خاتمہ
الشیخ عبدالرحمٰن الششریخاتمہ:
میرے مسلمان بھائی! اثناء عشریہ امامیہ شیعہ کے عقائد کی معرفت کے اس مختصر سے سفر کے بعد یہ یقین کر لیں کہ ہمارے اور کتاب و سنت کے مخالف فرقوں کے درمیان موافقت اسی صورت میں ہو سکتی جب اس شرعی اصول پر عمل کیا جائے جسے مندرجہ ذیل آیت مبارکہ بیان کر رہی ہیں،
اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
قُلۡ يٰۤاَهۡلَ الۡكِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَآءٍۢ بَيۡنَـنَا وَبَيۡنَكُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشۡرِكَ بِهٖ شَيۡئًا وَّلَا يَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡهَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ۞
(سورۃ آلِ عمران: آیت 64)
ترجمہ: آپ کہہ دیجیئے کہ اے اہلِ کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں اور نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں، پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں۔
یہ اصول اللہ تعالیٰ کی توحید پر عمل اور اس سے شرک کرنے سے بے زاری ہے، حکم لگانے اور قانون سازی میں اس کی اطاعت گزاری ہے اور خاتم الانبیاء و المرسلینﷺ کی اتباع ہے۔ تو واجب و لازم ہے کہ یہی آیت مبارکہ پر مجادلے و مباحثے میں شعار ہو اور ہر دو کوشش جو اس اصولِ قاعدے کہ علاوہ کسی دوسرے مقاصد کے حصول کے لیے ہو تو وہ باطل ہے باطل ہے باطل ہے۔
(الإبطال لنظرية الخلط بين دين الإسلام وغيره من الأديان: صفحہ، 29 للشيخ بكر أبو زيدؒ رحمه الله)
آج کل کے شیعہ علماء یہ گمان اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے درمیان اور مسلمانوں کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور یہ دعوت دیتے ہیں کہ مسلمان ان کی کتابوں کی طرف رجوع کر لیں۔ تو اب سوچنے کی بات ہے کہ مسلمان کسی طرح کتب شیعہ سے حجت پکڑ سکتے ہیں اور کس طرح ان پر اعتماد و بھروسہ کر سکتے ہیں جن میں کتابُ اللہ پر تواتر کے ساتھ طعن موجود ہے کہ وہ ناقص اور محرف ہے؟ میں اور مسلمان کس طرح شیعہ کے ساتھ اس کتابُ اللہ کے معاملے میں اکٹھے ہو سکتے ہیں جب کہ ان کی من مانی اور ان کی باطنی تفاسیر بھی موجود ہیں، پھر مسلمان ان شیعہ کے ان دعوؤں پر کس طرح ایمان لا سکتے ہیں جن میں وہ قرآنِ مجید کے بعد اپنے ائمہ پر دیگر آسمانی کتب کے نازل ہونے کے بھی دعویدار ہیں۔ سنت کے معاملے میں مسلمان شیعہ کے ساتھ کس طرح متفق ہو سکتے ہیں، جبکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے بارہ ائمہ کے اقوال اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین کے ہم پلہ و درجہ ہیں اور بے شک رسولﷺ نے شریعت کا ایک حصہ چھپا کر اسے ائمہ کے سپرد کر دیا ہے، وہ خطوط کی حکایات پر ایمان رکھتے ہیں اور پھر ان پر اپنے دین کی عمارات تعمیر کرتے ہیں، وہ کذابوں اور دجالوں کی روایات کو قبول کرتے ہیں، جب کہ وہ انبیاء علیہم السلام کے بعد خیار خلائق یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں زبان طعن دراز کرتے ہیں۔
مسلمان، شیعہ کے ساتھ کسی طرح اکٹھے ہو سکتے ہیں، جب کہ وہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا امہات المومنینؓ پر جو کہ رسول رب العالمینﷺ کی ازواجِ مطہراتؓ ہیں زنا کی تہمت لگاتے ہیں۔ مسلمان، شیعہ کے ساتھ کس طرح ایک جگہ اکٹھے ہو سکتے ہیں جبکہ وہ اجماع کا انکار کرتے اور دانستہ مسلمانوں کی مخالفت پر کمر بستہ ہوئے ہیں کیونکہ ان کے اعتقاد کے مطابق راہِ ہدایت مسلمانوں کی مخالفت میں ہے۔ مسلمان شیعہ کے ساتھ کسی طرح جمع ہو سکتے ہیں جبکہ وہ تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہراتے، ان میں سے سرِفہرست رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اور پھر رسول اللہﷺ کی بیشتر ازواجِ مطہراتؓ کو بھی کافر قرار دیتے ہیں۔
(مسألة التقريب بين أهل السنة والشيعة، لشيخنا ناصر القفازی: جلد، 1 صفحہ، 357 ح، 390 بتصرف)
مسلمان، شیعہ کے ساتھ کسی طرح جمع ہو سکتے ہیں جبکہ وہ یہ کہتے ہیں جیسا کہ پہلے گزرا ہے بلاشبہ ہم ان یعنی اہلِ سنت کے ساتھ ایک معبود پر جمع نہیں ہو سکتے اور نہ ہی ایک نبی پر اور نہ ہی ایک امام پر۔ اور وہ یہ بھی کہتے ہیں: بلاشبہ ان کا رب تو وہ ہے جس کا محمد نبی ہے اور اس کے بعد ابوبکرؓ اس کا خلیفہ ہے، اور ہم اس رب کی بات نہیں کرتے اور نہ ہی اس نبی کی بات کرتے ہیں بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں بلاشبہ وہ رب جس کے نبی کا خلیفہ ابوبکرؓ ہے وہ ہمارا رب نہیں ہے اور نہ ہی وہ نبی ہمارا نبی ہے۔
(الأنوار النعمانية النعمة الله الجزائری، جلد، 2 صفحہ، 278، 279 كشف الاسرار: صفحہ، 123 الحديث الثانی فی الامامة)
آج اہلِ سنت و الجماعت اپنے دشمنان اور بیمار دل فتنہ بازوں اور اسلام کی طرف منسوب لوگوں کی طرف سے جس پرفتن بیرونی یلغار کا مقابلہ کر رہے ہیں یہ ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ایک نئی بدعت کا حصول ہے جسے اہلِ سنت و اہلِ تشیع کے مابین قربت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اس بدعت کو شرعی پردہ کے سایہ میں لایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو شریعت کے نام پر دھوکہ دے سکیں۔ اس بدعت کی وجہ سے اہلِ سنت و الجماعت مسلمانوں کو بہت بڑا خسارہ اٹھانا پڑا ہے۔ اس عظیم نقصان کا اندازہ وہی انسان لگا سکتا ہے جس کو ان قبائل کا علم ہو جو کہ کامل طور پر شیعہ بن گئے۔ یہاں تک کہ اس دعوت کی وجہ سے عراق کی اہلِ سنت اکثریت شیعہ میں بدل گئی۔ اگر کوئی انسان حیدری عراقی کی کتاب "عنوان المجد"۔
(مؤرخ ابراہیم بن صبغۃ اللہ حیدری بغدادی کہتا ہے: عراق میں جن بڑے بڑے قبائل نے ابھی قریب ہی میں شیعیت و رافضیت قبول کی ہیں وہ بہت ہیں مثلاً: بغداد کی مشرقی جانب ربیعہ قبیلہ کے لوگ ہیں جو امارت سمیت ستر برس سے رافضی بن گئے ہیں، اور عراق کے بڑے قبیلوں میں بنو تمیم بھی شامل ہے، جو عراق کے گرد و نواح میں شیعہ شیطانوں کے آنے جانے کی بناء پر ساٹھ برس سے رافضی بن گئے، اور عراق کے بڑے قبیلوں میں رافضیت اختیار کرنے والوں میں الخزائل قبیلہ کے لوگ بھی شامل ہیں جو ڈیڑھ صدی قبل رافضی بنے تھے، اور رافضیت اختیار کرنے والے بڑے قبیلوں میں زید قبیلہ بھی شامل ہے جو بہت قبیلوں پر مشتمل ہے، اور ان کے ہاں شیعہ کے آنے جانے کی بناء پر رافضیت اختیار کرنے والوں میں بنو عمیر بھی شامل ہیں اور شمر طوکہ بھی جو بہت بڑی تعداد میں ہے، اسی طرح الدوار اور الدفاعہ اور آلِ محمد کا منطقہ امارت بھی جس کے افراد کی تعداد بے شمار ہے
اور بصرہ کے قریب بسنے والے انڈین خاندان بھی جن کی تعداد اللہ کے علاوہ کسی کے علم میں نہیں، اور بنی لام کا خاندان بھی بہت ساری شاخوں پر مشتمل ہے، اس طرح الدیوانیہ خاندان جو کہ پندرہ قبیلوں پر مشتمل ہیں، اور آلِ اقرع اور آلِ بدیر اور رنج اور انجو اور یہ اقرم کے سولہ قبائل ہیں ہر ایک قبیلہ کثیر تعداد پر مشتمل ہے، اور جبور کے چار قبیلے کثیر تعداد پر مشتمل ہیں، عراق میں سو برس یا اس سے کم عرصہ میں رافضیت اختیار کرنے والے بڑے قبیلوں میں کعب قبیلہ بھی شامل ہے، جس کی کئی شاخیں اور خاندان ہیں (دیکھیں: عنوان المجد فی بيان احوال بغداد والبصرة ونجد: صفحہ، 113، 118 طبع دار الحکمت طبع اول 1419ھ یہ مقالہ 1286ھ میں لکھا گیا تھا، مؤرخین نے اسے رافضیت کی نشاط اور لوگوں میں جہالت و فقر پھیلنے اور علماء و اہلِ سنت کی سستی کی طرف منصوب کیا ہے)
دیکھیئے تو اسے حقیقت کا پتہ چل جائے گا۔ اس نے ان عرب قبائل کا تذکرہ کیا ہے جو ان کے دھوکہ کا شکار ہو کر رافضی بن گئے مثلاً قبیلہ کعب، اور عمارہ، اور بنی لام، خزاعل وغیرہ قبائل، جو کوئی بھی اس حقیقت کو پڑھتا ہے وہ ان قبائل کے اہلِ سنت کی صفوں سے نکل کر شیعہ کی صفوف میں شامل ہونے کو حسرت ویاس کے ساتھ دیکھ کر کڑ کر رہ جاتا ہے، کہ کس طرح قبائل کے قبائل رافضیت اختیار کر رہے ہیں۔ ہمارے اس دور میں ایرانی انقلاب کے بعد شیعہ کے لشکر در لشکر دنیا کے مختلف علاقوں میں داخل ہو گئے ہیں۔ خصوصاً ان افریقی علاقوں میں جہاں پر جہالت اور تنگدستی جیسے عوامل پائے جاتے ہیں۔ تاکہ وہ ان لوگوں کو امداد کے نام پر اپنے گندے دھندے کا شکار بنائیں۔ چنانچہ جہالت اور غربت کے مارے ہوئے افراد و قبائل شیعیت کا شکار ہو رہے ہیں ، لا حول ولا قوۃ الا باللہ العزیز الحکیم۔
(التبشير بالتشيع: صفحہ، 28 للشيخ بكر أبو زيد رحمه الله)
شیعہ علماء تقریب یعنی قربت و اتحاد و محبت کے میٹھے نعروں میں زہر گھول کر لوگوں کو پلا رہے ہیں۔ اور وہ عالم اسلام میں شیعیت کی نشر و اشاعت کے لیے انتہائی گہری منصوبہ بندی کے ساتھ اپنے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے کرایہ کے صحافی اور ذرائع ابلاغ بھی خرید رکھے ہیں جو کہ لوگوں کو گمراہ کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے۔ اس کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اہلِ سنت و الجماعت کے علماء حق بیان کرنے میں سستی سے کام لے رہے ہیں۔ بہت سارے سنی حقیقتِ حال کا علم نہ ہونے کی وجہ سے بھی خاموش ہیں۔ اہلِ سنت و الجماعت کے ملکوں میں اور ان کی بڑی اکثریت کے مابین بیٹھ کر چند ایک شیعہ اتحاد و قربت اتفاق ویگانگت کے پر فریب نعرے لگا کر انہیں اپنے دجل و فریب کا شکار کر رہے ہیں۔ چنانچہ شیعہ علماء اور دوسرے لوگ اہلِ سنت کے ممالک میں ان ہی میٹھے مگر زہر یلے نعروں کی بدولت کھلے عام بڑی آسانی سے اپنی دعوت پھیلا رہے ہیں اور اپنی کتابیں نشر کر رہے ہیں، ٹی وی چینلوں اور اخبارات و رسائل اور میگزینوں میں رافضیت کی دعوت دیتے اور مختلف مجالس میں جہلاء فاسقین اور اہلِ دنیا کو بلا کر ان کی ضیافت کرتے ہیں اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ جو لوگ ان کے فتنہ کا شکار ہو رہے ہیں اے کاش! کہ کوئی انہیں سمجھانے والا ہو یا پھر وہ خود ذرا تکلیف برداشت کر کے ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں تو ان پر حقیقت واضح ہو جائے گی۔ کیا ایسے لوگ قرآن و سنت سے جہالت کے ساتھ ساتھ تاریخ سے بھی جاہل ہیں کہ انہیں شیعہ کے کرتوتوں کا کوئی علم نہیں کیا وہ کتاب و سنت کا مطالعہ نہیں کرتے؟ کیا وہ توحید نہیں پڑھتے، اگر تو وہ مخلص ہیں تو اس کا مطالعہ کر کے اس بدعت سے فورا ہٹ جائیں گے اور اہلِ سنت کا مسلک اختیار کرتے ہوئے حق کی طرف رجوع کر لیں گے، اور اگر وہ کچھ اور ہے تو پھر انہوں نے جو اپنے لیے آگے بھیجا ہے وہ بہت ہی برا اور غلط عمل ہے الخ۔
دعوت شیعیت کے خطرات:
1: اہلِ سنت و شیعہ کے مابین قربت و اتحاد کی دعوت کا اصل ہدف لوگوں میں رافضیت کو پھیلانا اور اس کے لیے ہر طرح سے راہیں ہموار کرتا ہے، کہ مسلمان رافضیت کا عقیدہ اختیار کرتے ہوئے باطنیت کے شکنجے میں جکڑ کر خالص اسلام سے ارتداد کی دلدل میں پھنس جائیں۔
2: اس تقریب و اتحاد و قربت کے نعرہ کے پروہ میں بعض غافل اہلِ سنت و الجماعت علمائے کرام سے فتاویٰ حاصل کر کے، اور ان کی مجالس میں شرکت کے ذریعہ رافضیت کی نشر و اشاعت کے لیے اپنے مقصد کے پنپنے میں استعمال کیا جائے اس طرح علمائے اہلِ سنت رافضیوں کے تقیہ اور دھوکہ کے لیے قربانی کا بکرا بن جائیں، تو حقیقت میں اہلِ سنت رافضیت اور شیعیت کو نشر کرنے کا باعث بن جائیں۔
3: شیعہ نوجوانوں کو اہلِ سنت و الجماعت کے مذہب کے مطالعہ و آگاہی سے دور رکھنے کے لیے خفیہ طور پر عملی میدان کو گرم رکھا جائے۔ اس لیے کہ شیعہ نوجوان جب بھی حق کو پہچان لیں گے اس کے قبول کرنے میں دیر نہیں کریں گے۔
4: اہلِ سنت و الجماعت کے خلاف کئی اعتبار سے اس رافضی یلغار کے چہرہ پر ایک پردہ ڈالا جائے تاکہ وہ اس کی حقیقت کو سمجھے بغیر اس کا شکار ہو جائیں اور ان کے لیے ایک تر نوالہ بن جائیں۔
(التبشير بالتشيع صفحہ 41 للشيخ العلامة بكر أبو زيد صفحہ، 11)
لہٰذا یہ شیعہ کی اتحاد کا نعرہ ایک ایسی چال اور فریب ہے جس کا مقصد صرف اور صرف رافضیت و شیعیت عام کرنا اور امتِ مسلمہ کو رافضی بنا کر دین اسلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے دور کرنا ہیں، اس لیے ہم پورے اطمنان اور صمیم قلب سے یہ عرض کریں گے کہ: شیعہ سنی تحاد کے اس نعرہ کی حقیقت طشت ازبام ہو چکی ہے، اور امتِ مسلمہ کے اتفاق و اتحاد و یگانگت کے لیے یہ نعرہ کوئی اچھی راہ نہیں اس طرح ان میں صلح نہیں ہو سکتی، بلکہ یہ تو رافضیت کی دعوت ہے جو مکر و فریب اور دھوکہ پر مبنی نعرہ ہے، کہ حق و باطل کو آپس میں قریب کر دیا جائے، تا کہ اہلِ سنت اس خطرناک فریب میں آ جائیں تو فتنوں کا دور دورہ شروع ہو اور اختلافات کی انتہائی گہری کھائی پڑ جائے تو اس وقت رافضیت و شیعیت کی جڑ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر جائے۔ اس لیے اللہ کی قسم اللہ کے لیے یہ نعرہ لگانا اور اس کی دعوت دینا اور اس کی تائید کرنا اور اس کے لیے راہ ہموار کرنا حرام ہے، بلکہ اہلِ سنت کے علمائے کرام پر واجب اور ضروری ہے کہ وہ رافضیت کی حقیقیت سے مطلع ہو کر لوگوں کے سامنے اس کی حقیقت کو طشت از بام کریں، کہ رافضیت کا دین باطل و فاسد ہے، اور مسلمانوں کے ذہنوں سے ان کی یہ فکری یلغار ختم کریں اس ساری صورت حال کے پیش نظر اہلِ سنت و الجماعت علماء و اہلِ دین پر واجب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے حق بات کو بیان کریں اور رافضیت کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ حق اور باطل کو لوگوں کے سامنے واضح کریں۔
خدا کی قسم! شیعہ کے اس فریب میں آ کر ان کی دعوت قبول کرنا اور ان کا دین اختیار کرنا یا ان کی اس اتحاد و یگانگت کی دعوت کو آگے پھیلانا اور لوگوں میں عام کرنا حرام ہے۔ حکام اور اہلِ قوت و سطوت پر واجب ہوتا ہے کہ وہ اس اندھے سیلاب کے آگے ایک مضبوط بند باندھیں۔ اور اہلِ سنت و الجماعت نوجوانوں کو ان کے خطرات سے آگاہ کریں۔ اپنے اپنے علاقہ میں ان دعوت کو پھیلنے سے روکیں۔ اہلِ سنت و الجماعت مسلمانوں کے مذہبی حقوق کا خیال کرتے ہوئے انہیں ہر قسم کے فکری انحراف و پراگندگی سے بچانے کے لیے ہر انسان اپنی کوششیں بروئے کار لائے ۔ یقیناً یہ وقت کڑی آزمائش کا ہے۔ اور وہی انسان کامیاب و کامران ہے جو ثابت قدم رہے، اپنے علاقوں میں رافضیت کی دعوت نہ دینے دیں، اسلام تو بالکل صاف شفاف دین ہے اور یہ کتاب و سنت کا نام ہے، اس کے علاوہ کسی دوسری چیز کی دعوت نہ دین دینے دیں، بلکہ سنتِ نبویہﷺ پر عمل کرتے ہوئے تفرقہ کے عذاب سے بچ کر رہیں، اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی اپنے نیک وصالح بندوں کا ولی ہے۔
(التبشير بالتشيع صفحہ، 91)
اہلِ بصیرت اور غیرت مند و دانش مند طبقہ کے لیے لمحہ فکر تو یہ ہے کہ وہ ایران جہاں کبھی مساجد سے اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی تھیں؟ اب ان مساجد کو امام باڑے بنا دیا گیا ہے۔ اور پورے ایران میں تقریباً بیس فیصد سے زیادہ اہلِ سنت و الجماعت آبادی کو ایک بھی مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ مگر بیرونِ ایران پیار و محبت اور اتحاد و یگانگت و یکجہتی کے پر فریب نعرے؟ ذرا اللہ کے لیے ضمیر سے پوچھ کر فیصلہ کرو کہ کیا یہ کھلم کھلا منافقت اور اہلِ سنت و الجماعت سے گہری دشمنی نہیں ہے؟ کیا اہلِ سنت اس کے باوجود بھی ان کے پر فریب نعروں کا شکار ہوتے رہیں گے؟ از مترجم) فتویٰ کی مستقل کمیٹی کے رئیس الشیخ عبدالعزیز بن بازؒ اور ممبران کمیٹی الشیخ عبد الرزاق عطیلیؒ و الشيخ عبدالله الغديانؒ نے فرمایا ہے: بلاشبہ درزیہ، نصیریہ، اسماعیلیہ، بابیہ اور بہائیہ میں سے جتنے بھی ان کے ہم خیال ہیں، سبہی نے دین کی نصوص سے کھیل کھیلے ہیں اور سبہی نے اپنے آپ کے لیے ایسی شریعتیں گھڑ لی ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے کوئی حکم نہیں دیا، بلکہ یہ تحریف و تبدیل دین کے معاملے میں یہود و نصاریٰ کی راہوں پر چلے ہیں، خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے اور اس فتنے کے بانی اول یعنی عبداللہ بن سبا الحمیری کی تقلید کرتے ہوئے، جو اس بدعت و ضلالت کا سردار اور مسلمانوں کی جماعت و وحدت میں پھوٹ ڈالنے والا ہے۔ اس کی شرارتیں اور خباثتیں عام ہوئیں جن کے باعث بے شمار جماعتیں فتنے کا شکار ہوگئی اور وہ اپنے اسلام کے بعد کافر بن گئیں، جس کے باعث مسلمانوں کے درمیان فرقہ بازی شروع ہو گئی لہٰذا ان فرقوں اور راست باز مسلمانوں کی جماعت کے درمیان باہمی تقارب کی دعوت غیر مفید ہے اور ان کے درمیان اور صادق صفات مسلمانوں کے درمیان راهِ درسم استوار کرنے کی کوشش ناکام کوشش ہے کیونکہ ان لوگوں کے دل کجی و الحاد اور کفر و ضلال میں اور مسلمانوں کے خلاف کینہ، حسد، بغض اور مکر رکھنے میں یہود و نصاریٰ کے بالکل مشابہ ہیں، اگرچہ ان کے جھگڑے اور گھاٹ الگ اقسام کے ہیں اور ان کے مقاصد اور ارادے ان سے مختلف ہیں ان کی حالت ایسی ہے جیسے یہود و نصاریٰ کی حالت مسلمانوں کے ساتھ اور اس وجہ سے بھی جو عالمی جنگِ عظیم دوم کے بعد مصری جامعہ ازہر کے شیوخ کی ایک جماعت نے ایرانی قمی رافضی کے ساتھ مل کر قدرے نام نہاد باہمی تقارب کے لیے سرتوڑ کوشش کی تھی اور صادقین علمائے کبار کی کچھ تعداد بھی جو پاکیزہ قلب تھے۔
(کمیٹی کے رئیس اور علماء کرام ان کے بارے میں یہی گمان رکھتے ہیں، اور اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کا تزکیہ نہیں کرتے)
اور زندگی کے دہچکوں سے ابھی تک بچے ہوئے تھے ان سے دھو کھا گئے، انہوں نے "مجلہ التقریب" نامی ایک رسالہ بھی شائع کرنا شروع کر دیا، پھر جلد ہی ان کے سامنے دھوکا دہی کے راز منکشف ہو گئے، باہمی قربت پیدا کرنے والا معاملہ اور کوشش ناکام ہو گئی اور اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ وہ مختلف، افکار و متصادم اور عقائد متناقض تھے اور خلافِ فطرت دو متضاد اشیاء/ چیزیں یکجا ہو بھی کیسے سکتی تھیں۔
(فتاوٰى اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء الفتوىٰ نمبر: 7807 ، جلد، 2 صفحہ، 86 جمع الشيخ/ أحمد بن عبد الرزاق الدويش)
الشيخ عبد العزیز بن بازؒ سے دریافت کیا گیا
رافضیوں کی تاریخ کے متعلق آپ کی معلومات کے حوالے سے اہلِ سنت اور ان لوگوں کے درمیان باہمی قربت کے معاملے میں آپ کیا موقف رکھتے ہیں؟
جواب: رافضیوں اور اہلِ سنت کے درمیان باہمی اتحاد و قریب ہونا ناممکن ہے کیونکہ عقیدہ مختلف ہے، اہلِ سنت و الجماعت کا اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کو اس کے لیے خالص رکھنے والا عقیدہ رکھتے ہیں، اور یہ کہ اس کے ساتھ کسی مقرب فرشتے کو بھی نہیں پکارا جائے گا، اور نہ ہی کسی بھیجے ہوئے پیغمبر کو اور علمِ غیب صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے کسی دوسرے کو نہیں۔ اہلِ سنت کے عقیدے میں یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت ہو اور ان سے راضی رہا جائے، اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ بلاشبہ وہ انبیاء علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کی پوری مخلوق میں سے سب سے افضل ہیں اور بلا شبہ ان سب میں سے سیدنا ابوبکر الصدیقؓ افضل ہیں، پھر سیدنا عمرؓ، پھر سیدنا عثمانؓ، پھر سیدنا علیؓ ہے جبکہ رافضی ان کے خلاف ہیں، لہٰذا ان کے درمیان اتفاق و اتحاد ، پر ممکن نہیں ہے اس اختلاف عقیدہ کے پیش نظر جس کی ہم نے وضاحت کر دی پچس طرح کہ یہود و نصاریٰ اور بت پرستوں اور اہلِ سنت کے درمیان اتفاق ممکن نہیں ہے، بالکل اسی طرح رافضیوں اور اہلِ سنت کے درمیان بھی باہمی قربت ممکن نہیں ہے۔
کیا کسی بیرونی دشمن مثلاً کیمونسٹ وغیرہ کو قتل کرنے کے لیے ان سے باہمی معاملہ ممکن ہے؟
جواب: میں اسے بھی ممکن نہیں دیکھتا بلکہ اہلِ سنت پر یہ واجب ہے کہ وہ آپس میں متحد ہو جائیں اور امت واحدہ اور جسد واحد بن کر رہیں اور رافضہ کو بھی وہی دعوت پیش کریں کہ وہ ان کچی باتوں کو اختیار کر لیں جن کی کتابِ الہٰی اور سنتِ رسولﷺ رہنمائی کرتی ہیں، تو جب وہ ان کچی باتوں کو اپنے دامن میں سمولیں گے تو بلاشبہ وہ ہمارے بھائی بن جائیں گے تو ہمارے اوپر لازم ہو جائے گا کہ ہم باہم ایک دوسرے کی مدد کریں، لیکن جب تک وہ اسی عقیدے پر مصر رہیں گے جن پر وہ اب ہیں یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بغض، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو سبِ و شتم ماسوائے ان میں سے چند ایک کے، صدیقؓ و عمرؓ کو سبِ و شتم اور عام اہلِ بیت مثلاً علیؓ، فاطمہؓ حسنؓ اور حسینؓ اور بارہ ائمہ کے متعلق ان کا عقیدہ کہ وہ سب معصوم ہیں اور بلاشبہ وہ غیب کا علم رکھتے ہیں، یہ سب باتیں باطلوں میں سے بڑی باطل ہیں اور یہ سب امور ان امور کے برعکس اور بر خلاف ہیں، جن پر اہلِ سنت و الجماعت قائم ہیں۔
(مجموع الفتاوىٰ سماحته رحمہ الله تعالىٰ جلد، 5 صفحہ، 130، 131)
علماء اور طلباء پر واجب و ضروری ہے کہ وہ سلف صالحین کے عقیدہ کی نشر و اشاعت کرتے ہوئے بتائیں کہ صحیح کیا ہے اور غلط کیا ہے، اسی طرح اہلِ بدعت بھی واضح کریں، اور رافضی مکر و فریب اور چالیس بھی طشت ازبام کریں، کہ وہ کیا کیا جھوٹ بول کر لوگوں کو اپنے جھانسے میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ان کے منحرف و گمراہ عقائد اور فاسد قسم کے اصول بھی لوگوں کے سامنے لائیں، اللہ تعالیٰ ہی سب کا حامی و ناصر ہے۔ امت مسلمہ پر اللہ رحم فرمائے جب تک اس میں ایک گروہ حق پر قائم رہے گا یہ امت گمراہی پر جمع نہیں ہو سکتی، اور یہ گروہ قیامت تک حق پر قائم رہے گا، جو اہلِ علم اور اہلِ قرآن اور ہدایت و بیان پر ہیں اور دین حنیف میں تحریف نہیں ہونے دے گا، جاہلوں کی تاویلوں اور باطل قسم کے افراد کے مکر و فریب سے محفوظ رکھے گا، اس لیے ہم اور سب مسلمانوں کا یہ حق ہے کہ وہ دین کا علم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ وعظ و نصیحت بھی کریں، اور دین کا دفاع کریں۔ جس نے کسی کو بچنے کا کہا اس نے بشارت دی۔
(الابطال النظرية الخلط بين دين الاسلام وغيره من الاديان صفحہ، 11)
اللہ تعالیٰ جسے سعادت دینا چاہتا ہے تو وہ اسے دوسروں سے عبرت حاصل کرنے کی فہم عطا کرتا ہے تو اس طرح وہ ایسی راہ چلنا شروع ہو جاتا ہے جو اللہ کی تائید و نصرت کی راہ ہوتی ہے، اور وہ ذلت و رسوائی کی راہ سے اجتناب کرنا شروع کر دیتا ہے۔
(مجموع الفتاوىٰ جلد، 35 صفحہ، 388 ابو ملیکہ کی دعا صحیح بخاری ح، 6220 باب الحوض صحيح مسلم: ح 2293 باب اثباب حوض نبيناﷺ وصفاته)
(اے اللہ ہم اپنی ایڑیوں پر پلٹ جانے یا دین کے معاملہ میں فتنہ میں پڑ جانے سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔ ابو عامر عبداللہ بن بکیؒ بیان کرتے ہیں: ہم نے سیدنا امیرِ معاویہؓ بن ابوسفیانؓ کے ساتھ حج کیا جب ہم مکہ پہنچے تو ظہر کی نماز ادا کر کے کھڑے ہوئے اور فرمایا: رسول کریمﷺ نے فرمایا تھا:
دونوں اہلِ کتاب اپنے دین میں بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور یہ امت تہتر فرقوں میں بٹے گی، سب کے سب جہنم میں جائیں گے، صرف ایک فرقہ بچے گا، اور وہ جماعت ہے، اور میری امت سے کچھ لوگ نکلیں گے جنہیں یہ خواہشات ایسے بھگائیں گی جیسے کتا اپنے ساتھی کے ساتھ بھاگتا ہے، یہ خواہشات اس کے جوڑ جوڑ اور رگوں میں رس جائیں گی، اے عرب کی جماعت اللہ کی قسم اگر تم اپنی نبی کے دین پر عمل نہیں کرو گے تو پھر تمہارے علاوہ دوسرے بدرجہ اولیٰ اس پر عمل نہیں کریں گے۔
(مجموع الفتاوىٰ: جلد، 28 صفحہ، 231)
(مسند احمد: ح، 16979 ابو داؤد حدیث: 4597 باب شرح السنة، ابنِ تیمیہؒ اس حدیث کو محفوظ کہتے ہیں دیکھیں: اقتضاء الصراط المستقيم: جلد، 1 صفحہ، 122 اور ظلال الجنة فی تخريج السنة: جلد، 1 صفحہ، 28ذكر الاهواء المذمومة نستعصم الله تعالىٰ منها و نعوذبه من كل ما يوجب سخطه میں علامہ البانیؒ نے اسے صحیح قرار دیا ہے)
حضرت ابوسعید الخدریؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا: أَلَا لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُولَ بِحَقِّ إِذَا عَلِمَهُ۔
ترجمہ: خبردار! کسی شخص کو لوگوں کی ہیبت اس حق کے بیان کرنے سے باز نہ رکھے جسے وہ جانتا ہے۔ راوی کہتا ہے تب سیدنا ابوسعیدؓ ہی رو پڑے اور فرمایا:
قَدْ وَاللَّهِ رَأَيْنَا أَشْيَاءَ فَهِبْنَا۔
ترجمہ: بلاشبہ اللہ کی قسم! ہم نے ایسی چیزیں دیکھ لی ہیں پھر ہم ان سے ہیبت بھی پاتے ہیں۔
(ترمذی: ح، 2191)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
مَا ابْتَدَعَ قَوْمٌ بِدُعَةٌ إِلَّا نَزَعَ اللَّهُ عَنْهُمْ مِنَ السُّنَّةِ مِثْلَهَا۔
(سنن دارمی: من قول حسان: ح، 99)
ترجمہ: کسی بھی قوم نے کوئی بدعت اختیار نہیں کی مگر اللہ تعالیٰ نے ان سے اس کے برابر سنت واپس لے لی۔
اور آپﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے:
عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِ وَ سُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ الْمَهْدِيِّينَ، تَمَسَّكُوا بِهَا، وَعَضُوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِدِ وَ إِيَّاكُمْ وَ مُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ، فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَ كُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ۔
(ابو داؤد: ح، 4607)
ترجمہ: تم لازم پکڑو میری سنت کو اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدینؓ کی سنت کو مضبوطی سے تھام لو اور اپنیہ ڈاڑھوں میں دبا کر پکڑ لو، اور خاص طور پر بچ کر رہو تم نئے نئے کاموں سے بلاشبہ ہر نیا کام (دینِ اسلام میں) بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ اور شیخ الاسلام ابنِ تیمیہؒ نے ذکر کیا ہے: بے شک امت کو بدعتوں سے خبردار کرنا اور بدعت کی بات کہنے والوں سے آگاہ کرنا، مسلمانوں کے اتفاق کے ساتھ واجب ہے۔
میرے مسلمان بھائی: اگر آپ یہ سوال کریں کہ شیعہ سنی اتحاد کے دھوکہ پر مبنی نعرے کا دروازہ بند ہونے کے بعد امتِ مسلمہ کے اتحاد و اتفاق کا طریقہ کیا ہوگا؟ کس طرح امتِ مسلمہ میں وحدت پیدا ہوگی، اور اختلافات کسی طرح ختم ہوں گے، اور آپس میں اخوت و بھائی چارہ کیسے قائم ہوگا؟ ہم ذیل میں شریعتِ اسلامیہ اور انبیاء علیہم السلام کی اساس اور خاتم النبین محمدﷺ کا طریقہ بیان کرتے ہیں:
اول: حقیقی اسلام اور عقیدہِ اسلامیہ کی نشر و اشاعت اور لوگوں کے دلوں میں عقیدہِ اسلامیہ بونے کی زیادہ سے زیادہ کوشش و جد و جہد کی جائیں یہ اسی صورت میں ہوگا جب اہلِ سنت و الجماعت بیدار ہو کر بصیرت کے ساتھ دعوتِ الی اللہ کا کام کریں گے فرمانِ باری تعالیٰ ہے: کہہ دیجیئے میرا یہی راستہ ہے، میں پوری بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں، اور وہ بھی جنہوں نے میری پیروی کی ہے، اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں۔
(سورۃ یوسف: آیت، 108)
کلمہ توحید کو ثابت کرتے اور عقیدہ توحید کو دلوں میں بوتے ہوئے دعوتِ الی اللہ کا کام کرنا ہوگا، محبت و بھائی چارہ اور اتحاد و یگانگت کا یہی شرعی اصول و قاعدہ ہے، اس کے گرد جمع ہوا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ کسی اور کلمہ پر جمع نہیں ہوا جا سکتا، یہی ابتداء ہے اور انتہاء بھی یہی کہ اس پر ایمان لا کر عملی اور قولی اعتبار سے نبوی منہج پر عمل کرتے ہوئے توحیدِ الوہیت کو اجاگر کیا جائے، اور اتباع و پیروی کر کے ضلالت و گمراہی کے بت ختم کیے جائیں، اور بدعات و خرافات سے دور رہ کر اللہ کے نازل کردہ کے مطابق فیصلے کروائیں اور جاہلیت کے امور سے اجتناب کرتے ہوئے وراثتِ نبوی کے شرعی علم کے نور سے بدعات کے اندھیروں کو اجالا بخشا جائے۔ امتِ مسلمہ کا مشغلہ تو اصل دین اور خلافتِ نبوت ہونی چاہیے، جس میں امر بالمعروف کا کام کیا جائے اور سب سے بڑھ کر توحید کی شمع روشن کریں، اور نہی عن المنکر کا کام کرتے ہوئے شرک کی گمراہیوں سے لوگوں کو بچایا جائے۔
دوم: دعوتِ الی اللہ کا کام کرنے والے بصیرت کے ساتھ اپنی کوششیں اور تیز کریں تاکہ فرمانِ باری تعالیٰ پورا ہو:
بلکہ ہم حق کو باطل پر پھینک مارتے ہیں، تو وہ اس کا دماغ کچل کر رکھ دیتا ہے، پس اچانک مٹنے والا ہو جاتا ہے، اور تمہارے لیے اس کی وجہ سے بربادی جو تم بیان کرتے ہو۔
(سورۃ الانبیاء آیت، 18)
تا کہ امتِ مسلمہ کو بدعات سے بچایا جائے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب بدعات کو امت کے سامنے منکشف کیا جائے اور اس کی تباہی بیان کی جائے، اس کے لیے امت کے ضعف اور کمزور امور کی حفاظت کر کے اسے ہر قسم کی گندگی و ضلالت و گمراہی سے نکال کر صیح اور صاف اسلامی زندگی کی طرف گامزن کیا جائے۔ اس سلسلہ میں اہم کام یہ ہیں کہ منحرف قسم کی دعوت و افکار کا مقابلہ کرتے ہوئے ان کا انحراف بیان کیا جائے اس میں رافضی شیعہ کے عقائد اور ان کا مذہب بیان کرنا ضروری ہے، کیونکہ ان کے دینی اصول و قواعد غیر اسلامی ہیں جن کی بناء پر یہ صراطِ مستقیم سے دور ہو چکے ہیں، علماء ان کے عقائد کو عدل و انصاف کے ساتھ ان کی کتابوں کے حوالہ جات سے بیان کریں، ضلالت و گمراہی پر ہوئے بھی رافضی حضرات اس کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں لوگوں کے سامنے رافضیوں کا مذہب منکشف کرنے اور ان کے خفیہ افکار و عقائد ننگے کرنے کے لیے وہ مؤقف بھی بیان کیا جائے جو طویل عرصہ سے علمائے اسلام نے ان کے بارے میں اختیار کر رکھا ہے، تا کہ رافضی مذہب کا خاتمہ کر کے انہیں کتاب و سنت اور اللہ و رسولﷺ کی طرف واپس پلٹایا جائے، اور مسلمانوں کی جماعت میں افتراق و انشقاق ختم کر کے اتفاق و اتحاد پیدا ہو، اس میں امتِ مسلمہ کے لیے انحراف سے بچاؤ اور صراطِ مستقیم پر بقاء ہے، اور یہی ان کے لیے رحمت کا باعث ہے۔
سوم: امتِ مسلمہ کو اس عقدہ کے موتیوں میں پرونے کے لیے حتی الوسع کوشش و جد و جہد کی جائے، اور وہ اصل اصیل کتاب و سنت پر عمل کرنا ہی وحدت اور اتفاق و اتحاد ہے، جس میں کسی بھی قسم کے گمراہ افکار اور واہمات نہ پائے جائیں، اور اس گروہ کے جو شبہات و شہوات اور انحراف و شندوذ کے امراض سے بھی امتِ مسلمہ کو بچایا جائے۔
اعتصام بحبل اللہ کی حقیقت بھی یہی ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا فرمان ہے:
اور تم سب کے سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور جدا جدا نہ ہو جاؤ۔
(سورۃ آل عمران: آیت، 103)
اور تعاون کی اساس و بنیاد بھی یہی چیز ہے جیسا کہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
اور تم نیکی و بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کا تعاون کیا کرو۔
(سورۃ المآئدۃ: آیت، 2)
اور تنازع و اختلاف کے وقت مرجع و فیصلہ بھی یہی ہے جیسا کہ فرمانِ ربانی ہے:
اگر تم کسی چیز میں اختلاف کر بیٹھو تو اسے اللہ اور اس کے رسول کی طرف پلٹاؤ۔
(سورۃ النساء: آیت، 59)
اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کا آپس میں اخوت و بھائی چارہ اور ان میں اتفاق و اتحاد اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ان میں اساسی و بینادی عقیدے کا رسوخ ہو اور وہ کتاب و سنت پر عمل کر کے حاصل ہو سکتا ہے، اس کی بنیادی چیز ولاء و براء یعنی دوستی و دشمنی کا عقیدہ ہے، اس لیے سنتِ نبویہ اور اہلِ سنت سے دوستی رکھنا اور بدعت اور اہلِ بدعت سے برات کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ اس بناء پر اسلام کی طرف منسوب ہر فرقہ وحدتِ اسلامیہ کی رغبت تو رکھتا ہے، لیکن وہ اپنی بدعات اور انحراف کے اصول ترک نہیں کرنا چاہتا، وہ اس پر مضبوطی سے عمل پیرا ہی نہیں بلکہ دوسروں کو اس کی دعوت بھی دیتا ہے، حالانکہ یہ بدعتاد اصولِ اسلام کے منافی ہی نہیں بلکہ ناقض اسلام بھی ہیں، لہٰذا اس حالت میں ہی فوری طور پر اتحاد و اتفاق کی دعوت قبول کر لینا تو ناقض اسلام، اور ایمان متزلزل کرنے اور ولاء و براء کے ایمانی اصول کو تباہ کرنا کہلائے گا، کیونکہ اس طرح تو برات کو ولاء میں تبدل کر کے رکھ دیا گیا ہے، یعنی جس سے دشمنی کرنا تھی اس سے دوستی شروع ہو جائے گی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ: رافضی و شیعہ حضرات سے اتحاد و اتفاق کیسے ہو سکتا ہے حالانکہ وہ سختی کے ساتھ نواقضِ اسلام اشیاء پر کار بند ہیں، اور کار بند ہی نہیں بلکہ اتحاد و اتفاق کی دعوت کے ساتھ ساتھ اس نواقض اسلام امور کی نشر و اشاعت بھی کر رہے ہیں، اہلِ سنت سے عرض ہے کہ وہ ہوشیار رہیں، رافضیوں کا اہلِ سنت کے ساتھ اتفاق و اتحاد کا نعرہ پہلے تو دینِ اسلام کے خلاف سازش ہے، اور پھر اہلِ سنت کے خلاف بھی وہ چال چل رہے ہیں۔ اللہ کے بندے ذرا بیدار ہو کر ہوش کے ناخن لو اور جاگو کتاب ختم کرنے سے قبل میں کہوں گا کہ آپ کسی رافضی کے ساتھ یہ طے کیے بغیر کسی بھی مسئلہ کے متعلق گفت و شنید میں مت پڑیں کہ تنازع و اختلاف کی صورت میں ہمارا فیصلہ کتاب و سنت کرے گا، اگر رافضی آپ کو یہ لکھ کر دیتا اور اس کا اقرار کرتا ہے، اور ایمان کے منافی اپنے ان اصولوں سے برات کا اظہار کرتا ہے جن کا بیان اوپر کی سطور میں کیا گیا ہے تو پھر آپ اس سے بحث کریں، وگرنہ نہیں، اور وہ اپنے علاقے اور گھر والوں اور خاندان خاص کر شیعہ علماء میں اس سے برات کا اعلان کرے تو ٹھیک وگرنہ وہ اتحاد و اتفاق کے نعرے کے تحت تقیہ کرتے ہوئے آپ کو رفض و شیعت کے سراب میں بھٹکا کر رکھ دے گا۔ اے اللہ میں نے لوگوں تک اس بات کو پہنچا دیا اور تجھ پر بھروسہ کیا، تیرے علاوہ کوئی بھی نیکی کرنے کی طاقت دینے اور برائی سے روکنے والا کوئی نہیں، لا حول ولاقوة الا باللہ العلی العظیم۔
(التبشير بالرفض صفحہ، 93، 100)
اب میں اپنی اس کتاب کو سیدنا حذیفہ بن الیمانؓ کی حدیث سے ختم کرنا چاہتا ہوں، فرمایا:
كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللهِﷺ عَنِ الْخَيْرِ، وَ كُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرُ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِ كَنِی۔
ترجمہ: لوگ (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین) تو رسول اللہﷺ سے خیر و بھلائی کی بابت سوال کیا کرتے تھے جبکہ میں آپﷺ سے اس اندیشے کی وجہ سے شر و برائی کی بات پوچھا کرتا تھا کہیں وہ مجھے آہی نہ لے۔ میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ بلاشبہ ہم جاہلیت میں اور شر میں تھے، تو اللہ تعالیٰ ہمارے پاس اس خیر کو لایا، تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے؟ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جی ہاں! میں نے عرض کی: کیا اس شر کے بعد بھی خیر ہوگی؟ فرمایا: جی! مگر اس میں بھاپ/ دھواں ہوگا میں نے عرض کی: اس کا بھاپ/ دھواں کیا ہوگا؟ تب رسول اللہﷺ نے فرمایا:
قَوْمٌ يَسْتَتُونَ بِغَيْرِ سُنَّتِی، وَ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْلِی، تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَ تُنْكِرُ۔
ترجمہ: ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت کو چھوڑ کر دوسرے کاموں کو اپنا معمول بنالیں گے، جو میری ہدایت کے علاوہ اور راستوں پر چلیں گے تو ان میں سے کچھ کو پہچانے گا اور (کچھ کو نہیں پہچانے گا میں نے عرض کی: کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہوگا؟ فرمایا: جی ہاں! ایسی قوم آئے گی جو ہماری ہی نسل میں سے ہوگی اور ہماری زبان ہی بولے گی میں نے عرض کی: یا رسول اللہﷺ اگر وہ شر والا دور مجھے آن پہنچے تو پھر آپ مجھے کیا فرماتے ہیں؟ فرمایا:
تَلْزَمُ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَ إِمَامَهُمْ۔
ترجمہ: تم مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹ جانا۔
میں نے عرض کی: اگر اس وقت ان کی جماعت نہ ہو اور ان کا امام بھی نہ ہو تو؟ فرمایا:
فَاعْتَزِلُ تِلْكَ الْفِرَقَ كُلَّهَا، وَ لَوْ أَنْ تَعَضَّ عَلَى أَهْلِ شَجَرَةٍ، حَتَّى يُدْرِكِكَ الْمَوْتُ وَأَنتَ على ذلك۔
ترجمہ: پھر تو ان تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جا، خواہ تجھے کسی درخت کی جڑ ہی چبانی پڑے حتیٰ کہ تجھے موت آ جائے اور تجھے اسی حال پر ہونا چاہیے۔
(صحیح البخاری: باب علامات النبوة فی الإسلام: ح، 3411 و صحیح مسلم: باب وجوب ملازمة جماعة المسلمين عند ظهور الفتن و فی كل حال، وتحريم الخروج على الطاعة ومفارقة الجماعة، حديث نمبر، 1847)
ابو العالیہؒ نے فرمایا ہے: اسلام کو سیکھو، تو جس وقت تم اسے سیکھ لو تو تب اس سے روگردانی اور بے رغبتی نہ کرو، تم صراطِ مستقیم کو لازم پکڑو، کیونکہ یہی اسلام ہے، اس رائے راست سے دائیں مڑو اور نہ ہی بائیں جھانکو اور تم اپنے نبی کی سنت کو لازمی سمجھو اور خاص طور پر خواہشات سے بچ کر رہو۔ ابو العالیہؒ کی کلام پر غور فرمائیں کہ کس قدر عظیم اور شاندار کلام ہے اور پھر اس زمانے کی بھی پہچان کر لیں جس میں وہ خواہشات پر عمل کرنے سے خبردار کر رہے ہیں کہ جو بھی ان خواہشات کے پیچھے چلا تو بلاشبہ اس نے دینِ اسلام سے رو گردانی کرنی اور اس بات پر بھی غور کر لیں کہ اس نے اسلام کی تفسیر سنتِ رسول سے بیان کی ہے اور بڑے بڑے مرتبے والے تابعین اور ان کے علماء پر کتاب و سنت کے برخلاف کرنے کے اندیشے اور خوف کا بھی اظہار کیا ہے، تو اس سے تیرے سامنے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا معنیٰ بھی واضح ہو جائے گا:
اِذۡ قَالَ لَهٗ رَبُّهٗۤ اَسۡلِمۡ الخ۔
(سورۃ البقرة: آیت، 131)
ترجمہ: جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا، فرمانبردار ہو جا۔
اور اس فرمانِ باری تعالیٰ کا بھی:
وَوَصّٰى بِهَآ اِبۡرٰهٖمُ بَنِيۡهِ وَ يَعۡقُوۡبُ يٰبَنِىَّ اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰى لَـكُمُ الدِّيۡنَ فَلَا تَمُوۡتُنَّ اِلَّا وَاَنۡـتُمۡ مُّسۡلِمُوۡنَ۞
(سورۃ البقرة: آیت، 132)
اس کی وصیت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اولاد کو کی کہ ہمارے بچو! اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے اس دین کو پسند فرمالیا ہے خبردار! تم مسلمان ہی مرنا۔ اور پھر اس فرمانِ اقدس کا بھی:
وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗ الخ۔
(سورۃ البقرة: آیت، 130)
ترجمہ: دینِ ابراہیمی سے وہی بے رغبتی کرے گا جو محض بے وقوف ہو۔
اور ایسے دیگر بہت سے بڑے بڑے اصول بھی تیرے سامنے واضح ہو جائیں گے جو دینِ اسلام کے اصل الاصول ہیں جبکہ لوگ ان سے غافل ہیں ان اصولوں کی معرفت کے ساتھ ہی اس باب میں وارد آیاتِ مبارکہ اور دیگر احادیث مبارکہ کا معنیٰ بھی بڑی اچھی طرح واضح ہو جائے گا۔ اور وہ آدمی جو ان امور کی بناء پر ان کے جھانسے میں آنے سے پر امن ہو وہ اس فرقے اور اس جیسے دیگر فرقوں کے حالات کو پڑھتا ہے تو بلاشبہ یہ فرقے اسے اپنی گرفت میں نہیں لے سکتے وہ انہیں ان لوگوں میں خیال کرے گا جو ہلاک ہو چکے ہیں جن کی بابت یہ فرمانِ الہٰی ہے:
اَفَاَمِنُوۡا مَكۡرَ اللّٰهِ فَلَا يَاۡمَنُ مَكۡرَ اللّٰهِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ۞
(سورۃ الأعراف: آیت، 99)
ترجمہ: کیا پس وہ اللہ تعالیٰ کی اس پکڑے بے فکر ہو گئے، سو اللہ کی پکڑ سے بجز ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو اور کوئی بے فکر نہیں ہوتا۔
یا اللہ! یقیناً میں نے اسے بڑی وضاحت سے بیان کیا ہے اور میں نے اس کتاب میں ہر اس مسلمان کی خیر خواہی کر دی ہے جو اپنے نفس کی حتی المقدور قدر کرتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے رب ہونے پر، اسلام کے دین ہونے پر اور محمد کریمﷺ کے نبی اور رسول ہونے پر ایمان رکھتا ہے اور پھر وہ حق کے سامنے جھک جاتا ہے، اے اللہ! تو بھی گواہ ہو جا۔
(كتاب فضل الإسلام: صفحہ، 28، 29 لشيخ الإسلام محمد بن عبد الوهابؒ)
میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے سوال کرتا ہوں کہ وہ بھٹکے ہوئے مسلمانوں کو ہدایت نصیب فرمائے، ہم سے اور ان سے پریشانی، بیماری دور فرمائے، ہم سے اور ان سے مکر بازوں کے مکر کو پھیر دے مزید وہ ہم سے فتنوں اور فواحش کو، خواہ وہ ظاہر ہیں یا باطن دور کر دے، اور وہ ہمیں سب کو اسلام پر ثابت رکھے حتیٰ کہ ہم اس سے جا ملیں، اور یہ کہ وہ مجھے قول و عمل میں اخلاص اور راہِ راست نصیب فرمائے اور یہ کہ وہ میری نیت کو اور میری اولاد کو درست رکھے اور یہ کہ میرا خاتمہ بہترین فرمائے، مجھے ہر شریر کے شر کافی ہو جائے، اور یہ کہ وہ مجھے، میرے والدین، میرے مشائخ واساتذہ اور میرے اہلِ خانہ کو معاف فرمائے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والوں کو بھی اور تمام مسلمانوں کو بھی خواہ وہ زندہ ہیں یا فوت شدہ ہیں، معاف فرمائے، بلاشبہ اللہ تعالیٰ بہت زیادہ سننے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے اور اللہ تعالیٰ اس بندے پر بھی فرمائے جو کہے۔ آمین! اے پروردگار! تیرے لیے ایسی حمدیں اور تعریفیں ہیں جیسی تیرے چہرے کے جلال کے اور تیری عظیم سلطنت کے لائق ہیں۔
وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَ صَلَّى اللهُ وَسَلَّمَ عَلَى عَبْدِهِ وَ رَسُولِهِ مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِهِ وَ صَحْبِهِ أَجْمَعِينَ۔