Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مسئلہ فدک

  احقر العباد نذیر احمد مخدوم سلمہ القیوم

مسئلہ فدک

سوال:

بخاری شریف میں ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا ابوبکرؓ سے باغ فدک کا مطالبہ کیا اور صدیق اکبرؓ نے نہ دیا جس پر سیدہ فاطمہؓ ناراض ہو گئی اور مرتے دم تک کلام نہ کیا۔

جواب نمبر 1:

مسئلہ فدک کو شیعی ذاکر عجب ڈرامائی رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ کرسیِ خلافت پر جلوہ افروز ہوئے، سیدہ فاطمہؓ نے حسنؓ اور حسینؓ کو ساتھ لیا اور نبی پاکﷺ کا لکھا ہوا کاغذ کا ٹکڑا بھی ہاتھ میں لیا، اور سیدنا ابوبکرؓ کی کچہری میں حاضر ہوئے اور فدک کی جاگیر کا مطالبہ کیا، سیدنا ابوبکرؓ نے کاغذ کا ٹکڑا پھاڑ دیا۔حسنینؓ کو طمانچے مارے اور سیدہ فاطمہؓ کو دھکے دیئے (العیاذ باللّٰہ)

اس تقریر سے سیدنا علیؓ کی شجاعت اور سیدہ فاطمہؓ کی ریاضت اور عصمت داغدار ہوتی ہے اور یہ عقل و نقل کے خلاف ہے۔ کیونکہ سیدہ فاطمہؓ کے فضائل و مناقب سے تو کتب فریقین لبریز ہیں۔کتب اہلِ سنت میں ہے:

⦿ سیدہ فاطمہؓ یہ وہ خاتون ہیں جن کے متعلق رسول خداﷺ نے فرمایا کہ "میرے جگر کا ٹکڑا ہے"۔

⦿ سیدہ فاطمہؓ کی تعظیم کے لیے آقائے نامدارﷺ کھڑے ہو جاتے تھے۔

⦿ سیدہ فاطمہؓ کو ہی سفر پر جاتے ہوئے آقائے نامدارﷺ سب سے آخر میں الوداع کہا کرتے تھے۔

⦿ سیدہ فاطمہؓ کو ہی سفر سے واپسی پر سب سے پہلے ملتے تھے۔

⦿ سیدہ فاطمہؓ کو ہی بہشت کی نوجوان عورتوں کا سردار فرمایا گیا ہے۔

⦿ سیدہ فاطمہؓ کو ہی اقربیتِ رسولﷺ اور لقبِ بتولؓ کا شرف حاصل ہوا۔

⦿ سیدہ فاطمہؓ کی خوشی کو حضورﷺ نے اپنی خوشی اور ان کی ناراضگی کو اپنی ناراضگی سے تعبیر فرمایا۔

⦿ سیدہ فاطمۃؓ کو ہی زاہدہ اور تارکِ دنیا فرمایا گیا۔

⦿ سیدہ فاطمہؓ اور اہلِ بیتؓ کے بہشت میں جاتے وقت انبیاء علیہ السلام اور شہداءؒ تک کو حکم ہو گا کہ آنکھیں بند کر لو۔

ایسی زاہدہ تارکِ دنیا اور ایسے اوصاف و کمالات والی عورت دنیاوی مال و دولت کی خاطر دن دہاڑے کسی غیر محرم کی کچہری میں نہیں جا سکتی۔ لہٰذا عقلاً معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب مفروضہ یار لوگوں کا گھڑا ہُوا ہے۔

جواب نمبر 2

شیعی مذعومہ کے مطابق اگر بفرضِ محال تسلیم کر لیا جائے تو اب چند ایک سوالات ہیں کیا مطالبہ فدک کے وقت سیدنا علی المرتضیٰؓ زندہ تھے یا نہیں؟ اگر زندہ تھے تو مدینہ منورہ میں ہی تھے یا نہیں؟ اگر مدینہ منورہ میں تھے تو سیدہ فاطمہؓ نے اپنے شوہر سے مشورہ کیا تھا یا نہیں؟ اگر کیا تھا تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدہ فاطمہؓ کو کہہ دیا ہو گا کہ میں تو گھر بیٹھتا ہوں اور آپ خود ہی دونوں بچوں کو لے کر کچہری میں چلی جائیں۔ اور اپنا مطالبہ پیش کریں یہ شان علیؓ اور شجاعت علیؓ اور مردانہ غیرتِ حمیت کے خلاف ہے۔ اس سے بھی عقلی طور پر اس اعتراض کا باطل ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔

جواب نمبر 3:

ساری کائنات جانتی ہے کہ تمام دنیا پر سب سے زیادہ سخی گھرانہ سرور دو عالم حضرت محمد مصطفٰیﷺ کا گزرا ہے اور سیدنا علی المرتضیٰؓ بھی سب کچھ راہ خدا میں لٹا دیتے تھے اس لیے ساری زندگی سیدنا علیؓ پر زکوۃ فرض نہیں ہوئی اور سیدہ فاطمہؓ اور جناب حسنین شریفینؓ تو کئی دفعہ خود بھوکے رہ کر یتیموں، مسکینوں اور اسیروں کو سارے کا سارا کھانا کھلا دیتے تھے۔ جو اس قدر سخی اور فیاض ہوں وہ مالِ دنیا کا دلدادہ نہیں کر سکتے اور کھجوروں کے چند درخت نہ ملنے پر خلیفئہ رسولﷺ پر ساری زندگی ناراض رہیں، یہ عقلاً محال ہے اور شانِ اہلِ بیتؓ کے خلاف ہے۔

سوال:

سنیوں کے نزدیک قرآن پاک کے بعد تمام کتابوں سے زیادہ صحیح بخاری شریف ہے جس میں ناراضگی فاطمہؓ والا فقرہ موجود ہے۔ ملاحظہ ہو بخاری شریف فغضبت فاطمة رضي اللّٰہ على ابي بكر رضي اللّٰہ

پس فاطمہؓ ابوبکرؓ پر ناراض ہو گئیں۔ معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہؓ ابوبکر صدیقؓ پر ناراض تھیں۔

جواب نمبر: 1

بے شک قرآن پاک کے بعد تمام کتابوں سے زیادہ صحیح بخاری شریف ہی ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس میں سب کچھ قرآن پاک کی طرح صحیح اور لَارَيْبَ فِيْهِ ہے۔ بلکہ شراح حدیث نے تصریح کی ہے کہ بخاری شریف میں بعض مقامات پر وہم راوی اور ظن راوی درج کیا گیا ہے چنانچہ ملاحظہ ہو:

فیض الباری صفحہ 77 جلد 4 انور شاہ صاحب کشمیریؒ۔

واي اعتماد به اذ لم يخلص الصحيحان عن الاوهام

(اور تاریخ) پر کون اعتماد کر سکتا ہے جبکہ صحیحین (مسلم بخاری) بھی وہم راوی سے نہ بچ سکیں۔

اسی طرح ملاحظہ ہو (نفحات الأزهار - السيد علي الميلاني - جلد 6 - الصفحة 189)

وقد استشكل الإسماعيلي هذا الحديث من أصله وطعن في صحته،

اور فاضل اسماعیلی نے اس حدیث کو مشکل سمجھا اور اس کی صحت میں طعن کیا۔

ان دونوں عبارتوں سے معلوم ہوا کہ راویوں کے عدل و ضبط میں تمام کتب سے بخاری کا اعلی مقام ہے۔ مگر غلط فہمی اور وہم تو لوازمِ بشریت سے ہے۔ سیدہ فاطمہؓ کی خاموشی اور سکوت کو راوی نے ناراضگی سمجھ کر روایت میں درج کر دیا۔

جواب نمبر 2:

اگر بالفرض تسلیم بھی کر لیا جائے کہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر ناراض ہو گئیں تو کتب شیعہ سے ثابت ہے کہ سیدنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ کی چھوٹی چھوٹی ناراضگیاں تو کافی ہوئیں مگر پانچ مرتبہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا علی المرتضیٰؓ پر سخت ناراض ہوئیں۔

چناچہ شیعہ کی معتبر کتاب ناسخ التواریخ جلد 4 صفحات 67 تا 69 پر "قم يا ابأ تراب" والی مشہور روایت موجود ہے جس میں ناراضگی فاطمہؓ والا قصہ موجود ہے۔

اسی طرح کتاب علی الشرائع اور جلاء العيون۔ ان دونوں کتابوں میں سیرنا علیؓ اور سیدہ فاطمہؓ الزہرا کی ناراضگی کے واقعات ملتے ہیں۔ اور احتجاج طبرسی میں موجود ہے۔جب ارضِ فدک دِلوانے پر سیدنا علی المرتضیٰؓ نے سیدہ فاطمہؓ کی امداد نہ کی اور گھر میں ہی بیٹھے رہے، تو سیدہ فاطمہؓ ناراض ہو کر بولیں

ملاحظہ ہو (بحار الأنوار - العلامة المجلسي - جلد 29- الصفحة 234)

يا بن أبي طالب عليك السلام (1): اشتملت شملة الجنين، وقعدت حجرة الظنين

سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا اے ابو طالب کے بیٹے چادروں کے اندر چھپ گئے ہو جیسے رحم کے اندر بچہ چھپا ہوا ہوتا ہے اور لوگوں سے چھپ کر بیٹھ گئے ہو جیسے تہمت والے لوگ چھپ جاتے ہیں۔

اسی طرح ناسخ التواریخ صفحہ 129 جلد 4 پر اسی روایت عربی کا فارسی زبان میں یوں ترجمہ کیا گیا ہے۔

اے پسرِ ابو طالب خویشتن بشملہ در پیچيدی مانند جنین در رحم دردئے از خلق نہفتی چوں مردم متہم۔

اے ابو طالب کے بیٹے چادروں میں چھپ گئے ہو جیسے بچہ رحم میں، اور متہم لوگوں کی طرح مخلوقات سے چھپ گئے ہو۔

ناظرین کرام اب انصاف فرمائیں کہ کیا یہ فقرات سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علی المرتضیٰؓ کی باہمی ناراضگی پر دلالت نہیں کر رہے؟ اگر کتب شیعہ میں یہ الفاظ اور فقرات موجود ہونے کے باوجود ناراضگی فاطمہؓ کی وجہ سے سیدنا علی المرتضیٰؓ کا دامن صاف ہی نظر آتا ہے تو خلیفہ رسولﷺ سیدنا صدیق اکبرؓ کو طعن و تشنیع کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے؟

جواب نمبر 3:

اگر اہلِ تشیع کی طرف یہ جواب دیا جائے کہ بے شک سیدنا علیؓ و سیدہ فاطمہؓ کی ناراضگیاں تو ہوتی رہیں مگر بعد میں صلح ہو جایا کرتی تھی تو ہم اہلِ سنت بھی جواباً عرض کریں گے اگر بالفرض خلیفہ بلا فصل اور سیدہ فاطمہؓ کی بشری تقاضے کی تحت وقتی طور پر ناراضگی اور رنجش ہوئی بھی ہو تو بعد میں ان دونوں مقدس ہستیوں کی باہمی رضامندی اور صلح بھی ہو گئی تھی۔

چنانچہ ملاحظہ ہو شیعہ کی معتبر کتاب ابن میثم البحرانی شرح نہج البلاغہ۔

كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأخذ من فدك قوتكم ويقسم الباقي ويحمل منه جزء في سبيل الله. ولك على الله أن أصنع كما كان يصنع، فرضيت بذلك، أخذت العهد عليه به...

(شرح نهج البلاغة لابن الميثم البحراني جلد 5 صفحہ 107)

(صدیق اکبرؓ نے فرمایا) رسول پاکﷺ فدک کی آمدنی سے تمہارا (اہلِ بیتؓ)کا خرچ الگ کر لیتے تھے،باقی ماندہ مسکینوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔اور اس میں سے جہاد کے لیے سواریاں لیتے تھے اور خدا کی رضامندی کے لیے آپﷺ کا مجھ پر حق ہے کہ فدک کے بارے میں وہی کارروائی کروں جو کارروائی رسول پاکﷺ کیا کرتے تھے۔ سیدہ فاطمہؓ اس بات پر راضی ہو گئیں۔ اور صدیق اکبرؓ سے عہد لیا۔پھر صدیق اکبرؓ ارضِ فدک کی آمدنی سے اہلِ بیتؓ کو اس قدر دیتے تھے کہ سال بھر کے اخراجات پورے ہو جاتے تھے۔ پھر باقی خلفاء رضی اللّٰہ عنہم اجمعین نے بھی اسی طرح کیا۔

بعینہ یہی عبارت درہ نجفیہ طبع ایران صفحہ 332 پر بھی موجود ہے۔

اِس سے معلوم ہوا کہ سیدہ فاطمہؓ سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر راضی ہو گئی تھیں۔ اگر ناراضگی فاطمہؓ کی وجہ سے سیدنا ابوبکر صدیقؓ پر طعن کیا جائے تو یہ ناراضگی تو سیدنا علی المرتضیٰؓ سے بھی بارہا ثابت ہے اور اگر ناراضگی کے بعد سیدنا علی المرتضیٰؓ سے رضامندی ثابت کریں تو یہ رضامندی تو کتبِ شیعہ سے صدیق اکبرؓ سے بھی ثابت ہو رہی ہے لہٰذا ما هو جوابكم فهو جوابنا

جواب نمبر 4:

جب سیدنا علی المرتضیٰؓ کو خلافت کے امور سپرد کیے گئے تو انہوں نے بھی فدک کے معاملے میں صدیقی فاروقی اور عثمانی دور کے طرزِ عمل کو برقرار رکھا۔

چناچہ ملاحظہ ہو (الشافي في الامامة - الشريف المرتضىٰ - جلد 4 - الصفحة 76)

قال: فلما وصل الأمر إلى علي بن أبي طالب عليه السلام كلم (2) في رد فدك، فقال: إني لأستحي من الله أن أرد شيئا منع منه أبو بكر وأمضاه عمر.

پس جب فدک کا مسئلہ سیدنا علی المرتضیٰؓ تک پہنچا تو اس امر میں گفتگو کی گئی تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا مجھے اللّٰہ سے حیا آتی ہے میں اس چیز کو رد کروں جس سے ابوبکرؓ نے منع کیا اور عمرؓ نے جاری کیا۔

جب سیدنا علی المرتضیٰؓ نے بھی اپنے دور خلافت میں فدک کی آمدنی کو اسی طرح تقسیم کیا جس طرح صدیق و فاروقؓ اور عثمان غنیؓ اپنے اپنے خلافت کے زمانہ میں کرتے رہے تو اگر ان خلفائے ثلاثہؓ کا طرزِ عمل غلط تھا اور باطل تھا تو سیدنا علی المرتضیٰؓ نے اس کی اصلاح کیوں نہ فرمائی؟اور اگر چاروں خلفاءؓ اپنے اپنے دورِ خلافت میں ایک کام کو ایک ہی طرز طریق پر کرتے ہیں تو اس عمل کی وجہ سے انصاف تو یہ ہے کہ اگر اعتراض اور طعن و تشنیع کیا جائے تو چاروں پر،اور اگر معاف کیا جائے تو بھی چاروں کو۔ یہ انصاف اور دیانت کے خلاف ہے کہ تین آدمیوں(ابوبکرؓ، عمر فاروقؓ عثمان غنیؓ) کو تو اعتراضات کا محل بنایا جائے اور انہیں جیسا عمل کرنے کے باوجود ایک کو بری کر دیا جائے۔

نوٹ:

اسی مسئلہ فدک کے متعلق استاذ المکرم مولانا سید احمد شاہ بخاریؒ کی کتاب تحقیق فدک دیکھنے کے بعد تمام شکوک و شبہات دور ہو جاتے ہیں۔