Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خمس

  دارالتحقیق و دفاعِ صحابہؓ

خمس

خمس (پانچویں حصہ کو کہتے ہیں) کے مسئلہ کو بھی کے شیعہ عالم عبدالکریم مشتاق نے شیعہ مذہب کی صداقت پر دلیل بنایا ہے کہ اس کی ارکانِ اسلام کی طرح پابندی صرف شیعہ مذہب میں ہی کی جاتی ہے مذہبِ سُنّیہ میں واضح حکم قرآنی کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

(فروع دین: مشہور تبرائی شیعہ عالم عبدالکریم مشتاق صفحہ 77)

ہماری گزارش یہ ہے کہ حسبِ سابق یہ بھی شیعہ مؤلف کی لفاظی اور چابک دستی ہے نہ تو خمس دیگر ارکان کی طرح ہے کہ اس کا نکالنا باقاعدہ ہر مسلمان پر فرض ہو کیونکہ قرآن و سنّت میں ایسی کوئی تعلیم نہیں اور نہ اہلِ سنّت نے ضمنی مالی مسئلہ کی حیثیت سے اس کی مشروعیت کا انکار کیا ہے ۔

خمس کے متعلق سورۃ الأنفال:آیت 41 کا ترجمہ مشتاق شیعہ نے یہ کیا ہے:

وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّمَا غَنِمۡتُمۡ مِّنۡ شَىۡءٍ فَاَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهٗ وَ لِلرَّسُوۡلِ وَلِذِى الۡقُرۡبٰى وَالۡيَتٰمٰى وَالۡمَسٰكِيۡنِ وَابۡنِ السَّبِيۡلِ ۙ 

ترجمہ: اور جان لو کہ جو کچھ تمہیں غنیمت سے حاصل ہو یہ اس کا پانچواں 1/5 حصہ خدا کے لیے اور اور رسولﷺ اور رسولﷺ کے قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پردیسیوں کے لیے ہے۔

(فروعِ دین: صفحہ 77)

 یہ آیت سورۃ الانفال کی ہے۔ جہاد کے احکام بیان ہو رہے ہیں کہ جنگ کے بعد جو مالِ غنیمت حاصل ہو اس کے چار حصے فوجیوں کا حصہ ہے اور پانچواں حصہ پانچ قسم کے حقداروں میں تقسیم کیا جائے اللہ تعالیٰ کا نام بطورِ تبرک ہے یعنی پانچوں اقسام میں خدا کے حکم کے مطابق بانٹنا گویا خدا کا حصہ نکالنا ہے۔ حضورﷺ کا حصہ آپﷺ کی زندگی سے خاص تھا۔ آپﷺ کے انتقال کے بعد خود بخود ختم ہو گیا۔ رشتہ داروں کا حصہ عہدِ نبوت کے بعد عہدِ صحابہ کرامؓ میں بھی حضورﷺ کے رشتہ داروں کو ملتا رہا اور اب بھی جہاد کے مالِ غنیمت سے ان کو پانچواں حصہ مل سکتا ہے۔ اہلِ سنّت اس کے منکر نہیں ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ اولاً شیعوں نے زکوٰۃ کو تو ذاتی کمائی سے نصِ قرآنی (قرآنی دلیل) کے خلاف خارج کر دیا اور خلافِ قرآن عام اموال سے خمس کے بطور استحباب قائل ہو گئے حالانکہ یہ شریعت میں بے تصرف اور نا جائز مداخلت ہے کیونکہ خمس صرف مالِ غنیمت و جہاد سے نکالا جاتا ہے یا ان معدنیات اور دفینوں سے جو شاملات زمینوں سے حکومت کو مل جائیں ۔

دوم یہ کہ مالِ غنیمت یا معدنی خزائن کے خمس کے حقدار چار گروہ ہیں۔ سادات ، یتامیٰ، مساکین، مسافرین، شیعوں نے صرف سادات کو حق دار مان لیا اور باقی تین اصناف کو ان کے حق سے محروم کر دیا۔

حالانکہ سادات کو بھی غربت اور احتیاج کی صورت میں ملے گا کیونکہ زکوٰۃ ان پر حرام کی گئی ہے اگر وہ مال دار ہوں تو وہ خمس نہ پائیں گے۔ جیسے صحیح احادیث آگے کتاب میں اسی مسئلہ کے ضمن میں آپ پڑھیں گے کہ سیدنا عمرؓ نے خمس سادات کو دینا چاہا۔ سیدنا علیؓ نے فرمایا ہم مال دار ہیں ہمیں حاجت نہیں یتیموں اور مساکین کو دے دیں ۔ 

(ابو داؤد)

اہلِ بیتؓ کے مقامِ عالی کا تقاضا یہی ہے اور اسلام کا معاشی زریں اصول بھی یہی چاہتا ہے کہ طلبِ حاجت کی شکل میں تو قرابت دارانِ رسولﷺ کو مالِ خمس میں اوّلیت حاصل ہے۔ لیکن ان کے استغناء کی شکل میں یہ مد اسلامی خزانہ کا حصہ ہے۔ حاکم اپنی صوابدید سے دیگر مصارف پر خرچ کرے گا جیسے مال زکوٰۃ کو وہ آٹھ مصارف میں تقسیم کرنے کا مجاز ہے خواہ سب اصناف میں برابر تقسیم کرے یا حسبِ ضرورت کسی ایک کو مخصوص کرے یا دوسروں سے زیادہ دے، مالِ فے کی تقسیم کی حکمت خدا نے یہ بیان فرمائی کہ:

 كَىۡ لَا يَكُوۡنَ دُوۡلَةًۢ بَيۡنَ الۡاَغۡنِيَآءِ مِنۡكُمۡ‌ ؕ وَمَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا‌ ۚ 

(سورۃالحشر: آیت 7)

ترجمہ: تاکہ وہ مال صرف انہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہ جائے جو تم میں دولت مند لوگ ہیں۔ اور رسول تمہیں جو کچھ دیں، وہ لے لو اور جس چیز سے منع کریں اس سے رک جاؤ، 

تو صرف غیر غنی افراد میں تقسیم اور کمی و بیشی میں حاکم کی صوابدید اسی آیت سے معلوم ہوئی۔ اصولِ کافی میں سیدنا جعفر صادقؒ کا فرمان ہے: عطیات جن پر مسلمانوں نے لشکر کشی نہیں کی، اموالِ صلح، بنجر زمین ، پست وادیاں ، رسول اللہﷺ اور آپ کے بعد خلیفہ تھے قبضہ و تصرف میں ہوتی ہیں جیسے چاہے ان کو (حق داروں) پر خرچ کرے۔

(اصولِ کافی جلد1صفحہ539)

فهو للرسول اللہﷺ وهو للا مام من بعده يضع حيث يشآء

 کتاب الخراج اور الفاروق کے حوالہ سے شیعہ مشتاق نے سیدنا علیؓ کا جو عمل نقل کیا ہے وہ ہماری تائید کرتا ہے۔

سیدنا علیؓ نے اگرچہ مصلحتاً بنو ہاشم کو خمس میں سے حصہ نہیں دیا لیکن رائے ان کی بھی یہی تھی کہ بنو ہاشم واقعی حق دار ہیں، سیدنا عمرؓ نے سادات و بنو ہاشم کی مال خمس و عطایا سے خوب کفالت کی۔ سیدنا عباسؓ و سیدنا علیؓ کو ان مالوں کا متولی بنایا۔ خود بھی مسلسل تقسیم کیا۔ سیدنا حسنینؓ کے اہلِ بدر کی طرح پانچ پانچ ہزار سالانہ وظائف مقرر کیے۔ 

(کتاب الخراج )

مشتاق رافضی(شیعہ)کا یہ لکھنا انتہائی جھوٹ اور بکواس ہے جس طرح دیگر احکام کو روشن نصوص کے باوجود قیاس اجتہاد کی نذر کیا گیا۔ اسی طرح رسولﷺ کی اولاد کا یہ حق بھی پامال کیا گیا۔ غالباً اس غصبیت کی وجہ اقتدار کا استحکام تھا کہ اہلِ بیتؓ کو مالی لحاظ سے لاغر رکھا جائے اور اس پالیسی کے نفاذ سے حکومت کو متعدد سیاسی فوائد حاصل ہوئے جن کا بیان خارج از موضوع ہے۔

(فروع دین:صفحہ78)

دراصل مذہبِ شیعہ سرمایہ داری کا حامل ہے پاکستان کے سرمایہ دار ارب پتی 22 خاندانوں کی اکثریت مذہبِ شیعہ رکھتی ہے۔ یہ لوگ اہلِ بیتؓ کو بھی جاگیردار اور خمس و فدک وغیرہ کا مستقل مالک اسی جذبے سے سمجھتے ہیں اور ان کی تشہیر سے اپنا مقصد بھی صرف دولت حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے اس کے لیے اہلِ بیتؓ کے مقام و کردار کو بھی داؤ پر لگا دیا ہے، مسئلہ فدک کے تنازعہ اور رسہ کشی کو بھی دیکھا جائے تو شیعہ مذہب کے باطل سرمایہ دار ہونے اور مقامِ اہلِ بیتؓ کے قاتل ہونے میں کوئی شبہ نہیں رہتا صحابہؓ دشمنی میں تو یہ لوگ کمیونسٹ بن جاتے ہیں اور کہتے ہیں:

اسلام کا بنیادی معاشی اصول یہ ہے کہ ضرورت سے فاضل رقم پر فردِ اسلام کا کوئی حق نہیں بلکہ اس کی حیثیت امین کی سی ہے۔

(فروع دین: صفحہ 84) 

(حالانکہ اسی فاضل رقم پر تو زکوٰۃ، حج اور صدقات کی عبادتیں قائم ہیں۔اگر فرد اسلام کا اس پر کوئی حق ملکیت نہیں تو پھر یہ عبادات بھی اس پر فرض نہیں)

لیکن جب سیدنا عمرؓ اور خلفائے رسولﷺ قرآنی اصول اور سنّتِ رسولﷺ کی روشنی میں حسبِ صوابدید مستحقین میں کمی بیشی کے ساتھ بانٹتے ہیں تو یہ ان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ نے اہلِ بیتؓ کا حق غصب کر لیا۔ ان کو خمس میں کمی بیشی کرنا درست نہ تھا۔ بنو ہاشم سب خمس کو اپنا ذاتی حق سمجھتے تھے وغیرہ۔

ذی القربیٰ کی تشریح میں سورۃ بنی اسرائیل کی آیت

وَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ 

(سورۃ بنی اسرائیل:آیت 26)  

درّ منشور وغیرہ کے حوالہ سے یہ لکھا ہے کہ: جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہﷺ نے سیدہ فاطمہؓ کو بلایا اور فدک عطا فرمایا: (فروع دین: صفحہ 79)

حالانکہ یہ روایت محض جعلی ہے۔ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ روم دونوں مکی ہیں، فدک کا اس وقت تصور بھی نہ تھا وہ تو 7 ھ میں مدینہ میں آیا تھا۔ مکہ میں تو سیدہ فاطمہؓ صغیر السّن تھیں نہ سیدنا علیؓ قرابت داران میں شامل ہوئے تھے نہ سیدنا حسنینؓ تھے، پھر جو روؤف و رحیم پیغمبرﷺ اپنی لختِ جگر کو بیتُ المال سے خادمہ نہیں دیتے بلکہ اسے عام فقراء کا حق قرار دیتے ہیں(کتب سیرت) وہ ایک بہت بڑی جائیداد اپنی بیٹی کو کیسے ہبہ کر دیتے ہیں۔ بلکہ بچپن میں قبلِ از حصول یہ پروگرام بناتے ہیں؟ دراصل یہ سرمایہ دار اور زر پرست شیعوں کا زاہد ترین رسولِ امینﷺ پر زبردست حملہ ہے۔(معاذ اللہ تعالیٰ)

زر پرست شیعہ مشتاق آخر میں یہ بڑھ مارتا ہے۔

اس کے برعکس شیعہ مذہب خمس کی ادائیگی متواتر کرنے کی تعلیم دے رہا ہے، خدا کے مقرر کردہ حصہ میں وہ کمی بیشی کرنا صحیح نہیں سمجھتا ہے اور اولادِ رسولﷺ کے حقوق کی پاسداری کر رہا ہے پس یہ مذہب یقیناً بہتر ہے۔ 

(فروع دین: صفحہ 86) 

ذاتی اغراض کے لیے خدا کے قانونِ زکوٰۃ میں ترمیم کر کے جو مسئلہ خمس شیعوں نے تراشا ہے اس کی جھلک ہم دکھا چکے ہیں پھر جس کا مال سادات تک پہنچتا ہے سب کو معلوم ہے کہ یہ رقمیں تو موٹی موٹی فیسوں کی شکل میں بڑے بڑے مرثیہ خوانوں مراثیوں، گلوکاروں، نوحہ خوانوں اور مرثیہ ذاکروں مجتہدوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں اور غریب سادات تو اہلِ سنّت کے گھروں اور کھلیانوں سے بھیک مانگ کر گزارہ کرتے ہیں۔ تجربہ و مشاہدہ سب سے بڑی دلیل ہے۔ رہی اولادِ رسولﷺ کے حقوق کی پاسداری یہ خوش نماء دلفریب لیبل ہے ورنہ دوست بن کر شیعوں نے جو اہلِ بیتؓ پر ظلم ڈھائے اور 313 مؤمنوں کے انتظار میں 1200 سال سے امام زمانہ شیعہ بارہواں امام آج بھی غار میں غائب ہے کسے معلوم نہیں ہے؟ مذہبِ شیعہ اس دنیاوی لحاظ سے یقیناً بہتر ہے کہ دھوکے سے اہلِ بیت رسول اللہﷺ کو بلا کر ذبح کرو پھر مظالم کی عمارت استوار کر کے خوب دولت کماؤ، عیاشی کرو ، جب سیاسی پاور حاصل ہو جائے تو انقلابِ ایران کی طرح مسلمانوں کو خوب مارو اور مرواؤ۔(معاذ اللہ)