Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

خاندان

  علی محمد الصلابی

خاندان

آپ کے والد خطاب بن نفیل ہیں۔ آپ کے دادا نفیل بن عبدالعزیٰ ان لوگوں میں سے تھے جن کے پاس قریش کے لوگ فیصلہ لے کر آتے تھے۔ آپ کی والدہ کا نام حنتمہ بنت ہاشم بن مغیرہ ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ابوجہل کی بہن تھیں۔ لیکن اکثر مؤرخین کے نزدیک وہ ہاشم یعنی ابوجہل بن ہشام کے چچا کی لڑکی ہیں۔

آپ کی بیویوں، لڑکوں اور لڑکیوں کی تفصیل یہ ہے کہ آپ نے زمانۂ جاہلیت میں زینب بنت مظعون یعنی عثمان بن مظعونؓ کی بہن سے شادی کی، اس سے عبد اللہ، عبد الرحمٰن کلاں اور حفصہ کی ولادت ہوئی۔

اور ملیکہ بنت جرول سے شادی کی، اس سے صرف ایک لڑکا عبید اللہ پیدا ہوا۔ آپ نے اس کو جنگ بندی کے دوران طلاق دے دی اور اس سے ابوجہم بن حذیفہ نے شادی کر لی۔

اور قریبہ بنت ابی امیہ مخزومی سے شادی کی، اسے بھی طلاق دے دی، پھر اس سے عبد الرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما نے شادی کر لی۔

اور اُمّ حکیم بنت حارث بن ہشام سے اس وقت شادی کی جب کہ ان کے شوہر عکرمہ بن ابی جہلؓ کو شام میں شہید کر دیا گیا۔ اس سے فاطمہ کی پیدائش ہوئی۔ پھر آپ نے اسے بھی طلاق دے دی اور ایک قول بھی ہے کہ آپ نے طلاق نہیں دی۔

نیز آپ نے جمیلہ بنت عاصم بن ثابت بن ابی الافلح سے شادی کی جس کا تعلق قبیلہ اوس سے تھا۔

اور آپ نے عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل سے شادی کی، آپ سے پہلے وہ عبد اللہ بن ابوبکرؓ کی زوجیت میں تھیں۔ جب سیّدنا عمرؓ شہید کر دیے گئے تو ان سے زبیر بن عوامؓ نے شادی کی۔ کہا جاتا ہے کہ وہ آپ کے لڑکے عیاض کی ماں ہیں۔ واللہ اعلم

آپ نے اُمّ کلثوم بنت ابی بکرؓ کو شادی کا پیغام جب کہ وہ چھوٹی تھیں۔ سیدہ عائشہؓ کے ذریعہ سے بھیجا۔ اُمّ کلثومؓ نے کہا: میں ان سے شادی نہیں کروں گی۔ سیدہ عائشہؓ نے کہا: تم امیر المؤمنین سے شادی کرنے سے گریز کرتی ہو؟ انہوں نے کہا: ہاں! سخت مزاج ہیں اور پھر سیدہ عائشہؓ نے عمرو بن عاصؓ کو اس سلسلہ میں خبر دی تو انہوں نے عمر بن خطابؓ کو ان کے ارادے سے روک دیا اور اُمّ کلثوم بنت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کی طرف راہنمائی کی جو سیدہ فاطمہؓ بنت رسول اللہﷺ کی لڑکی تھیں اور آپ نے فرمایا: آپ ان سے رسول اللہﷺ سے تعلق ہونے کی وجہ سے شادی کر لو، چنانچہ سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ کو پیغام دیا، سیدنا علیؓ نے سیدہ اُمّ کلثومؓ سے آپ کی شادی کر دی اور سیدنا عمرؓ نے سیدہ اُمّ کلثومؓ کو 40 ہزار مہر ادا کیا، ان سے زید اور رقیہ کی ولادت ہوئی۔

(نسب قریش: زبیری: صفحہ، 347)

اسی طرح آپ نے لُھْیَہ نامی ایک یمنی عورت سے شادی کی، اس سے عبد الرحمٰن اصغر کی ولادت ہوئی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ منجھلے عبد الرحمٰن تھے۔ واقدی کا بیان ہے کہ یہ آپ کی بیوی نہ تھیں بلکہ اُمّ ولد تھیں۔(اولیات الفاروق السیاسۃ: صفحہ، 22)

مؤرخین کا کہنا ہے کہ آپ کی ماتحتی میں فکیہہ نامی اُمّ ولد تھی اور اس سے زینب کی ولادت ہوئی تھی۔ واقدی کے مطابق آپ کی اولاد میں یہ سب سے چھوٹی بچی تھی۔

(اولیات الفاروق السیاسۃ: صفحہ، 22)

اس طرح مجموعی طور پر آپ کے کل تیرہ اولادیں ہوئیں:’’زید اکبر، زید اصغر، عاصم، عبداللہ، عبدالرحمٰن اکبر، عبدالرحمٰن اوسط، عبدالرحمن اصغر، عبیداللہ، عیاض، حفصہ، رقیہ، زینب اور فاطمہ رضی اللہ عنہم ۔‘‘

آپ کی بیویاں جن سے آپ نے زمانۂ جاہلیت یا اسلام میں شادی کی، پھر ان کو طلاق دے دی جو آپ کی عصمت میں وفات تک رہیں ان کی مجموعی تعداد سات ہے۔

(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 144)

آپ کثرت اولاد اور امتِ محمدیہ میں اضافہ کی نیت سے شادیاں کرتے تھے۔

آپؓ کا قول ہے:

ما آتی النساء للشہوۃ ولولا الولد ما بالیت ألا أری امرأۃ بعیني۔

(البدایۃ والنہایۃ: جلد، 7 صفحہ، 144)

ترجمہ: میں صرف شہوت بجھانے کی نیت سے عورتوں کے پاس نہیں آتا، اگر اولاد کا معاملہ نہ ہوتا تو مجھے اس بات کی قطعاً کوئی پروا نہ ہوتی کہ اپنی آنکھوں سے کسی عورت کو دیکھوں۔‘‘

ایک مرتبہ آپؓ نے فرمایا:

انی لأکرہ نفسی علی الجماع رجاء أن یخرج اللّٰه منی نسمۃ تسبحہ وتذکرہ۔ 

(ترتیب و تہذیب البدایۃ والنہایۃ: خلافۃ عمر: السلمی: صفحہ،7)

ترجمہ: میں خود کو جماع کرنے پر اس لیے مجبور کرتا ہوں کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ میرے نطفہ سے ایسی اولاد عطا کر دے جو اس کی تسبیح کرے اور اس کو یاد کرے۔‘‘