Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

متعہ

  ابو عبداللہ

متعہ

صرف حضرات اہلِ سُنّت ہی نہیں بلکہ دنیا کی تمام متمدن و غیر متمدن اقوام آج بھی موجودہ آورگیوں اور عیاشیوں کے باوجود زنا کو ایک معیوب فعل سمجھتی ہیں حتیٰ کہ زمانہ قبلِ از اسلام بھی اس فعل کو معیوب سمجھا جاتا تھا مگر قبلِ از اسلام بھی ایران واحد ملک تھا جہاں کہ زرتشی اور مانوی اس فعلِ قبیح میں کوئی برائی نہ سمجھتے تھے اور مانوی تو محرمات کو بھی حلال سمجھتے تھے مگر اسلام نے جب مجوسی بادشاہت کی دھجیاں اڑا دیں تو ان مجوسیوں نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر جہاں تخریب اسلام کی بنیاد رکھی وہاں اس بدکاری کو بھی اسلام کا لبادہ اوڑھا کر اسکا اسلامی نام متعہ تجویز کیا ۔اسکا بنیادی مقصد ایرانی مجوسی ثقافت کا فروغ تھا اور اب تو یہ بات عیاں ہو چکی ہےکہ جگہ جگہ کھلے ہوۓ عاملوں کے اڈے جہاں جادو کی کاٹ ٹونے ٹوٹکے اور تعویز گنڈوں کے ذریعے شیعت کا پرچار کیا جاتا ہے اس سے زیادہ ان بے حیائی کے اڈوں نے شیعت کی تبلیغ میں اہم کردار کیا ہے جہاں متعہ کے نام سے اس قبیح فعل کو مذہبی تقدس دیا گیا ہے اور اس کے لئے انہوں نے دیگر عقائد کی طرح اس عقیدے سے متعلق تمام تر من گھڑت روایات آئمہ عظام کی طرف منسوب کر دی ہیں ۔

محمد بن حسن طوسی الاستبصار میں اور کلینی فروعِ کافی میں رقمطراز ہے:

عن ابی عبدالله قال المتعة نزل به القرآن وجرت به السنة من رسول الله صلى الله عليه وسلم  

امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ متعہ کے جواز میں قرآن نازل ہوا اور اس پر حضورﷺ کے سنت طریقہ پر عمل ہوتا ہے۔

(الاستبصار جز ثالث صفحہ 77،فروعِ کافی جلد2 صفحہ 120)

جس عمل کی فضیلت اکابرین شیعہ نے اس حد تک بتائی ہے حضراتِ قارئین ہو سکتا ہے کہ ہم نے اپنے گذشتہ بیان میں متعہ کے متعلق کوئی اشکال چھوڑ دیا ہو تو حضرات شیعہ کے ہی اکابرین سے اس سلسلہ میں وضاحت پیش کیے دیتا ہوں شیخ صدوق یوں وضاحت کرتے ہیں:

عن أبي جعفر في المتعة قال ليست من الاربع لانها لا تعلق ولا ترث وان هی مستاجره

 امام باقر فرماتے ہیں کہ متعہ کیے جانے والی عورت کا چار منکوحہ عورتوں میں شمار نہیں ہے، کیونکہ نہ اسے طلاق دی جاتی ہےاور نہ ہی یہ وراثت میں حصہ دار بنتی ہے بلکہ یہ تو اُجرت پر کام دینے والی عورت ہے۔

(من لا یحضره الفقیهه صحفہ 149)

اور کلینی یوں رقمطراز ہیں کہ :

عن زرارة ابن اعين عمال قلت كم تحل من المتعة قال كم شت هن بمنزلة الاماء

زرارہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ کتنی عورتوں سے متعہ حلال ہے فرمایا جتنی عورتوں سے چاہے یہ توبمنزلہ لونڈیوں کے ہیں۔

(فروعِ کافی جلد 2 صفحہ 191)

یہی کلینی مزید رقمطراز ہیں :

عن ابی عبدالله قال لا يكون المتعة الا بامرين اجل مسمى واجر مسمیٰ

امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ متعہ کیلئے دو

باتیں ضروری ہیں ایک وقت کا تعین اور دوسرا اُجرت متعہ کا تعین۔

(فروعِ کافی جلد 2 صفحہ 193)

ابو جعفر حسن طوسی رقمطراز ہیں :

وليس فى المتعة اشهادو لا اعلان أو قد قدمنا

ذالک فی ما معنی 

متعہ کے لئے گواہوں اور اعلان کی کوئی ضرورت نہیں۔ (تہذیب الاحکام جلد 1صفحہ 189)

یہی ابو جعفر حسن طوسی اسی کتاب میں مزید رقمطراز ہیں :

عن زراره عن ابيه عن ابی عبدالله عليه السلام

ذكر له المتعة اهى من الاربع قال تزوج منهن الفا فانهن

مستاجرات

زرارہ کہتا ہے کہ امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ کیا متعہ کی تعداد چار میں شامل ہے فرمایا کہ چاہے ایک ہزار سے متعہ کر یہ تو اُجرت کا معاملہ ہے۔ 

( تہذیب الاحکام جلد7 صفحہ259 )

 یہی ابو جعفر طوسی اُجرت کا معاملہ طے کرتے ہوئے ابوسعید احول سے روایت کرتا ہے: 

قال قلت لا بی عبدالله عليه السلام ادنى ما يتزوج به المتعة قال كف من بر

میں نے امام جعفر صادق سے پوچھا کہ متعہ کرنے والا کم از کم کتنی اُجرت ادا کرئے، فرمایا ایک مٹھی بھر گندم ۔

(تہذیب الاحکام جلد7 صفحہ263)

حضراتِ شیعہ کے کبار علماء کا یہ حال ہے تو خمینی تو کہاں چُپ بیٹھنے والے تھے فرماتے ہیں:

يجوز التمتع بالزانية على كراهته

زانیہ عورت سے متعہ کرنا جائز ہے مگر کراہیت کے ساتھ

( تحریر الوسیله جلد 2صفحہ 292)

اور باقری مجلسی نے تو اس موضوع پر پوری کتاب رسالہ متعہ کے نام سے لکھ دی جس کا اردو ترجمہ مشہور شیعہ عالم سید محمد جعفر قدسی جائسی نے عجالئہ حسنہ کے نام سے کیا ہے اس کتاب میں مجلسی رقمطراز ہیں : حضور ﷺ نے فرمایا :

جس نےزن مومنہ سے متعہ کیا اس نے 70 مرتبہ خانہ کعبہ کی زیارت کی۔

(عجالئہ حسنه صفحہ16)

صرف یہی نہیں بلکہ خلاف فطرت عمل بھی ان حضرات کے نزدیک جائز ہے

اس سلسلے میں ابوجعفر حسن طوسی رقمطراز ہے:

سالت ابا الحسن الرضا عليه السلام عن ايتان

الرجل المرأة من خلفها فقال احلتها آيه من كتاب الله عز و جل

امام موسیٰ رضا سے عورت کے پیچھے کی جانب سے کرنے(وطی فی الدبر ) کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا یہ کتاب اللہ کی ایک آیت سے حلال ہے۔

( تہذیب الاحکام جلد 7صفحہ415)

اس بات سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ لواطت ان حضرات کے ہاں قطعاً کوئی معیوب فعل نہیں ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اغلام بازی بھی ان حضرات کا محبوب مشغلہ ہے اور اس سے انکے صرف خانگی امور پر اثر پڑتا ہے ورنہ یہ ان کے نزد یک قطعاً معیوب نہیں ہے اس سلسلے میں ابو جعفر حسن طوسی لکھتا ہے: 

ومن فجر بغلام فاوقبه لم تحل له اخته ولا امه ولا ابنته ابداً

جس شخص نے کسی لڑکے سے لواطت کی اس شخص کےلئے لڑکے کی بہن،ماں اور بیٹی ہمیشہ کے لئے حرام ہیں۔

(تہذیب الاحکام جلد7 صفحہ309)

اس روایت سے جہاں ہمارے بالائی بیان کی تصدیق ہوتی ہے وہاں حضراتِ قارئین پر یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ اغلام بازی ان حضرات کے لئے یوں بھی معیوب نہیں ہے کہ یہ ایرانی مجوسی ثقافت کی منہاج ہے۔ کیونکہ روساء مجوسی کے ہاں لونڈے رکھنا ایک قابلِ فخر ثقافتی قدر سمجھی جاتی تھی یہی وجہ ہے کہ تیسری صدی ہجری کا مشہور شیعہ عالم ابومحمود الحسن بن نوبختی کہ جس کی تعریف نور اللہ شوستری مجالس المؤمنین کے صفحہ نمبر 426 پر کرتا ہے یہی نوبختی لکھتا ہے کہ :

وقالوا بابا حة المحارم من الفروج والغلمان

واعتلو في ذالك بقول الله تعالىٰ

اور ہم (شیعہ) کہتے ہیں کہ محرمات حلال ہیں اور

پیشاب گاہیں اور لونڈے اللہ کے ارشاد کے مطابق

(فرق الشیعہ صفحہ92)

 یہی نوبختی مزید صراحت سے اپنی اس بات کی وضاحت ایک جگہ مزید اسطرح کرتا ہے:

ويقول بالا باحة للمحارم ويحلل نكاح الرجال بعضهم بعضافي ادبارهم ويزعم أن ذالك من التواضع والنذلل وأنه احدى الشهوات والطبيات وأن الله عز وجل لم يحرم شياً من ذلك 

فرماتے ہیں (امام جعفر صادق ) محرمات حلال ہیں اوران کے ساتھ نکاح بھی جائز ہے اور ان کا بھی (مردوں کا باہم) نکاح جائز ہے اور یہ ایک دوسرے کی شرم گاہیں استعمال کر سکتے ہیں کیونکہ اس فعل میں تو اضع اور انکساری پائی جاتی ہے اور یہ فعل خواہشات اورفطرت میں سے ہے بے شک اللہ نے ان باتوں میں سے کوئی بھی حرام قرار نہیں دی۔

(فرق الشیعه صفحہ93)

 غرض یہ کہ اس بارے میں مزید کچھ لکھنے سے بہتر ہے کہ میں آپ حضرات کو آگاہ کر دوں کہ یہ ان حضرات روافض کا وہ عقیدہ ہے جس کے ذریعے یہ لوگ مجوسی ثقافت کا تحفظ یقینی بنا کر اسلامی معاشرے کو کھوکھلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس لئے میں حضرات اہلِ سُنّت کو یہ تنبیہ کرنا میں اپنی ذمہ داری سمجھتا ہوں کہ جس حد تک ہو سکے اپنے آپ کو ان کوفی اشرار کے اس پھندے سے بچا کر رکھیں۔ روافض کے نزدیک اس کی کتنی اہمیت ہے اس بات کا اندازہ فتح اللہ کاشانی کی اس روایت سے ہوگا جس کو انہوں نے امام جعفر صادق کی معرفتِ رسول اللہﷺ کیطرف منسوب کی ہے:

من تمتع مرة فدرجة كدرجة الحسين ومن تمتع مرتين فدرجة كدرجة الحسن ومن تمتع ثلث مرات فدرجة كدرجة على ومن تمتع اربع مرات فدرجة كدرجتى

جو ایک دفعہ متعہ کرے گا وہ حسین کا درجہ پائے گا جو دودفعہ متعہ کرے گا وہ حسن کا درجہ پائے گا جو تین فعہ متعہ کرے گا وہ علی کا درجہ پائے گا اور جو چار دفعہ متعہ کرے گا وہ میرا( یعنی حضورﷺ) کا درجہ پائے گا

(تفسیر منہج الصادقین صفحہ356)