رجعت
ابو عبداللہرجعت
قرآن مجید اور ارشادات رسول اللہﷺ کے تواتر سے حضراتِ اہلِ سُنّت کے اس عقیدہ کی تائید ہوتی ہے کہ تمام سُنّی بنی آدم قیامت ہی میں زندہ کئے جائیں گی اور اللہ رب العزت کی جانب سے جزا و سزا کےمستحق ٹھہریں گے اور اللہ ہی کی طرف سے ثواب و عذاب کا فیصلہ ہوگا۔ اس کے برخلاف حضرات روافض کا عقیدہ ہے کہ امام مہدی کے ظہور کے وقت بھی اسی قسم کا معاملہ ہوگا اور اسے یہ حضرات رجعت کا نام دیتے ہیں اردو زبان میں حضرات روافضی کی عقائد و اعمال پر مستند ترین کتاب میں رجعت کا بیان اس طرح ہے:
اور ایمان لانا رجعت پر بھی واجب ہے یعنی کہ جب
امام مہدی ظہور و خروج فرمائیں گے اس وقت مومن خاص اور کافر اور منافق مخصوص زندہ ہوں گے اور ہر ایک اپنی داد اور انصاف کو پہنچے گااور ظالم سزا و تعزیز یادے گا۔
( تحفة العوام صفحہ 5)
اس کے علاوہ بھی تمام کتب شیعہ میں جہاں کہیں بھی امام مہدی کے ظہور کا ذکر ہے اس سے مراد وہی رجعت ہے جس کی وضاحت پر سب سے زیادہ مواد مجلسی کی حق الیقین میں ہے اور یہ تمام مواد تمام کتب شیعہ کا اس موضوع پر نچوڑ ہے جس کی شہادت خود مصنف موصوف نے دی ہے اس حق الیقین کا اردو تر جمہ دو جلدوں میں مشہور شیعہ عالم سید بشارت حسین نے کیا ہے چونکہ اصل بیان خاصہ طویل ہے اس لئے تقیہ کو مد نظر رکھ کر کئے جانے والے ترجمہ ہی سے ہم استفادہ کریں گے۔
ترجمہ حق الیقین کی دوسری جلد میں صفحہ 5 پر نواں باب مقدمہ رجعت کے ثبوت میں کا عنوان قائم کر کے صفحہ 24 تک ان صاحب نے اڑتیس صفحات کو اپنی جہنم کا ایندھن بنایا اس میں جہاں آیاتِ قرآنی اور احادیثِ نبیﷺ کا حلیہ بگاڑ کر جہاں رجعت کا ثبوت پیش کرنے کی کوشش کی ہے وہاں اس میں وہ عجیب و غریب باتیں اور قصے کہانیاں ہیں جن سے حقیقت کا کوئی تعلق نہیں خیر تبصرے سے ہٹ کراڑتیس صفحات کا خلاصہ یا رجعت کی رام کھتا انہی کی زبانی سنیئے:
واضح ہو کہ شیعہ کے اجماعی مسئلوں میں سے بلکہ فرقہ حقہ کے مذہب حق کی ضروریات سےحقیت رجعت ہے۔
اکثر علماء شیعہ نے رجعت پر اجماع کیا ہے۔
من لا یحضرہ الفقیہ روایت کی ہے، امام جعفر صادق سے: کہ وہ شخص ہم سے تعلق نہیں رکھتا جو ہماری رجعت پر ایمان نہ رکھتا ہو اور متعہ کو حلال نہ جانتا ہو اس حقیر (مؤلف) نے کتاب بحار الانوار میں 200 سے زائد حدیثیں چالیس سے زیادہ مصنفین علماء امامیہ سے نقل کی ہیں
جنہوں نے 50 معتبر اصل کتابوں سے درج کی ہیں۔(صفحہ 5)
قرب قیامت کی نشانیوں میں سے قرآنِ عظیم میں ایک نشانی یہ بھی بیان ہوتی ہے کہ اس وقت زمین سے ایک عظیم الجثہ جانور برآمد ہوگا قرآنِ عظیم میں اس کے لئے دابتہ الارض کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ بعثت کے ثبوت میں ان آثارِ قیامت کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہوئے جناب رقمطراز ہیں :
بہت سی حدیثوں میں وارد ہوا ہے کہ اس دابتہ الارض سے مراد علی علیہ السلام ہیں
کچھ ہی آگے مزید رقمطراز ہیں :
جناب امیر علیہ السلام نے فرمایا:
اورجب خدا نے پیغمبروں کی روحیں پیدا کیں تو ان سے عہد و پیمان لیا کہ ہم پر ایمان لائیں اور ہماری مدد کریں۔ (صفحہ8)
حضرت نے فرمایا:
میں ہوں خدا کابندہ رسول خدا کا بھائی میں ہوں امین خدا اور علم خدا کا خزینہ دار اور خدا
کے اسرار کا صندوق اور حجابِ خدا اور وجہ خدا ہوں
اور ہم ہیں خدا کے اسماء الحسنٰی اور اس کے امثال علیا اور اس کے آثار کبریٰ اور میں ہوں جنت ودورخ کے تقسیم کرنے والا( صفحہ 9)
امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام آئیں گے اور یہ آپ کی آخری واپسی ہوگی راوی نے پوچھا کیا بہت سے رجعتیں ہوں گی (یعنی کہ حضرت بہت مرتبہ واپس آئیں گے ) فرمایا ہاں۔(صفحہ 10)
اس کے بعد پہلے کی طرح قرآنِ عظیم کی آیتیوں میں بگاڑ پیدا کر کے اپنے مؤقف پر ثبوت فراہم کرنے کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے آگے چل کر صفحہ 18 پر
رقمطراز ہیں :
اور جب ہمارا قائم ظاہر ہوگا عائشہ کو زندہ کرے گا تاکہ اس پر حد جاری کر سکے جب قائم علیہ
السلام ظاہر ہوں گے خدا ان کی ملائکہ سے مدد کرےگا اور سب سے پہلے جو شخص ان کی بیعت کرے گا وہ محمد ہوں گے اوران کے بعد علی ہوں گےاور قائم علیہ السلام کےظہور کی علامتوں میں سے ایک علامت یہ ہے کہ حضرت علیہ السلام برہنہ بدن قرص آفتاب کے سامنے ظاہر ہوں گے۔(صفحہ 18)
اس کے بعد مزید کہانیوں گویا داستان ہزار کی طرح
بے تکی ہانک کر قمطراز ہیں:
پھر حضرت کعبہ کی جانب پشت کر کے کھڑے ہوں گے اور دستِ موسیٰ کی مانند اپنا ہاتھ نکالیں ہوں گے جس کا نور تمام عالم کو روشن کر دے گا اور فرمائیں گے جو اس ہاتھ پر بیعت کرے گا ایسا ہے کہ اس نے خدا سے بیعت کی۔
(صفحہ30)
اس تمام دن صاحب امر علیہ السلام کعبہ سے پشت لگائے کہیں گے کہ جو شخص چاہے کہ آدم نوح، سام، ابراہیم، اسماعیل، موسیٰ، یو شع ، عیسیٰ اور شمعون علیہ السلام کو دیکھے تو وہ مجھے دیکھے کیونکہ علم و کمال سب میرے پاس ہے اور جو شخص چاہے کہ محمد وعلی وحسن و حسین علیہم السلام کی زریعت سے آئمہ اطہار کو دیکھے تو وہ مجھے دیکھے اور جو چاہے مجھے سے سوال کرے کیونکہ وہ تمام علم میرے پاس ہے جن کی ان حضرات نے مصلحت نہ سمجھی اور خبرنہ دی۔پھر قرآن کو پڑھیں گے جس طرح کہ حق تعالیٰ نے جنابِ رسولِ خداﷺ پر نازل فرمایا تھا بغیر اس کے کچھ زد و بدل ہوا ہو جیسا کہ دوسرے قرانوں میں ہوا۔(صفحہ 31)
مفصل نے پوچھا کہ حضرت علیہ السلام خانہ کعبہ کا کیاکریں گے حضرت نے فرمایا منہدم کردیں گے ۔ (صفحہ 32)
اسی صفحہ پر مصنف موصوف امام مہدی کے لشکر اور اہلِ مکہ کے خارج از ایمان ہونے کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
اور جب یہ لشکر مکہ واپس آئے گا تو 100 میں سے ایک شخص بھی ایمان نہ لائے گا بلکہ ہزار میں سے ایک بھی ایمان نہ لائے گا(صفحہ32)
آگے مصنف موصوف اپنے تعصب کا اظہار اس طرح کرتے ہیں:
امام جعفر صادق نے ایک آہ کھینچی اور فرمایا اے مفصل بے شک زمین کے ٹکڑوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا اور کعبہ معظمہ نے زمین کربلائے معلیٰ پر فخر کیا تو خدا نے کعبہ کو وحی کی کہ ساکت رہ اور کر بلا پر فخرمت کر کیونکہ وہ بقعہ مبارکہ ہے۔
(صفحہ 33)
آخر کار صفحہ نمبر 34 اور 35 پر وہ نقشہ کھینچا کہ حضراتِ خلفاء راشدین سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کو مہدی روضۂ رسول اللہﷺ کی حرمت پامال کر کے اٹھائیں گے یعنی کہ زندہ کریں گے اور ان حضرات سے محبت والفت رکھنے والوں کو ہلاک کریں گے اس کے بعد جناب لکھتے ہیں : پھر یہ ظلم و جور جو ابتدائے عالم سے آخر تک ہوا ان سب کا گناہ ان کی گردن پر لازم قراردیں گے۔
( صفحہ35)
اس کے بعد من گھڑت عدالت و تعزیر کی نقشہ کشی کرنے کے بعد رقمطراز ہیں :
ان پر عذاب کیا جائے گا یہاں تک کہ ایک شبانہ روز
میں ہزار مرتبہ ان کو مارڈالیں گے اور زندہ کریں گے
اور پھر خدا جہاں چاہے گا ان کو لے جائے گا اور
معذب کرے گا۔
(صفحہ 35)
غرض یہ کہ اس کے بعد مزید شکایتوں ،قتال و جدال اور قیامت سے پہلے قیامت کی راگنی الانپ کر اور 38 صفحات اپنے نامہ اعمال کی سیاہی سے سیاہ کرنے کے بعدصفحہ 42 پر آخری سطر میں اس باب کا اختتام ان الفاظ میں کرتے ہیں:
یہ حدیث بہت طویل ہے ہم نے جس قدر اس مقام کے مناسب تھا درج کر دیا ہے۔
( صفحہ42)