا ہوں اور یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ نبی کریمﷺ نے مخاطب ازواجُ النبیﷺ میں سے کسی کو اپنے سے جدا نہیں کیا لہٰذا نبی کریمﷺ کا یہ فعل ازواجِ مطہراتؓ کی پاکیزگی طہارت اور حفاظت عین المعاصی پر مہر ثبت کر دیتا ہے۔
اسی حقیقت کو دوسرے انداز میں ظاہر کر دیا کہ ازواجِ مطہراتؓ تمہارے گھر تو مہبط وحی ہیں لہٰذا محبت دنیا اور زینت دنیا کا یہاں گزر بھی نہیں ہو سکتا یہاں اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت اور دارِ آخرت کی فکر کے بغیر کسی چیز کا وجود ہی برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
2۔ اس کے مقابلے میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی بیویوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن نے ذاتِ رسولﷺ کا ذکر کیا صفتِ نبوت کا ذکر نہیں کیا۔
چنانچہ فرمایا کہ:
ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا لِّـلَّذِيۡنَ كَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ الخ۔(سورة التحریم آیت 10)۔
چونکہ ان عورتوں کو شانِ نبوت سے مناسبت نہیں تھی لہٰذا اول تو ان کی نسبت ذات کی طرف کی گئی پھر ان کو زوجیت سے علیحدہ کر دیا گیا اور رہتی دنیا تک مثال قائم کر دی۔
3۔ یہ صرف حضورﷺ خصوصیت اور ازواجِ مطہراتؓ کی خصوصیت ہے کہ انہیں ازواجُ النبی اور نساءُ النبی کے الفاظ سے خطاب کیا گیا قرآنِ کریم میں کسی نبی کی بیوی کو نبوت کی نسبت اور اضافت سے نہیں پکارا گیا مثلاً حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا گیا۔
وَلَقَدۡ جَآءَتۡ رُسُلُنَاۤ اِبۡرٰهِيۡمَ بِالۡبُشۡرٰى الخ۔(سورۃ ہود آیت نمبر 69)۔
پھر فرمایا:
وَامۡرَاَ تُهٗ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتۡ الخ۔(سورۃ ہود آیت نمبر 71)۔
یہاں 5 ضمیر کا مرجع بھی ذات ابراہیم علیہ السلام مذکور ہے۔
اسی طرح حضرت زکریا علیہ السلام کے قصے میں ان کی زبانیں بیان ہوا ہے کہ:
وَامۡرَاَتِىۡ عَاقِرٌؕ الخ۔(سورة الِ عمران آیت نمبر40)۔
یہاں پہ بیوی کی نسبت نام زکریا علیہ السلام کی طرف ہے مگر قرآنِ کریم میں حضورﷺ کی ازواج کا جہاں ذکر آیا نبیﷺ کی اضافت سے آیا۔
- يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِك الخ۔
- يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ الخ۔
- اَلنَّبِىُّ اَوۡلٰى بِالۡمُؤۡمِنِيۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِهِمۡ وَاَزۡوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمۡ الخ۔
(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 6)۔
نبی کریم ﷺ کے ساتھ زوجیت کی نسبت اور نبی کریمﷺ کہیں گھر کے ساتھ اہلِ بیتؓ کی نسبت ان عورتوں کو ہی ہو سکتی ہے جن کے دلوں سے محبت دنیا نکال کر اللہ و رسولﷺ کی محبت یوں بسا دی گئی ہو کہ صرف وہی اس گھر میں رہنے کے قابل اور نبوت سے نسبت کی اہل قرار پائیں اور اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ جس دل میں اللہ اور رسولﷺ کی محبت جا گزیں ہو وہاں کوئی اور محبت کہاں ٹھہر سکتی ہے۔
اِنَّ الۡمُلُوۡكَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡيَةً اَفۡسَدُوۡهَا وَجَعَلُوۡۤا اَعِزَّةَ اَهۡلِهَاۤ اَذِلَّةً الخ۔(سورة النمل آیت نمبر 34)۔
مملکت دل پر جب اللہ و رسولﷺ کی محبت کا حملہ ہو تو وہاں سے دنیوی محبت کو ذلیل کر کے نکال باہر کر دینے کے سوا اور ہو ہی کیا سکتا ہے۔
4۔ ان آیات میں رب العالمین نے ازواجُ النبی کے لیے دو انعامات کا اعلان فرمایا اخروی اور دنیوی ازواجِ مطہراتؓ نے جب اللہ و رسولﷺ اور دارِ آخرت کا پہلو اختیار فرمایا تو اس کے انعام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ارادہ کا اعلان فرما دیا کہ دارِ دنیا میں۔
اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا ۞(سورة الاخزاب آیت نمبر 33)۔
جب تم نے اپنے دل سے سب کچھ نکال کے اللہ اور رسولﷺ کی محبت کو اس میں بسا لینا پسند کیا تو میں تمہارے دلوں کو اس درجہ پاک کرنے کا اعلان کرتا ہوں کہ تمہارے اس پسندیدہ اور اختیار کردہ چیز کے بغیر ان میں اور کچھ بھی نہ رہنے پائے یہ انعام تمہیں دنیا میں عطا کیا جا رہا ہے۔
رہادوسرا پہلو فَاِنَّ اللّٰهَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡكُنَّ اَجۡرًا عَظِيۡمًا ۞۔(سورة الاخزاب آیت نمبر 29)۔
اس میں اَعَدَّ صیغہ ماضی کا ہے یعنی میں نے اپنے علم ازلی سے یہ معلوم کر لیا تھا کہ تم اللہ و رسول ﷺ کو ہی اختیار کرو گے اس لیے میں نے اسی وقت سے تمہارے لیے جنت تیار کر رکھی ہے یہ انعام اخروی ہے اس انعام سے واضح ہو گیا ہے کہ امہاتُ المومنینؓ کا حضورﷺ زوجیت کا تعلق صرف دنیا تک محدود نہیں بلکہ عالمِ برزخ اور عالمِ آخرت می بی یہ تعلق قائم رہے گا۔
اس مقام پر چند ایک اور آیات کی طرف اشارہ کر دینا مناسب ہے۔
- قال تعالیٰ لَا يَحِلُّ لَـكَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَلَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنۡ اَزۡوَاجٍ وَّلَوۡ اَعۡجَبَكَ حُسۡنُهُنَّ الخ۔ (سورۃ الأحزاب آیت نمبر 52)۔
ان کے علاوہ اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں اور نہ یہ درست ہے کہ آپ ان (موجودہ) بیویوں کی جگہ دوسری بیویاں کر لیں اگرچہ آپ کو ان (دوسریوں) کا حسن اچھا معلوم ہو۔
سنن الکبریٰ بہیقی 7:70 میں اس آیت کے تحت لکھا ہے:
فان المرأۃ فی الجنۃ لاٰخر ازواجھا فی الدنیا فلذلک حرم اللہ علی ازواج النبی ان ینکحھا بعدہ لانھن ازواجه فی الجنۃ۔
یعنی جنت میں عورت اس خاوند کو ملے گی جو دنیا میں اس کا آخری خاوند ہوا اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیﷺ کی بیویوں پر بعد وفاتِ رسولﷺ نکاح کرنا حرام قرار دیا ہے کہ یہ اپنے نبیﷺ کی جنت میں بھی بیویاں ہوں گی۔
- وَلَاۤ اَنۡ تَـنۡكِحُوۡۤا اَزۡوَاجَهٗ مِنۡۢ بَعۡدِهٖۤ اَبَدًا الخ۔
(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 53)۔
یعنی حضورﷺ کے بعد کوئی شخص ان سے نکاح نہیں کر سکتا یہ امت کی مائیں ہیں۔
- وَقَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ الخ۔ (سورۃ الأحزاب آیت نمبر 33)۔
نکاح کے بدستور قائم رہنے کی دلیل ہے۔
- ازواجِ مطہراتؓ کا اللہ و رسولﷺ کو اختیار کر لینا بھی ان کی دائمی زوجیت رسولﷺ پر دال ہے اگر دنیا کی محبت ان کے دلوں میں ذرا بھر بھی پائی جاتی تو نبی کریمﷺ لازماً انہیں طلاق دے دیتے حضورﷺ کا طلاق نہ دینا ان کی حقیقی طہارت کی دلیل ہے۔
پھر آیت کے مذکورہ بالا ٹکڑے میں یعنی اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡكُنَّ میں مِنۡ بیانیہ ہے تبعیضیہ نہیں (مدارک) اور بیضاوی میں ذرا وضاحت ومن للتبیین لانھن کلھن من محسنات یعنی سب کی سب محسنات تھیں۔
جب محبت دنیا اور زوجیتِ نبیﷺ کا یکجا ہونا محال تھا تو یہ اجتماع نقیضین کیونکر ممکن ہو سکتا تھا چنانچہ شیعہ مفسر علامہ محمد حسین الطباطبائی نے اپنی بےنظیر تفسیر المیزان فی تفسیر۔
وقدرد دامر ھن بین ان یردن الحیاۃ الدنیا و زینتھا وبین ان یردن اللہ ورسوله والدار الآخرۃ وھذہ التردید یدل اولا ان الجمع بین مسعۃ الدنیا والعیش وصفائھا بالتمتع من الحیاۃ وزینتھا وزوجیۃ النبیﷺ فی بیته مما لا یجتمعان۔
اللہ تعالیٰ نے ازواجُ النبیﷺ کا حکم اور فیصلہ ترتیب کے طور پر بیان فرمایا ہے کہ یا تو وہ حیاتِ دنیا اور اس کی زینت کو اختیار کریں یا اللہ اور رسولﷺ اور آخرت کو اختیار کریں اور یہ ترتیب اول ہی اس پر دلالت کرتی ہے کہ دنیوی خوشحالی انتفاع دنیوی اور زینت دنیوی کے ساتھ زوجیتِ رسول اور بیتِ رسول میں رہنا محال اور اجتماع ضدین ہے۔
شیعہ مفسر کی اس وضاحت پر غور کریں کہ ازواجِ مطہراتؓ بیت میں رہیں یا رسولﷺ نے انہیں گھر سے نکالا یا اگر انہیں نکالا تو اہلِ بیتِ رسولﷺ کون ہوا اور تاریخ شاہد ہے کہ حضورﷺ یہ وفات کے بعد بیتِ رسولﷺ میں وہی رہیں لہٰذا امت کو جس طرح رسولﷺ مقدس و مطہر ملا امت کی مائیں بھی مقدس اور پاکیزہ ملیں جن کی تطہیر کا اعلان خود خدائے محمد ﷺ نے کر دیا۔
پھر یہی مفسر اپنی اسی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یاایھا النبی آل لازواجک امر النبی ﷺ ان یبلغ آلایتین ازواجه ولازمه ان یطلقھن ویمتعھن ان اخترن الشق الاول ویبقیھن ان اخترن اللہ ورسوله والدار الآخرۃ۔
فرمایا: اے میرے نبیﷺ تم اپنے بیویوں کو ان دو آیتوں کا حکم سنا دو اور اللہ نے اپنے رسول پر فرض قرار دے دیا کہ اگر وہ شقِ اول یعنی محبت دنیا اور اس کی زینت اختیار کریں تو انہیں نفع دنیوی دے کر طلاق دے دو اور اگر وہ شقِ ثانی یعنی اللہ و رسولﷺ اور آخرت کو اختیار کریں تو انہیں زوجیت میں باقی رکھو۔
اور ظاہر ہے کہ نبیﷺ نے ازواجِ مطہراتؓ کو طلاق نہیں دی جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ انہوں نے اللہ و رسولﷺ اور دارِ آخرت کو اختیار کیا بیتِ نبویﷺ میں رہی الفضل ما شھدت به الاعداء۔
احکام کی تفصیل:
جب امہاتُ المومنینؓ نے شقِ ثانی اختیار کر لی تو آدابِ نبوت اور ان کی ذمہ داریوں کے متعلق احکام کا بیان شروع ہوا۔
يٰنِسَآءَ النَّبِىِّ مَنۡ يَّاۡتِ مِنۡكُنَّ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُّضٰعَفۡ لَهَا الۡعَذَابُ ضِعۡفَيۡنِ الخ۔(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 30)
انعام کے مقابلے میں سزا کا بیان فرمایا مگر آیت کہ اس حصے سے بھی گمراہی کے سامان فراہم کیے جاتے رہے یہ مادہ قضیہ شرطیہ میں ہے اور شرط اور جزا پر مشتمل ہے اور قضیہ شرطیہ کی شرط یعنی مقدم کا وقوع اور عدمِ وقوع برابر ہوتے ہیں یعنی وقوع مقدم و شرط ضروری نہیں اس طرح جزاء و تالی کا وقوع بھی ضروری نہیں جیسا ان کانت الخمسه زوجا کانت منقسمۃ بمتساویین یعنی اگر پانچ جفت ہوں تو ان کی تقسیم دو امر متساوی کی طرف ہوگی یہ عبارت تو درست ہے مگر اس پر دال نہیں کہ پانچ واقعی جفت ہیں جب یہ نہیں تو حقیقتاً منقسم دو امر مساوین کی طرف بھی نہ ہوگا دونوں کا وقوع محال ہے لہٰذا یہاں بھی یہی بات ہے کہ امہاتُ المومنینؓ سے نہ بے حیائی سے دور ہو گا نہ دو چند عذاب ہوگا۔
یہاں من یات میں من شرطیہ ہے جو وقوعِ شرط کو مستلزم نہیں تو جزا کیسے مرتب ہوگی اب اس کی مثالیں قرآنِ کریم سے ملاحظہ ہوں۔
- لَئِنۡ اَشۡرَكۡتَ لَيَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ الخ۔(سورۃ الزمر آیت نمبر 65)۔
یعنی انبیاء سے کہا گیا ہے کہ اگر آپ نے شرک کیا تو اللہ آپ کے عمل ضائع کر دے گا۔
- وَلوۡ اَشۡرَكُوۡا لَحَبِطَ عَنۡهُمۡ مَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞(سورۃ الانعام آیت نمبر 88)۔
اگر انبیاء شرک کریں گے تو اللہ ان کے اعمال ضائع کر دے گا۔
- قُلۡ اِنۡ كَانَ لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدٌ الخ۔(سورۃ الزخرف آیت نمبر 81)۔
اگر اللہ کی اولاد ہوتی تو سب سے پہلے اس کی عبادت کرتا۔
- لَوۡ اَرَادَ اللّٰهُ اَنۡ يَّـتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصۡطَفٰى مِمَّا يَخۡلُقُ مَا يَشَآءُ۔(سورۃ الزمر آیت نمبر 4)۔
اگر اللہ اپنی اولاد بناتا تو مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا۔
- فَاِنۡ كُنۡتَ فِىۡ شَكٍّ مِّمَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ فَسۡـئَلِ الَّذِيۡنَ يَقۡرَءُوۡنَ الۡكِتٰبَ مِنۡ قَبۡلِكَۚ الخ۔(سورة يونس آیت نمبر94)۔
اگر آپ کو اس کے منزل من اللہ بے شک ہے تو ساب کا اہلِ کتاب کے علماء سے پوچھ لو۔
ان آیات میں شرط اور جزا دونوں غیر ممکن الوقوع ہیں۔
دوسرا حکم:
وَ قَرۡنَ فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ وَلَا تَبَـرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاهِلِيَّةِ الۡاُوۡلٰى الخ۔(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 33)۔
حکم ہوا کہ تم بیتِ النبیﷺ یعنی مرکزِ نبوت میں جمی رہو غیر ذمہ دار عورتوں کی طرح بے پردہ گھر سے باہر نہ جاؤ اور جاہلیت کے زمانے کی عورتوں کی طرح زینت کا اشتہار نہ دیتی پھرو اس سادہ سی ہدایت کا مطلب ظاہر ہے مگر جو طبائع تقربوا الصلوٰۃ پر رک جانے کی عادی ہیں انہوں نے یہاں بھی گریز کی راہ نکال دی اور دعویٰ کر دیا کہ جنگِ جمل میں جانا گھر سے نکلنا اور امام برحق سے لڑنا صریح بدکاری ہے۔
اگر گھر سے نہ نکلنے سے مراد یہی ہے کہ گھر کی چار دیواری سے قدم باہر رکھنے کی ممانعت ہے تو حیرت ہے کہ جس پر قرآن نازل ہوا اس ہستی نے قرآن کریم کا یہ مفہوم کیوں نہ سمجھا اگر یہی سمجھتے تو حجۃُ الوداع میں ام المومنینؓ کو گھر سے قدم باہر رکھے بغیر کیونکر شامل کر لیا گھر تو مدینہ میں ہے اور ام المومنینؓ حج کے لیے مکہ پہنچ گئیں اور رسولﷺ کو اتنی خبر بھی نہ ہوئی کہ آپ کی موجودگی میں نص کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اللہ تعالیٰ بھی بڑا ہی بے نیاز ہے کہ اپنے نبیﷺ کو قرآن کا مفہوم نہ بتایا اور ان کی لال بجھکڑوں کو اس حقیقت سے آشنا کر دیا۔
پھر اُم المومنینؓ کا مسجدِ نبویﷺ میں نماز پڑھنا ایسی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیا یہ عمل بھی گھر سے باہر قدم رکھے بغیر ہی ہوتا کاش! یہ الٹی سیدھی باتیں بنانے والے نبی کریم ﷺ کا تو کچھ لحاظ رکھتے۔
راہِ جنگ میں جانا تو اس کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اسد الغابہ میں سیدنا زبیرؓ کہ واقعات کا مطالعہ کیا جائے ہم نے اپنی کتاب تحذیر المسلمین میں اس کی تفصیل دے دی ہے۔
آئیے قرآنِ کریم سے امہاتُ المومنینؓ کے مرتبہ اور شان کے مطابق کچھ رہنمائی حاصل کر لیں:
قرآنِ کریم نے ازواجُ النبیﷺ کو امہاتُ المومنینؓ کا خطاب دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ سیدنا علیؓ بھی مومن ہیں لہٰذا ان کی ماں ہوئیں اس حقیقت کا اقرار شیعہ عالم کی زبانی سنیے۔
معنی الاخبار شیخ صدوق طبع ایران صفحہ 275:
فدخل عیینه بن حصین علی النبیﷺ وعندہ عائشهؓ فدخل بغیرِ اذن فقال له النبیﷺ فاین الا ستیذان قال ما استاذنت علی رجل من مضر منذادرکت ثم قال من ہذه الحمیرا الی جنبک فقال رسول اللہﷺ ھذہ عائشهؓ ام المومنینؓ قال عیینه افلا انزل لک عن احسن الخلق وتنزل عنھا فقال رسول اللہﷺ ان اللہ عزوجل قد حرم علی ذلک فلما خرج قالت له عائشهؓ من ھذہ یا رسول اللہﷺ قال ھذا احمق مطاع وانه علی ما تعین سید قومه۔
عیینہ بن حصین رئیس قبیلہء مضر نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سیدہ عائشہؓ نبی کریمﷺ کے پاس بیٹھی تھی حضورﷺ نے فرمایا اجازت مانگنے کا حکم کیا ہوا؟ عیینہ نے کہا میں قبیلہ مضر کہ کسی مرد کے پاس ان کی اجازت نہیں مانگا کرتا جب سے بالغ ہوا ہوں پھر کہا اس سیدہ حمیرہؓ کی وجہ سے اذن طلب کروں؟ حضورﷺ نے فرمایا یہ سیدہ عائشہؓ ہیں ام المومنینؓ ہیں عیینہ نے کہنے لگا کیا میں آپﷺ کے لیے کوئی حسین عورت نہ لے آؤں اور آپ اس کو اطلاق دے دیں حضورﷺ یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے پر طلاق دینا حرام کر دیا ہے جب وہ چلا گیا تو سیدہ عائشہؓ نے پوچھا یا رسول اللہﷺ یہ کون تھا؟ حضور نے فرمایا یہ احمق ہے اور اس کے جو لچھن تم نے دیکھے ہیں اس کے باوجود قوم کا سردار ہے۔
شیخ صدوق کے اس بیان سے ظاہر ہے کہ:
- حضورﷺ نے اپنی زبان سے سیدہ عائشہؓ کو ام المومنین فرمایا۔
- شیعہ عالم نے روایت بیان کی ہے جس سے ظاہر ہے کہ انہیں یہ حقیقت تسلیم تھی۔
- اس حقیقت کے دو گواہ اللہ اور رسولﷺ بھی کافی تھے مگر ضد کی کوئی حد تو مقرر نہیں لہٰذا تیسرے گواہ امام ہوئے چوتھا گواہ شیخ صدوق۔
- یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ سیدہ عائشہ مومنوں کی ماں ہے ظاہر ہے کہ جو اسے ماں تسلیم نہ کرے اس کا ایمان سے دور کا بھی رشتہ نہیں۔
یہاں یہ بات پیش رہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا احسان جتاتے ہوئے فرمایا کہ نبی کریمﷺ تمہارے روحانی باپ ہیں اور آپﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ مومنوں کی مائیں اگر سیدہ عائشہؓ کو معاذ اللہ کافر تسلیم کیا جائے تو اس احسان کا کیا کہنا کہ کافر عورت کو مومنوں کی ماں قرار دے دیا مگر عیینہ پر کوئی حماقت ختم تو نہیں ہو گئیخ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔
چنانچہ حال کے ایک دانشور محمد حسین ڈھکو نے اپنی کتاب التجلی میں لکھا ہے کہ:
ماں ہونا اور چیز ہے مومنہ ہونا اور چیز ہے یہ اور چیز بھی عجیب ہے اس سلسلہ کو وسیع سے وسیع تر کیا جا سکتا ہے مثلاً محمد حسین کا شیعہ ہونا اور چیز ہے انسان ہونا اور چیز ہے یا یوں کہیے شیعہ ہونا اور چیز ہے مومن ہونا اور چیز ہے امام ہونا اور چیز ہے مومن ہونا اور چیز ہے شہدائے کربلا کا قتل ہو جانا اور چیز ہے شہید ہونا اور چیز ہے اللہ ہونا اور چیز ہے خالق ہونا اور چیز ہے (معاذ اللہ) یہ اور چیز ایسی شیطان کی آنت ہے کہ اس کا سرا ڈھونڈے نہیں ملے گا۔
شیعہ کی تحقیق:
عیون اخبار الرضا شیخ صدوق طبع مطیع حیدریہ نجف اشرف صفحہ 155:
واما محمدﷺ وقول اللہ عزوجل وتخفی فی نفسک ما اللہ مبدیه وتخشی الناس واللہ احق ان تخشه فان اللہ عزوجل عرف نبیهﷺ اسماء ازواجه فی دار الدنیا واسماء ازواجه فی دار الآخرۃ وانھن امھات المومنین واحداھن من سمی له زینبؓ بنت جحش وھی یومئذ تحت زیدؓ بن حارثہ فاخفی اسمھا فی نفسه ولم یبدہ کیلا یقول احد من المنافقین انه قال فی امراۃ فی بیت رجل انھا آخری ازواجه من امھات المومنین وخشی قول المنافقین۔
جہاں تک نبی کریمﷺ اور ارشادِ باری تعالیٰ ہے تو نے اس بات کو چھپا رکھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا ہے تو لوگوں سے ڈرتا ہے حالانکہ اللہ اور اس امر کا ذیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرا جائے سے یہ مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کو ان کی تمام بیویوں کے نام بتائے تھے جو دنیا اور آخرت میں آپﷺ کی ازواج ہونے والی ہیں اور یہ بھی بتا دیا تھا کہ وہ امہاتُ المومنینؓ ہیں ان میں سے ایک سیدہ زینب بنتِ جحشؓ ہے جو اس وقت سیدنا زیدؓ بن حارثہ کے نکاح میں تھیں حضورﷺ نے ان کا نام ظاہر نہیں کیا تھا مبادا منافق یہ نہ کہیں کہ اس عورت کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ امہاتُ المومنینؓ میں سے ہے حالانکہ وہ دوسرے آدمی کے گھر اس کے نکاح میں ہے منافقین کے اس شور سے حضورﷺ کو اندیشہ تھا۔
شیعہ محقق کے اس بیان سے معلوم ہوا ہے کہ:
- نبی کریمﷺ کو ان تمام خواتین کے نام سے پہلے ہی آگاہ کر دی تھا جو آپﷺ کی ذندگی میں آپﷺ کے نکاح میں آنے والی تھیں۔
- آپﷺ نے جن سے نکاح کیا وہی امہاتُ المومنینؓ ہیں۔
- وہی عالمِ برزخ اور آخرت میں آپﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ ہیں۔
ہاں یہ تو وہ ہیں جن کے حق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
- لَسۡتُنَّ كَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآءِ الخ۔(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 32)۔
(تم عام عورتوں کی مانند نہیں ہو)
- وَالطَّيِّبٰتُ لِلطَّيِّبِيۡنَ وَالطَّيِّبُوۡنَ لِلطَّيِّبٰتِۚ الخ۔(سورۃ النور آیت نمبر 26)۔
(پاک مرد اور پاک عورتیں ایک دوسرے کے لیے ہیں)
- لَا يَحِلُّ لَـكَ النِّسَآءُ مِنۡۢ بَعۡدُ وَلَاۤ اَنۡ تَبَدَّلَ بِهِنَّ الخ(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 52)۔
یعنی ان کے بغیر کسی اور سے نکاح بھی نہیں کر سکتے۔اور ان کو طلاق بھی نہیں دے سکتے۔
- خانہء رسولﷺ وہی ہے جو ازواجِ مطہراتؓ کا گھر ہے۔
- گھر والیاں بس وہی ہیں جو خانہء رسولﷺ میں رہتی ہیں۔
یہ روایت ہے بعینہ انہی الفاظ میں انوارِ نعمانیہ 1:86 پر موجود ہے۔
ان تمام وضاحتوں کے بعد یہ عجیب بات ہے کہ نبی کریمﷺ کہ نکاح میں اس عورت کا آنا مقدر ہو چکا تھا جو معاذ اللہ کافر تھیں۔
رسول اللہﷺ کو برزخ اور آخرت میں معاذ اللہ کافر بیوی کا رکھنا مقدر کر دیا گیا اور معاذ اللہ کافر عورت کو امہاتُ المومنینؓ میں شمار کیا گیا۔
نتیجہ اس کے بغیر کیا نکل سکتا ہے کہ یہ واقعی حقیقی مومنہ ہے اللہ نے جیسا رسولﷺ انتخاب کیا ویسے ہی اس کی بیویاں انتخاب کیں اور وہ واقعی امہاتُ المومنینؓ ہیں ہاں کافروں سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔
ریاض الجنتہ:
فروع کافی طبع نو لکشور لکھنوء 1:585 پر سیدنا جعفرؒ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنتہ۔
یعنی میرے گھر اور میرے ممبر کے درمیان کی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔
اسی کے صفحہ 586 پر ہے کہ جمیل ابنِ دراج کہتا ہے:
سمعت ابا عبداللہ یقول قال رسول اللہﷺ ما بین منبری روضۃ من ریاض الجنتہ۔
پھر اسی صفحہ پر:
عن مرازم قال سالت ابا عبداللہ علیہ السلام عما یقول الناس فی الروضۃ فقال قال رسول اللہﷺ فیما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ۔
اسی کے صفحہ 585 پر سیدنا ابوبکرؓ حضرمی کا سوال اور سیدنا جعفرؒ کا جواب درج ہے:
قال قالت ھی روضۃ الیوم قال نعم انه لو کشف الغطاء لرأیتم۔
یعنی امام کی زبان سے نبی کریمﷺ کا یہ ارشاد ہے کہ میرے گھر اور میرے ممبر کے درمیان کا حصہ جنت کا باغ ہے سیدنا ابوبکرؓ حضرمی میں سوال کیا ہے کہ جس گھر کا یہاں ذکر ہے وہاں تو آج روضہء رسولﷺ ہے تو امام نے فرمایا ہاں یہی روضہء رسولﷺ جنت کا ٹکڑا ہے اگر تمہاری آنکھوں سے پردہ اٹھ جائے تو تم دیکھ لو کہ یہی روضہ جنت کا باغ ہے امام نے بتا دیا کہ یہی جنت کا باغ ہے جس میں آج سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ اپنے محبوب کے ہمراہ موجود ہیں مگر من مانی کرنے والے امام کی بات بھلا کیوں مانتے ہیں انہیں تو اصرار ہے کہ معاذ اللہ دو کافر یا منافق میں جنت میں معیتِ رسولﷺ سے مشرف ہو رہے ہیں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا قانون نہیں بدلہ البتہ ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے جنہیں ان کے ایمان میں شک ہے امام کے اس فرمان کے مطابق جن لوگوں کی انکھوں پر پردہ ہے وہ روضہء اقدس کی ظاہری حقیقت بھی نہیں جانتے اس کے اندر کی حقیقت کیونکر پہچانیں گے مگر امام نے اس کے اندر کے حالات بھی کچھ تو بیان فرما دیے۔
اصول کافی طبع نو لکشور لکھنؤء طبع 1302ھ:
عن جعفری بن المثنی الخطیب قال کنت بالمدینۃ واسقف المسجد الذی یشرف علی القبر قد سقط والفعلۃ یصعدون وینزلون جماعۃ فقلت من منکم موعد ان یدخل علی ابی عبداللہ اللیلۃ فقال مھوان بن ابی نصر آنا وقال اسمعیل بن محمد الصیر فی انا فقلنا لھما سلاہ لنا من الصعود لنشرف علی قبر النبی ﷺ فلما کان من الغد لقینا ھما واجتمعنا جمیعا فقال اسمعیل قد سالناہ لکم عما ذکرتم فقال ما احب لاحد منکم ان یعلوا فوقه ولا امنه ان یری شیا یذھب منه بصرہ اویراہ قائما یصلی اویراہ مع بعض ازواجه۔
خلاصہ یہ ہے کہ روضہء اقدس کی چھت گر گئی تعمیر کا کام شروع ہو گیا جعفر بن المثنیٰ خطیب نے یہ منظر دیکھا ساتھیوں سے کہا کہ کون ہے جو سیدنا جعفرؒ کے پاس جا کر اجازت طلب کرے کہ اوپر چڑھ کر روضہء اقدس کے اندر ذرا جھانک لیں مہران اور اسماعیل نے حامی بھری دوسرے روز پھر جماعت شیعہ اکٹھی ہوئی تو اسماعیل نے کہا میں نے تمہارے لیے امام سے اجازت طلب کی مگر امام نے فرمایا کہ میں تم شیعہ میں سے کسی کے لیے اچھا نہیں سمجھتا کہ اوپر چڑھ کر روضہء کے اندر کے منظر کو دیکھے (یعنی حضورﷺ کو شیخینؓ کو یا ازواجِ مطہراتؓ کو) اور اندھا ہو جائے یا یہ منظر دیکھ کہ حضورﷺ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں یا یہ دیکھے کہ حضورﷺ اپنی بعض ازواجِ مطہراتؓ کے ساتھ بیٹھے ہیں (باب النہی عن الاشرف علی قبر النبیﷺ)۔
اس روایت میں جعفر بن المثنیٰ اور اس کی جماعت کہ متعلق ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں روضہء اقدس کے اندر جھانک لینے کا اشتیاق تھا دوسری طرف یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام ان کے حالات سے واقف تھے کہ لوگ دل کے اندھے تو ہیں ہی کہ روضہء اقدس کی ظاہری حیثیت بھی پہچان نہیں سکے اندر دیکھیں تو کہیں بصارت بھی جاتی نہ رہے امام کے الفاظ لا احب لاحد منکم بڑے معنیٰ خیز ہیں کیونکہ کام کرنے والے تو برابر کبھی اوپر جاتے کبھی نیچے اترتے مگر منکم کہہ کر امام نے واضح کر دیا کہ تمہارے لیے موزوں نہیں کیونکہ جب تم نے دیکھا کہ حضورﷺ اندر نماز پڑھ رہے ہیں یا اپنی ازواجِ مطہراتؓ کے پاس بیٹھے ہیں تو تم بھلا کہاں اس منظر کی تاب لا سکتے ہو۔
پھر یہ واضح ہو گیا کہ امام نے بتا دیا کہ یہ حصہ جنت کا باغ ہے اور اس باغ میں حضور اکرمﷺ بھی ہیں اور ازواجِ مطہراتؓ بھی ہیں یعنی دنیا میں حضور اکرمﷺ کی بیویاں برزخ میں بھی حضورﷺ کی بیویاں ہیں اور یہی بیتِ رسولﷺ ہے اور یہی اہلِ بیتِ رسولﷺ ہے
قرآنی آیات اور احادیثِ نبویﷺ اور اقوالِ ائمہ سے ثابت ہو گیا کہ ازواجِ مطہراتؓ امہاتُ المومنینؓ ہیں اور برزخ اور آخرت میں بھی وہ حضورﷺ کے ساتھ ہیں مگر حیلہ جو طبائع کب چین سے بیٹھ سکتی ہیں۔
بیکار نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
یا اپنا گریبان چاک یا دامن یزداں چاک
چنانچہ ایک شیعہ مجتہد علامہ باقر مجلسی نے بھی اپنی کتاب جلاء العیون اور حیات القلوب میں ایک رات سے پتہ اٹھایا ہے کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا علیؓ کو حکم دیا تھا کہ میرے بعد سیدہ عائشہؓ کو طلاق دے دینا نقطہ بہت باریک ہے مگر اس میں الجھاوے پڑے ہیں اول یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضورﷺ کو ممانعت فرما دی تھی کہ آپ طلاق نہیں دے سکتے۔
گزشتہ اوراق میں شیخ صدوق کی معنی الاخبار سے عینیہ کا واقعہ بیان کیا جا چکا ہے جس میں حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے کہ ان اللہ قد حرم علی مگر ملا باقر کے بیان سے معلوم ہوا کہ حضور اکرمﷺ اس حکم سے خوشی نہیں تھے بلکہ اپنے اوپر جبر کر کے اس کی تعمیل کرتے رہے کہ طلاق نہ دی کیا نبیﷺ کا مقام یہی ہے؟
دوسری بات یہ کہ اللہ کی پسند کے خلاف عمل کرنے کے لیے معاذ اللہ حضورﷺ حیلہ نکالا کہ چلو سیدنا علیؓ کے ذریعے یہ کام کر دو جو اللہ نے حرام قرار دیا ہے۔
تیسری بات یہ کہ دنیا میں کبھی کوئی واقعہ پیش آیا ہے کہ بیوی کسی کی ہو اور طلاق کوئی اور دے اور وہ طلاق واقع ہو جائے یعنی جو کام دنیا کا کوئی ذی ہوش انسان نری حماقت تو سمجھے اسے سیدنا علیؓ سے منسوب کر دیا جائے کیا سیدنا علیؓ کا یہی مقام ہے؟ بات وہیں بنی کہ کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا اور وہ بھی آدھ موا۔
چوتھی بات یہ ہے کہ میرے بعد کے لیے کوئی مدت کا تعین بھی تھا یا نہیں ؟ اور سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کہ حکم کی تعمیل کی یا نہیں اگر تعمیل کی تو کب؟ جنگِ جمل میں تو شیعہ کے مطالبہ کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا کہ کون ام المومنین سیدہ عائشہؓ کے لیے قرعہ ڈالتا ہے مگر ان لوگوں کو شرم آ ہی گئی اور اپنے مطالبہ سے دستبردار ہو گئے پھر اس حکم کی تعمیل کا موقع کب آیا؟ ۔
1۔ طلاق والی بڑہانکنے کی نسبت اگر ملا باقر مجلسی یہی کہہ دیتے کہ اللہ کو بدا ہو گیا پہلے اسے علم نہیں تھا کہ سیدہ عائشہؓ بعد میں (معاذ اللہ) کافی ہو جائیں گی اس لیے غلطی سے پہلے ان کا نام حضورﷺ کی ازواج کی فہرست میں داخل کر دیا ایسے معذور اور ناقص العلم اللہ کے ماننے والے بھی تو ایسے ہی بے پیندے کے لوٹے ہی ہو سکتے ہیں۔
امہاتُ المومنینؓ کے متعلق چند شیعی روایات:
انوار نعمانیہ طبع ایران 1:282:
ومن ھذا کان ﷺ ابا المؤمنین و زوجاته امھات المؤمنین۔
اور یہی وجہ ہے کہ نبی کریمﷺ مومنوں کے باپ ہیں اور آپﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ مومنوں کی مائیں ہیں۔
یہاں شیعہ محدث نے باپ اور ماں کا ساتھ ساتھ ذکر کیا ہے اگر محمد حسین ڈھکوی کی منطق ایک حصے میں یوں چلی کہ ماں ہونا اور بات ہے اور مومنہ ہونا اور بات ہے اور کیا دوسرا حصہ ان کی زد سے بچ سکتا ہے کیا عجب کل وہ یا ان کا کوئی خلف یہ بھی کہہ دے کہ باپ ہونا اور بات ہے اور مومن ہونا اور بات ہے (نعوذ باللہ من ذلک الخرافات)۔
بہرحال جس طرح اللہ پاک نے مومنوں کی معنوی ابوت کے لیے نبی کریمﷺ کا انتخاب فرمایا اسی طرح ہم امومت کے لیے ازواجِ مطہراتؓ کا انتخاب فرمایا۔
2۔ انوار نعمانیہ صفحہ 125:
وکانت سورة قد وھبت لیلتھا العائشهؓ حین اراد رسول اللہﷺ طلاقھا وقالت لا رغبۃ لی فی الرجال وانا ارید ان احشر فی ازواجک۔
یعنی سیدہ سودہؓ کو جب رسول اللہﷺ نے طلاق دینے کا ارادہ فرمایا تو آپؓ نے اپنی باری سیدہ عائشہؓ کو دے دی اور حضورﷺ کی زوجیت میں رہنا اس لئے پسند کیا کہ قیامت میں حضور اکرمﷺ سے زوجیت کا تعلق موجود ہو اور زوجتہ النبیﷺ کی حیثیت سے حشر ہو۔
محدث الجزائرہ نے اس حقیقت کا اظہار کیا کہ دنیا میں حضورﷺ سے زوجیت کا تعلق حشر میں بھی رہے گا برزخ اور جنت دو ہی تو مرحلے ہیں جو حیاتِ دنیوی کے بعد پیش آنے والے ہیں اور تاریخی حقیقت ہے کہ حضورﷺ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو سیدہ عائشہؓ کے گھر میں تھے بلکہ سر ان کی گود میں تھا تو ظاہر ہے کہ جنت اور برزخ میں بھی ان کو معیت حاصل ہو گی غالباً یہی وجہ تھی کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے شیعوں کو روضہء رسولﷺ میں جھانکنے سے منع کیا کہ جب یہ حضورﷺ کو سیدہ عائشہؓ کے پاس سیدہ عائشہؓ کے گھر میں دیکھیں گے تو بغض کی آگ میں جل جائیں گے۔
(3)۔ مناقب آلِ ابی طالب ابوجعفر رشید الدین محمد بن علی شہر ابنِ آشوب 588ھ (268:1)۔
خوارج سے مناظرہ کرنے کے لئے سیدنا علیؓ نے اپنے شاگرد ابنِ عباسؓ کو ان کے پاس بھیجا تو خوارج نے سوال کیا کہ سیدنا علیؓ نے اصحابِ جمل سے کیوں جنگ کی؟ اور مالِ غنیمت کیوں نہ لیا؟ قیدیوں کو لونڈی غلام کیوں نہ بنایا؟ تو ابنِ عباسؓ نے جواب دیا:
انتسبون امکم عائشهؓ ثم تستعجلون منھا ما یستحل من غیر ھا فلئن فعلتم لقد کفرتم وھی امکم وان قلتم لیست بامنا فقد کذبتم لقوله تعالیٰ وازواجه امھاتھم۔
کیا تمہارے لیے جائز ہے کہ سیدنا عائشہؓ اس کو جو تمہاری ماں ہے قید کرتے پھرو پھر ان سے وہ سلوک کرو جو دوسری کنیز عورتوں سے کیا جاتا ہے اگر تم ایسا کرو تو کافر ہو اور اگر تم یہ کہو کہ ماں نہیں ہے تو تم نے قرآن کی تکذیب کی کیونکہ ارشادِ باری ہے کہ نبیﷺ کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔
روایت ظاہرہ کے ام المومنین سیدہ عائشہؓ کی توہین کرنا کفر ہے اور ماں نہ کہنا قرآن کی تکذیب ہے۔
معلوم ہوتا ہے جناب ڈھکو صاحب نے قرآنی تکذیب سے بچنے کے لیے ماں تو کہہ دیا ہے مگر کفر سے بچنے کے لئے کوئی تدبیر ہاتھ نہ آئی اس لئے بیچارے سے یہ فیصلہ نہیں ہو سکا کہ قید کرنا تو توہین ہے کیا انہیں غیر مومنہ کہنا بھی توہین ہے یا نہیں؟ لہٰذا بڑی بے باکی سے کہہ دیا کہ مومنہ ہونا اور چیز ہے انہوں نے سوچا ہو گا کہ کفر کوئی توپ تو نہیں کہ جان چلی جائے ان تین حرفوں سے مرکب لفظ میں کہاں کوئی بارود بھرا ہے۔
حقوقِ والدین:
جو مرد اور عورت شرعی قواعد کے تحت خاوند بیوی بنتے ہیں اور طبعی قانون کے تحت ماں باپ بنتے ہیں ان کی تعظیم و تکریم کا یہاں تک اہتمام ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے توحید کے ذکر کے بعد اس کا بیان فرمایا:
وَقَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِيَّاهُ وَبِالۡوَالِدَيۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اِمَّا يَـبۡلُغَنَّ عِنۡدَكَ الۡكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوۡ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّلَا تَنۡهَرۡهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوۡلًا كَرِيۡمًا ۞(سورۃ الاسراءآیت نمبر 23)۔
یعنی اولاد کا فرض ہے کہ ماں باپ کو اف تک نہ کہیں۔یعنی ذرا سی ایذا بھی نہ پہنچائیں خواہ وہ جسمانی ہو یا ذہنی۔
اب ذرا اس حقیقت کو سامنے رکھیے کہ باری تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں اعلان کر کے جن عورتوں کو مائیں قرار دیا ہے ان کی تعظیم و تکریم کس درجے کی ہونی چاہیے اس اصول کو سامنے رکھیے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ:
- کیا سیدنا علیؓ مومن نہ تھے؟ جواب ظاہر ہے کہ بڑے اونچے درجے کے مومن تھے۔
- کیا سیدہ عائشہؓ ان کی ماں نہ تھی؟ کیوں نہیں۔
- تو پھر آپؓ نے اپنی ماں کے خلاف جنگ کیوں کی؟۔
اگر یہ کہا جائے کہ وہ تو خلیفہء برحق کے خلاف خروج کر بیٹھی تھیں اگر اسے صحیح فرض کر لیا جائے گو یہ واقعتہً غلط ہے پھر بھی ولا تقل لھما اف کا یہ تقاضا تھا کہ بیٹا ماں کے پاس جاتا واقعات کا صحیح نقشہ پیش کرتا اور ادب سے حالات کو بہتر بنانے کی تجویز پیش کرتا تو سیدنا علیؓ نے یہ رویہ کیوں نہ اختیار کیا؟۔
جب جنگ کے بعد ماں کی تکریم کا لحاظ رکھتے ہوئے لونڈی نہ بنایا تو پہلے جنگ ہی کیوں کی؟ ان سوالات کا جواب اس کے بغیر اور کوئی نہیں کہ نہ تو سیدہ عائشہؓ کی طرف سے عمداً جنگ چھیڑی گئی نہ سیدنا علیؓ کی طرف سے عمد پایا جاتا ہے دونوں کو دھوکہ دیا گیا اور دھوکہ دینے والے وہی تھے جنہیں ان کی صلح میں اپنی موت نظر آرہی تھی۔
کتابِ الہٰی سے مزاق:
اس سلسلہ مضمون کی ابتداء اس دعوت سے ہوتی ہے کہ ازواج النبیﷺ کے سامنے راحت دنیا اور محبت اللہ و رسولﷺ دو طرفہ زندگی پیش کر کے اختیار دیا گیا کہ ان میں سے جو پہلو چاہیں اختیار کر لیں انہوں نے دوسرا پہلو اختیار کیا تو اس ذندگی کی ذمہ داری کے سلسلے میں ہدایات دی گئیں درمیان میں ان کے اس حسنِ انتخاب سے خوش ہو کر انعامات کا اعلان کیا گیا ان تمام کڑیوں کا اجمالی بیان ہو چکا مگر درمیان میں ایک آیت کے ایک خاص حصہ کی تعبیر کچھ انداز سے عرصہ سے کچھ لوگوں کی طرف سے کی جا رہی ہے کہ اسے قرآن کے ساتھ مذاق کے سوا اور کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وھو ھذا اِنَّمَا يُرِيۡدُ اللّٰهُ لِيُذۡهِبَ عَنۡكُمُ الرِّجۡسَ اَهۡلَ الۡبَيۡتِ وَيُطَهِّرَكُمۡ تَطۡهِيۡرًا۞(سورة الاخزاب آیت نمبر 33)۔
اس حصہ کی تعبیر کچھ اس انداز سے کی گئی کہ اگر اسے موجودہ عدالتی زبان میں ادا کیا جائے تو اسے موجودہ عدالتی زبان میں ادا کیا جائے تو اسے قبضہ مخالفانہ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اگر ایک گھر میں کچھ لوگ بس رہے ہوں اور ان سے کہا جائے اپنے ان چند عزیزوں کو بھی اپنے ہاں بسا لو تو کوئی عیب کی بات نہیں مگر صورت یوں ہو کہ کچھ لوگ گھر والوں کو نکال باہر کریں اور اپنی پسند کے کچھ آدمی لا کر بسا دیں اور شور مچانا شروع کر دیں کہ گھر والے تو یہی ہیں تو ان کے اس شور سے متاثر ہو کر شاید وہ لوگ تو مان لیں جنہیں حقیقت کا علم نہ ہو مگر ان کے مان لینے سے حقیقت اپنی جگہ قائم رہے گی۔
اسی قسم کی صورت یہاں پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اللہ تعالیٰ نے جن کو گھر والے فرمایا ان اللہ کے بندوں نے کہا ہرگز نہیں بلکہ گھر والے تو وہ ہیں جو گھر سے باہر ہیں اندر والوں کو گھر والے کون کہہ سکتا ہے اس اجمال کی تفصیل سمجھنے کے لئے آیت کے اس جزو کے چار امور قابل غور ہیں۔
اول ارادہ الہیٰ دوئم اذہاب الرجس سوئم اہلِ بیتؓ چہارم تطہیر ان چاروں امور پر تفصیلی بحث کی جاتی ہے۔
یار لوگوں کا کہنا ہے کہ اہلِ بیتؓ سے مراد چار اشخاص ہیں (جو دوسرے الگ گھر میں رہنے والے ہیں) اور اذھاب رجس سے مراد معصوم بنا دینا ہے یعنی دل ہی دل میں اللہ سے سودا ہو گیا کہ اہلِ بیتؓ ہم بناتے ہیں معصوم تم بنا دے مگر لطف یہ کہ نہ یہ ہوا نہ وہ اور اللہ کی بات جہاں کی وہاں رہی۔
1۔ ارادہ:
اس لفظ کی تفسیر میں شیعہ مفسر محمد حسین طباطبائی نے آپکی تفسیر المیزان فی تفسیر القرآن کہ ارادہ سے مراد ارادہ تکوینی ہے شرعی نہیں یعنی ان چار حضرات کو اللہ تعالیٰ نے تقدیر ازلی میں روزِ ازل سے ہی معصوم بنا دیا تھا۔
مگر یہ علمی بات ہے اور علم بعد میں اٹکل سے کام نہیں چلا کرتا حقیقت یہ ہے کہ تکوین اور ارادہ اللہ تعالیٰ کے دو اوصاف ذاتیہ ہیں ان دو کو ایک وصف سمجھنا نری خوش فہمی ہے امرِ تکوینی سے ہی مکونات وجود میں آتے ہیں مگر جب تک ارادہ کا تعلق قائم نہ ہو جائے وجود کا ہونا ماحول اور ترجیح بلا مرجع ہے کسی وجود کا ہونا ارادہ سے تعلق رکھتا ہے ارادہ ہی ترجیح پیدا کرتا ہے پھر ارادہ سے مراد مختلف نہیں ہو سکتی ارادہ باری تعالیٰ کس صفت کا دین ہے مگر یہ تعلق حادث ہے کیونکہ وہ مراد و مکون حادث ہے ارادہ کا تعلق اس کے ساتھ اپنے زمانہ اور وقت مقررہ پر ہوتا ہے جیسے ثواب عذاب کا ایک وقت ہے۔
وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِيۡنَ حَتّٰى نَبۡعَثَ رَسُوۡلًا۞(سورة الاسراءآیت نمبر15)۔
پھر عصمت ایک صفت ہے جو اپنے آپ سے پہلے موصوف کو چاہتی ہے بغیر موصوف کے صفت کا قیام محال ہے اور صفت کے موصوف کے لیے عاقل بالغ ہونا فرض ہے کیونکہ عوامر و نواہی حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا تعلق عاقل بالغ سے ہوتا ہے لہٰذا ثابت ہوا کہ عصمت کا وجود احکام باریک کے وجود پر موقوف ہے تو ظاہر ہے عصمت کا تعلق بھی امورِ شرعیہ سے ہوا کوئی فرضی تقدیری نہیں جیسا کہ شیعہ کا خیال ہے لہٰذا ارادہ سے مراد ارادہء شرعی تقدیری نہیں اگر اس کے برعکس تسلیم کیا جائے تو الفاظ یوں ہوتے۔
انما اراد اللہ واذھب عنکم الرجس واطھرکم۔
یعنی سب ماضی کے صیغے ہوتے مگر یہاں تو سب مضارع کے صیغے گئے ہیں جو اس حقیقت پر دال ہے کہ یہ ان انسانوں کے حق میں نازل ہوئے ہیں جن سے گناہ برائی خلاف شرع محمدیﷺ اور مخالفت اللہ اور رسولﷺ کا صدور ہو سکتا ہے اگر ان سے گناہ کا صدور ہو سکتا ہی نہیں تو ان سے کس رجس کو دور کرنے کا ارادہ ہے جس کے دور کرنے کا ارادہ کیا جا رہا ہے وہ چیز ہی موجود نہیں تو دور کسے کیا جائے گا جب یہ چار حضرات نزولِ قرآن سے پہلے ہی پاک تھے تو اب نزول قرآن کے وقت ان کو پاک کرنے کا ارادہ کرنے کے کیا معنی؟ یہ الفاظ تو وجود ذنب کو چاہتے ہیں جن سے گناہ کا صدور ہو سکتا ہے ورنہ پاک کو پاک کرنے کا ارادہ تو تحصیل حاصل ہے۔
چونکہ یہ حکم مکلفین کے لیے ہے نہ بالغوں کے لیے نہیں لہٰذا چار میں سے دو یعنی سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ تو اس کے تحت آ ہی نہیں سکتے ان کی پیدائش 3 ہجری 4 ہجری میں ہوئی اور آیت 5 ہجری میں نازل ہوئی شیعہ کے نزدیک 7 ہجری میں نازل ہوئی تین چار سال کا بچہ تو بہرحال غیر مکلف ہے لہٰذا اسے پاک کرنے کا کوئی مطلب ہی نہ ہوا۔
اذہاب و تظهیر: پھر ایک اور الجھن پیدا ہوتی ہے کہ شیعہ کا عقیدہ ہے کہ امام تو وقتِ پیدائش سے پہلے معصوم ہوتا ہے اور معصوم ہی پیدا ہوتا ہے اور آیت کے الفاظ سے ظاہر ہے کہ نزولِ آیت کے وقت سے پاک ہوں گے پھر اس وقت بھی ارادہ کیا ہے اس ارادہ کو عمل میں کب لایا گیا اس کا کوئی ذکر نہیں پھر ایک اور سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ اگر اذھاب رجس اور تطہیر کے معنیٰ معصوم بناتا ہے تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین معصوم ہوں گے کیونکہ ارشاد باری ہے:
وَلَكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ وَلِيم نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ الخ۔(سورة المائدہ آیت نمبر 6)۔
پھر فر مایا: وَيُذْهِبَ عَنْكُمْ رِجْزَ الشَّيْطَانِ الخ (سورة الانفال آیت نمبر 11)
یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حق میں تو صرف تعمیر کا اعلان نہیں ہوا بلکہ اتمامِ نعمت کا ذکر بھی ہے جو ایک جامع کلمہ ہے تمام انعام باری کو شامل ہے اور آیتِ تطہیر میں تو اس کا ذکر نہیں اور یہ انعام تو حضرت انبیاء علیہم السلام صدیقین شہدا اور صالحین پر ہوتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ مخاطب حضرت یوسف علیہ السلام ہیں:
وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ يَعْقُوبَ كَمَا أَتَمَّهَا عَلَى أَبَوَيْكَ مِنْ قَبْلُ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْحَقَ الخ (سورة یوسف آیت نمبر:6)
پھر ایک اور گرہ پڑ جاتی ہے کہ آیت میں خطاب حاضرین سے ہے عنكم يطهر كم لہٰذا نو امام تو اس آیت کے تحت آ ہی نہیں سکتے کیونکہ نزولِ آیت کے وقت وہ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے معدوم کو مخاطب کون کرتا ہے ائمہ کی تعمیر تو خیر دوسری چیز ہے ہماری تحدی ہے کہ شیعہ کتب سے ائمہ کا مذہب ہی کوئی ثابت کر دے کسی خاص مذہب کی تخصیص نہیں کوئی مذہب ہی ہو ثابت نہیں کیا جا سکتا۔
3۔ اہلِ بیتؓ:
اہلِ ملکی اور آلِ شی ء واحد ہیں آل کی تصغیر اھیل آتی ہے اور تصغیر شے کو اپنے اصل کی طرف لٹا دیتی ہے اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ لغت میں تفسیر میں عرف میں اہل بیت سے کیا مراد لی جاتی ہے۔
(1۔ درۃ النجفیہ شرح نہج البلاغتہ طبع نجف اشرف صفحہ 15)۔
المطلب الثانی فی بیان المراد باھل البیت المذکور کور فی قوله تعالیٰ انما یرید اللہ الخ وقبل الشروع فی استدلال لابد ان یعلم ان نزاع الخاصۃ والعامۃ العمیالیس فی صدق اللفظ بحسب العرف واللغۃ لظھور صدق اھل البیت لغۃ و عرفا علی النساء وغیرھا لان اھل البیت فی اللغۃ سکانه بل فی المراد واستدل الجمھور علی ان المراد فی الآیۃ ازواج النبیﷺ باسلوب الکلام قبلھا وبعدھا وذالک مخالف روایۃ ودرایۃ۔
آیتِ تطہیر میں جو اہلِ بیتؓ کا لفظ آیا ہے اس کی دلیل شروع کرنے سے پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ خاص و عوام جو اندھے ہیں ان کا اختلاف لفظ اہلِ بیتؓ کے ان معنوں میں نہیں جو لغت یا عرف میں لیے جاتے ہیں کیونکہ یہ تو ظاہر ہے کہ اہلِ بیتؓ کا لفظ لغت اور عرف دونوں میں عورتوں پر بولا جاتا ہے اس بنا پر کہ لغت میں یہ لفظ گھر میں رہنے والوں پر بولا جاتا ہے بلکہ تنازعہ اس میں ہے کہ اس سے مراد کون ہے اور جمہور اسلام کا مذہب ہے کہ آیتِ قرآنی سے حضورﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ مراد ہیں اور یہ استدلال قرآنِ کریم کی ظاہر آیت اور راندش کلام سے جو ما قبل اور ما بعد سے واضح ہے اس پر مبنی ہے اور یہ دلیل ٹھیک نہیں کیونکہ روایت اور درایت کے خلاف ہے۔
اس بیان میں تین امور تسلیم کیے گئے ہیں۔
- لغت کے اعتبار سے اہلِ بیتؓ سے مراد عورتیں ہیں جو گھر میں رہنے والی ہیں۔
- عرف کے لحاظ سے مراد یہی ہے۔
- جمہور اسلام راندش کلام اور لغت و عرف کی بنا پر یہی معنیٰ لیتے ہیں مگر آخر میں کہہ دیا میں نہ مانوں۔
(2۔ شرح نہج البلاغہ علامہ میشم بحرانی طبح ایرانی 1:100)۔
اقول اختلف الناس فی المراد باھل البیت فی قوله تعالیٰ انما یرید اللہ الخ فقال الجمھور ان نساء النبیﷺ مرادات بھذا الآیۃ ومن الناس من خصصھا بھن مستدلین بسیاق الکلام قبلھا وبعدھا واتفقت الشیعۃ علی انھا خاصۃ بالا ریعۃ وھو قول ابی سعید الخدری۔
میں کہتا ہوں کہ آیتِ تطہیر میں جو اہلِ بیت کا لفظ آیا ہے اس کی مراد میں لوگوں نے اختلاف کیا ہے جمہور اہلِ اسلام نے کہا ہے کہ اس سے مراد ازواجِ مطہراتؓ ہیں اور بعض نے اہلِ بیتؓ کا لفظ نبی کریمﷺ کی بیویوں سے خاص کیا ہے اس کی دلیل قرآن کا سیاق و سباق ہے مگر شیعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ اس سے مراد صرف چار آدمی ہیں اس کی بنیاد ابو سعید خدری کا قول ہے۔
- یعنی جمہور نے اہلِ بیتؓ سے مراد نبی کریمﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ لی ہیں۔
- قرآنِ کریم کے سیاق و سباق سے یہی ظاہر ہوتا ہے مگر ہم شیعہ نہیں مانتے کیونکہ ابو سعید نے کہا ہے جسے خدری بنا لیا گیا ہے۔
- المنجد: اھل الرجل زوجته اہل سے مراد آدمی کی بیوی ہوتی ہے۔
- 4 تفسیر کشاف: زمحشری جو معتزلہ تھا امام لغت ہے آیت کی تفسیر میں:
امرھن امرا خاصا بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ثم جاء به عاما فی جمیع الطاعات لان ھاتین الطاعتین البدنیۃ والمالیۃ ھما اصل سائر الطاعات من اعتنی بھما حق اعتنائه جرتاہ الی ماورائھما ثم بین انه انما نھاھن و وعظھن لئلا یقارف اھل بیت رسول اللہﷺ الماثم ولیتصعونوا عنه بالثقوی واستعار للذنبوب الرجس وللتقوی الطھر لان عرض المقترف للقبحات یتلوث بھا ویتلنس کما یتلوث بدنه بالا رجاس واما الحسنات فالعرض معھا نقی وصون کالثوب الطاھر واھل بیت نصب علی النداء وعلی المدح و فی ھذا دلیل بین علی ان نساء النبیﷺ من اھل بیته ان اللہ کان لطیفا خبیرا حین علم من یصلح لنبوۃ ومن یصلح لان یکونوا اھل بیته۔
اللہ تعالیٰ نے ازواج النبیﷺ کو پہلے خاص نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیا پھر عام حکم تمام عبادات کے متعلق دیا کیونکہ یہ دونوں بدنی اور مالی عبادتیں تمام عبادات کی اصل ہیں جو شخص ان دونوں عبادتوں کی طرف کما حقہ توجہ کریں تو یہ دونوں اسے دوسری عبادات کی طرف پہنچا دیں گی پھر فرمایا کہ اس نے انہیں امر اور نصیحت اس لیے کی کہ اہلِ بیتِ نبیﷺ گناہوں کا ارتکاب نہ کریں اور بذریعہ تقویٰ گناہوں سے بچیں اور اللہ تعالیٰ نے گناہ کو ناپاکی کے استعارہ سے بیان فرمایا ہے لہٰذا ورع تقوٰی کو طہارت کے استعارہ سے اس لیے کہ جو شخص گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اس کی عزت و آبرو ملوث وہ مقدر ہو جاتی ہے جیسے کپڑا یا بدن نجاست سے ملوث ہم مکدر ہو جاتا ہے اور نیکو کار عورتوں کی عزت ایسے محفوظ رہتی ہے جیسے پاک کپڑا اور یہ استعارہ کے رنگ میں یہ کلام جو بیان ہوئی یہ اہلِ دانش کو ان چیزوں سے نفرت دلانے کے لیے جو اللہ کو ناپسند ہیں لفظ اہلِ بیتؓ کو نصب سے بیان کیا بوجہ ندا کے یا برمدح و ثنا اور یہ آیت اس امر کی واضح دلیل ہے کہ ازواج النبیﷺ اہلِ بیتِ نبیﷺ ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ کون نبوت کے اہل ہیں اور کوئی عورت اہلِ بیتِ نبیﷺ بننے کے لائق ہے۔
معلوم ہوا کہ لغت میں کلامِ عرب میں اور کلامِ الہٰی میں اہلِ بیتؓ سے مراد بیویاں ہوتی ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ قرآنِ کریم کیا لغت عرب میں نازل ہوا ہے یا کسی اور زبان میں اگر عربی زبان میں ہے اور عربی میں اہلِ بیتؓ کا لفظ عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے تو ان سب حقائق کے برعکس ازواج النبیﷺ کو اہلِ بیتؓ سے خارج کر کے ائمہ کو جو یقینا مرد ہی ہیں کسی منطق سے اہلِ بیتؓ میں داخل کیا جاتا ہے۔
5۔ قرآنِ کریم:
لغت عرف اور تفسیر قرآن سے واضح ہو گیا کہ اہلِ بیتؓ سے مراد بیویاں ہوتی ہیں اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ یہ آیتِ زیرِ بحث کے علاوہ قرآنِ کریم میں یہ ترکیب کن معنوں میں استعمال ہوئی ہے۔
1۔ واستبقا الباب وقدت قمیصه من دبر والفیا سیدھا لدا الباب قالت ما جزاء من اراد باھلک سوءا الخ۔
اسْتَبَقَا الْبَابَ وَ قَدَّتْ قَمِیْصَهٗ مِنْ دُبُرٍ وَّ اَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَا الْبَابِؕ قَالَتْ مَا جَزَآءُ مَنْ اَرَادَ بِاَهْلِكَ سُوْٓءًا الخ۔(سورة یوسف آیت نمبر25)۔
یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعہ کے سلسلے میں بیان ہو رہا ہے عورت نے جب اپنے خاوند کو دیکھا تو اسے کہا کہ اس کی سزا کیا ہے جو تیرے اہل کے متعلق برا ارادہ رکھے۔
صاف ظاہر ہے کہ اہل سے مراد بیوی ہے یہاں بیوی کو خارج کر کے کوئی اور تین چار داخل کر دیں تو کیا معنیٰ ہوں گے۔
تفسیر صافی طبع ایران میں اس آیت کی تفسیر میں بیان ہوتا ہے:
2۔ والفیا سیدھا ای صارفھا زوجھا لدالباب قالت الخ بادرت الی ھذا بقول ایھا ما یاتھا فرت منذ تبریته لساحتھا عند زوجھا۔
زلیخا نے اپنے خاوند کو دروازے پر پایا تو کہنے لگی کیا جزاء ہے یہ کہنے میں زلیخا میں جلدی کی کیونکہ وہ کہنا چاہتی تھی کہ یوسف علیہ السلام سے بھاگ کر آئی ہے اور اپنے آپ کو خاوند کے سامنے پاک دامن ظاہر کرنا چاہتی تھی۔
اور ملا عمر حسین طباطبائی کی تفسیر المیزان میں ہے:
3۔ فبدات امراۃ العزیز تشکو یوسف الیه وتسئاله ان یجازیۃ فذکرت انه اراد بھا سوءا ولم یصرح باسم نفسھا وھی الاھل ولا باسم۔
خلاصہ یہ ہے کہ خاوند سے شکایت کرتے ہوئے اپنا نام نہیں بلکہ اھلک کہا تو ظاہر ہے کہ اہل سے مراد بیوی ہے۔
تفسیر قمی میں ہے کہ:
فبادرت امراۃ العزیز ماجزاء من اراد باھلک سوءا۔
یعنی عزیز کی بیوی ہے اور اپنے متعلق شکایت کرتے ہوئے باھلک کہہ رہی ہے۔
تفسیر مجمع البیان میں ہے:
ماجزاء یعنی ان المرأۃ سبقت بالکلام لتورک الذنب علی یوسف فقالت لزوجھا۔
شیعہ مفسرین متفق ہے کہ لفظ اہل کی اضافت مرد کی طرف ہو تو اس کی زوجہ مراد ہوتی ہے جب بیت کی طرف ہو تو خاوند کا وہ گھر ہے اس گھر میں سکون پذیر عورت مراد ہوگی۔
2۔ وَاِذۡ غَدَوۡتَ مِنۡ اَهۡلِكَ الخ۔(سورة آلِ عمران آیت نمبر 122)۔
شیعہ مفسر فتح اللہ کاشانی اپنی تفسیر میں لکھتا ہے من اھلک از منزل عائشہؓ تو آیت کے معنیٰ یہ ہوئے کہ جب آپ اپنی بیوی (سیدہ عائشہؓ) کے گھر نکلے ہاں ایک شیعہ مولوی صاحب نے کہا تھا کہ من اھلک سے مراد من خواصک ہے میں نے سوال کیا وہ خواص کون تھے؟ یہ آیت تو جنگِ احد سے متعلق ہے حسنین تو بعد کی پیدائش ہیں۔ خواص تو وہی تھے جو ہمراہ گئے سیدنا علیؓ سیدنا حمزہؓ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ خواص کون تھے جن کے ہاں سے نکل کر حضورﷺ جنگ کے لیے چلے تھے۔
جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی۔
3۔ قَالُوْا تَقَاسَمُوْا بِاللّٰهِ لَنُبَیِّتَنَّهٗ وَ اَهْلَهٗ ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّهٖ مَا شَهِدْنَا مَهْلِكَ اَهْلِهٖ الخ۔(سورةالنمل آیت نمبر 49)۔
انہوں نے باہم قسم کھا کر کہا کہ ہم حضرت صالح علیہ السلام اور ان کی بیوی کو ضرور قتل کریں گے اور اس کے وارثوں سے کہیں گے کہ ہم تو اس کی بیوی کے قتل میں شریک نہیں ہوئے۔
یہاں اہل کا لفظ حضرت صالح علیہ السلام کی بیوی کے لیے استعمال ہوا ہے قریبی رشتہ داروں کو ولی کہا گیا ہے یعنی وہ اہل کے لفظ کے مفہوم داخل نہیں ہیں۔
4۔ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ إِلَّآ أَن يُؤۡذَنَ لَكُمۡ إِلَىٰ الخ۔(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 53)۔
بغیر اذنِ نبیﷺ کے گھروں میں داخل نہ ہونا۔
یہاں زوجہء رسولﷺ یہ بیت کو بیت النبی ﷺ کے گھروں کو بیوت النبیﷺ کہا گیا ہے۔
یہ خیال رہے کہ اہلِ بیتؓ کا لفظ اسم جنس ہے جس کا اطلاق قلیل و کثیر پر ہوتا ہے با اعتبار اضافت کے مثلاً
لَا تَدۡخُلُواْ بُيُوتَ ٱلنَّبِىِّ الخ۔(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 53)۔
وَٱذۡڪُرۡنَ مَا يُتۡلَىٰ فِى بُيُوتِڪُنَّ الخ۔(سورۃ الأحزاب آیت نمبر 43)۔
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُنَادُونَكَ مِن وَرَآءِ ٱلۡحُجُرَٲتِ الخ۔ (سورة الحجرات آیت نمبر 4)۔
اور یہاں جب تمام گھروں کو بوجہ رسول اللہﷺ کے گھر سمجھا گیا تو اہلِ بیتؓ فرمایا جب گھر ہر بیوی کا ہے تو اضافت بیویوں کی طرف کر دی اور فی بیوتکن فرمایا اور تمام بیویوں کے گھروں کو نبی کریمﷺ کا گھر سمجھا گیا تو بیوت النبی فرمایا۔
4۔ حقیقت اور مجاز:
اہلِ بیتؓ کا لفظ بنیادی طور پر اور حقیقت کے اعتبار سے بیوی کے لیے بولا جاتا ہے مگر وقتی طور پر بالتبع اولاد کو بھی مجازاً شامل کر لیا جاتا ہے کیونکہ بچے جوان ہو کر علیحدہ گھر بنا لیتے ہیں اور بچیاں جوان ہو کر دوسرے گھروں میں جا بستی ہیں اور باقی وہی رہ جاتا ہے جو حقیقی اہلِ بیت ہیں یعنی بیوی اس کی مثالیں بھی قرآن کریم میں جابہ جا ملتی ہیں مثلاً:
1۔ وَأۡتُونِى بِأَهۡلِڪُمۡ أَجۡمَعِينَ(سورۃ یوسف آیت نمبر 93)۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بھائی اپنے بال بچوں کو مصر لے آئیں۔
2۔ يَـٰٓأَيُّہَا ٱلۡعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهۡلَنَا ٱلضُّرُّ الخ۔(سورۃ یوسف آیت نمبر 88)۔
ہم اور ہمارے بیوی بچے قحط سالی کی زد میں ہیں۔
3۔ وَقَالَ لِفِتۡيَـٰنِهِ ٱجۡعَلُواْ بِضَـٰعَتَہُمۡ فِى رِحَالِهِمۡ لَعَلَّهُمۡ يَعۡرِفُونَہَآ إِذَا ٱنقَلَبُوٓاْ إِلَىٰٓ أَهۡلِهِمۡ الخ۔(سورۃ یوسف آیت نمبر 62)۔
حضرت یوسف علیہ السلام نے جوانوں کو حکم دیا کہ ان کی رقم ان کے سامان میں رکھ دو جب وہ اپنے بیوی بچوں میں جائیں تو شاید پہچان لیں۔
4۔ اَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ اَهْلَهَاۚ الخ۔(سورۃ سورۃ الکہف آیت نمبر71)۔
کہا کیا تو نے اس لئے کشتی پھوڑی کہ اہلِ کشتی غرق ہو جائیں؟۔
ظاہر ہے کہ اہلِ کشتی وہی تھے جو کشتی میں موجود تھے کنارے پر کھڑے یا گھر میں بیٹھے لوگوں کو اہلِ کشتی تو نہیں کہا گیا لہٰذا اہلِ بیت وہی ہوتے ہیں جو گھر میں مقیم ہوتے ہیں اور اہلِ بیت النبیﷺ وہی ہوئے جو نبی کریمﷺ کے گھر میں مقیم رہتے تھے اور وہ حضورﷺ کی ازواج کے بغیر اور کون ہے بیٹیاں تو پرایا مال ہوتی ہیں سیدہ فاطمہؓ اپنے شوہر سیدنا علیؓ کے گھر میں مقیم تھی وہ ان کی اہلِ بیت ہوئی اور حسنین اولاد ہونے کی وجہ سے بالتبع سیدنا علیؓ کے اہلِ بیتؓ ہوئے بیت نبیﷺ میں غیر مقیم اہلِ بیتؓ نہ کہلائے۔
ہاں یہ درست ہے کہ حسنین کا بیت النبیﷺ میں آنا جانا تھا مگر وہاں تو تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بچوں کا آنا جانا تھا اگر محض آنے جانے سے اہلِ بیت بنتے ہیں تو سب صحابیات اور سب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بچے اہلِ بیت کیوں نہ قرار پائیں؟ حسنین کی تخصیص کیوں ہو؟
5۔ فَاَسْرِ بِاَهْلِكَ بِقِطْعٍ مِّنَ الَّیْلِ وَ اتَّبِـعْ اَدْبَارَهُمْ وَ لَا یَلْتَفِتْ مِنْكُمْ اَحَدٌ الا امراتک الخ۔
(سورۃ ھود آیت نمبر 65)
فوقضوا علی لوط فی ذلک الوقت وھو یسقی زرعه فقال لھم لوط من انتم قالوا نحن ابناء السبیل اضفنا اللیلۃ فقال لھم یا قوم ان اھل ھذہ القریۃ قوم سوء لعنھم اللہ و اھلکھم ینکحون الرجال ویاخذون الاموال فقالوا فقد ابطانا فاضفنا فجاء لوط الی اھله وکانت منھم قالت افعل۔
آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ:
اے لوط! کہ رات کے ایک حصہ میں اپنی اہل کو لے کر اس بستی سے نکل جا۔
تفسیر: ملائکہ حضرت لوط علیہ السلام کے پاس جا کھڑے ہوئے وہ اس وقت اپنی کھیتی کو پانی دے رہے تھے حضرت لوط علیہ السلام نے پوچھا کون ہو؟ کہا ہم مسافر ہیں آج رات کے لئے آپ کے مہمان ہیں حضرت لوط علیہ السلام نے فرمایا کہ اس بستی کے لوگ بہت برے لوگ ہیں اللہ ان پر لعنت کرے انہیں ہلاک کرے لواطت کرتے ہیں اور مال لوٹتے ہیں فرشتوں نے کہا ہم انتظار کرتے ہیں آپ جا کر مہمانداری کا انتظام کریں حضرت لوط علیہ السلام اپنی بیوی کے پاس جو اہل سدوم میں سے تھی فرمایا آج رات کچھ مہمان آرہے ہیں قوم سے یہ بات پوشیدہ رکھنا اس نے کہا ایسا ہی کروں گی۔
شیعی مفسر علی بن ابراہیم قمی نے تسلیم کیا ہے اہلہ سے مراد ان کی بیوی ہے۔
یہاں شیعہ ایک اور لغزش کا شکار ہوتے ہیں کہ الاامراتک میں استثناء منقطع ہے مگر در حقیقت یہ استثناء متصل ہے لہٰذا فاسر باھلک میں داخل ہے اسی نے کہا کہ اپنی اہل کے پاس یعنی بیوی کے پاس آئے۔
قرآنِ کریم اور اہلِ بیتؓ:
اب تک قرآن کریم کی وہ آیت پیش کی گئیں جن میں صرف اہل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔
آیت ذیل میں یہ پوری ترکیب یعنی اہلِ بیتؓ استعمال ہوئی ہے۔
وَامۡرَاَ تُهٗ قَآئِمَةٌ فَضَحِكَتۡ فَبَشَّرۡنٰهَا بِاِسۡحٰقَ ۙ وَمِنۡ وَّرَآءِ اِسۡحٰقَ يَعۡقُوۡبَ ۞(سورۃ ہود آیت نمبر 71)۔
قَالُوۡۤا اَتَعۡجَبِيۡنَ مِنۡ اَمۡرِ اللّٰهِ رَحۡمَتُ اللّٰهِ وَبَرَكٰتُهٗ عَلَيۡكُمۡ اَهۡلَ الۡبَيۡتِؕ اِنَّهٗ حَمِيۡدٌ مَّجِيۡدٌ ۞(سورۃ ہود آیت نمبر 73)۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کھڑی مسکرا رہی تھی تو اسے ہم نے اسحاق کی بشارت دی ملائکہ نے کہا اے اہلِ بیتِ حضرت ابراہیم علیہ السلام یعنی زوجہء ابراہیم علیہ السلام کیا آپ کو اللہ کی رحمت پر تعجب ہورہا ہے۔
ظاہر ہے ملائکہ کا کلام زوجہء ابراہیم علیہ السلام سے ہو رہا ہے یہاں نہ کوئی بچہ ہے اور نہ کوئی دوسرا شخص ہے جو واضح دلیل اس امر کی ہے کہ اہلِ بیت صرف بیوی کے لئے بولا گیا۔
یہاں شیعہ ایک اور پیچ ڈالتے ہیں کہ خطاب زوجہء ابراہیم علیہ السلام کی حیثیت سے نہیں ہو رہا بلکہ وہ تو ان کی خالہ زاد یا ماموں زاد تھیں۔
آدمی اگر لٹھ لے کے عقل کے پیچھے پڑ جائے تو اس سے بھی اونچی باتیں کر گزرتا ہے۔
حالانکہ اس مکالمہ کی ابتدا سے ہی بیان ہو رہا ہے۔ وَامۡرَاَ تُهٗ پھر فَضَحِكَتۡ اور پھر فَبَشَّرۡنٰهَا یہ خطاب بحثیتِ زوجہ کے ہو رہا ہے یا خالہ زاد کی حیثیت سے؟ اگر یہ بات ہوتی تو الفاظ یہ ہوتے: بنت عمه قائمۃ یا بنت خاله قائمه۔
اگر اس بات پر بھی ٹھہرتے تو حالات یوں ہوتے کہ شیعہ کے نزدیک سیدنا عباسؓ کی اولاد اور سیدنا عقیلؓ اولاد بھی اہلِ بیت میں شامل ہوتی ادھر اتنی وسعت اور ادھر حال یہ کہ سیدنا حسنؓ کی اولاد کو اہلِ بیت سے خارج بلکہ بدترین انسان سمجھا گیا احتجاج طبرسی ملاحظہ کر لی جائے۔
اس آیت سے یہ بھی ظاہر کہ مخاطب صرف زوجہء ابراہیم علیہ السلام ہے مگر الفاظ ہیں علیکم اھل بیت یعنی عورت کے لئے صیغہ مذکر استعمال کیا گیا ہے کلامِ عرب میں کبھی لفظ کو ملحوظ رکھا جاتا ہے کبھی معنیٰ جیسے مَن لفظ کے لحاظ سے مفرد ہے اور معنیٰ کے لحاظ سے جمع ہے اسی طرح کسی چیز کو جو واقع میں مونث ہے مگر عرب اسے مذکر سے تعبیر کرنا چاہتے ہیں تو صیغہ مذکر استعمال کرتے ہیں۔
تفسیر قرطبی 71:9
رحمت اللہ وبرکاتہ علیکم اھل البیت ھذہ الآیۃ ان زوجۃ الرجل من اھل البیت فدل ھذا علی ان ازواج الانبیاء من اھل بیت النبیﷺ۔
یہ آیت اس امر پر قطعی دلالت کرتی ہے کہ آدمی کہ بیوی اہلِ بیت ہوتی ہے سو انبیاء کی بیویاں اہلِ بیت ہیں اس لئے سیدہ حضرت عائشہؓ اور دوسری ازواجِ مطہراتؓ حضورﷺ کہ اہلِ بیتؓ ہیں۔
تفسیر قرطبی 184:14:
واذکرن ما یتلی فی بیوتکن الخ والصحیح ان قوله ما یتلی فی بیوتکن علی ما قبله وقال عنکم لقول اھل فالا ھل مذکر فسما ھن وان اناثا باسم التذکر فلذلک صار عنکم۔
متصل ہے اور لیذھب عنکم الرجس میں عنکم ضمیر مذکر لانے کی وجہ سے لفظ اھل ہے یہ لفظ مذکر ہے اس وجہ سے ضمیر مذکر لائی گئی ہے اگرچہ وہ مخاطب عورتیں تھیں۔
2۔ھل ادلکم علی اھل بیت یکفلونه لکم وھم له ناصحون۔ فرددنه الی امه کی تقر عینھا۔
کیا میں تمہیں ایسے گھر والوں کی نشاندہی کروں جو تمہارے لئے اس کی کفالت کریں پھر ہم نے اسے اپنی ماں کی طرف لوٹا دیا کہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں یہاں اہلِ بیت کا لفظ والدہء موسیٰ علیہ السلام کے لئے لایا گیا پھر اس کی تائید آیت کے دوسرے حصے سے ہو گئی کہ ہم نے اسے والدہ کے پاس لوٹا دیا۔
شیعہ مفسر علامہ طباطبائی اپنی تفسیر المیزان میں اس آیت کی تفسیر لکھتا ہے۔
والمحصل انھا قالت ھل ادلکم علی اھل بیت کذا الفوا بالقبول خدمتھم علی امه فسلموہ الیه فردو ابنه الی امه بنظم القرآن۔
حاصلِ کلام یہ ہے کہ اس لڑکی نے کہا کیا میں تمہاری رہنمائی ایسے گھر آنے والی کی طرف نہ کروں جو اس طرح کا ہو یعنی اہلِ بیت کی طرف اسکی ماں کی خدمت کو انہوں نے قبول کر لیا اور انکو ماں کا سپرد کر دیا نظم قرآن سے واضح ہے۔
یعنی اہلِ بیت سے مراد والدہء موسیٰ علیہ السلام ہے اور تفسیر منہج الصادقین:
ھل ادلکم علی اھل بیت۔
بر اہل خانہ کہ از روئے شفقت یکفلونہ در پزیر ند ایں کو دک رالکم برائے شمادھم وآں اھل بیت۔
ظاہر ہے کہ مراد اہلِ بیت سے اہلِ خانہ ہیں اور یہ وہی ہے جسے دودھ پلانا سونپا گیا اور وہ دونوں مفسرین نے اہلِ بیت کی تفسیر جوتے ہوئے تسلیم کیا کہ:
- اہلِ بیت سے مراد والدہء موسیٰ ہے۔
- اہلِ بیت کا لفظ اسم جنس ہے قلیل و کثیر پر صادق آتا ہے۔
- اہل کا لفظ مذکر ہے اس لئے مذکر کی ضمیر اہلِ بیت کی طرف راجع ہوئی۔
واحد جمع:
گزشتہ بحث سے واضح ہو گیا کہ مونث کے لیے مذکر کی ضمیر کا استعمال لفظ اہل کے مذکر ہونے کی وجہ سے قرآنِ کریم میں جا بہ جا ہوا ہے۔
اب یہ دیکھتے ہیں کہ واحد کے لیے جمع کی ضمیر کا استعمال بھی ہوا ہے۔
- اِنِّىۡۤ اٰنَسۡتُ نَارًا ساٰتیکم منھا بخبر الخ۔(سورة القصص آیت نمبر 29)۔
- اِذ قَالَ لِأَهۡلِهِ ٱمۡكُثُوٓاْ الخ۔(سورة طٰہ آیت نمبر10)
دونوں جگہ مخاطب صرف بیوی ہے مگر ضمیر جمع استعمال ہوئی ہے۔
شیعہ مفسر طباطبائی اس کی تفسیر کرتے ہیں۔
اذ قال موسی لاھله امراته وھی بنت شعیب علی ما ذکرہ اللہ تعالیٰ فی سورۃ قصص ان خطابھا بقوله اتیکم بصیغۃ الجمع لاقامتھا مقام الجماعۃ۔
جب موسی علیہ السلام نے اپنی اہل یعنی بیوی سے فرمایا جو شعیب علیہ السلام کی بیٹی تھی کہ جیسا کہ سورۃ قصص میں بیان ہوا ہے حضرت موسی علیہ السلام کو صیغہ جمع سے خطاب کرنا اس وجہ سے تھا کہ بیوی کو قائم مقام جماعت کے رکھا۔
اور شیعہ کافر علی طبرسی کی تفسیر مجمع البیان میں ہے:
اذقال لاھله وھی امراته بنت شعیب وانما قال لامراته اتیکم علی لفظ خطاب الجمع لانه اقامه مقام الجماعۃ فی الانس بھا والسکون الیھا فی الامکنۃ الموء حشۃ۔
خلاصہ یہ کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اپنی بیوی کو جمع کے صیغے سے خطاب اس لیے کیا کہ اسے قائم مقام جماعت کے سمجھا بوجہ انس کے وحشت ناک مقام پر اس وجہ سے انہیں جوس کو ملتا تھا وہ ویسا تھا جو کسی جماعت کی وجہ سے ہو۔
- اہل بیت کا لفظ بیوی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
- اولاد کے لیے تبعاً و مجازاً استعمال ہوتا ہے۔
- مونس کے لیے مذکر کی ضمیر کا استعمال ہوتا ہے۔
- واحد کے لیے جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے کیونکہ واحد کو قائم مقام جماعت کے تصور کیا جاتا ہے۔
علمائے اہلِ سنت کا عقیدہ ہے نص قرآن سے تو اہلِ بیت صرف اور صرف حضورﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ ہیں ازواجِ مطہراتؓ کے علاوہ قرآنِ کریم میں کسی کو اہلِ بیت نہیں کہا سیدنا علیؓ سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا حسنینؓ حضورﷺ کہ دعا کی وجہ سے اہلِ بیت میں داخل ہوئے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ازواجِ مطہرات اہلِ بیت سے خارج ہو گئیں یہ ادعائی اہل بیت ہیں جو حضورﷺ نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کر کے اہلِ بیت میں داخل کرائے یہ نص قرآن سے خارج ہے۔
اللھم ھؤلاء اھل بیتی اذھب عنھم الرجس وطھرھم تطہیرا فھذا دعوۃ من النبیﷺ بعد نزول الآیۃ احب ان یدخلھم فی الآیۃ التی خوطب بھا الازواج فذھب الکلبی ومن وفقه فصیرھا مالھم خاصۃ وھی دعوہ لھم خارجۃ من التنزیل۔
حضورﷺ نے دعا کی کہ اللہ یہ میرے اہلِ بیت ہیں ان سے ناپاکی دور کر اور ان کو کماحقہ پاک کر نزولِ آیتِ قرآنی میں ازواجِ مطہراتؓ کو خطاب کیا گیا ہے اس میں یہ بھی داخل فرما دیں شیعہ کلبی اور اس کے ساتھ ان کو ہی مختص کرتے ہیں حالانکہ یہ دعا ہے ان چار کے لیے جو نص قرآن سے خارج ہے۔
کلبی وغیرہ نے اللہ جانے یہ کیسے سمجھ لیا کہ حضورﷺ میری دعا کی کہ اللہ! جن کو آپ نے اہلِ بیت میں داخل کیا ہے ان کو تو خارج کر دیجئے اور جب گھر خالی ہو جائے تو ان چار کو داخل کر دیجیے پھر بیت وہ ہوگا اور اہلِ بیت یہ ہوں گے۔
حضورﷺ کی دعا سے تو محبت و شفقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ نے جب میری بیویوں کو اس قدر انعامات سے نوازا تو میرے ان عزیزوں کو بھی ان انعامات کا مورد بنانے کے لیے اسی دائرے میں داخل فرما دیجئے۔
اگر یہی مختص اہلِ بیت ہیں تو حضورﷺ نے یہ دعا کیوں کی کہ اذھب عنھم الرجس وطھرھم جب کہ اس سے بیشتر اللہ تعالیٰ اعلان کر چکا ہے یہ کیا کہ جو دے چکا ہے وہی مانگا جا رہا ہے پھر یہ بھی ایک پہیلی ہے کہ چار تو چادر اوڑھ لینے سے اہلِ بیت میں شامل ہی نہیں بلکہ یہی اہلِ بیت ہو گئے تو دو امام جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے وہ کیسے اہلِ بیت میں شامل ہوئے کلبی وغیرہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ پہلے دعا ہوئی آیت نازل ہوئی مگر صرف کہہ دینے سے حقائق تو نہیں بدل جایا کرتے اس کول کے لیے کوئی صحیح حدیث مسلم جان بین آج تک پیش نہیں کی جا سکی۔
شانِ نزول:
قرآنِ کریم کی یہ کسی آیت کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے یہ امر صرف ممد ہی ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کا لحاظ رکھنا فہمِ قرآن کے لیے اور دیانت کے نقطہء نظر سے ضروری ہے کہ وہ کون سے حالات تھے جن میں یہ آیت نازل ہوئی؟ وہ کیسا ماحول تھا؟ وہ کیسے اور کون لوگ تھے جن کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی اس اصول کے تحت اس آیت کے متعلق بھی دیکھ لینا ضروری ہے۔
تفسیر ابنِ کثیر 483:3:
انما یرید اللہ لیذھب الخ وھذا نص فی دخول ازواج النبیﷺ فی اھل البیت ھھنا لانھن سبب نزول ھذہ الآیۃ وسبب النزول داخل فیه۔
یہ آیت ازواجِ رسولﷺ کے اس جگہ اہلِ بیت میں داخل ہونے کے بارے میں نص صریح ہے چونکہ آیت کے نزول کا سبب ہی ازواجِ مطہراتؓ ہیں لہٰذا آیت کا سببِ نزول آیت میں داخل ہے۔
شیعہ کو یہ حقیقت تسلیم نہیں وہ کہتے ہیں کہ:
- یہ جملہ ندائیہ خبریہ ہے۔
- اس جملے کے ماقبل اور مابعد امر و نہی ہے جو جملہ انشائیہ ہے۔
- جملہ انشائیہ کا عطف خبریہ نا جائز ہے۔
لہٰذا جملہ انما یرید اللہ الخ کا تعلق نہ ماقبل سے ہے نہ ما بعد سے اس لحاظ سے یہ جملہ یہاں اجنبی ہے۔
اس دعویٰ کی جان یہ تو ہے کہ عطف ناجائز ہے مگر کوئی لاکھ کوشش کرے یہاں عطف دکھائی ہی نہیں دیتا اول تو کہیں واؤ عاطفہ موجود نہیں اور اگر اپنے پاس سے واؤ عاطفہ لگا لو تو دیکھو ک لے کہ کیا تک بنتی ہے جب عطف موجود نہیں تو معلوم ہوا کہ دعوے میں جان ہی نہیں اس کی حقیقت یہ کہ انما یرید اللہ الخ جملہ خبریہ ندائیہ سابقہ جملہ انشائیہ کی علت واقع ہوا ہے سابقہ جملہ واقمن الصلوۃ ورسوله معلل ہے یعنی تم نماز پڑھو زکوۃ دو الخ اس کے بدلے میں تمہیں یہ انعام دیا جائے گا انما یرید اللہ الخ ان دونوں جملوں کا تعلق معلوم کرنا ہو تو ذرا چشمِ تصور کے سامنے وہ منظر لاؤ کہ 6۔7 فوٹو اونچے کچے مکان رہائش کے لیے پیوند لگے کپڑے لباس کے لیے فاقوں پر فاقے غذا کے لیے پھر حکم یہ کہ ان حالات میں بھی اللہ و رسولﷺ کی اطاعت پر ڈٹی رہو دنیوی آسائش کا نام بھی زبان تک نہ لانا ازواجِ مطہراتؓ نے یہ سب کچھ منظور کیا اور کر کے دکھایا اور انعام کا ذکر آیا تو یہ اجنبی معلوم ہونے لگے اور انعام کے مستحق وہ ٹھہرے جنہیں سرے سے خطاب ہی نہیں کیا گیا یا جو ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے۔
اگر یہ جملہ یہاں اجنبی ہے تو اس کی اصلی جگہ کون سی ہے ؟ کہاں سے اٹھایا گیا کب اٹھا کر یہاں رکھا گیا کسی کو کانوں خبر بھی نہ ہوئی اور انا له لحافظون ضمانت دینے والا اللہ بس دیکھتا رہ گیا۔
کلام عرب میں جملہ خبر ندائیہ علت جملہ انشائیہ کی واقع ہوتا ہے قرآن وہ حدیث اور کلام بلغاء میر جا رہی ہوں ساری ہے مثلاً
اضرب زیدا انه فاسق فاجر۔ یا
اطعنی یا غلام انی ارید ان اکرمک۔
چلیے ازواجِ مطہراتؓ کا ذکر آئے تو یہ جملہ اجنبی ہو تو سیاق و سباق میں کہیں ائمہ کا ذکر ڈھونڈو اور وہاں اس جملہ کو فٹ کر کے دیکھو ایسا کرنے سے ایک اور دقت پیش آئے کہ شیعہ عقیدہ کے مطابق تو امام پیدائش سے پہلے ہی معصوم ہوتا ہے اور اس معصوم کو پاک کرنے کے ارادہ کا اظہار تو اجنبی نہیں ہوگا بالکل بر محل ہوگا؟
پھر یہ عمل قابلِ غور ہے کہ اگر یہ اجنبی ہے تو منافی فصاحت و بلاغت ہے کیا قرآن کریم کے متعلق کسی مومن کا یہ عقیدہ ہو سکتا ہے؟
معطوف اور معطوف علیہ کے درمیان کسی ایسے فاصل کا رہ جانا جو با اعتبار اعراف کے اجنبی ہو نحویوں کے نزدیک بااتفاق جائز ہے مگر انما یرید اللہمیں اول تو عطف نہیں پھر یہ فصل بلحاظ اعراب کے اجنبی نہیں بلکہ یہ تو بلحاظ موارد مضامین اور موضوع کے اجنبی ہوگا اس کے ماقبل اور ما بعد موضوع و مضمون ایک چلا آرہا ہے ابھی وہ ختم نہ ہوا درمیان میں ایک غیر متعلق موضوع شروع کر دی ہے پھر وہ پہلا موضوع شروع کر دیا یہ متکلم بلیغ کی شان کے خلاف ہے تعالیٰ من ذالک علوا کبیرا۔
ازالہ رجس اور تطہیر:
ان دو الفاظ کے متعلق شیعہ کے نزدیک اس سے مراد عطائے عصمت ہے یعنی معصوم بنانا ہے اور اہلِ سنت کا یہ کہنا کہ اس سے مراد مغفرت ذنوب ہے۔
دوسری بات جو اس کا تتمہ ہے کہ اہلِ بیت سے مراد یہ چار حضرات ہیں۔
مگر ان دعووں کا ثبوت لغت عرب کلام عرب قرآن کریم اور عرف کسی ذریعے سے بھی پیش نہیں کیا جا سکتا نہ اب تک ان سے ہوا نہ آئندہ ہونے کا امکان ہے۔