Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مقدمہ

  ابو شاہین

مقدمہ

اللہ تعالیٰ کے دین پر اکٹھے ہو کر مضبوطی سے قائم رہنا اور فرقہ بندی کا شکار نہ ہونا، اسلام کا عظیم بنیادی اصول ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا

(سورۃ آل عمران ، آیت 103)

’’اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو۔‘‘

بلاشبہ مسلمانوں کی جماعت سے نکلنے والے اور سنت سے پہلو تہی کرنے والے فرقوں کی حالت و کیفیت بیان کرنا ابہام دُور کرنے، حق کو واضح کرنے، اللہ تعالیٰ کا دین پھیلانے اور ان فرقوں پر حجت قائم کرنے کے لیے ازحد ضروری ہے تاکہ جو جیے تو دلیل کے ساتھ جیے، جو مرے تو بھی دلیل کے ساتھ مرے، کیونکہ حق کسی پر چھپ نہیں سکتا۔ علمائے سُوء اپنے پیرو کاروں کو صرف شکوک و شبہات اور وہم پیدا کرنے والے اقوال کے ذریعے سے گمراہ کرتے ہیں اس لیے ان گروہوں کے ماننے والے یا تو زندیق ہیں یا پھر جاہل۔جاہل کو تعلیم دینا ضروری ہے اور زندیق کی زندیقیت کو بیان کرنا بے حد ضروری ہے۔ کتاب و سنت کے مخالفین ائمہ بدعت کی حقیقت کو بیان کرنا تمام مسلمانوں کے اتفاق کی رُو سے واجب ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ ایک آدمی جو روزہ رکھتا ہے، نماز پڑھتا ہے اور اعتکاف کرتا ہے کیا وہ آپ کو زیادہ پسند ہے یا وہ جو اہل بدعت کے بارے میں گفتگو کرتا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: روزہ، نماز اور اعتکاف تو اس کے اپنے لیے ہے اور اہل بدعت کے متعلق گفتگو کرنا، یہ تمام مسلمانوں کے لیے ہے اور یہ افضل ہے۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے جنہیں اللہ تعالیٰ وقتاً فوقتاً ان فرقوں کے شر کو دُور کرنے کے لیے کھڑا کرتا رہتا ہے تو اب تک دین کا حلیہ بگڑ چکا ہوتا۔ دین کا بگاڑ جنگ کے نتیجے میں دشمن کے غلبے کی وجہ سے ہونے والے بگاڑ سے کہیں بڑھ کر ہے، کیونکہ دشمن ، دین اور دلوں کو براہِ راست خراب نہیں کرتا جبکہ یہ گمراہ فرقے ابتداء ہی دلوں کو خراب کرنے سے کرتے ہیں ۔

اُمت اسلامیہ کے خلاف گھات میں رہنے والے دشمن کو سانحہ کربلا سے (جو انہوں نے خود برپا کیا ) امت میں فتنہ پیدا کرنے کے لیے ایک مضبوط ہتھیار مل گیا ہے۔ یہ عظیم سانحہ برپا کرنے میں کامیاب ہو گئے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ دشمنان اسلام ان فرقوں کی تاریخ اور عقائد کا اہتمام کے ساتھ مطالعہ کرتے ہیں اور اُن کو اپنا مشیر بنا کر اسلامی ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے حکمت عملی تیار کرتے ہیں اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بعض فرقوں کی بھرپور معاونت کرتے ہیں اور انہیں اقتدار کے ایوانوں تک پہنچانے کے لیے مکمل وسائل مہیا کرتے ہیں ۔ اس میں شک نہیں کہ ان فرقوں کے متعلق حق بیانی دشمن کے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اختلاف کی خلیج وسیع کرنا،نیز ان زندیقوں اور بدعتیوں کو عامۃ الناس کو گمراہ کرنے، اپنے گروہ کی تعداد میں اضافہ کرنے، ان کے ذریعے سے لوگوں کو فریب دینے اور اپنے عقیدہ و عمل کو اسلام باور کرانے کی کھلی چھٹی دینا اللہ کے دین اور اس کی شریعت سے بدظن اور بدگمان کرنے کے مترادف ہے۔ ملحدوں کے دین سے خروج کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام وہی ہے جس پر ان بدعتی فرقوں کا عمل ہے اور وہ عقل کی رُو سے باطل ہے، لہٰذا انہوں نے اصل دین ہی کا انکار کر دیا!!

الحمد للہ آج بھی بہت سارے اہل سنت کے علماء ایسے ہیں جنہوں نے یہ بیڑا اُٹھا رکھا ہے کہ کہ کیسی ہی مشکلات کیوں نہ ہوں وہ اسلام کا دفاع کرنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ اہل سنت و الجماعت اللہ اور اس کے رسول کے بعد اہل بیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت کو اپنے اوپر واجب سمجھتے ہیں اور قاتل حسین رضی اللہ عنہ کا معاملہ اللہ کے سپرد کرتے ہیں کیونکہ وہ بہتر جاننے والا اور حساب لینے والا ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یعنی حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کو شہید کرنے والا اور حسن بن علی رضی اللہ عنہما کو بار بار زہر دینے والا اور بے رحمی سے آل بیت اور جنت کے سردار سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والا اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکے گا، اس پر اللہ اور اس کے فرشتے لعنت کرتے ہوں گے کیونکہ انہوں نے امت کے شیرازہ کو بکھیر دیا۔

یہاں ایک اہم بات کہ کیا یہ انصاف ہے کہ ہم ایک کی محبت میں دوسروں پر لعنت کریں ؟ وہ بھی ان ہستیوں پر جن کا شمار اصحاب رسول میں ہو، جن کے ایمان کی گواہی کتاب اللہ دے اور رسول ﷺ جسے اپنا ساتھی کہیں ۔

سبحان اللہ! اہل سنت و الجماعت ایسے قبیح فعل سے اللہ کی پناہ میں آتے ہیں ۔ اللہ اہل ایمان کی حفاظت فرمائے جنہوں نے آج تک اہل بیت کا دامن نہیں چھوڑا اور حقائق سے امت کو آگاہ کیا ہے اور ہمیشہ کرتے رہیں گے۔قتل حسین رضی اللہ عنہ اُمت مسلمہ کے لیے بہت بڑی آزمائش تھی اور آج تک امت مسلمہ اس آزمائش میں مبتلا ہے۔

اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے ڈاکٹر علی محمد محمد الصلابی کو جنہوں نے سیّدنا حسین رضی اللہ عنہما کی نہایت عمدہ پیرائے میں سیرت بیان کی ہے ، اور ڈاکٹر حامد خلیفہ نے بھی خوب لکھا اور کافی حد تک دفاعِ اسلام اور دفاعِ اہل بیت میں کامیاب نظر آئے اور ہمارے اسلاف یہ کام کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ کتاب میں بہت ساری خوبیاں ایک ساتھ جمع ہو گئی ہیں ، الحمد للہ۔ بہت ساری غلط فہمیاں دُور ہو گئی ہیں ۔ خاص کر نواسہ رسولؐ کے سر مبارک کی بحث خاص طور پر بہت علمی ہے۔ پوری کتاب کا مطالعہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ تمام فصلیں غو ر کرنے کے قابل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ کو اور توفیق بخشے کہ اس طرح کام آتا رہے اور غلط فہمیاں دُور ہوتی رہیں ۔ جزاک اللہ خیرا

ابو شاہین 

ریاض ، سعودی عرب