مقدمہ
علی محمد الصلابیمقدمہ
اِنَّ الْحَمْدَ لِلّٰہِ نَحْمَدُہٗ وَنَسْتَعِیْنُہٗ وَنَسْتَغْفِرُہٗ، وَنَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا، مَنْ یَّہْدِہِ اللّٰہُ فَلَا مُضِلَّ لَہٗ، وَمَنْ یُّضْلِلْ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ، وَاَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ، وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ
(سورۃ آل عمران: آیت، 102)
يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا اللَّـهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا (سورۃ النساء: آیت، 1)
يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا (سورۃ الأحزاب: آیت، 71)
اما بعد!،
ترجمہ: الہٰی تیرے ہی لیے حمد و ثنا ہے، جیسا کہ تیرے جلال و عظمت کے شایان شان ہے۔ تیرے ہی لیے حمد و ثنا ہے، یہاں تک کہ تو خوش ہو جائے اور تیرے خوش اور راضی ہونے کے بعد بھی ہم تیری حمد و ثناء میں لگے رہیں گے۔
عہد طفولیت ہی سے مجھے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی سیرت کے ساتھ شغف تھا۔ آپ کی دلکش عطر بیز سیرت کو پڑھنے اور سننے کا مجھے بڑا شوق تھا۔ اسی کیفیت میں شب و روز گزرتے رہے اور وہ سنہری موقع آیا ہے جب اللہ تعالیٰ نے مجھے جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں تعلیم حاصل کرنے کا شرف بخشا، جامعہ میں تاریخ اسلامی کے تحت خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کی تاریخ مقرر تھی، استاد نے اس سلسلہ میں شیخ محمود شاکر کی التاریخ الاسلامی پر اکتفاء نہ کرتے ہوئے علامہ ابنِ کثیر رحمۃ اللہ کی البدایہ والنہایہ اور ابنِ اثیر کی الکامل کے مطالعہ کا مطالبہ کیا، اللہ رب العالمین کی توفیق کے بعد استاد کی اس رہنمائی کا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور آپ کے دور کی حقیقت کو سمجھنے میں بڑا موثر رول رہا۔
اور جب میں نے جامعہ اسلامیہ ام درمان میں دکتورہ کے لیے تسجیل کرائی تو مقالہ کا عنوان تھا: ’’فقہ التمکین فی القرآن الکریم واثرہ فی تاریخ الامۃ‘‘ اور یہ مقالہ تین ابواب پر مشتمل قرار پایا: فقہ التمکین فی القرآن الکریم، فقہ التمکین فی السیرۃ النبویۃ، فقہ التمکین عند الخلفاء الراشدینؓ، اور یہ 1200 صفحات سے متجاوز ہو گیا۔ جس کی وجہ سے مشرف کی رائے یہ ہوئی کہ اس سلسلہ میں ’’فقہ التمکین فی القرآن الکریم‘‘ پر اکتفاء کیا جائے اور اسی اساس پر اس کے اندر تعدیل کر دی اور یہ رائے کمیٹی کے سامنے پیش کر کے موافقت لے لی اور مناقشہ کے بعد مجھ سے کہا: اب تم ’’فقہ التمکین فی السیرۃ النبویۃ‘‘ اور ’’فقہ التمکین عند الخلفاء الراشدینؓ‘‘ کو کتابی شکل میں شائع کر سکتے ہو تاکہ اہلِ اسلام اس سے مستفید ہوں۔ اللہ کی توفیق اور جو اسباب اس نے ہمارے لیے مہیا کیے اس کی وجہ سے ’’فقہ التمکین فی السیرۃ النبویۃ‘‘ میں تطور آیا، اور وہ ’’السیرۃ النبویۃ عرض و تحلیل‘‘ کی شکل اختیار کر گئی۔
یہ کتاب ’’ابوبکر الصدیقؓ شخصیتہ وعصرہ‘‘ جس کا اس وقت میں مقدمہ تحریر کر رہا ہوں، اس کی تالیف اللہ کے فضل و کرم کا نتیجہ ہے اور پھر اس کا سہرا مشرف محترم اور ان علماء و شیوخ اور دعاۃ کے سر ہے جنہوں نے اس سلسلہ میں ہماری ہمت افزائی کی، ان میں سے ایک کرم فرما نے مجھ سے کہا: مسلمانوں کی نسل جدید اور خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے دور کے درمیان بڑا بعد پیدا ہو گیا ہے، اولویات کی ترتیب میں بڑی گڑبڑی رونما ہو گئی ہے، دورِ حاضر کے نوجوان، علماء و مصلحین کی سیرتوں کے ساتھ خلفائے راشدینؓ کی سیرتوں کی بہ نسبت زیادہ لگاؤ رکھتے ہیں، حالانکہ خلفائے راشدینؓ کا دور سیاسی، نشریاتی، اخلاقی، اقتصادی، فکری، جہادی، فقہی جوانب سے بھرپور ہے، جن کی آج ہمیں شدید ضرورت ہے۔ آج ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اسلامی سلطنت کے مختلف اداروں کا تتبع کریں اور دیکھیں کہ زمانے کے ساتھ ان میں کس طرح تطور آیا، جیسے فضائی، مالی، نظام خلافت، عسکری اور ولاۃ کی تعیین کے مختلف ادارے اور جب امت اسلامیہ کا فارسی اور رومی تہذیب و تمدن سے پالا پڑا تو اس دور میں کیا اجتہادات رونما ہوئے اور اسلامی فتوحات کی طبعی حالت کیسی رہی۔
اس کتاب کا آغاز غور و فکر سے ہوا جس کو اللہ تعالیٰ نے حقیقت میں تبدیل کرنا چاہا، اللہ نے مجھے توفیق بخشی اور اس سے متعلق تمام امور آسان کر دیئے، دشواریوں اور مشکلات کو دور کر دیا، مراجع اور حوالہ جات کو مہیا کر دیا اور میرے ذہن و دماغ پر اس مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا بھوت سوار ہو گیا اور میں نے اس کو اپنا سب سے بڑا ہدف بنا لیا، اس کے لیے شب بیداری شروع کر دی، مشکلات و پریشانیوں کی چنداں فکر نہ کی اور اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی کرم رہا کہ اس نے اس سلسلہ میں میری مدد فرمائی۔
بقول شاعر:
اَلْہَولُ فِی دَرْبِی وَفِیْ ہَدَفِی
وَأَظَلُّ أَمْضِیْ غَیْرَ مُضْطَرِبِ
’’میری راہ اور مقصد کے سامنے خوف حائل ہوا لیکن میں کسی اضطراب کے بغیر اپنے مشن میں لگا رہا۔‘‘
مَا کنتُ من نَفْسِی علی خَورٍ
أو کنتُ من ربِّی علی رَیْبِ
’’میں اپنے نفس کے سلسلہ میں پستی کا شکار نہ ہوا اور نہ اپنے رب سے ناامید ہو کر شک کا شکار ہوا۔ ‘‘
ما فی المنایا ما اُحاذِرُہٗ
اللہُ مِل ئُ القصد والارب
’’موت سے مجھے کوئی خوف نہیں، اللہ تعالیٰ مقصد و ضرورت کو پورا کرنے والا ہے۔‘‘
یقیناً خلفائے راشدینؓ کا دور دروس وعبر سے پر ہے، جو کتابوں اور مراجع کے اندر بکھرے ہوئے ہیں، خواہ وہ تاریخی ہوں یا حدیثی، فقہی ہوں یا ادبی اور تفسیری، ہمیں اس کی جمع و ترتیب اور توثیق و تحلیل کی شدید ضرورت ہے کیونکہ خلافت کی تاریخ کو اگر اچھے انداز میں پیش کیا جائے تو اس سے روحوں کو غذا ملتی ہے، نفوس کی تہذیب ہوتی ہے، عقل کو روشنی ملتی ہے، ہمتیں بڑھتی ہیں، درس و عبرت حاصل ہوتی ہے، فکر میں پختگی پیدا ہوتی ہے، اس سے ہم منہاج نبوت پر نئی مسلم نسل کی تربیت میں استفادہ کر سکتے ہیں اور ان نفوس کی زندگی اور دور کو اچھی طرح معلوم کر سکتے ہیں جن کے بارے میں اللہ کا ارشاد ہے:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّـهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيم. (سورۃ التوبہ: آیت، 100)
ترجمہ: ’’اور جو مہاجرین اور انصار سابق اور مقدم ہیں اور جتنے لوگ اخلاص کے ساتھ ان کے پیرو ہیں، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ مہیا کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔‘‘
اور ارشاد ربانی ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّـهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖتَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّـهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا (سورۃ الفتح: آیت، 29)
ترجمہ: ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں کافروں پر سخت ہیں، آپس میں رحم دل ہیں، تو انہیں دیکھے گا کہ رکوع اور سجدے کر رہے ہیں‘‘
اور جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( خیر امتی القرن الذی بعثت فیہم)) (مسلم: جلد، 4 صفحہ، 1963 اور 1964)
ترجمہ: ’’میری امت کے بہترین لوگ وہ ہیں جن کے درمیان میں بھیجا گیا ہوں۔‘‘
اور جن کے بارے میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:
’’جس کو اقتدا کرنی ہے وہ گزرے ہوئے صحابہؓ کی اقتداء کرے کیونکہ زندوں پر فتنہ کا خطرہ ہے۔ قابل اقتداء محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہؓ ہیں، اللہ کی قسم وہ اس امت میں سب سے افضل تھے، ان کے دل سب سے زیادہ نیکیوں کی تڑپ رکھنے والے، وہ سب سے کم تکلف کرنے والے تھے۔ وہ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ نے اپنے نبیﷺ کی صحبت کے لیے اور اقامت دین کے لیے چن لیا تھا۔ لہٰذا تم ان کے فضل و مقام کو پہچانو، ان کے آثار کی اتباع کرو، ان کے اخلاق اور دین کو حتیٰ الوسع مضبوطی سے تھام لو، یقیناً وہ سیدھی ہدایت پر قائم تھے۔‘‘
(شرح السنۃ للبغوی: جلد، 1 صفحہ، 214 اور 215)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسلامی احکام کو نافذ کیا اور مشرق و مغرب میں اس کو عام کیا لہٰذا ان کا دور سب سے بہترین دور تھا، انہوں نے ہی امت کو قرآن کی تعلیم دی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سنن و آثار کو روایت کیا لہٰذا ان کی تاریخ وہ گراں مایہ خزانہ ہے جس کے اندر فکر و ثقافت، علم و جہاد، فتوحات اور اقوام و امم کے ساتھ تعامل کا سرمایۂ امت محفوظ ہے۔ آنے والی نسلوں کے لیے یہ تابناک تاریخ صحیح منہج اور سچی ہدایت پر سفر زندگی جاری رکھنے میں ممدو معاون ہو گی۔ اس کی روشنی میں وہ اپنے پیغام اور لوگوں کے درمیان اپنے دور کی حقیقت و اہمیت کو پہچانیں گی۔ اعدائے اسلام، یہود و نصاریٰ، سیکولرزم اور کمیونزم کے قائلین اور روافض وغیرہ نے اس تاریخ کی اہمیت اور نفوس کی تربیت اور قوت و طاقت کو برانگیختہ کرنے کے سلسلہ میں اس کے بالغ اثر کو محسوس کیا، جس کی وجہ سے وہ اس تاریخ کو بدنما کرنے اور اس کے اندر خرد برد اور تحریف و تبدیل کرنے اور نئی نسل کے اندر اس سلسلہ میں شکوک و شبہات پیدا کرنے میں لگ گئے، چنانچہ ماضی میں ان خبیث ہاتھوں نے یہ کام انجام دیا اور دور حاضر میں مستشرقین نے اس کے اندر تحریف و تبدیل کا بیڑا اٹھایا، ہماری اسلامی تاریخ یہود و نصاریٰ اور مجوس و روافض کے ہاتھوں تحریف و تبدیل کا شکار ہوئی، جنہوں نے بظاہر اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کیا اور اپنے اندر کفر کو چھپائے رکھا۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اسلام کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سامنے ہر محاذ پر ان کو ناکامی ہو رہی ہے، اس کا مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہ رہا لہٰذا وہ اسلام کو منہدم کرنے، حکومت اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے اور مسلمانوں کا شیرازہ منتشر کرنے کی خاطر سازش میں لگ گئے۔ اس سلسلہ میں خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے اور جھوٹی افواہوں کو پھیلانے اور خلیفہ راشد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرنے اور فتنے گھڑنے میں لگ گئے۔ عبداللہ بن سبا یہودی اور اس کے کارندوں نے فتنہ کی آگ بھڑکانے میں اہم رول ادا کیا، جس کے نتیجے میں تیسرے خلیفہ راشد عثمان رضی اللہ عنہ کا مظلومانہ قتل ہوا اور اسی طرح واقعہ جمل میں جبکہ فریقین کے درمیان تمام غلط فہمیاں ختم ہو چکی تھیں اور مصالحت کی بات چل رہی تھی، ان لوگوں نے جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ اس کے علاوہ دیگر نقل و حرکت اور سازشیں جن سے مقصود، اسلام اور اتباع اسلام کو تباہ و برباد کرنا تھا، مزید برآں اسلامی تاریخ کے اندر ضعیف و موضوع روایات کا اضافہ جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت داغ دار کرتی ہیں، جیسے واقعہ تحکیم کا افسانہ جس میں بعض صحابہؓ کو خدع و مکر اور جاہ و حشمت کی طلب سے متصف قرار دیا گیا تو بعض کو حماقت و غباوت اور کند ذہنی سے متصف کیا گیا۔ اس طرح کی روایات کے وضع کرنے سے مقصود نامحسوس انداز میں اسلام کو متہم قرار دینا اور اس کو ہدف ملامت بنانا تھا کیونکہ اسلام ہمیں صحابہؓ ہی کے ذریعہ سے ملا ہے لہٰذا ان کی ثقاہت و عدالت میں تشکیک لازمی طور پر اسلام کی صحت میں تشکیک ہے۔ ان موضوع و من گھڑت روایات کا مستشرقین اور ہمارے ہم زبان ان کے مقلدین نے سہارا لیا اور اپنی پوری توجہ ان پر مرکوز کر دی اور اس کی بحث و کرید میں توسع سے کام لیا اور اس کو مالِ غنیمت سمجھتے ہوئے اس کو جمع کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کی کیونکہ اس سے اسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے سلسلہ میں طعن و تشنیع اور اتہام جیسے مقاصد میں مدد ملتی ہے۔
(دیکھیے: شیخ صادق عرجون کی کتاب خالد بن الولید پر سید قطب کا مقدمہ: صفحہ، 5)
اعدائے اسلام نے ہماری تاریخ کو اپنے منحرف مناہج کے موافق ڈھال کر پیش کیا اور بعض مسلم مورخین ان درآمد شدہ مناہج سے بری طرح متاثر ہوئے اور پچھلی دہائیوں میں انہوں نے اعدائے امت مستشرقین، کمیونسٹوں اور روافض ویہود کی حرف بحرف ترجمانی کر ڈالی۔ کیونکہ اسلام کی روح و طبیعت کا ان کے پاس صحیح تصور نہیں تھا، حالانکہ اسلامی تاریخ پر قلم اٹھانے کے لیے انتہائی ضروری ہے کہ انسان کو اسلامی فکر کی حقیقت اور زندگی اور واقعات اور اشیاء کے سلسلہ میں اس کے نظریات کا بخوبی علم و ادراک ہو اور پھر لوگ جن مبادی و اصول پر قائم ہیں اس سے موازنہ کیا جائے اور روح و فکر اور نفوس و شخصیات کی تعمیر میں اس کی تاثیر کو سمجھا جائے۔ اسلامی شخصیات کا مطالعہ خاص کر اس بات کا متقاضی ہے کہ اسلامی فکر کی تاثیر قبول کرنے کے سلسلہ میں اسلامی شخصیات کے مزاج کا مکمل ادراک ہو، کیونکہ ان تاثیرات کے قبول کرنے کا طریقہ انسان کے شعور و سلوک اور واقعات کے ساتھ تاثر کو ڈھالنے میں بڑی اہمیت رکھتا ہے اور اسلامی فکر کی حقیقت اور اسلامی شخصیات کے طریقہ اخذ و قبول کا ادراک صرف وہی مؤلف کر سکتا ہے جو اسلامی فکر پر ایمان رکھتا ہو اور دل کی گہرائیوں سے اس کو قبول کرتا ہو، تاکہ یہ ادراک اس کے ضمیر کی سچی آواز ہو، صرف خالی ظاہر ی ذہنی اپج نہ ہو۔
(دیکھیے: شیخ صادق عرجون کی کتاب خالد بن الولید پر سید قطب کا مقدمہ،ل: صفحہ، 5)
اس منہج کو نہ اختیار کرنے کی وجہ سے بعض معاصر مؤرخین و مؤلفین اور ادباء نے سلف صالحین کی تصویر کو مسخ کر ڈالا، ان کو اس شکل میں ظاہر کیا کہ وہ دنیا پر ٹوٹ پڑے اور حکومت و سلطنت کی خاطر ایک دوسرے کا خون بہانے اور اس کو زیر کرنے میں لگ گئے۔ ان لوگوں نے درس گاہ نبوت کے تربیت یافتہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حقیقت کو نہیں سمجھا اور اسلام اور اس کے عقیدہ و اصول سے متاثر ہوئے بغیر قلم اٹھا لیا۔ اس طرح کی تالیفات کی وجہ سے ایسی نسل وجود میں آئی جسے اپنی صحیح تاریخ کا پتہ ہی نہیں، تاریخ کے نام سے اسے اپنے سامنے صرف جنگ و خونریزی، مکرو فریب اور حیلہ سازی نظر آئی اور اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی تصویر مسخ ہو کر رہ گئی، جس کا اثر یہ ہے کہ بعض مسلمانوں نے حقیقت کو سمجھے بغیر ان اباطیل کو محض اس لیے قبول کر لیا ہے کہ زید یا عمرو نے ان کو اپنی کتابوں میں لکھ مارا ہے۔
(دیکھیے: محمد مال اللہ کی کتاب ابوبکر رضی اللہ عنہ: صفحہ، 15 اور 16)
اہلِ سنت والجماعت کے منہج پر اسلامی تاریخ کی نئے سرے سے تالیف و تصنیف انتہائی ضروری ہو گئی ہے اور الحمدللہ اس منہج کے مطابق تاریخ کی تالیف شروع ہو چکی ہے اور یہ کام یوں ہی شروع نہیں کیا گیا ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس دین و امت کی حفاظت کی ضمانت لے رکھی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تاریخ کے لیے ایسے لوگوں کو پیدا فرمایا جو ان کے واقعات کی تحقیق کریں، اور اخبار کی تصحیح کریں، خبریں گھڑنے والے وضاع و کذاب لوگوں کا پردہ فاش کریں، یہ تحقیق و تصحیح اوّلاً اللہ رب العالمین کا فضل و احسان ہے اور پھر ائمہ اہلِ سنت محدثین و فقہاء کی کوششوں کا نتیجہ ہے، جن کی تالیفات اس طرح کی صحیح روایات اور اشارات سے بھری پڑی ہیں جن سے گھڑنے والوں کے تمام مزاعم کی تردید ہو جاتی ہے۔
(دیکھیے: ملاحظہ ہو دکتور محمد مخزون کی کتاب المنہج الاسلامی لکتابۃ التاریخ: صفحہ، 4)
اہلِ سنت کے منہج پر عمل کرتے ہوئے میں جدید و قدیم مراجع اور مصادر میں لگ گیا اور خلفائے راشدینؓ کے دور کے مطالعہ کے لیے میں نے صرف طبری، ابنِ اثیر، ذہبی اور مشہور کتب تاریخ پر اکتفاء نہیں کی بلکہ میں نے کتب تفسیر، حدیث اور شروحات حدیث، کتب جرح و تعدیل اور تراجم نیز کتب فقہ کی طرف رجوع کیا، تو مجھے ان کتابوں کے اندر بہت زیادہ تاریخی مواد ملے، جن کی حقیقت معروف و متداول تاریخی کتب کے اندر نہیں مل سکتی ہے۔ میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی شخصیت اور دور کو موضوع بحث بناتے ہوئے ان کے بارے میں لکھنا شروع کیا۔ آپ تو خلفائے راشدینؓ کے سرخیل ہیں، جن کی سنت کی اتباع اور جن کے طریقے کی پیروی کا ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم فرمایا اور اس پر ابھارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
((علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین من بعدی۔)) (ابوداود: ۴/۲۰۱، الترمذی: ۵/۴۴، حدیث حسن صحیح)
’’تم میری سنت کو اور میرے بعد ہدایت یاب خلفائے راشدینؓ کی سنت کو لازم پکڑو۔‘‘
ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ انبیاء و مرسلین کے بعد صدیقین کے سرخیل اور صالحین میں سب سے افضل و بہتر ہیں اور علی الاطلاق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سب سے افضل و اشرف اور سب سے زیادہ علم والے ہیں۔ آپ ہی کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لو کنت متخذا خلیلا لاتخذت ابا بکر خلیلا ولکن اخی وصاحبی
(البخاری: فضائل الصحابۃ، 3656)
’’اگر میں لوگوں میں سے کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا لیکن وہ میرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔‘‘
نیز آپ اور عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اقتدوا بالذین من بعدی ابی بکر وعمر (صحیح سنن الترمذی للالبانی رحمہ اللہ جلد، 3 صفحہ،200)
’’میرے بعد ابوبکر وعمر کی اقتدا کرنا۔‘‘
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آپ کے متعلق شہادت دیتے ہوئے فرمایا:
’’آپ ہمارے آقا، ہم میں سب سے بہتر و افضل اور رسول اللہﷺ کے نزدیک ہم میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘
(البخاری: فضائل الصحابۃ: صفحہ 3668)
محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ نے اپنے والد علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جب دریافت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے افضل کون ہیں؟ تو آپ نے فرمایا: (البخاری: فضائل الصحابۃ: صفحہ، 3671)
ابوبکر رضی اللہ عنہ کی زندگی اسلامی تاریخ کا وہ درخشاں صفحہ ہے جو تمام تاریخ پر فضیلت و فوقیت رکھتا ہے، جس شرف ومنزلت، اخلاص اور بلند مبادی اور اصولوں کی خاطر جہاد و دعوت پر یہ تاریخ مشتمل اور حاوی ہے، تمام اقوام کی تاریخ اس سے خالی ہے۔ اسی لیے میں نے آپ کے واقعات و اخبار اور حیات و زمانہ کو مراجع ومصادر میں غوطہ زنی کر کے کتابوں کے اندر سے نکالا اور اس کی ترتیب و تنسیق اور توثیق وتحلیل کی، تاکہ دعاۃ وعلماء، خطباء و مقررین، سیاست دان و مفکرین، قائدین و حکام اور طلبہ سبھی اس پر مطلع ہو سکیں اور اپنی زندگی میں اس سے استفادہ کرتے ہوئے عملی جامہ پہنائیں تاکہ دنیا و آخرت میں اللہ تعالیٰ ان کو فوز و فلاح سے ہمکنار فرمائے۔
میں نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل وصفات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان جہاد میں شرکت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مدنی معاشرہ میں آپ کے عظیم مؤقف وکردار کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ سے امت کو ثابت قدم رکھا ان تمام امور کی تلاش و جستجو کی اور ایک ایک کر کے جمع کیا۔ سقیفہ بنی ساعدہ اور اس میں پیش آنے والے انصار و مہاجرین کے نقوش وگفتگو پر روشنی ڈالی اور اس سلسلہ میں مستشرقین، روافض اور ان کے مقلدین نے جو شبہات ابھارے ہیں اور غلط پروپیگنڈہ کیا ہے اس کا پردہ چاک کیا اور ان شبہات کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ لشکر اسامہ کو اپنی مہم پر بھیجنے کے سلسلہ میں صدیق کے مؤقف کو بیان کرتے ہوئے اس عظیم واقعہ کے اندر شورائیت، دعوت، عزم و حوصلہ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء، کتاب و سنت کی طرف رجوع، آداب جہاد سے متعلق جو دروس و عبر ہیں انہیں ذکر کیا، فتنہ ارتداد کی توضیح کی، اس کے اسباب و اصناف بیان کیئے۔ کس طرح یہ فتنہ دور نبویﷺ کے آخر میں شروع ہوا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اپنے دور میں کیا مؤقف رہا؟ اس کو ختم کرنے کے لیے آپ نے جو لائحہ عمل وضع کیا اور مرتدین کے خلاف جنگ میں جو اسلوب اختیار کیا اس کو تفصیل سے بیان کیا اور صدیق اکبر کی ان صلاحیتوں کا سراغ لگایا جو آپ کی شخصیت کے اندر موجود تھیں، جن کے ذریعہ اللہ کی توفیق کے بعد ارتداد کی تحریک کو کچل دیا۔ پھر آپ کے دور سے متعلق گفتگو کی اور کس طرح اس میں غلبہ و تمکین کے شروط واسباب موجود تھے اور غلبہ و تمکین سے بھرپور نسل کی صفات کو بیان کیا جس کی قیادت صدیقؓ نے کی۔ اور آپ نے اپنی حکومت میں خارجہ دخل اندازی کو ختم کرنے کے لیے جو سیاست و پالیسی اختیار کی اس کی طرف اشارہ کیا۔ واقعہ ارتداد کے اہم نتائج کو ذکر کیا۔ مثلاً اسلام کا دوسرے افکار و تصورات اور سلوک واعمال سے ممتاز ہونا، معاشرہ کے لیے قوی بنیادی اصول کا پایا جانا، جزیرۃ العرب کو اسلامی فتوحات کا مرکز بنانا، فتوحات کی تحریک کے لیے قائدین کو تیار کرنا، تحریک ارتداد سے رونما ہونے والی فقہ، سازش گروں کو ان کی اپنی سازش میں مبتلا کر دینے کی الہٰی سنت، جزیرۃ العرب میں اداری نظام کا استقرار اور اسی طرح میں نے عہد صدیقی کی فتوحات پر روشنی ڈالی اور فتح عراق کے سلسلہ میں آپ کی منصوبہ بندی اور لائحہ عمل کو بیان کیا۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا، انہوں نے اپنی عظیم جنگی مہموں کے ذریعہ سے عراق کے شمال و جنوب کو اسلامی خلافت میں شامل کر لیا، جن کے اندر مثنیٰ بن حارثہ، قعقاع بن عمرو اور خالد بن ولید رضی اللہ عنہم اور آپ کے فتح مند لشکر کی نادرئہ روزگار بہادریاں نمایاں ہوئیں۔ یہ دور صدیقی کے بعد آنے والی عظیم فتوحات کا پہلا قدم تھا، جس نے امت کی تاریخ کو دین کی نشرواشاعت اور اللہ کی راہ میں طویل جہاد کے سلسلہ میں تابناک بنا دیا۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
فالقادسیۃ ما یزال حدیثھا
عِبَرٌ تُضِیُٔ بأطیب الألوانِ
’’قادسیہ کے واقعہ میں برابر دروس وعبر ہیں جو پاکیزہ رنگوں میں ضیا پاشی کرتے ہیں۔‘‘
تُحْکِی مفاخرَنا وَتَذْکُرْ مَجْدَنَا
فَتُجِیْبُہَا حِطِّیْنُ بالمنوالِ
’’یہ واقعہ ہمارے مفاخر کو بیان کرتا ہے اور ہمارے شرف ومنزلت کو ذکر کرتا ہے، پھر اسی طرز پر حطین کا واقعہ نمودار ہوتا ہے۔‘‘
صفحات مجدٍ فی الخلود سطورہا
دان الرجال لہا بغیر جدال
’’مجدو بزرگی کے یہ صفحات، ان کی سطریں ہمیشہ باقی رہیں گی، لوگ بغیر کسی مقابلہ کے اس کی اتباع قبول کرتے رہتے ہیں۔‘‘
وکاننی بابن الولید وجندہ
وبکل کف لامع الانصال
’’گویا کہ میں خالد بن ولید اور ان کے لشکر اور ان کی ہتھیلیوں میں چمکتے نیزوں کو دیکھ رہا ہوں۔‘‘
نشروا علی ارض الخلیل لواء ہم
فغدا یظلل اطہر الاطلال
’’جنہوں نے سر زمین فلسطین پر پرچم اسلام لہرایا، جس نے پاکیزہ پہاڑیوں کو اپنے سایہ میں لے لیا۔‘‘
وعن الیمین ابو عبیدۃ قد اتٰی
واتی صلاح الدین صوب شمال
’’دائیں جانب سے ابو عبیدہ پہنچے تو بائیں جانب سے صلاح الدین آ نمودار ہوئے۔‘‘
یسعی الیہم قد شروا ارواحہم
للّٰہ بعد تسابق لقتال
’’ان کی طرف وہ لوگ آگے بڑھے جنہوں نے قتال میں مسابقت کرتے ہوئے اپنی روحوں کو اللہ کے حوالے کر دیا۔‘‘
فہم الاعزۃ فی کتاب خالد
ما بعد قول اللّٰہ من اقوال
’’وہ لوگ اللہ کی کتاب میں عزت والے قرار دیے گئے ہیں اور اللہ کے فرمان کے بعد کسی فرمان کی ضرورت نہیں۔‘‘
میں نے ابوبکر صدیق، خالد بن ولید اور عیاض بن غنم رضی اللہ عنہم کے مابین فتح عراق کے سلسلہ میں جو خط کتابت ہوئی اس کو بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ اس طریقہ کار کو تفصیل سے بیان کیا ہے جو فتح شام کے سلسلہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اختیار کیا، جہاد سے متعلق کبار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مشورہ لینا، اہل یمن سے استفسار کرنا، فوج ارسال کرنے کے سلسلہ میں آپ کا طرز عمل، فتح شام پر بھیجے گئے قائدین کو وصیت، خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو عراق کے محاذ سے ہٹا کر شام کے محاذ پر لگانا اور معرکہ اجنادین اور یرموک کے واقعات اور ان فتوحات سے خارجہ سیاست کے سلسلہ میں ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعض نقوش کو واضح کیا۔ دوسری اقوام کے اندر حکومت کی ہیبت وخوف بٹھانا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس جہاد کا حکم فرمایا تھا، اس کو جاری رکھنا، مفتوحہ علاقوں میں عدل وانصاف قائم کرنا، ان کے باشندوں کے ساتھ نرمی برتنا، جبر و کراہ کو دور کرنا، بشریت اور دعاۃ و مصلحین کے درمیان حواجز اور رکاوٹوں کو ختم کرنا۔ اسی طرح صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعض جنگی حکمت عملی کو واضح کیا ہے، مثلاً دشمن کے ملک جب تک مسلمانوں کی فرماں برداری نہ قبول کر لیں اندر تک نہ گھسنا، جنگ کی تیاری اور فوج جمع کرنے کی قدرت، مسلسل جنگی امداد اور کمک کو منظم کرنا، جنگ کے مقصد کو متعین کرنا، جنگی میدان کو اوّلیت دینا، میدان معرکہ سے برطرفی، اسالیب قتال میں بتدریج تبدیلی لانا، اپنے اور قائدین جیش کے درمیان اتصال کو محفوظ و مضبوط رکھنے کا اہتمام، آپ نے قائدین جنگ کو جو ہدایات اور وصیتیں کی ہیں ان کی روشنی میں اللہ تعالیٰ، قائدین اور فوج کے حقوق کو میں نے بیان کیا ہے۔ زندگی کے آخری ایام میں آپ کا خلافت کے لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منتخب فرمانے اور آپ کے کلمات کو بیان کیا ہے۔
آپ کا آخری کلمہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد تھا:
لتَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
’’اے اللہ مسلمان ہونے کی حالت میں میری وفات فرما اور صالحین کے زمرے میں شامل کر دے۔‘‘
میں نے اس کتاب میں یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ صدیق رضی اللہ عنہ نے اسلام کیسے سمجھا اور کیسے اس کو عملی جامہ پہنایا اور اپنے دور میں رونما ہونے والے حالات پر کس طرح اثر انداز ہوئے اور آپ کی شخصیت کے مختلف گوشوں؛ سیاسی، عسکری، اداری اور اسلامی معاشرہ میں آپ کی خلافت سے قبل اور خلافت کے بعد کی زندگی پر روشنی ڈالی ہے اور بحیثیت ایک ممتاز اور نادر روزگار حاکم کے آپ کی داخلی اور خارجی سیاست کے کارناموں اور اداری اسلوب کا جائزہ لینے کا اہتمام کیا ہے اور واضح کیا ہے کہ آپ کے دور میں دارالقضاء کا کس طرح آغاز ہوا تاکہ ہم ان تصورات کو جان سکیں جو اس کے اندر اور حکومت کے دیگر اداروں میں راشدی دور اور اسلامی تاریخ کے اندر رونما ہوئے ہیں۔ یہ کتاب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی عظمت کی واضح دلیل پیش کرتی ہے اور قارئین کے لیے یہ ثابت کرتی ہے کہ آپ ایمان، علم، فکر، بیان، اخلاق اور کارنامے ہر اعتبار سے عظیم تھے۔ آپ نے اپنے اندر ہر طرح کی عظمتوں کو جمع کر رکھا تھا اور آپ کو یہ عظمت، فہم اسلام، عملاً اس کی تطبیق اور اللہ رب العالمین سے عظیم تعلق، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح اور سچی اتباع سے حاصل ہوئی تھی۔
یقیناً ابوبکر رضی اللہ عنہ ان ائمہ میں سے ہیں جو لوگوں کے لیے نقوش راہ متعین کرتے ہیں اور لوگ اس دنیا کے اندر ان کے ا قوال و افعال کی اقتداء کرتے ہیں۔ آپ کی سیرت ایمان، صحیح اسلامی تڑپ اور دین کے فہم سلیم کے قوی ترین مصادر میں سے ہے۔ اسی لیے میں نے آپ کی شخصیت اور آپ کے دور کو پڑھنے میں بھرپور محنت کی ہے لیکن مجھے عصمت کا دعویٰ نہیں اور نہ غلطی و لغزش سے انکار ہے۔ اللہ کی رضا اور اس کے ثواب کے حصول کے لیے میں نے یہ کوشش کی ہے، اسی سے اس سلسلہ میں مدد کی درخواست ہے، یقینا وہ پاکیزہ ناموں والا اور دعاؤں کو سننے والا ہے۔
یہ کتاب ایک مقدمہ، چار فصلوں اور خلاصہ پر مشتمل ہے۔
مقدمہ
پہلی فصل: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ مکہ میں
یہ فصل پانچ مباحث پر مشتمل ہے:
- نام، نسب، کنیت، القاب، صفت، خاندان، دور جاہلیت کی زندگی۔
- اسلام، دعوت، ابتلاء و آزمائش، پہلی ہجرت۔
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت مدینہ۔
- ابوبکر رضی اللہ عنہ میدان جہاد میں۔
- صدیق اکبر رضی اللہ عنہ مدنی معاشرہ میں، آپ کے بعض اوصاف وفضائل
دوسری فصل: وفات نبویﷺ اور سقیفہ بنی ساعدہ
یہ فصل دو مباحث پر مشتمل ہے:
- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور سقیفہ بنی ساعدہ
- بیعت عامہ اور داخلی سیاست۔
تیسری فصل: لشکر اسامہ اور مرتدین سے جہاد
یہ فصل پانچ مباحث پر مشتمل ہے:
- لشکر اسامہ
- مرتدین سے جہاد
- مرتدین پر عام حملہ
- مسیلمہ کذاب اور بنو حنیفہ
- مرتدین سے جنگ سے حاصل ہونے والے دروس وعبر اور فوائد
چوتھی فصل: فتوحات صدیق، خلافت کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی اور وفات
یہ فصل چار مباحث پر مشتمل ہے:
- فتوحات عراق
- فتوحات شام
- اہم دروس و عبر اور فوائد
- خلافت کے لیے عمر رضی اللہ عنہ کی نامزدگی اور آپ کی وفات
اس کتاب کی تالیف سے بروز جمعہ بعد نماز عشاء بتاریخ 5 محرم 1422 ہجری موافق 30 مارچ 2001ء فارغ ہوا۔ اوّل وآخر اللہ ہی کا فضل وکرم ہے اور اللہ سے دعا ہے کہ اللہ اس عمل کو اچھی طرح قبول فرمائے اور ہمیں انبیاء و صدیقین اور شہداء و صالحین کی رفاقت سے سرفراز فرمائے۔
ارشاد ربانی ہے:
مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِكَ لَهَا وَمَا يُمْسِكْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ مِن بَعْدِهِ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (سورۃ الفاطر: آیت، 2)
ترجمہ: ’’اللہ تعالیٰ جو رحمت کھول دے سو اس کو کوئی بند کرنے والا نہیں اور جس کو بند کر دے سو اس کے بعد کوئی اس کو جاری کرنے والا نہیں، اور وہی غالب حکمت والا ہے۔‘‘
اس مقدمہ کے آخر میں میرے لیے اس کے علاوہ چارئہ کار نہیں کہ میں اللہ کے حضور اس کے فضل وکرم اور جو دوسخا کا اعتراف کرتے ہوئے قلب خاشع کے ساتھ حاضری دوں، وہی فضل وکرم کرنے والا، وہی مددگار اور توفیق بخشنے والا ہے۔ اوّل وآخر اسی کے لیے حمدوثنا ہے کہ اس نے مجھ پر احسان فرمایا، میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے اس کے اچھے ناموں اور بلند صفات کے ذریعہ سے سوال کرتا ہوں کہ میرے اس عمل کو اپنے لیے خالص بنا لے اور اپنے بندوں کے لیے نفع بخش بنا دے اور ہر حرف پر مجھے نیکی عطا فرمائے اور میرے میزان عمل میں شامل کر دے اور میرے جن بھائیوں نے اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لیے اپنی بساط بھر میرا تعاون کیا ہے ان کو اجر عطا فرمائے اور میں ہر مسلمان سے جو اس کتاب پر مطلع ہوں امید کرتا ہوں کہ وہ اس بندہ فقیر کو اپنی دعاؤں میں نہیں بھولیں گے۔
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ
سبحانک اللہم وبحمدک اشہد ان لا الہ الا انت استغفرک واتوب الیک وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔