Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مقدمہ

  امام ابنِ تیمیہؒ

 مقدمہ

اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:
﴿ یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْ قَوَّٓامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَائَ بِالْقِسْطِ وَلَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰی اَنْ لَّا تَعْدِلُوْا، اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِّمَا تَعْمَلُوْنَ﴾
’’مسلمانو! اللہ واسطے انصاف کیساتھ گواہی دینے والے بن جاؤاور لوگوں کی دشمنی تم سے بے انصافی نہ کرائے انصاف کرو انصاف ہی پرہیزگاری کے قریب ترہے اور اللہ سے ڈرو کیونکہ اللہ تعالیٰ کو خبر ہے جو تم کرتے ہو۔‘‘
یہ حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کے طویل وقفہ کے بعد دین اسلام کا ظہور و انتشار تاریخ کا عظیم ترین واقعہ ہے۔ دین اسلام کا مقصد وحید اقامت حق و صواب ہے، خواہ اس کا تعلق ماضی سے ہو یا مستقبل سے؛ اتفاق ہو یا اختلاف معاملات ہوں یا احکام، علمی مباحث ہوں یا تنظیمی امور؛ یا انسانی بہبود کے سلسلہ میں تعاون و اشتراک ان جملہ امور میں حق و انصاف کی جو شعاع نظر آئے گی وہ شمع اسلام ہی کی ضیاء پاشیوں کا نتیجہ ہوگی۔ تاریخ ادیان میں دین اسلام کی عظمت و شرافت کے لیے یہی بات کافی ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اسے دین حق کے لقب سے نوازا۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰی وَدِیْنِ الْحَقِّ﴾ [التوبہ:۳۳]
’’وہ ہستی جس نے اپنے رسولوں کو ہدایت اور دین حق دیکر مبعوث فرمایا۔‘‘
دین اسلام مسلمانوں کو دعوت دیتا ہے کہ جادہ عدل و انصاف پر قائم رہیں ، اپنے علم کی حد تک انصاف کیساتھ شہادت دیں اور نہ صرف دارالاسلام بلکہ جملہ اطراف ارضی میں عدل و انصاف کا بول بالا کریں اور اس کے لیے مصروف جہد و سعی رہیں اور اس میں کد و کاوش کا کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں ۔ اگرچہ قیام عدل و انصاف سے بذات خود انہیں یا ان کے آباء و ابناء کو نقصان کیوں نہ پہنچتا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ حق و عدل کا قیام و بقاء اور شہادت حق اسلام کی اساس اولیں اور اس کا امتیازی شعار ہے۔ بنا بریں اہل اسلام پر یہ فریضہ عائد ہوتا ہے کہ وہ خوش دلی سے طہارت فکر و نظر ؛رضائے الٰہی اور مخلوقات الٰہی کے سکون و اطمینان کے پیش نظر عدل و انصاف میں ممتاز ہوں ۔ نظام اسلام میں عدل کا شمار تقویٰ کے امور میں ہوتا ہے۔ اور تقویٰ وہ بہترین وصف ہے
جو مسلمانوں کے مابین معیار عزت و شرف ہے۔ ذات باری تعالیٰ بخوبی آگاہ ہے کہ کون تقویٰ سے بہرہ ور ہے اور کون اس سے تہی دامن ہے؛ اس سے کوئی بات پوشیدہ نہیں ۔
دین اسلام کی یہی وہ حسین و جمیل صورت تھی جس کیلئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تیار کیا اور انہیں اس قابل بنایا کہ بنی نوع انسان کو دعوت دینے میں آپ کے جانشین قرار پائیں ۔چنانچہ آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد نبوی سے متصل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں دارفانی کو خیر باد کہہ کر جب ’’ الرفیق الاعلیٰ ‘‘ سے ملاقات کی تو آپ بے حد مسرور و مطمئن تھے۔ آپ کے برگزیدہ و منتخب صحابہ تحفظ دین کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے تھے۔ یہ اصحاب کرام خلیفہ رسول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں اپنے نفوس و قلوب کو اﷲکی طاعت و عبادت میں جھکائے رکھتے۔ یاد رہے یہ وہی ابوبکر ہیں جن کی شان میں ، نیز ان کے محب مخلص حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے متعلق، ان کے بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ کلمات ارشاد فرمائے تھے:
(( أَلَاخَیْرُ ہَذِہِ الْاُمَّۃِ بَعْدَ نَبِیِّہَا اَبُوْبَکْرٍ ثُمَّ عُمَرُ۔))
سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ(حدیث:۱۰۶)
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے بہترین فرد ابوبکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ ہیں ۔‘‘
آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے فوراً بعد صحابہ کرام نے جزیرہ عرب میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی کی اور جہاد کے لیے اسی طرح صف آرا ہوئے جیسے وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں نماز کے لیے صفیں باندھا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فوجیں رسالت محمدی کی امانت اٹھائے عازم عراق و شام ہوئیں اور قریبی اقوام تک پہنچ کر دم لیا۔ ان کے مخلصانہ جہاد کا نتیجہ یہ تھا کہ تائید ربانی نے ان کا ساتھ دیا اور جن علاقوں میں خلیفہ اول کے سپہ سالاروں کے جھنڈے لہرا رہے تھے، وہاں ’’ حَیّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ کی صدائیں گونجنے لگیں ۔عہد صدیقی کے نامور سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ، خالد بن ولید، عمرو بن العاص اور یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہم تھے۔ جن قوموں سے بھی ان کا واسطہ پڑا، یہ ان کے حق میں اسلام کے معلم و داعی اور اﷲ و رسول کے پیام رساں ثابت ہوئے۔ 
ان کی مخلصانہ دعوت کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان دیارو امصار میں ان کی خوب پذیرائی ہوئی، شہروں کے دروازے ان کے لیے کھل گئے اور وہاں کے رہنے والوں نے ان کی تعلیمات و ارشادات پر لبیک کہا۔وادیٔ دجلہ وفرات اور دیار شام میں جب اﷲ کی نصرت وتائید سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہر طرح مسرور ومطمئن ہوگئے تو رب ذوالجلال نے انہیں عالم آخرت میں صحبت نبوی کے لیے پسند فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی معیت بخشی جیسا کہ دنیا میں وہ اس سعادت سے بہرہ اندوز ہوچکے تھے۔
چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ آپ کے بعد کشتیٔ اسلام کے ناخدا قرار پائے اور جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے:’’ آپ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بعد امت محمدی کے افضل ترین فرد تھے ۔‘‘ (مسند احمد(۱؍۱۰۶) من عدۃ طرق)
کاروانِ اسلام اﷲ کی نصرت وحفاظت میں رواں دواں رہا ۔چنانچہ دعوت محمدی کی علم بردار فوجیں ایک طرف سے وادیٔ نیل اور وہاں سے شمالی افریقہ تک جا پہنچیں اور دوسری جانب ایران کی آخری سرحد تک پہنچ کر دم لیا ۔جب حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے یہود ومجوس کی دسیسہ کاریوں سے جام شہادت نوش فرمایا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دو قدیم رفقا کی رفاقت آسان کردی تو مسلمانوں نے خلافت کیلئے ایک پاکیزہ خصال ،رحم دل ،حافظِ قرآن ،سخی اورحوادث روزگار پر صبر کرنے والی شخصیت کو پسند کیا.... وہ تھے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔
آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے (یکے بعد دیگرے) عقد نکاح باندھا اور اگر آپ کی تیسری بیٹی ہوتی توبھی آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو دوسروں پر ترجیح دیتے۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چیدہ و برگزیدہ اصحاب کے مخلص بھائی اور ان کے بیٹوں کے شفیق باپ تھے ۔تابعین کبار میں سے حسن بصری اور ان کے معاصر ابن سیرین کا بیان ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں امت ہر طرح خوشحال تھی اور ہر طرف امارت و ثروت کا دور دورہ تھا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بہادر مجاہدین نے اسلامی جھنڈوں کو سر زمین قفقاز میں جا لہرایا جب کہ کسریٰ کے سپہ سالار وہاں پہنچنے کی امید بھی نہیں کرسکتے تھے۔ بہر کیف مشرقی اور مغربی اقوام نے صحابہ کی سیرت وکردار ان کے عدل وانصاف رفق وتدبّر اور راہ حق پر استقامت واستقلال سے اسلام کا سبق سیکھا اور اسی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کی تصدیق ہوئی۔ ارشاد ہوتا ہے:
((خَیْرُالقُرُوْنِ قَرْنِیْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَہُمْ))
’’ بہترین میرا زمانہ ہے پھر وہ لوگ جو انکے قریب ہیں ؛ پھر وہ جو ان کے قریب ہیں ۔‘‘
امام ربّانی احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں یہ حدیث بروایت عبیدہ سلمانی قاضی کوفہ انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔[مسند احمد (۱؍۳۷۸،ح:۳۵۸۳) ، صحیح بخاری۔ کتاب الشھادات۔ باب لا یشھد علی شھادۃ جور اذا اشھد (ح:۲۶۵۲)، صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم ،(ح:۲۵۳۳)]
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح کی کتاب نمبر ۶۲ باب اول میں یہ روایت حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بیان کی ہے۔[صحیح بخاری۔ (ح:۲۶۵۱،۲۶۵۰)،صحیح مسلم (ح: ۲۵۳۵)] عمران فتح مکہ کے دن عسکر نبوی میں قبیلہ خزاعہ کے علمبردار تھے ۔[الاصابۃ (۵؍۲۷)۔]
امام مسلم نے اپنی صحیح میں یہ روایت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے۔[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم، (ح: ۲۵۳۶)]
مذکورہ بالاحدیث نبوی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک ہے۔ اسلام کو جو عزت وعظمت اور استقامت دور صحابہ ،تابعین وتبع تابعین میں حاصل ہوئی آئندہ ادوار میں نصیب نہ ہوسکی۔ اموی خلافت پر اس مبارک عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ بنو عباس کے وہ اوّلین خلفاء جنھوں نے اموی ماحول میں تربیت پائی تھی اسی عہد میں شامل ہیں ۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ ائمہ اسلام کا اتفاق ہے کہ تبع تابعین میں سے آخری شخص جس کا قول مقبول ہے وہ ہے جو ۲۲۰ھ تک بقید حیات رہا۔ اس کے بعد بدعات کا دور دورہ ہوا اور حالات بڑی حد تک بدل گئے۔‘‘[فتح الباری ج۷ ص۴۔]
اس مبارک زمانہ کو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’خیر القرون‘‘ سے تعبیر فرمایا تھا۔ جو آپ کی صداقت کی زبر دست دلیل ہے۔یہ اسلام کازرّیں دور تھا ۔دین اسلام نے اس سے بڑھ کر نہ کبھی خیر وبرکت کا مشاہدہ کیا نہ اہل اسلام نے اس سے بڑھ کر کبھی عزّوشرف حاصل کیا نہ اس دور سے بہتر کبھی جہاد خالص دیکھا گیا نہ کرۂ ارضی کے دور افتادہ گوشوں تک کبھی دعوت اسلام اس وسعت کے ساتھ پہنچی ،اسی عصر وعہد میں حفاظ قرآن نے اکناف ارضی تک پہنچ کر لوگوں کو قرآن سے روشناس کرایا ۔نوجوان تابعین مختلف دیار وامصار میں پہنچ کر وہاں کے رہنے والے صحابہ سے حدیث نبوی کی تعلیم حاصل کرنے لگے۔مباداکہ صحابی کی موت سے وہ احادیث بھی ناپید ہوجائیں جو ان کے سینہ میں محفوظ ہیں ۔پھر تبع تابعین کا زمانہ آیا۔ وہ ہر ایسے خطۂ ارضی میں پہنچے جہاں کبار تابعین اقامت گزین تھے۔ اور ان سے وہ امانت حاصل کی جو انھوں نے صحابہ کرام سے سن کر یاد کر رکھی تھی۔ علیٰ ھٰذاالقیاس سنت نبوی کی یہ امانت ان لوگوں تک پہنچی جنھوں نے اس کی جمع وتدوین کا بیڑا اٹھایا ۔مثلا امام مالک رحمہ اللہ ، 
امام احمد رحمہ اللہ اور ان کے شیوخ وتلامذہ اور معاصرین، رجال تدوین کے یہاں پہنچتے وقت حدیث نبوی بالکل تروتازہ اور عطر نبوت سے بھر پور تھی ،حدیث نبوی کے امانت دار محافظین نے جوں کی توں یہ امانت دوسرے امانت دار محافظین تک پہنچا دی۔ آگے چل کر یہ امانت کتاب اللہ کے بعد مسلمانوں کے لیے نہایت گراں قدر ورثہ قرار پائی ۔
خلاصۂ کلام! صحابہ کے طفیل اللہ تعالیٰ نے حدیث نبوی کالازوال خزینہ ہمارے لیے محفوظ کر لیا ۔ان کی تلواروں سے ہی دیارو امصار اوربلاد فتح کیے اور ان کی مساعی جمیلہ سے ہی اسلامی دعوت پھلی پھولی ۔اور آج ہمارے لیے یہ عالمِ اسلام منصّۂ شہود پر جلوہ گر ہوا جس میں کثرت سے اوطان واقوام موجود ہیں اور ان علوم وعلماء کی بھی کمی نہیں جواسلام کے اولیں ادوار میں کرۂ ارضی کی زینت اور بے حد ناگزیر سمجھے جاتے تھے ۔زمانہ حال واستقبال میں علماء کی صلاحیت اور رجوع الی اللہ کے باعث اسلام کی شوکت رفتہ پھر لوٹ کر آئے گی ۔اور انہی کی جدوجہد کے بل پوتے پر اسلامی نظام کوحیات نو حاصل ہوگی۔ وَمَا ذٰ لِکَ عَلَی اللّٰہِ بِعَزِیْزٍ۔
جس طرح امرا اور اہل ثروت کے بیٹے اپنے آباء سے املاک واموال ورثہ میں پاکر دنیا میں عزت ومنصب حاصل کرتے ہیں ۔یہ دوسری بات ہے کہ برے ساتھی ان کو اس وہم میں مبتلا کردیں کہ ان کی خوشحالی وفارغ البالی کا راز اس ما ل کو برباد کرنے میں مضمر ہے ،اسی طرح ہم نے یہ اسلامی عز ومجد صحابہ وتابعین رضی اللہ عنہم سے ورثہ میں پائی ۔
ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ دنیا کی کسی قوم نے ایسا گراں بہاورثہ نہیں پایا ۔اسلامی ورثہ میں تقدس وبرکت کے اعتبار سے گراں تر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکی وہ خدمت ہے جو آپ نے قرآن کی جمع وتدوین اور اس کو مصاحف میں محفوظ کرنے کے سلسلہ میں انجام دی ۔اگر کرۂ ارضی پر رہنے والے تمام مسلمان اس عظیم احسان وعنایت پر شب وروز ان کے لیے اجر وثواب کی دعائیں مانگیں تو بھی وہ ان کا حق ادا نہیں کر سکتے ۔اللہ تعالیٰ ہماری جانب سے ان کو اجر عظیم عطا فرمائے۔(آمین)
اس عظیم میراث میں سے گراں قدر خزانہ ہر صحابی کی وہ توجہ ہے جوانہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اقوال وارشادات ، سیرت و کردار اور اوامرونواہی کے تحفظ کے سلسلہ میں انجام دی ۔صحابہ نے یہ امانت جوں کی توں اپنے بھائیوں ، بیٹوں اور تابعین کو سپرد کر دی کسی نبی کے اصحاب نے امانت کی سپردگی میں ایسی احتیاط سے کام نہ لیا ہوگا۔اس سے عیاں ہوتا ہے کہ اخلاق و تشریع، اقوام و امم کی تکوین و تخلیق اور مختلف انسانی طبقات و اجناس و اوطان میں یگانگت پیدا کرنے کے لیے یہ عظیم ترین انسانی وراثت تھی۔بنی نوع انسان کی ان خدمات جلیلہ کے پیش نظر صرف وہی شخص صحابہ کی تنقیصِ شان کا مرتکب ہوسکتا ہے جو غیر مسلم ہو اور دوسروں کو دھوکہ دینا چاہتا ہو یا زندیق ہو اور اس کے ظاہر و باطن میں تضاد پایا جاتا ہو۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے تیسراورثہ ہم نے یہ پایا کہ انہوں نے اپنے اسلامی اخلاق و اعمال کو اسلام کا نمائندہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا، یہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کو الفت و محبت کی نگاہ سے دیکھنے لگے، صحابہ اسلام کا بہترین عملی نمونہ قرار پائے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کے زمانہ میں روئے ارضی کی بسنے والی قومیں حلقہ بگوش اسلام ہو گئیں ۔
خلفائے راشدین کے زریں عہد کے بعد جن خوش نصیب صحابہ و تابعین رحمہم اللہ نے صحیحین کی جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے بیان کردہ روایت[البخاری،کتاب الاحکام(ح:۷۲۲۳)مسلم۔ کتاب الامارۃ۔ باب الناس تبع لقریش،(ح:۱۸۲۱،۱۸۲۲)۔] کے مصداق خلفاء قریش کے جھنڈے تلے جہاد کیا، وہ بھی اس فضیلت میں برابر کے شریک ہیں ۔ 
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قباء میں حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے جہاد سے متعلق جو خواب دیکھا تھا[صحیح بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب ما قیل فی قتال روم (حدیث: ۲۹۲۴۔ ۲۷۸۹، ۶۲۸۳) ] وہ بھی اس حقیقت کا آئینہ دار ہے آپ کا دوسرا خواب یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کے قسطنطنیہ پر حملہ کرنے سے متعلق تھا[صحیح بخاری، حدیث:۲۹۲۴، ۲۷۸۹، ۶۲۸۳۔] صحیحین کی حضرت جابرہ بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ حدیث میں قریش کے جن عظیم اشخاص کا ذکر پایا جاتا ہے، وہ وہی لوگ تھے جنھوں نے جہاد میں شرکت کی اور اسلامی دعوت کو براعظم ایشیا وافریقہ اور یورپ کے دور افتادہ گوشوں تک پہنچا دیا، ہمارے قلوب ان کی سپاس گزاری میں کتنے ہی مشغول رہیں ہماری زبانیں ان کی مجاہدانہ مساعی کی مدح و ثنا میں کتنی ہی رطب اللسان ہوں ، یہ حقیقت ہے کہ ہم ان کے واجب شکر کا عشر عشیر بھی ادا نہیں کرسکتے۔
اس سے یہ حقیقت اجاگر ہوتی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظمت وبزرگی اور ان کی جرأت و بسالت کے اثبات میں ہم نے صحیح معلومات پر مبنی جو علمی مقالات لکھے ہیں ان سے صحابہ کی مدح و ثنا کا حق کیوں کر ادا کیا جا سکتا ہے، اسی طرح دور حاضر کی تصنیفات سے صحابہ کی مدح گوئی کیوں کر ممکن ہے اگرچہ یہ تصانیف صحابہ کے مناقب و فضائل سے پر ہیں اور ان کتب کا اقصائے ارضی کے نوجوانوں تک پہنچنا ناگزیر ہے۔ان کے مطالعہ سے یوں محسوس ہوتا ہے، کہ قاری ان غزوات میں بذات خود شریک ہے، وہ اسلامی فوج کا ایک فرد ہے اور اسلامی جھنڈے تلے کفار کے خلاف نبرد آزما ہے، قاری اس تصور میں کھو جاتا ہے کہ صحابہ و تابعین کے ہاتھوں جو فتوحات حاصل ہوئیں اور اہل اسلام نے ان دنوں جو معرکے سر کئے وہ اپنے جذبات و احساسات اور دل کی دھڑکنوں کے ساتھ ان میں شامل ہے اور جہاد میں بھرپور حصہ لے رہا ہے۔

منہاج الکرامہ کی علمی حیثیت :

یہی وہ صحابہ و تابعین رحمہم اللہ تھے جن کے بارے میں ’’ ابن المطہر ‘‘ [الحلی] نامی[شیعہ مصنف ]....نے ’’منہاج الکرامۃ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب گالیوں کا پلندہ ہے، جس میں صحابہ کی مجاہدانہ مساعی کی مذمت کر کے ان کے محاسن کو عیوب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی ہجو و قدح کا کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا گیا، اس کی حدیہ ہے کہ اگر اعداء دین مثلاً مجوس، رومی، ترک اور دیالمہ میدان حرب و قتال میں جب وہ صحابہ کے خلاف برسر پیکار تھے اگر ان کے اخلاق و اعمال کی تصویر کشی کرنا چاہتے تو اس شرمناک طریق کار سے اجتناب کرتے۔

کلینی کی کتاب’’الکافی‘‘ کی موضوع روایات:

غالباً پادری کافی کلینی سے بیان کردہ جھوٹی روایات سے احتجاج کیا کرتے تھے، مثلاً ’’الکافی ‘‘کی مذکورہ ذیل روایات:
۱۔ جابر جعفی سے روایت ہے؛اس نے کہا میں نے ابو جعفر صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ فرماتے تھے کہ جھوٹے آدمی کے سوا کوئی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ قرآن کریم اسی طرح جمع کیا گیا ہے جیسے کہ نازل ہوا تھا، حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور بعد میں آنے والے ائمہ کے سوا کسی نے قرآن کونہ یاد کیا اور نہ جمع کیا۔‘‘ (’’الکافی ‘‘ از کلینی طبع: ۱۲۷۸، ص:۵۴)
۲۔ ابوبصیر روایت کرتے ہیں کہ میں ابو عبداﷲ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا، ہمارے یہاں سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا قرآن موجود ہے۔ میں نے عرض کیا مصحف فاطمہ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا: وہ تمہارے قرآن سے تین گنا زائد ہے، بخدا اس میں تمہارے قرآن کا ایک لفظ بھی موجود نہیں ۔‘‘ (’’الکافی ‘‘ از کلینی،ص: ۵۷)
کلینی کی کتاب ’’الکافی‘‘ شیعہ کے یہاں اسی طرح مستند سمجھی جاتی ہے، جس طرح مسلمانوں کے نزدیک کتب حدیث میں صحیح بخاری، حالانکہ وہ ایسی کفریات سے لبریز ہے۔ ’’ابن المطہر‘‘ جس کی تردید کے لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے یہ کتاب تحریر فرمائی ؛شیعہ کی کتاب روضات الجنات میں اسے طرح طرح کے القاب سے نوازا گیا ہے، مثلاً اسے فخر علماء، مرکز دائرہ اسلام، آیۃ اﷲ فی العالمین، استاذ الخلائق ، جمال الملۃ والدین وغیرہ القاب سے ملقب کیا گیا ہے۔
میرا خیال ہے کہ ابن المطہر کی ’’ منہاج الکرامہ‘‘ اور اس کے معاصر امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی گراں قدر تصنیف ’’منہاج الاعتدال ‘‘ یا ’’ منہاج السنۃ ‘‘ کی تسوید و تحریر کا مقصد ہر گز یہ نہ تھا کہ مسلمانوں کو شیعہ بنایا جائے، یا شیعہ کو اسلام کی جانب لوٹایا جائے اور اس لیے کہ یہ امر ....
ایں خیال است و محال ست و جنون
کا مصداق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں مذاہب کے اصول اساسی ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں ، اور دونوں میں گہرا فرق و اختلاف پایا جاتا ہے، چند اصول آنے والے صفحات پر ملاحظہ فرمائیے:

اہل اسلام و شیعہ میں بنیادی فرق :

اہل اسلام کے نزدیک شارع اور معصوم صرف رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے، آپ کے بعد نہ کوئی شارع ہے، نہ معصوم بخلاف ازیں شیعہ بارہ اماموں کو معصوم اور مصدر شریعت قرار دیتے ہیں ۔

امام غائب کی خود ساختہ حکایت:

اہل اسلام کا عقیدہ ہے کہ شیعہ کے ائمہ معصومین میں سے گیارہواں امام لا ولد فوت ہوا اور ان کے بھائی جعفر نے اسی اساس پر ان کاورثہ تقسیم کیا کہ آپ لاولد ہیں ۔ مزید براں ان کی بیویوں اور لونڈیوں کو عدت وفات اور مدت استبراء گزارنے کے لیے روکے رکھا یہاں تک کہ جعفر اور بنی طالب کے نقباء پر یہ حقیقت آشکار ہوگئی کہ امام حسن عسکری بے اولاد تھے۔
ان تاریخی حقائق کے باوجود شیعہ یہ رٹ لگائے جا رہے ہیں کہ امام حسن عسکری کا ایک لڑکا تھا اور آج سے گیارہ صدیاں پہلے وہ اپنے والد کے گھر کے تہ خانہ میں چھپ گیا تھا، بقول شیعہ وہ تاحال بقید حیات اور مسلمانوں کا شرعی حاکم ہے، شیعہ کی رائے میں ان کے سوا کرۂ ارضی پر جو مسلمان حاکم ہے وہ ظالم و غاصب ہے اور ناحق مسلمانوں پر حکومت و سلطنت کا دعویٰ کرتا ہے، شیعہ اس سے تجاوز کر کے یہاں تک کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جتنے مسلم حاکم یا امام یا خلیفہ قرار پائے وہ ظالم و غاصب اور غیر شرعی حاکم تھے، شیعہ کا نقطۂ نگاہ یہ ہے کہ ان کا بارہواں بن باپ و بن اولاد امام کسی نہ کسی وقت ظہور پذیر ہوگا، اس کے زمانہ میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر مسلم خلفاء و حکام دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، امام مذکور ان پر حکمرانی کرے گا، اور جس ظلم و غصب کا ارتکاب وہ کر چکے ہیں ۔ (نعوذ باﷲ من ذلک) اس کی سزا دے گا۔

قرآن کی جمع و تدوین اور صحابہ کرام:

دین اسلام اور شیعہ مذہب کے مابین ایک اساسی فرق اور ہے، اہل اسلام کے ہاتھوں میں جو قرآن صدیوں سے چلا آرہا ہے اس کی جمع و تدوین کا بیڑا ابوبکر، عمر، عثمان اور دیگر اہل علم صحابہ رضی اللہ عنہم نے اٹھایا، مزید برآں جن احادیث نبویہ پر تشریع اسلامی کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ بھی صحابہ کی روایت کردہ ہیں ، اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان خدمات جلیلہ کے ادا کرنے میں حضرات صحابہ کے رفیق کار تھے، حضرت ابو بکرو عمر و عثمان و علی اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ کمال صدق اور استقامت علی الحق کے اعتبار سے وہ ایک مثالی گروہ تھا جس کی نظیر دنیائے انسانیت میں تلاش نہیں کی جاسکتی ، چنانچہ آپ کتاب ھذٰا کی آخری فصل میں اس کی تفصیلات ملاحظہ فرمائیں گے۔
ہم قبل ازیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث صحیح بیان کر چکے ہیں ، ارشاد ہوتا ہے:
’’تمام زمانوں سے بہتر میرا زمانہ ہے، پھر وہ جو ان کے قریب ہیں ، پھر جو ان کے قریب ہیں ۔‘‘ [صحیح البخاری، کتاب الشہادات، باب لا یشھد علی شہادۃ جور۔ (ح: ۲۶۵۱۔ ۲۶۵۲) مسلم ۔ کتاب فضائل الصحابۃ۔ باب فضل الصحابۃ ثم الذین یلونھم، (ح:۲۵۳۳،۲۵۳۵]
یہ حقیقت ہے کہ ہم نے قرآن صحابہ سے سیکھا وہ صحابہ ہی تھے جنھوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ روایت کیں جن پر بیان شریعت کے ضمن میں ہمارا اعتماد ہے۔ جب مذکورہ حدیث کی روشنی میں صحابہ افضل الامت ہیں ۔[مسند احمد(۱؍۱۰۶) سنن ابن ماجہ۔ المقدمۃ۔ باب فضل عمر بن الخطاب (حدیث:۱۰۶)]
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ کے منبر پر فرمایا :’’حضرت ابوبکر و عمر افضل الصحابہ ہیں ۔‘‘
اس سے ظاہر ہے کہ صحابہ کے بارے میں اہل اسلام کا عقیدہ مذکورہ بالا حدیث اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ارشاد کے عین مطابق ہے۔ علاوہ ازیں تاریخی حقائق بھی اسکی تائید و تصدیق کرتے ہیں ۔ چونکہ ہم نے علوم کتاب و سنت کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذریعہ حاصل کیا ہے۔
لہٰذا صحابہ کی مدح و تعدیل سے گویا ہمارے اعتماد کتاب و سنت کی تائید ہوتی ہے ، البتہ ابن المطہر اور دیگر شیعہ امامیہ.... جن کو امام زید بن علی بن حسین رافضی کہہ کر پکارتے ہیں .... کا زاویہ نگاہ اس ضمن میں ہم سے مختلف ہے چنانچہ اس کی تفصیل[آگے] مناسب موقع پر آئے گی۔

حدیث نبوی اور شیعہ:

جو اصول و قواعد ہمارے اور شیعہ کے مابین وجہ فرق و امتیاز ہیں ، ان میں سے ایک بنیادی امر یہ ہے کہ احادیث نبویہ کتاب الٰہی کے بعد تشریع اسلامی کی اساس و معیار ہیں ۔ یہ احادیث ان صحابہ کے ذریعہ ہم تک پہنچیں جو حد درجہ عادل و امین اور حافظ و ضابط تھے۔ فن حدیث کے نقاد ان کی سیرت و کردار اور فنی مہارت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ محدثین نے روایت حدیث میں بے حد احتیاط سے کام لیا۔ جو شخص حد درجہ عبادت گزار اور صلاح و تقویٰ میں یگانہ روز گار ہو، اگر روایت حدیث میں سہل انگاری سے کام لیتا ہو، تو اس کی روایت محدثین کے نزدیک قابل حجت نہیں ہے۔ جو شخص آغاز زندگی میں حافظ و ضابط اور امانت و عدالت کی صفات سے بہرہ ور ہو پھربڑا ہو کر نسیان کے عارضہ کا شکار ہوجائے تو اندریں صورت محدثین کے نزدیک اس کی وہ روایات مقبول ہیں جو اس نے حالت صحت میں اس مرض میں مبتلا ہونے سے قبل روایت کیں ، مرض میں مبتلا ہونے کے بعد کی روایات پایہ استناد سے ساقط ہیں ۔بخلاف ازیں شیعہ روایت حدیث میں امانت و عدالت اور حفظ و اتقان کی چنداں پروا نہیں کرتے۔شیعہ کی معتبر کتب مثلاً ’’الکافی‘‘اور دیگر کتب میں حد درجہ دروغ گو لوگوں کی روایات درج ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شیعہ کے یہاں ثقاہت و صداقت کا معیار یہی ہے کہ راوی کس حد تک شیعہ مذہب کا حامی اہل بیت کا محب اور ان کے اعداء سے کہاں تک بغض و عناد رکھتا ہے۔ہم قبل ازیں ان کی معتبر کتاب الکافی سے چند روایات نقل کر چکے ہیں جن میں انہوں نے قرآن کی صحت کو مشتبہ قرار دیا ہے۔ بنا بریں اس میں مزید جھگڑے و نزاع کی کوئی گنجائش نہیں۔
جب مسلمان ہسپانیہ میں برسر اقتدار تھے تو وہاں کے پادری[بوقت مناظرہ] امام ابن حزم رحمہ اللہ کے خلاف شیعہ کے اس قول سے احتجاج کیا کرتے تھے کہ قرآن محرف ہوچکا ہے ان کی تردید میں امام موصوف رحمہ اللہ مجبوراً فرماتے:
((وَاَمَّا قَوْلُہُمْ فِیْ دَعْوَی الرَّوَافِضِ بِتَبْدِیْلِ الْقُرْآنِ فَاِنَّ الرَّوَافِضَ لَیْسُوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)) (کتاب الفصل :۲؍ ۷۸)
’’ عیسائیوں کا رافضی دعوی کا متعلق یہ کہنا کہ قرآن تبدیل ہوگیاہے ‘ تو بیشک رافضی مسلمان نہیں ہیں ۔‘‘
احمد بن سلیمان تستری رحمہ اللہ مشہور محدث ابو زرعہ رازی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
’’جب کسی شخص کو اصحاب رسول رضی اللہ عنہم کی توہین کرتے دیکھو تو جان لو کہ وہ زندیق ہے، اس لیے کہ ہمارے نزدیک رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم حق ہیں ۔ قرآن حق ہے۔ قرآن اور احادیث نبویہ ہم تک صحابہ رضی اللہ عنہم کے ذریعہ پہنچیں ۔ صحابہ کی تنقیص شان سے شیعہ کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے گواہوں کو مجروح کر کے کتاب و سنت کو ناکارہ کر دیں ۔ حالانکہ زندیق ہونے کی حیثیت سے وہ اس امر کے زیادہ اہل ہیں کہ ان کو مجروح قرار دیا جائے۔‘‘
شیعہ کے نزدیک دین اسلام نجات کے لیے کافی نہیں :
اہل اسلام اور شیعہ کے مابین ایک اور فرق یہ ہے کہ شیعہ کے نزدیک دین اسلام سعادت دنیوی و اخروی کے حصول کے لیے کافی نہیں ، ان کا دعویٰ ہے کہ امت اسلامیہ ائمہ معصومین کی اطاعت کے بغیر قاصر رہے گی اور اس کا استحکام و استقلال اس کے بغیر ممکن نہیں ، اہل اسلام کے نزدیک حق کا مقام کہیں اس سے زیادہ بلند ہے کہ اسے اطاعت ائمہ کا محتاج قرار دیا جائے، مزید برآں یہ احترام مومن کے بھی خلاف ہے، اﷲ تعالیٰ نے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم کی یہ آیت نازل فرمائی، ارشاد ہوتا ہے:
﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَرَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ:۳)
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا، اپنی نعمت پوری کر دی اور اسلام کو ایک دین کی حیثیت سے تمہارے لیے پسند کر لیا ۔‘‘
خلاصہ کلام! دین اسلام قرآن کریم اور صحیح احادیث نبویہ کی موجودگی میں وہ مرشد وحید اور ہادی کامل ہے جس کے ہوتے ہوئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امت مسلمہ کو کسی امام معصوم کی ضرورت نہیں ۔ اس امت راشدہ میں اسی کا نام سنت ہے۔ اسی بنا پر تاریخ کے مختلف ادوار میں مسلمانوں کو اہل السنۃ کے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔ اس کے عین برعکس امت مسلمہ کو ناقص قرار دینے والے جن کا دعویٰ ہے کہ ائمہ معصومین کی اطاعت کے بغیر اسلام انسانی فلاح و نجات کے لیے کافی نہیں ۔ تاریخ میں امامیہ کے لقب سے مشہور ہوئے۔یہ حقیقت ہے کہ ائمہ شیعہ میں سے امامت نافذہ صرف ایک ہی امام (حضرت علی رضی اللہ عنہ ) کے حصہ میں آئی۔ وہ بھی اپنے خطبات و رسائل میں شیعہ کے گلہ گزار رہے اور ہمیشہ ان سے اظہار بیزاری کرتے رہے۔ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قائم مقام (امام حسن رضی اللہ عنہ ) نے جو دوسرے امام معصوم تھے۔
’’عام الجماعۃ ‘‘ والے سال امام المسلمین (حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ) کی بیعت کر لی۔ مگر شیعہ برابر مخالفت کرتے رہے، اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شیعہ ان کے امام معصوم ہونے کے عقیدہ سے منحرف ہوگئے تھے، دوسری وجہ یہ ہے، کہ دانستہ ان کی اطاعت و اتباع سے گریز کرنا چاہتے تھے۔ جب یہ بے کار قسم کی امامت گیارہویں امام کے لاولد فوت ہونے سے ختم ہوگئی، تو اب کوئی امام باقی نہ رہا۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ امامیہ کا اس لقب سے ملقب رہنا محال تھا۔ اب انہوں نے بن باپ اور بے اولاد امام کا عقیدہ گھڑ لیا۔ یہ واقعہ کتاب ہذا میں آئے گا۔ شیعہ عہد ماضی کے فرضی معبودوں کی طرح اسے زندہ تصور کرتے ہیں ، اسلام کو امت مسلمہ کے لیے ناکافی قرار دینا اس امر کا واضح اعتراف ہے کہ اسلام ناقص مذہب ہے اور اہل اسلام نجات سے قاصر ہیں ۔ ابن المطہر کی کتاب کا موضوع صرف ان اعتراضات کا ازالہ ہے جو اس بیہودہ عقیدہ پر وارد ہوتے ہیں ۔ 
اس کے عین بر خلاف شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اپنی تصنیف لطیف میں یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام دین کامل ہے۔ اہل اسلام مستحق رشد و فلاح ہیں ۔ اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ائمہ معصومین کی اطاعت سے بے نیاز ہیں ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ سورہ مائدہ کی تیسری آیت میں اﷲ تعالیٰ نے دین اسلام کو کامل اور نوع انسانی کی نجات کے لیے کفایت کنندہ قرار دیا ہے، مزید برآں مسلمانوں کے امام دوسرے مسلمانوں کے برابر ہیں ، اور انہی کی طرح شرعی احکام و اوامر کے مکلف و مامور ہیں ، اہل اسلام پر ائمہ کی اطاعت صرف نیک اعمال کی حد تک ضروری ہے اس لیے کہ خالق کی نافرمانی کر کے کسی مخلوق کی اطاعت نہیں کی جا سکتی۔

انکار اجماع اور شیعہ:

اہل اسلام اور شیعہ میں ایک نمایاں فرق یہ بھی ہے کہ شیعہ دین اسلام کو ایک اجتماعی دین تسلیم نہیں کرتے علاوہ ازیں شیعہ کے یہاں غیر منصوص شرعی احکام میں مسلمانوں کا اجماع حجت نہیں ، بخلاف ازیں اہل السنۃ والجماعۃ کے تشریعی نظام میں یہ امر مسلم ہے کہ فقہ و تشریع میں مہارت رکھنے والے علماء کا اجماع اﷲ و رسول کے دین میں ایک شرعی دلیل کی حیثیت رکھتا ہے، امام حاکم اور دیگر محدثین نے حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ روایت بیان کی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( لَا یَجْمَعُ اللّٰہُ اُمَّتِیْ عَلَی الضَّلَالَۃِ )) [سنن ترمذی۔ کتاب الفتن ، باب ما جاء فی لزوم الجماعۃ(حدیث:۲۱۶۷)]

’’ اﷲ تعالیٰ میری امت کو ضلالت پر جمع نہیں کرے گا۔‘‘

حجیت اجماع کے دلائل:

رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یَدُ اللّٰہِ عَلَی الْجَمَاعَۃِ ))۔
’’ اﷲکی تائید جماعت کے شامل حال ہوتی ہے۔‘‘
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت بھر الگ ہوا تو اس نے اسلام کا جؤا اپنی گردن سے اتار پھینکا یہاں تک کہ اس کی طرف لوٹ آئے۔‘‘[مسند احمد(۴؍۱۳۰) سنن ترمذی ، کتاب الامثال، باب ما جاء فی مثل الصلاۃ والصیام، (ح:۲۸۶۳) بھذا اللفظ، سنن ابی داؤد۔ کتاب السنۃ۔ باب فی الخوارج(ح۴۸۵۸) مختصرًا عن ابی ذر رضی اللّٰہ۔ ]
سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
(( عَلَیْکُمْ بِالسَّوَادِ الْاَعْظَمِ وَمَنْ شَذَّ شُذَّ فِی النَّارِ )) [سنن ابن ماجۃ۔ کتاب الفتن، باب السواد الاعظم(حدیث:۳۹۵۰) مختصرًا و سندہ ضعیف جداً اس کی سند میں معان بن رفاعۃ، لین الحدیث اور ابوخلف الاعمی متروک راوی ہے۔ مستدرک حاکم(۱؍۱۱۵) من طریق آخر و سندہ ضعیف ایضاً]
’’سواد اعظم سے وابستہ رہیے جو الگ ہوا تو اسے تنہا دوزخ میں ڈالا جائے گا۔‘‘
احادیث نبویہ کے علاوہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ اﷲ تعالیٰ نے ’’ سبیل المؤمنین ‘‘ کو اﷲ و رسول کی اطاعت کے ساتھ مقرون و متصل قرار دیا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿ وَمَنْ یُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الْہُدٰی وَیَتَّبِعْ غَیْرَ سَبِیْلِ الْمُؤْمِنِیْنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَنُصْلِہٖ جَہَنَّمَ وَسَآئَ تَْ مَصِیْرًا ﴾ [النساء:۱۱]
’’جو شخص ہدایت واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرتا اور مومنوں کے علاوہ دوسری راہ پر چل دیتا ہے تو جدھر کا رخ کرتا ہے، ہم اسے اسی جانب پھیر دیتے ہیں اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔‘‘
صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے رو گردانی ہی جہنم لے جانے کیلئے کافی تھی؛تاہم مذکورہ بالا آیت میں مومنوں کی اختیار کردہ راہ کے سوا دوسرے راستوں کی جانب میلان و رجحان کو بھی دخول جہنم کا باعث قرار دیا۔ جس سے مقصود یہ واضح کرنا ہے کہ ’’اﷲاور رسول کی اطاعت اور سبیل المؤمنین ‘‘ باہم لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کا اٹوٹ اننگ ہیں ۔دوسری جگہ ارشاد ہوا:
﴿کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ﴾
[آل عمران۱۰۰]
’’تم بہترین جماعت ہو جسے لوگوں کے فائدہ کیلئے ظاہر کیا گیا ہے تم نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہو۔‘‘
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ مسلمان بہ حیثیت مجموعی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرتے ہیں ، جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ وہ ضلالت پر جمع نہ ہوں گے اور صرف ایسی چیز کو واجب یا حرام قرار دیں گے جس کے وجوب و حرمت کا فتویٰ اﷲ و رسول نے صادر کیا ہو، یہ کسی طرح ممکن نہیں کہ وہ بحیثیت مجموعی حق گوئی سے سکوت اختیار کریں جب کہ وہ شرعاً امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مکلف و مامور ہیں ، یہ صریح نص قرآنی کے خلاف ہے۔
مذکورہ بالا دلائل اور دیگر لا تعداد براہین و دلائل کی بنا پر مسلمان دین اسلام کو ایک اجتماعی دین قرار دیتے چلے آئے ہیں اور اسی بنا پر ان کو ’’ اہل السنۃ والجماعۃ ‘‘ کے لقب سے ملقب کیا گیا ہے بایں ہمہ شیعہ اجماع امت کو تسلیم نہیں کرتے، امت مسلمہ ان کی نگاہ میں ایک منتشر جماعت ہے جس میں کوئی شیرازہ بندی نہیں ، اور اس کے قیام و بگاڑ کے لیے نبی کے سوا کسی غیر معصوم امام کا وجود از بس ناگزیر ہے۔

شیعہ کا قبلہ و کعبہ:

ہمارے اور شیعہ کے مابین آخری نقطہ فرق و اختلاف یہ ہے کہ مسلمان جب عبادت بجا لانے کے لیے بارگاہ ایزدی میں حاضر ہوتے یا دعا کرتے وقت اس کے حضور عجز و نیاز کرتے ہیں تو صرف ایک ہی کعبہ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں ، مگر شیعہ خانہ کعبہ کے ساتھ دوسرے کعبہ جات کو بھی شریک کرتے ہیں ۔شیعہ کا ایک کعبہ مغیرہ بن شعبہ کی قبر ہے جو نجف کے مقام میں واقع ہے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں شہادت پائی اور وہیں مسجد کوفہ اور قصر کے مابین مدفون ہوئے۔
عرصہ دراز کے بعد شیعہ نے یہ دعویٰ کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بمقام نجف مغیرہ کی قبر میں مدفون ہیں ۔ شیعہ نے اس قبر کو کعبہ کی حیثیت دے رکھی ہے۔ اسکا اصلی اندازہ وہی شخص کر سکتا ہے جو وہاں جاکر بہ چشم خود شیعہ کی حرکات کا ملاحظہ کرے، شیعہ کا دوسرا کعبہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی من گھڑت قبر ہے، جو بقول شیعہ کربلا میں واقع ہے۔ملاحظہ کریں ایک شیعہ شاعر وہ کہتا ہے: ؎
ہِی الطفواف فطف سبعا بمعناھا فمالمکۃ معنی مثل معانھا
ارض ولکنما السبع الشدادلھا دانت وطاطا اعلاھا لادناھا
’’یہ ارض کربلا ہے یہاں سات مرتبہ طواف کیجئے
جو مقام اسے حاصل ہے وہ مکہ کو کہاں نصیب!
اگرچہ یہ زمین ہے مگر ساتوں آسمان اس کے تابع ہیں ،
اور عرش عظیم بھی اس کے سامنے جھکتا ہے۔‘‘
اب بتائیے اس کفر صریح کو سالار انبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک سے کیا نسبت جو آپ نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ارشاد فرمایا، ارشاد ہوتا ہے:
(( لَعَنَ اللّٰہُ الْیَہُوْدَ وَالنَّصَارٰی اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِہِمْ مَسَاجِدًا )) [صحیح بخاری کتاب الصلاۃ باب(۵۵) ، حدیث:۴۳۵،۴۳۶،۱۳۳۰)، صحیح مسلم۔ کتاب المساجد، باب النھی عن بناء المسجد علی القبور، (حدیث: ۵۲۹۔ ۵۳۱)۔]
’’اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے، انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘
نیز فرمایا:
(( اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْنًا یُّعْبَدُ اِشْتَدَّ غَضَبُ اللّٰہِ عَلٰی قَوْمٍ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ اَنْبِیَآئِہِمْ مَسَاجِدًا )) [موطا امام مالک (۱؍۱۷۲) کتاب قصر الصلاۃ فی السفر ،ح:۸۵،تعلیقاً مسند احمد (۲؍۲۴۶) عن ابی ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ موصولاً وانظر مسند البزار(۴۴۰)۔]
’’ اے اﷲ میری قبر کو بت نہ بنانا جس کی عبادت کی جائے، اس قوم پر اﷲکا سخت غضب ہوا جنہوں نے انبیاء کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا۔‘‘
امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابو ہیاج حیان بن حصین اسدی کو فرمایا:
’’ کیا میں آپ کو اس کام کے لیے نہ بھیجوں جس پر مجھے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مامور فرمایا تھا، اور وہ یہ ہے کہ کسی تصویر کو مٹائے بغیر نہ چھوڑئیے اور جو بلند قبر دیکھو، اسے زمین کے برابر کر دو۔‘‘
اگر شیعہ امت محمدیہ میں شامل ہیں تو خاتم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ صحیح ترین حدیث ان کے لیے کافی ہے اور اگر وہ ائمہ معصومین کی اطاعت کا دم بھرتے ہیں تو یہ ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فعل جو وہ رسول اﷲ کی اطاعت میں بجا لاتے اور اس کام کے لیے دوسرے اشخاص و رجال کو بھیجا کرتے تھے! اور اگر قبور انبیاء کے ساتھ ان کا رویہ یہود و نصاریٰ ہونے کی حیثیت سے ہے تو ہمیں ان سے کوئی سرور کار نہیں ۔
کتاب کے حاشیہ جات اہم مطالب کے فہم و ادراک میں قاری کے لیے مفید ثابت ہوں گے۔ اور وہ آسانی سے مطلب سمجھ سکے گا، حاشیہ نویسی کا محرک یہ امر تھا کہ دور حاضر میں شیعہ نے کتب و رسائل کی اشاعت کے ذریعہ اہل السنۃکے خلاف اس قدرحملے کیے ہیں کہ ان پر خاموش رہنا حق و صداقت کی رسوائی ہے، چنانچہ بتوفیق الٰہی صداقت اسلامی کے تحفظ و دفاع کے لیے یہ مباحث قلمبند کیے۔
وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ وَحْدَہُ وَصَلَّی اللّٰہُ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَّاٰلِ مُحَمَّدٍ وَّاَصْحٰبِ مُحَمَّدٍ وَّاَزْوَاجِ مُحَمَّدٍ وَذُرِّیَّۃِ مُحَمَّدٍ وَسَلَّمَ تَسْلِیْمًا کَثِیْرًا وَسُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّۃِ عَمَّا یَصِفُوْنَ وَسَلَامٌ عَلَی الْمُرْسَلِیْنَ وَالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔