Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

غزوہ تبوک

  علی محمد الصلابی

غزوۀ تبوک

9 ہجری میں ہرقل نے اپنا سازشی رخ جزیرہ عرب کی طرف اس کو ہڑپنے اور اس پر عدوان و سرکشی کے برے ارادے سے پھیرا، اور اپنی فوج کو تیاری کرنے اور حملہ کے لیے اس کے فرمان کے انتظار کا حکم جاری کیا، یہ خبریں رسول اللہﷺ کو مدینہ میں پہنچیں۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جہاد کی تیاری کا حکم فرمایا۔ سخت گرمی کا موسم تھا، جس میں پہاڑ بھی پگھل جائیں، اور ملک میں سخت خشک سالی تھی، اگر مسلمان ایمان کی قوت سے مہلک گرمی کا مقابلہ کرتے ہوئے دہکتے ہوئے صحرا پر سے گزرتے ہوئے جہاد کے لیے نکل پڑیں تو سامان جنگ اور جہاد کے اخراجات کہاں سے آئیں؟ ان حالات میں رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کو چندہ پر ابھارا۔ آپﷺ کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک نے اپنی وسعت بھر حصہ لیا اور چندہ جمع کیا۔ خواتین نے اپنے زیورات رسول اللہﷺ کی خدمت میں جہاد کے لیے پیش کیے، لیکن جو کچھ جمع ہوا ضروریاتِ جہاد کے لیے کافی نہ تھا۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی لمبی قطار پر نظر دوڑائی جو جذبہ جہاد سے سر شار تھے، اور فرمایا: کون ہے جو انہیں سامان جنگ فراہم کرے اور اللہ کی مغفرت حاصل کرے؟ 

جیسے ہی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کا یہ اعلان سنا اللہ کی مغفرت و رضوان کی طرف آگے بڑھے، اور اس طرح کمر توڑ تنگی کے لیے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سخی مہیا ہو گئے۔

(فتح الباری: جلد، 7 صفحہ، 67 خلفاء الرسول، صفحہ، 250 العشرۃ المبشرون بالجنۃ، محمد صالح عوض: صفحہ، 53)

آپؓ نے لشکر اسلام کی تمام ضروریات کو مہیا کیا، لگام و رسی بھی نہیں چھوڑی اس کا بھی انتظام فرمایا۔ 

سیدنا ابنِ شہاب زہری رحمۃ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک میں لشکر اسلام کے لیے نو سو چالیس (940) اونٹ اور ساٹھ گھوڑے فراہم کیے، ایک ہزار کی گنتی پوری کی اور رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر دس ہزار دینار (تقریباً ساڑھے پانچ کلو سونے کے سکے) نبی کریمﷺ کی آغوش میں بکھیر دیے۔ رسول اللہﷺ انہیں الٹتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے: 

ما ضر عثمان ما عمل بعد الیوم

ترجمہ: ’’آج کے بعد سیدنا عثمانؓ جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہو گا۔‘‘

(سنن الترمذی: صفحہ، 3785 صحیح التوثیق: صفحہ، 26)

اس غزوہ میں انفاق کرنے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سب سے آگے رہے۔

(السیرۃ النبویۃ فی ضوء المصادر الأصلیۃ: صفحہ، 615)

سیدنا عبدالرحمٰن بن حباب رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے انفاق سے متعلق بیان کرتے ہیں کہ میں اس وقت رسول اللہﷺ کے پاس موجود تھا جب آپﷺ لوگوں کو جیش عسرہ (چوں کہ غزوہ تبوک کے موقع پر حالات بڑے تنگ تھے سخت گرمی کا موسم تھا اس لیے لشکر کو جیش عسرہ کا نام دیا گیا۔) پر ابھار رہے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا، یا رسول اللہﷺ! میرے ذمہ اللہ کی راہ میں دو سو اونٹ ٹاٹ اور پالان کے ساتھ ہیں۔ پھر آپﷺ نے لوگوں کو ابھارا، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! اللہ کی راہ میں میرے ذمہ تین سو اونٹ ٹاٹ و پالان کے ساتھ ہیں، پھر میں نے دیکھا رسول اللہﷺ منبر سے اترنے لگے اور یہ فرمانے لگے: 

ما علی عثمان ما عمل بعد ھذہ، ما علی عثمان ما عمل بعد ھذہ۔

ترجمہ: ’’اس کے بعد سیدنا عثمانؓ جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہو گا اس کے بعد حضرت عثمانؓ جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہو گا۔‘‘ (سنن الترمذی: صفحہ، 3700)

سیدنا عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ نے جیش عسرہ کو تیار کیا تو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار اپنے کپڑے میں رکھ کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپﷺ اپنے دستِ مبارک سے اس کو پلٹتے جاتے اور فرماتے جاتے: 

ما ضر ابن عفان ما عمل بعد الیوم۔

ترجمہ: ’’آج کے بعد ابنِ عفان جو بھی کریں انہیں ضرر نہ ہو گا۔‘‘

 بار بار آپ یہی دہراتے تھے۔ (سنن الترمذی: صفحہ، 3702)

بظاہر اس جدید امت کے لیے گویا کہ آپؓ سرمایہ لگانے والے تھے۔ لشکر اسلام کا انتظام ہو جانے کے بعد رسول اللہﷺ انہیں لے کر روانہ ہوئے، اور دمشق و مدینہ کے درمیان تبوک کے مقام پر جا پہنچے، وہاں خوش کن خبریں آپﷺ کو پہنچیں کہ ہرقل جو دمشق سے جزیرہ عرب پر حملہ کی تیاری کر رہا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے عزم کو پسپا کر دیا۔ رسول اللہﷺ کی روانگی کی خبر پا کر اپنے رسوا کن منصوبہ سے دست بردار ہو کر وہ دمشق سے جا چکا ہے۔ اسلامی لشکر اپنے ان تمام ساز و سامان کے ساتھ واپس ہوا جو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے فراہم کیا تھا، تو کیا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسے واپس لے لیا، ہرگز نہیں، سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتے تھے، بلکہ آپ نبی کریمﷺ کے بذل و عطا کے ہر اشارہ پر فوراً لبیک کہنے والے رہے۔

(خلفاء الرسول: صفحہ، 138 العشرۃ المبشرون بالجنۃ: صفحہ، 31)