سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا
نقیہ کاظمیسیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا:
ولادت با سعادت: سیدہ فاطمہؓ حضور نبی کریمﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔
ان کی والدہ کا نام بھی سیدہ خدیجہؓ ہے سیدہ فاطمہؓ بعثتِ نبوی کے بعد جب حضور نبی کریمﷺ کی عمر مبارک اکتالیس سال تھی مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئیں۔بعض سیرت نگاروں کے نزدیک سیدہ فاطمہؓ کی ولادت جس زمانہ میں قریش کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے اس وقت ہوئی اس وقت حضورﷺ کی عمر مبارک پینتیس سال تھی رجوع کر سکتے ہیں۔
(طبقات ابنِ سعد: جلد، 8 صفحہ، 11 الاصابہ لابنِ حجر: جلد، 4 صفحہ، 563 الاصابہ فی تمیز الصاحبہ: جلد، 4 صفحہ، 563)
سیدہ فاطمہؓ حضورﷺ کی صاحزادیوں میں سب سے چھوٹی صاحبزادی ہیں۔
اسم گرامی: ان کا اسم گرامی فاطمہ ہے اور ان کے القاب میں زہرا، بتول، زاکیہ، راضیہ، طاہرہ، بضعۃالرسول خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
پرورش: ان کی پرورش اور تربیت سیدہ خدیجہؓ اور حضور نبی کریمﷺ نے فرمائی۔
شمائل اور خصائل:
حدیث شریف کی کتابوں میں سیدہ فاطمہؓ کے متعلق ان کی سیرت اور طرزِ طریق کو محدثین اس طرح ذکر کرتے ہیں کہ:
فاقبلت فاطمہؓ تمشی ماتخطئی مشیۃالرسولﷺ شیاَ۔
ترجمہ: یعنی جس وقت سیدہ فاطمہؓ چلتی تھیں تو آپؓ کی چال ڈھال اپنے والد جناب نبی کریمﷺ کے بلکل مشابہ ہوتی تھی امُ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ میں قیام و قعود نشست و برخاست عادات و اطوار میں سیدہ فاطمہؓ سے زیادہ مشابہ کسی کو نہیں دیکھا۔
(مسلم شریف: جلد، 2 صفحہ، 290 الاستیعاب: جلد، 4 صفحہ، 363، حلیۃالاولیا لابی نعیم الصفہانی: جلد، 2 صفحہ، 93)
شعب ابی طالب میں محصوری:
اسلم کا راستہ روکنے کے لیے کفارِ مکہ نے حضورﷺ کے خاندان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ازواجِ مطہراتؓ اور بناتؓ کو تین سال تک شعب ابی طالب میں محصور کر دیا سیدہ فاطمہؓ نے یہ صبر آزما لمحات اپنے اعزہ و اقارب اور عظیم والدین کے ہمراہ صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کئے۔
ہجرت:
حضور نبی کریمﷺ ہجرت فرما کے مدینہ تشریف لے گئے اس وقت سیدہ امِ کلثومؓ اور سیدہ فاطمہؓ مکہ میں تھیں حضورﷺ نے انہیں لانے کے لیے سیدنا زید بن حارثہؓ اور سیدنا ابو رافعؓ کو متعین فرمایا اور دو اونٹ دیے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے پانچ درہم زادِ راہ کے لیے دیے یہ دونوں بناتِ طیبات ان کے ہمراہ مدینہ تشریف لائیں۔
(البدایۃ لابنِ کثیر: جلد 3 صفحہ 202)
نکاح: ماہِ رجب 2 ہجری میں سیدہ فاطمہؓ کا نکاح سیدنا علی المرتضیٰؓ سے ہوا نکاح کے وقت سیدنا علیؓ کی عمر اکیس یا چوبیس برس اورسیدہ فاطمہؓ کی عمر پندرہ یا اٹھارہ برس تھی۔
(تفسیر القرطبی: جلد، 41 صفحہ، 142)
اس نکاح کے گواہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور سیدنا عمر فاروقؓ تھے ۔
(ذخائرالعبقعی المحب الطبری: صفحہ، 30)
سیدہ فاطمہؓ کے مکان کی تیاری:
نبی کریمﷺ نے اپنی لخت جگر کی رخصتی کے لیے تمام تیاری سیدہ عائشہؓ کے سپرد فرمائی سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں اس موقع پر سیدہ امِ سلمہؓ بھی اس کام میں ان کی معاون تھیں کہ ہم نے وادی بطحاء سے اچھی قسم کی مٹی منگوائی جس سے اس مکان کو لیپا پونچا اور صاف کیا پھر ہم نے اپنے ہاتھوں سے کھجور کی چھال درست کر کے دو گدے تیار کیے اوع خرما اور منقی سے خوراک تیار کی اور پینے کے لیے شیریں پانی مہیا کیا پھر اس مکان کے ایک کونے میں لکڑی گاڑ دی تاکہ اس پر کپڑے اور مشکیزہ لٹکایا جا سکے سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں کہ:
فما راینا عرسا احسن من عرس فاطمہؓ۔
ترجمہ: یعنی سیدہ فاطمہؓ کی شادی سے بہتر ہم نے کوئی شادی نہیں دیکھی۔
(السنن لابنِ ماجہ: صفحہ، 931 مسنداحمد: جلد، 1 صفحہ، 401)
جہیز: سرکارِ دو عالمﷺ نے اپنی لخت جگر کو جو جہیز دیا مختلف روائتوں کے مطابق اس کی تفصیل یہ ہے۔
- بستر مصری کپڑے کا جس میں اون بھری ہوئی تھی۔
- ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔
- ایک مشکیزہ۔
- دو مٹی کے گھڑے۔
- ایک چکی۔
- ایک پیالہ۔
- دو چادریں۔
- ایک جائے نماز۔
(مسند احمد: جلد، 1 صفحہ، 104)
فضائل سیدہ فاطمہؓ بزبانِ نبی مکرمﷺ:
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:
الفاطمۃؓ سیدۃ نساء اھل الجنۃ۔
ترجمہ: سیدہ فاطمہؓ جنت کی عورتوں کی سردار ہے۔
(البدایۃ)
صحیح بخاری میں روایت ہے کہ نبی کریمﷺ فرماتے ہیں کہ سیدہ فاطمہؓ خواتینِ امت کی سردار ہے سیدہ فاطمہؓ میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے اسے تنگ کیا اس نے مجھے تنگ کیا اور جس نے مجھے تنگ کیا اس نے اللہ تعالیٰ کو تنگ کیا جس نے اللہ تعالیٰ کہ تنگ کیا قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا مؤاخذہ کرے۔
آپﷺ نے ارشاد فرمایا: تمہاری تقلید کے لیے تمام دنیا کی عورتوں میں حضرت مریم علیہا اسلام، سیدہ خدیجہؓ، سیدہ فاطمہؓ اور حضرت آسیہ علیہا السلام کافی ہیں۔
(ترمزی شریف)
اولاد سیدہ فاطمہؓ:
سیدہ فاطمہؓ کواللہ تعالیٰ نے پانچ اولادیں عطا فرمائیں تین لڑکے اور دو لڑکیاں جن کے نام یہ ہیں۔
سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ سیدہ زینبؓ سیدہ امِ کلثومؓ سیدنا محسنؓ۔
سیدنا محسنؓ صغر سنی میں فوت ہو گئے تھے سیدہ امِ کلثوم بنتِ علیؓ کا نکاح سیدنا عمر فاروقؓ سے 71 ہجری میں ہوا اور دوسری بیٹی سیدہ زینب بنتِ علیؓ کا نکاح سیدنا عبداللہ بن جعفر طیارؓ سے ہوا ۔
(نسب قریش: صفحہ، 52)
سیدہ فاطمہؓ کی عبادت و شب بیداری:
سیدنا حسن بن علیؓ فرماتے ہیں میں نے اپنی والدہ کو گھر کے کام دھندوں سے فرصت پانے کے بعد صبح سے شام تک محراب عبادت میں اللہ کے آگے گریہ وزاری کرتی، خشوع و خضوع کے ساتھ اس کی حمد وثنا کرتے، دعائیں مانگتے دیکھا کرتا یہ دعائیں وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمام مسلمان مردوں اور عورتوں کے لیے مانگتی تھی۔
ایثار و سخاوت:
ایک دفع کسی نے سیدہ فاطمہؓ سے پوچھا چالیس اونٹوں کی زکوٰۃ کیا ہو گی؟ سیدہ فاطمہؓ نے فرمایا تمہارے لیے صرف ایک اونٹ اور اگر میرے پاس چالیس اونٹ ہوں تو میں سارے کے سارے ہی راہ خدا میں دے دوں۔
انتقالِ نبوی پر سیدہ فاطمہؓ کا اظہار غم:
جب نبی کریمﷺ پر مرض کی شدت نے اضافہ کیا تو سیدہ فاطمہؓ پریشانی کے عالم میں فرمانے لگیں: ذاکرب ابا۔ افسوس ہمارے والد کی تکلیف نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ آج کے بعد تیرے والد کو کوئی تکلیف نہیں پھر جب آپﷺ کا ارتحال ہو گیا اور آپﷺ دارِ فانی سے دارِ بقاء کی طرف انتقال فرما گئے۔
اللھم صلی علی محمد وعلی اٰل محمد و بارک وسلم
حضورﷺ کی رحلت پر نہایت درد و سوز کے عالم میں فرمایا تھا:
صبت علی مصائب لوانھا صبت علی الایام سرن لیالا۔
ترجمہ: مجھ پر مصیبتوں کے اس قدر پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں کہ اگر یہی مصیبتوں کے پہاڑ دنوں پر ٹوٹے تو دن رات بن جاتے۔
سیدہ فاطمہؓ کی مرضُ الوفات اور ان کی تیمارداری:
نبی کریمﷺ کے وصال کے بعد سیدہ فاطمہؓ نہایت مغموم رہتی تھی اور یہ ایام انہوں نے صبر اور سکون کے ساتھ پورے کئے۔ آپؓ کی عمر اٹھائیس یا انتیس برس تھی آپؓ بیمار ہوگیں ان بیماری کے ایام میں آپؓ کی تیمارداری اور خدمات سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیوی سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ سر انجام دیتی تھی۔
سیدہ فاطمہؓ کا انتقال:
حضور نبی کریمﷺ کے وصال کے چھ ماہ بعد سیدہ فاطمہؓ بیمار ہوئیں اور چند روز بیمار رہیں پھر تین رمضان گیارہ ہجری منگل کی شب اٹھائیس یا انتیس برس کی عمر مبارک میں آپؓ کاانتقال ہوا۔
(البدا یۃ والنہایۃ: جلد، 6 صفحہ، 433)
سیدہ فاطمہؓ کا غسل اور سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کی خدمات:
سیدہ فاطمہؓ نے وفات سے پہلے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی بیوی سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ کو وصیت کی تھی کہ آپ مجھے بعد از وفات غسل دیں اور سیدنا علیؓ ان کے ساتھ معاون ہوں چناچہ سیدہ اسماء بنتِ عمیسؓ نے آپؓ کے غسل کا انتظام کیا اور آپؓ کے ساتھ نبی کریمﷺ کے غلام سیدنا ابورافعؓ کی بیوی سیدہ سلمیٰؓ اور سیدہ امِ ایمنؓ شریک تھیں سیدنا علی المرتضیٰؓ اس سارے انتظام کی نگرانی فرمانے والے تھے۔
(اسد الغابہ جلد، 5 صفحہ، 874 البدایۃ والنہایۃ جلد، 6 صفحہ، 333 ،حلیۃالاولیا: جلد، 3 صفحہ، 34)
سیدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ:
جب سیدہ فاطمہؓ کی نمازِ جنازہ پڑھنے کا مرحلہ پیش آیا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروقؓ اور تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو اس موقعہ پر موجود تھے تشریف لائے سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا علی المرتضیٰؓ سے فرمایا آپؓ آگے تشریف لا کر جنازہ پڑھائیں جواب میں سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا کہ آپؓ خلیفہ رسولﷺ ہیں میں آپؓ کی موجودگی میں جنازہ پڑھانے کے لیے پیش قدمی نہیں کر سکتا۔
نمازِ جنازہ پڑھانا آپؓ ہی کا حق ہے آپؓ تشریف لائیں اور جنازہ پڑھائیں اس کے بعد کچھ روایات کے مطابق سیدنا ابوبکر صدیقؓ آگے تشریف لائے اور سیدہ فاطمہؓ کا جنازہ پڑھایا۔
(طبقات ابنِ سعد جلد، 8 صفحہ 91 کنز العمال جلد، 6 صفحہ، 813)
نمازِ جنازہ کے بعد سیدہ فاطمہؓ کو رات کو ہی جنتُ البقیع میں دفن کیا گیا اور دفن کے لیے سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا عباسؓ اور سیدنا فضل بن عباسؓ قبر میں اترے۔
رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
دعائیہ کلمات:
اولادِ رسولﷺ کا مختصر تعارف کے عنوان سے نبی کریم سردار دو عالمﷺ کی مقدس اور پاک اولاد کے مختصر حالات اور مقام و مرتبہ کے بیان کے لیے یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے اللہ کریم اپنے دربار میں قبول فرمائے اور تمام مسلمانوں کو اس سے فائدہ پہنچائے اور آخرت میں ان مقدس ہستیوں کی شفاعت نصیب فرمائے آمین ۔
صلی اللہ تعالیٰ علی محمد وعلیٰ آلہ وازواجہ وبناتہ واصحابہ اجمعین۔